ایک جیسے جڑواں افراد صدیوں سے انسانی کلچر میں تجسس کا ذریعہ رہے ہیں اور آج بھی ہیں۔ اگر ہم صرف مغرب کی بات کریں جڑواں انسانوں کا تصور دوسو قبل مسیح کے لٹریچر میں ملتا ہے۔ 1590 میں "کامیڈی آف ایررز" میں شیکسپیئر اسی قبل مسیح کے کرداروں کو دہراتا نظر آتا ہے۔ لیوس کیرول کے "ٹوییڈلیڈم" اور "ٹویڈلیڈی" کے کردار 1871 میں لکھے گئے "تھرو لوکنگ گلاس" اور "وٹ ایلس فاؤنڈ دئیر" میں ملتے ہیں۔ اور یہ سلسلہ جے کے رولنگ کے شاہکار ناولوں "ہیری پوٹر" میں "ویسلی ٹونز" کی صورت میں نظر آتا ہے۔ دو بالکل ایک جیسے نظر آنے والے لوگوں میں کچھ تاریخی دلچسپی ہے۔ لیکن اس غیر معمولی مماثلت کےعلاوہ بھی ایک چیز ہے جو ہمارے لئے زیادہ دلچسپ ہے ۔ وہ ہے جب ہم ان جڑواں لوگوں کے درمیان فرق کو دیکھتے ہیں۔ یہ ایک تکنیک ہے جسکو لگاتار آرٹ میں استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ Jean anoilh کے "رنگ ارائونڈ مون " میں "فریڈرک" اور "ہیگو" سے لیکر ڈیوڈ کرونینبرگ کے "ڈیڈ رنگرز" میں "بیویرلے" اور "ایلیٹ مینٹل " تک۔ اور مزید انتہا تک لے جاتے ہوئے آپ "ڈاکٹر جیکیل" اور اسکے ہمزاد " مسٹر ہائیڈ" کا حوالہ دے سکتے ہیں۔ جڑواں لوگوں کے درمیان فرق نے آرٹ کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے تخلیقی انسانوں کی توجہ حاصل کی ہے۔ لیکن اس نے سائنس کی دنیا کو بھی اپنے سحر میں مکمل طور پر جکڑ رکھا ہے۔
ایک جیسے جڑواں انسانوں کیلئے سائنسی اصطلاح مونو زائیگوٹک ٹونز ہے۔ یہ دونوں اسی ایک یک خلوی زائیگوٹ سے بنے ہیں جو ایک سپرم اور ایک ایگ کے ملاپ سے بنا تھا۔ اس کیس میں ابتدائی خلیاتی تقسیم کے اندر بلاسٹوسائٹ کا انر سیل ماس دو حصوں میں تقسیم ہوجاتا ہے اور دو ایمبریو وجود میں آجاتے ہیں۔ جیسے ایک ڈونٹ کو درمیان سے کاٹ دیا جاتا ہے۔ یہ ایمبریوز جینیاتی طور پر ایک جیسے ہوتے ہیں۔ انر سیل ماس کی دو ایمبریوز میں تقسیم کو ایک بے ترتیب ایونٹ خیال کیا جاتا ہے۔ ایک جیسے جڑواں بچوں کی فریکوئنسی تمام انسانی آبادیوں میں تقریباً ایک جیسی ہے اور یہ موروثی بھی نہیں ہے ۔ مونوزائگوٹک ٹونز کو نایاب تصور کیا جاتا تھا لیکن ایسا نہیں ہے۔ ہر دو سو پچاس میں سے ایک حمل کے کیس میں جڑواں بچے پیدا ہوتے ہیں اور اس وقت تقریباً ایک کڑوڑ جڑواں انسانوں کے جوڑے دنیا میں موجود ہیں۔
مونو زائیگوٹک ٹونز اسلیے بھی دلچسپی کا باعث ہیں کیونکہ یہ ہماری اس بات کو متعین کرنے میں مدد کرتے ہیں کہ زندگی کے ایونٹس کے اندر جینیٹکس کا کس تک کردار ہے خاص طور پر مخصوص بیماریوں میں۔ یہ ہمیں موقع فراہم کرتا ہے کہ ہم اپنے جینز کی ترتیب (جینوٹائپ) اور اپنی ظاہری شکل میں (فینوٹائپ) میں تعلق تلاش کریں۔ ایسا اس بات کا حساب لگاکر کیا جاتا ہے کہ کس تواتر کیساتھ جڑواں بچوں کے جوڑے میں دونوں بچے ایک جیسی بیماری کا شکار ہوتے ہیں۔ اسکے لئے تکنیکی اصطلاح کونکورڈینس ریٹ استعمال کی جاتی ہے۔ Achondroplasia پستہ قد و قامت اور چھوٹی ٹانگوں اور بازووں کی عام قسم ہے۔ یہ ایک مثال ہے جس میں دونوں بچوں کا کونکورڈینس ریٹ سو فیصد ہوتا ہے یعنی اگر ایک بچے کو یہ بیماری ہے تو دوسرے کو بھی ضرور ہوگی۔ اکونڈدوپلازیا ایک مخصوص میوٹیشن کی وجہ سے ہوتی ہے۔ لیکن ایسی کم کی حالتیں ہین جہاں یہ ریٹ سو فیصد ہوتا ہے۔ کیونکہ زیادہ تر بیماریاں کسی ایک بنیادی جین کے اندر میوٹیشن سے نہیں ہوتیں۔ یہاں مسئلہ پیدا ہوتا ہے کہ کیسے معلوم کیا جائے کہ جینیٹکس اپنا کردار ادا کررہی ہے؟ اور کر رہی ہے تو کس حد تک؟
یہاں مونو زائیگوٹک ٹونز کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ اگر ہم مونو زائیگوٹک ٹونز کے کافی زیادہ گروہس پر تحقیق کریں تو پتہ لگایا جا سکتا ہے کہ انکا کتنے فیصد کسی خاص حالت کیلئے کونکورڈینٹ ہیں یا ڈسکورڈینٹ۔ جب ایک جڑواں میں بیماری موجود ہے تو کیا دوسرے میں بھی موجود ہے یا اسکے امکانات ہیں۔ شیزوفرینیا کی تحقیقات سےیہ بات سامنے آئی ہے کہ جتنا زیادہ ہمارا کوئی قریبی شخص اس سے متاثر ہوگا اتنا زیادہ ہمارے اندر اس بیماری کے امکانات زیادہ ہونگے۔ نان آئیڈینٹیکل ٹونز یا ایسے جڑواں جو ایک جیسے نہیں دکھتے بھی ایک جیسے ڈیویلپمینٹل ماحول میں رہتے ہیں لیکن ان میں وہی مماثلت ہوتی ہے جو عام بہن بھائیوں میں ملتی ہے۔ کیونکہ یہ دو الگ الگ زائیگوٹس سے بنتے جو دو الگ انڈوں کی فرٹیلائزیشن کے نتیجے میں بنتے ہیں۔ دو اقسام کے جڑواں بچوں کے درمیان موازنہ بہت ضروری ہے کیونکہ دونوں تقریباً ایک جیسے ماحول میں ابتدائی پرورش پاتے ہیں۔ اگر شیزوفرینیا کا بنیادی سبب ماحولیاتی عوامل تھے تو دونوں اقسام کے جڑواں میں کونکورڈینس ریٹ ایک جیسا ہونا چاہیئے۔ لیکن اسکے برعکس ہم دیکھتے ہیں کہ نان آئیڈینٹیکل ٹونز میں اگر بچہ اس بیماری کا شکار ہوتا ہے تو دوسرے میں اسکے امکانات سترہ فیصد ہیں۔ لیکن مونو زائیگوٹک ٹونز میں یہ امکانات پچاس فیصد تک پہنچ جاتے ہیں۔ اسکا مطلب ہے شیزوفرینیا میں جینیٹکس کا کردار کافی زیادہ ہے۔
اسی طرح کی اور تحقیقات میں یہ دیکھا گیا کہ دیگر کئی بیماریوں میں بھی جینیاتی فیکٹر کافی زیادہ تھا۔ ان بیماریوں میں Multiple sclerosis, بائی پولر ڈس آرڈر، systemic lupus erythematous اور دمہ شامل ہیں۔ لیکن کئی حوالوں سے سوال کا دوسرا رخ زیادہ اہم ہے۔ دو مونو زائیگوٹک ٹونز جن کے اندر شیزوفرینیا پائی گئی یہ اہم نہیں تھے بلکہ وہ مونو زائیگوٹک جڑواں اہم تھے جن میں نتائج مختلف تھے ۔ مثلاً ایک شدید شیزوفرینیا کا شکار اور دوسرا دماغی طور پر بالکل صحت مند۔ کیوں دو جینیاتی طور پر ایک جیسے افراد جو زیادہ کیسز میں ایک ہی جیسے ماحول میں پرورش پاتے ہیں الگ الگ فینوٹائپس ظاہر کرتے ہیں۔ اسی طرح ایک جسیے مونو زائیگوٹک ٹونز کے اندر دونوں افراد میں ذیابیطیس ٹائپ ون کی شرح نایاب کیوں ہے؟ جینیاتی کوڈ کے علاوہ وہ کیا چیز ہے جو ان نتائج کا سبب بنتی ہے؟
ایپی جینیٹکس کیسے جڑواں افراد میں اختلاف پیدا کرتی ہے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک ممکنہ وضاحت یہ ہوگی کہ بالکل رینڈملی شیزوفرینیا کے شکار جڑواں نے کچھ خلیات مثلاً دماغ کے خلیات میں کوئی میوٹیشن کرلی۔ ایسا ہوسکتا ہے جب دماغ کی بناوٹ کے وقت ڈی این اے ریپلیکیشن مشینری نے کوئی غلطی کردی ہو۔ یہ تھیوری کے اندر ممکن ہے لیکن سائنسدان اسکی حمایت ڈیٹا اکٹھا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ روایتی وضاحت یہی رہی ہے کہ جڑواں افراد کے درمیان ڈسکورڈینسی انکے ماحول کے فرق کی وجہ سے ہے۔ بعض اوقات یہ بالکل صحیح ثابت ہوتا ہے۔ اگر ہم طویل عمری کی جانچ کررہے ہوں تو ایک جڑواں کا کسی بس حادثے میں ہلاک ہوجانا واقعی ماحول کا فرق ہی ہے۔ لیکن یہ ایک بالکل انتہائی حالت ہے۔ بہت سے جڑواں زیادہ تر ایک جیسا ہی ماحول پاتے ہیں خاص طور پر ابتدائی ڈیویلپمنٹ کے دوران۔ پھر بھی یہ ممکن ہے کہ ایسے باریک ماحولیاتی فرق موجود تھے جنکو آسانی سے دیکھنا ممکن نہ ہو۔
لیکن اگر ہم ماحول کو بیماریوں کے کیس میں ایک الگ اہم فیکٹر قرار دیں تو ایک اور سوال کھڑا ہوتا ہے۔ یہ سوال موجود ہے کہ ماحول یہ سب کیسے کرتا ہے۔ کسی طرح سے تمام ماحولیاتی عوامل چاہے وہ خوراک میں موجود مرکبات ہوں، سگریٹ میں موجود کیمیکلز، الٹرا وائلٹ روشنی ہو، گاڑیوں سے نکلے زہریلے مادے ہوں یا سینکڑوں مالیکولز اور تابکاری کے ذرات جن سے ہمارا سامنا رہتا ہے جینز پر اثرانداز ہوتے ہیں جس سے انکے اظہار میں تبدیلی آتی ہے۔ غیر وبائی امراض کی اکثریت ڈیولپ ہونے میں وقت لیتی ہیں اور اسکے بعد لمبے عرصے تک موجود رہتی ہیں اگر کوئی علاج موجود نہ ہو تو۔ تھیوری میں ماحول سے کوئی محرک جینز پر لگاتار اثر انداز ہو رہا ہوتا ہے جوکہ صحیح کام نہیں کررہے ہوتے اور بیماری سامنے آتی ہے۔ لیکن یہ معقول نہیں لگتا کیونکہ زیادہ تر شدید بیماریوں میں ایک سے زیادہ محرکات ایک سے زائد جینز پر اثرانداز ہورہے ہوتے ہیں۔ یہ ناممکن لگتا ہے کہ تمام محرکات ہمہ وقت دہائیوں تک موجود رہیں۔ اسکے برعکس ایسا ہوسکتا ہے کہ کوئی میکانزم ہو جو ان بیمار خلیات کو اسی حالت میں رکھتا ہو مثلاً جینز کا صحیح طرح سے اظہار نہ ہونا۔
کسی سومیٹک میوٹیشن کے ثبوت کی غیر موجودگی میں ایپی جینیٹکس اس میکانزم کا بہترین امیدوار نظر آتا ہے۔ ہم اپنی تحقیقات کی شروعات میں ہی ہیں لیکن کچھ شواہد ایپی جینیٹکس کے حق میں آنا شروع ہو گئے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک تجربہ یہ کیا جاسکتا ہے کہ کیا مونوزائیگوٹک ٹونز کے بڑے ہونے کیساتھ ساتھ کرومیٹن ترامیم کا پیٹرن (ایپی جینوم) تبدیل ہوتا ہے یا نہیں۔ ایک مفروضہ یہ بنایا جاسکتا ہے کہ جینیاتی طور پر ایک جیسے جڑواں جیسے جیسے بڑے ہوتے ہیں تو وہ ایپی جینیٹیکلی مختلف ہوتے جاتے ہیں۔ اگر یہ مفروضہ صحیح ثابت ہوتا ہے تو اس بات کو تقویت ملیگی کہ مونوزائگوٹک ٹونز ایپی جینیٹک سطح پر ایک دوسرے سے الگ ہوسکتے ہیں۔ اور یہ ہمارا اعتماد زیادہ مظبوط کریگا کہ ہم بیماریوں میں ایپی جینیٹک تبدیلیوں کے کردار کے حوالے سے مزید آگے بڑھیں۔
2005 میں پروفیسر مینیل اسٹیلر کی سربراہی میں سپینش نیشنل سینٹر فار کینسر میڈرڈ کے ایک گروپ نے ایک پیپر شائع کیا جس میں اس مسئلے کی جانچ کی گئی۔ اس میں بہت اہم دریافتیں سامنے آئیں۔ جب مونو زائیگوٹک ٹونز کو ابتدائی عمر میں دیکھا گیا تو دونوں بچوں کے درمیان میں ڈی این میتھائی لیشن اور ہسٹون ایسیٹائی لیشن میں زیادہ فرق نہیں تھا۔ لیکن جب ان جڑواں جوڑوں کو دیکھا جو عمر کے آخری حصے میں یعنی چالیس پچاس سال کو پہنچ چکے تھے تو ان کے اندر ڈی این اے میتھائی لیشن اور ہسٹون ایسیٹائی لیشن میں کافی اختلاف دیکھنے کو آیا۔ ایسا ان جوڑوں میں زیادہ دیکھنے کو ملا جو زیادہ تر یہ دوسرے سے کافی دور رہے تھے۔ یہ نتائج اس ماڈل کیساتھ مماثلت رکھتے تھے جس میں جڑواں افراد شروع میں ایپی جینیٹکلی ایک جیسے ہوتے ہیں اور بعد میں ایپی اختلافات زیادہ ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ بوڑھے مونوزائیگوٹک ٹونز جنھوں نے زیادہ عرصہ الگ الگ علاقوں میں گزارا تھا ان میں یہ زیادہ اختلافات دیکھنے کو ملے ۔ یہ اس مفروضے کو تقویت پہنچاتے تھے کہ ایپی جینوم ( جینوم پر موجود مجموعی ایپی جینیٹک ترامیم کا پیٹرن) ماحولیاتی اختلافات کو ظاہر کرتا ہے۔
شماریات کے مطابق جو بچے صبح ناشتہ کرتے ہیں انکی کارکردگی سکول میں ان بچوں سے بہتر ہوتی ہے جو ناشتہ نہیں کرتے۔ اسکا مطلب نہیں کہ ضروری انڈے اور روٹی کیساتھ پڑھائی میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔ اسکا مطلب یہ ہوسکتا ہے کہ وہ بچے جو ناشتہ کرتے ہیں انکے والدین انھیں تیاری کیساتھ وقت ہر اسکول بھیجتے ہیں اور پڑھائی میں انکی مدد کرتے ہیں۔ اسی طرح پروفیسر اسٹیلر کا ڈیٹا بھی متعلقہ ہے۔ یہ ڈیٹا واضح کرتا ہے کہ جڑواں بچوں کی عمر اور وہ کس حد تک ایپی جینیٹیکلی مختلف ہیں اس بات میں تعلق ہے ۔ لیکن اس سے بالکل یہ ثابت نہیں ہوتا کہ بڑھتی عمر نے ایپی جینوم میں تبدیلیاں پیدا کی ہیں۔ لیکن پھر بھی یہ مفروضہ قابل عمل رہ سکتا ہے۔
2010 میں جیفری کریگ کی سربراہی میں ایک ٹیم نے میلبورن کے رائل چلڈرن ہسپتال میں آئی ڈینٹیکل اور نان آئیڈینٹیکل ٹونز میں ڈی این اے میتھائی لیشن کاجائزہ لیا۔ پروفیسر ایسٹیلر کے برعکس انھوں نے جینوم کے کچھ چھوٹے حصوں کو تفصیل سے دیکھا۔ نومولود نان آئیڈینٹیکل ٹونز کے اندر ڈی این میتھائی لیشن کے پیٹرن میں واضح اختلافات تھے۔ یہ غیر متوقع نہیں تھا کیونکہ نان آئیڈینٹیکل ٹونز جینیاتی طور پر ایک جیسے نہیں ہوتے اور انکے ایپی جینوم میں اختلاف سمجھ میں آتا ہے۔ لیکن دلچسپ بات یہ تھی کہ مونو زائیگوٹک ٹونز میں بھی ڈی این اے میتھائی لیشن پیٹرن میں اختلاف موجود تھا۔ ان دونوں تحقیقات اور دیگر روایتی تحقیات کے نتائج کو سامنے رکھ کر ہم کہہ سکتے ہیں کہ مونو زائیگوٹک ٹونز کے اندر ایپی جینیٹک اختلافات یوٹیرس کے اندر ہی بننا شروع ہوجاتے ہیں۔ اور بچے پیدائش کے وقت ہی ایک دوسرے سے ایپی جینیٹیکلی الگ ہوتے ہیں۔ یہ اختلافات عمر کیساتھ اور نئے ماحول کے اندر مزید بڑھنا شروع ہوجاتے ہیں۔