سائنسدانوں اور پالیساں بنانے والوں نے کئی سالوں تک اس بات کی نشاندھی کی کہ دوران حمل ماں کی صحت اور خوارک بچے کی صحت کےلئے ضروری ہے۔ پچھلے کچھ عرصے میں یہ بات کھل کر سامنے آئی ہے کہ اگر ماں دوارن حمل خوارک کی کمی کا شکار ہوتی ہے تو بچے کے غیر صحت مند ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں نا صرف پیدائش کے فوراً بعد بلکہ کئی دہائیوں تک یہ اثرات نظر آتے ہیں۔ حال ہی میں ہمیں اس بات کا احساس ہونا شروع ہوا ہے کی ایسا کسی حد تک مالیکیولر ایپی جینیٹک اثرات کی وجہ سے ہے۔ جوکہ ڈیویلپمینٹل پروگرامنگ میں خرابی، جینز کے اظہار اور خلیاتی فنکشنز پر عمر بھر کیلئے اثرات کا باعث بنتے ہیں۔
جیساکہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ اخلاقی اور دیگر انتظامی وجوہات کی بنا پر انسانوں پر تجربات ممکن نہیں۔ تاریخی سانحے بعض اوقات حادثاتی طور ہمیں انسانی سٹڈی گروپ فراہم کرتے ہیں۔ ان میں سے مشہور مثال ہالینڈ کی قحط زدہ سردیوں کی ہے جسکا ذکر ہم شروعات میں کرچکے ہیں۔
یہ دوسری جنگ عظیم کی آخری سردیوں کے دوران خوفناک مشکلات اور بھوک کا دور تھا جب نازی جرمنی کی طرف سے ہالینڈ کے شہریوں پر خوراک اور ایندھن بند کردیا گیا تھا۔ بائیس ہزار لوگ جان بحق ہوئے اور لوگ انسانی خون تک پینے پر مجبور ہوگئے۔ ڈچ آبادی کی صورت میں ہمارے پاس ایک بہترین سائنٹفک سٹڈی گروپ موجود تھا۔ اس قحط سے زندہ بچ جانے والے لوگ کافی تعداد میں تھے اور انکی خاص بات یہ تھی کہ یہ ایک خاص وقت تک ایکساتھ خوارک کی کمی کا شکار رہے تھے۔
سب سے پہلا پہلو جسکا جائزہ لیا گیا وہ قحط کا ان بچوں کے وزن پر اثر تھا جو دوران قحط ماں کے پیٹ میں تھے۔ اگر حمل کے ابتدائی دنوں میں ماں کو متوازن خوراک میسر تھی اور صرف آخری دنوں میں خوراک کی کمی کا سامنا رہا تو اس صورت میں پیدا ہونے والے بچے نارمل بچوں سے چھوٹے ہوتے۔ اسکے برعکس اگر ابتدائی دنوں میں ہی ماں خوراک کی کمی کا شکار تھی اور بعد میں اسکو خوراک میسر ہوتی تو پیدا ہونے والے بچے صحت مند ہوتے تھے۔ بچوں کا وزن بہترہو جاتا تھا کیونکہ ماں کے پیٹ میں زیادہ تر بڑھوتری حمل کے آخری مہینوں میں ہوتی ہے۔
ان بچوں کو کئی دہائیوں تک سٹڈی کیا گیا اور نتائج کافی حیران کن تھے۔ وہ لوگ جو چھوٹے پیدا ہوئے تھے ساری زندگی چھوٹے رہے اور انکے اندر موٹاپے کی شرح عام آبادی کے مقابلے کم تھی۔ اور دوسری طرف غیر متوقع طور وہ لوگ جنکی مائیں ابتدائی حمل کے دوران خوراک کی کمی کا شکار رہیں تھیں ان میں موٹاپے کی شرح زیادہ تھی۔ نئی تحقیقات کے مطابق دوسرے صحت کے مسائل بھی سامنے آئیے ہیں جیسے ذہنی امراض۔ اگر مائیں حمل کے ابتدائی دنوں میں خوراک کی کمی کا شکار رہیں تو انکے بچوں میں شیزوفرینیا کے امکانات عام بچوں کی نسبت زیادہ ہوتے ہیں۔ ایسا صرف ڈچ آبادی کے اندر نہیں دیکھا گیا بلکہ اس قسم کے اثرات ماؤزے تنگ کی پالیسوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے 1958- 1961 کے چائنہ کے قحط کے دوران بھی دیکھے گئے جس میں لاکھوں افراد لقمہ اجل بن گئے تھے۔
گوکہ پیدائش کے وقت یہ افراد بالکل نارمل نظر آتے تھے لیکن ماں کے پیٹ میں ڈیولپمنٹ کے دوران کچھ ایسا ہوتا تھا جو دہائیوں تک انکو اثرانداز کرتا تھا۔ اور یہ دورانیہ اہمیت کا حامل تھا۔ ماں کے پیٹ میں ابتدائی تین مہینے کے اندر ہونے والے واقعات جب بچہ بہت چھوٹا ہوتا ہے انسان کو پوری زندگی کیلئے متاثر کرسکتے ہیں۔
یہ ڈیولپمنٹل پروگرامنگ کے ماڈل اور اسکی ایپی جینیٹک بنیادوں سے مطابقت رکھتا ہے۔ حمل کے اوائل میں جب نئے قسم کے خلیے بن رہے ہوتے ہیں، ایپی جینیٹک پروٹینز جینز کے اظہار کے پیٹرن کو مستحکم کرنے کیلئے اہم ہوسکتی ہیں۔ لیکن یاد رہے کہ ہمارے خلیات کے اندر ہزاروں جینز موجود ہوتے ہیں، اربوں بیس کے جوڑوں پر مشتمل اور ہمارے پاس سینکڑوں ایپی جینیٹک پروٹینز موجود ہوتی ہیں۔ نارمل ڈیولپمنٹ کے دوران ان میں سے کچھ پروٹینز کے اظہار میں اور کروموسوم کے مختلف حصوں پر اثرات میں تغیرات ہوتے ہیں۔ کہیں ڈی این اے میتھائی لیشن زیادہ ہوتی ہے تو کہیں کم۔
ایپی جینیٹک مشینری مخصوص ترامیم کے پیٹرن کو لاگو کرتی ہے اور برقرار رکھتی ہے۔ اسطرح سے جین کے اظہار کے لیولز بنائے جاتے ہیں۔ نتیجتاً ڈی این اے اور ہسٹون ترامیم میں یہ اتار چڑھاؤ سیٹ ہوجاتا ہے اور نئے خلیات میں منتقل ہوجاتا ہے یا پھر زیادہ عرصہ زندہ رہنے والے خلیات جیسے نیورونز میں دہائیوں تک قائم رہتا ہے۔ کیونکہ ایپی جینیوم اٹک جاتا ہے تو ممکن ہے کروموسوم کے کئی حصوں میں جین کے اظہار کا پیٹرن بھی فکس ہوجاتا ہے۔ مختصر دورانیے کیلئے اسکے اثرات شاید محدود ہوں۔ لیکن لمبے عرصے تک جین کے اظہار کے اندر یہ ہلکا غیر معمولی پن جوکہ نامناسب کرومیٹن ترامیم کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے فنکشنل خرابی کا باعث بن جاتا ہے۔ طبی طور پر اسکی نشاندھی کرنا ممکن نہیں ہوتا جب تک کہ ایک خاص سطح کو نہیں پہنچ جاتا اور مریض میں علامات ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔
ڈیولپمنٹل پروگرامنگ میں ہونے والے ایپی جینیٹک تغیرات زیادہ تر ایک رینڈم عمل ہے جسکو اتفاقی یا احتمالی عمل بھی کہا جاتا ہے۔ یہ احتمالی عمل مونو زائیگوٹک ٹونز کے درمیان تغیرات کی بنیادی وجہ ہوسکتا ہے۔ ابتدائی ڈیولپمنٹ کے دوران ایپی جینیٹک ترامیم میں بے ترتیب اتار چڑھاؤ جین کے اظہار کے الگ الگ پیٹرن کا باعث بنتی ہیں۔ یہ ایپی جینیٹیکلی سیٹ ہوجاتے ہیں اور وقت کیساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ مونو زائیگوٹک ٹونز ظاہری طور پر مختلف ہوجاتے ہیں۔ بعض اوقات ایسا ڈرامائی انداز میں ہوتا ہے۔ یہ رینڈم پروسیس جو ابتدائی ڈیولپمنٹ کے دوران ایپی جینیٹک جینز کے اظہار میں انفرادی طور پر محدود اتار چڑھاؤ کی وجہ سے ہوتا ہے ہمیں اس بات کو سمجھنے کیلئے بہترین ماڈل فراہم کرتا ہے کہ کیسے جینیاتی طور بالکل ایک جیسے Avy/a چوہوں کے اندر الگ الگ جلد کا رنگ سامنے آسکتا ہے۔ ایسا Avy ریٹروٹرانسپوسون کے اوپر ڈی این اے میتھائی لیشن کے اندر بے ترتیب تغیرات کی وجہ سے ہوسکتا ہے۔
ایپی جینوم کے اندر یہ اتفاقی تبدیلیاں ایک جیسے ماحول میں رکھے گئے انبریڈ چوہوں کے وزن میں تغیرات کی ممکنہ وجہ ہیں۔ لیکن اگر ان اتفاقی تبدیلوں کیساتھ ساتھ کوئی اضافی ماحولیاتی محرک بھی شامل ہوجائے تو تغیر اور نمایاں ہو جاتا ہے۔
ابتدائی ڈیولپمنٹ کے دوران میٹابولزم کے اندر ایک بنیادی بگاڑ جیساکہ ڈچ ہنگر ونٹر کے اندر خوراک کی کمی، بچے کے خلیات میں ایپی جینیٹکس عوامل کو بدل دیگا۔ خلیہ میٹابولکیلی تبدیلیاں کریگا تاکہ خوراک کی فراہمی میں کمی کے باوجود بچے کی جس حد تک ممکن ہوسکے صحت مند طریقے سے بڑھوتری کروائی جائے۔ خلیہ جینز کے اظہار میں تبدیلیاں کریگا تاکہ خوراک کی عدم فراہمی کیساتھ مطابقت پیدا کی جاسکے۔ اور جینز پر موجود ایپی جینیٹک ترامیم کی وجہ سے یہ پیٹرن مستقبل کیلئے سیٹ ہوجائیگا۔ اس بات میں غالباً کوئی حیرت نہیں ہونی چاہیئے کہ کہ وہ بچے جو مستقبل میں موٹاپے کا زیادہ شکار تھے وہی تھے جنکی مائیں حمل کے ابتدائی دنوں میں غذائی قلت کا شکار ہوئی تھیں۔ یہ وقت ڈیولپمنٹل پروگرامنگ کیلئے انتہائی اہم ہوتا ہے ۔ انکے خلیات اس لحاظ سے پروگرام ہوگئے تھے کہ محدود خوراک کی صورت میں زیادہ سے زیادہ غذائیت حاصل کی جائے۔ اور یہ پیٹرن ہمیشہ کیلئے قائم رہا حالانکہ قحط ختم ہوچکا تھا۔
ڈچ ہنگر ونٹر کے بچ جانے والوں پر حلیہ تحقیقات کے مطابق ان لوگوں کے ان جینز کے اندر واضح تبدیلیاں دیکھی گئی ہیں جو کہ میٹابولزم کے ساتھ منسلک تھیں۔ اس قسم کے باہمی تعلق سے علت و معلول کو ثابت نہیں کیا جاسکتا لیکن ابتدائی ڈیولپمنٹ میں غذائی قلت کے ایپی جینیٹکس میں تبدیلیوں کے شواہد تحقیقات میں کثرت سے سامنے آئے ہیں۔
یہ بات غور کے قابل ہے کہ ڈچ ہنگر ونٹر میں بھی نتائج آل آر نتھنگ نہیں تھے۔ یعنی وہ تمام افراد جنکی مائیں ابتدائی حمل کے دوران غذائی قلت کا شکار رہی تھیں موٹاپے کا شکار نہیں ہوئے تھے۔ سائنسدانوں نے ان آبادیوں کا مطالعہ کیا تو ان میں موٹاپے کے امکانات زیادہ تھے۔ یہ اس ماڈل کیساتھ مطابقت رکھتا ہے جس میں افراد کی جینوٹائپس، ابتدائی ماحولیاتی واقعات، جینز کا ماحولیاتی عوامل کا ریسپانس ایک ساتھ ملکر ایک پیچیدہ مساوات بناتا ہے جسکو اتنی آسانی سے حل کرنا ممکن نہیں۔
شدید غذائی قلت واحد فیکٹر نہیں جوکہ بچے کی صحت پر طویل اثرات مرتب کرتا ہے۔ دوران حمل کثرت شراب نوشی پیدائشی خرابیوں اور ذہنی معذوری کا باعث بنتا ہے۔ یہ مغربی ممالک میں زیادہ ہے اسکو فیٹل الکوحل سینڈروم کہا جاتا ہے۔ ایما وائٹلا نے اس بات کو دیکھنے کیلئے تجربات کئیے کہ کیا Agaouti چوہوں کے اندر شراب ایپی جینیٹک ترامیم میں بگاڑ پیدا کرتی ہے یا نہیں۔ ہم دیکھ چکے ہیں کہ Avy/a جین کا اظہار ریٹروٹرانسپوسون پر ڈی این اے میتھائی لیشن سے کنٹرول کیا جاتا ہے۔ جو محرک بھی ریٹروٹرانسپوسون کی ڈی این اے میتھائی لیشن کو تبدیل کردیگا وہ جین کے اظہار کو بھی تبدیل کریگا۔ یہ بالوں کی رنگت کو متاثر کریگا۔ لہذاٰ اس کیس میں بالوں کی رنگت ایپی جینیٹک ترامیم میں تبدیلی کو ظاہر کریگی۔
حاملہ چوہوں کو شراب تک آزادانہ رسائی دی گئی۔ شراب پینے والی ماؤں اور نہ پینے والی ماؤں کے بچوں کی رنگت کا موازنہ کیا گیا۔ دونوں گروپس میں واضع فرق موجود تھا۔ اور ڈی این میتھائی لیشن میں بھی فرق تھا جسکی پیش گوئی کی گئی تھی۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ شراب نے چوہوں کے اندر ایپی جینیٹک ترامیم میں تبدیلی کی ہے۔ ایپی جینیٹک ترامیم میں بگاڑ ہی کسی حد تک فیٹل الکوحل سینڈروم کے حامل بچوں میں علامات کا ذمہ دار تھا۔
بیسفینول اے Bisphenol A ایک ایسا مرکب ہے جو پولی کاربونیٹ پلاسٹک بنانے میں استعمال ہوتا ہے۔ بیسفینول اے اگر Agouti چوہوں کو دیا جائے تو انکی رنگت تبدیل ہوتی ہے۔ اسکا مطلب یہ بھی ایپی جینیٹک میکانزم کے ذریعے ڈیولپمنٹل پروگرامنگ کو تبدیل کرتا ہے۔ 2011 میں یورپی یونین نے بچوں کی بوتلوں میں بیسفینول اے کے استعمال پر پابندی عائد کردی۔
ابتدائی پروگرامنگ ایک وجہ ہوسکتی ہے جسکی وجہ سے شدید انسانی بیماریوں کے پیچھے موجود ماحولیاتی عوامل کی نشاندھی مشکل ہوتی ہے۔ اگر ہم دو مونو زائیگوٹک ٹونز کو سٹڈی کریں جو ایک مخصوص خصوصیت مثلاً Multiple sclerosis کیلئے ڈسکورڈینٹ ہوں تو کوئی ماحولیاتی سبب یا وجہ تلاش کرنا تقریباً ناممکن ہوگا۔ سادہ الفاظ میں یہ کہا جائیگا کہ ان میں سے ایک اس حوالے سے بدقسمت رہا کہ اس کے اندر ایپی جینیٹک اتار چڑھاؤ کی وجہ سے کچھ جینز کے اظہار کا بنیادی پیٹرن فکس ہوگیا ۔ سائنسدان کچھ بیماریوں کے حوالے سے کونکورڈینٹ اور ڈسکورڈینٹ مونو زائیگوٹک ٹونز کے اندر ایپی جینیٹک تبدیلیوں کو ناپ رہے ہیں تاکہ اس ڈی این اے یا ہسٹون ترمیم کو ڈھونڈا جاسکے جسکا تعلق بیماری سے ہے۔
قحط کے دوران پیدا ہونے والے بچوں اور ہیلی رنگت کے چوہوں نے ہمیں ابتدائی ڈیولپمنٹ اور ایپی جینیٹکس کی اس میں اہمیت کے بارے کافی کچھ سکھایا ہے۔ کافی عجیب طور پر ان دو کیسز سے ایک اور بات سیکھنے کو ملتی ہے۔ انیسویں صدی کے اوائل میں جین بیپٹسٹ لامارک نے Philosoohie zoologoque کی صورت میں اپنا سب سے اہم کام شائع کیا۔ لامارک نے یہ تھیوری پیش کی کہ acquired characteristics نسل درنسل منتقل ہوسکتی ہیں اور یہی ارتقاء کا ذریعہ ہے۔ مثال کے طور پر چھوٹی گردن والا زرافہ اونچے پتے کھانے کی کوشش میں لمبی گردن اپنے بچوں میں منتقل کردیگا۔ اس تھیوری کو رد کردیا گیا تھا کیونکہ زیادہ تر پہلوؤں سے یہ غلط ہے۔ لیکن ڈچ ہنگر ونٹر اور پیلی رنگت والے چوہوں سے ہم نے سیکھا ہے کہ کچھ کیسز میں لامارک کا وراثتی نظریہ بالکل درست ہے جیسا کہ ہم آگے دیکھیں گے۔