جیسا کہ ہم پہلے دیکھ چکے ہیں کہ زائیگوٹ بڑی جلدی تقسیم ہوتا ہے اور نتیجے میں بننے والے خلیات الگ الگ فنکشنز اپنالیتے ہیں۔ پہلا قابل مشاہدہ ایونٹ ابتدائی ایمبریو کے خلیات کا انر سیل ماس (ICM) اور ٹروفیکٹوڈرم میں تقسیم ہوجانا ہے۔ انر سیل ماس خاص طور پر مختلف اقسام کے خلیات میں تقسیم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ خلیوں کا اس طرح سے ایپی جینیٹک لینڈ سکیپ سے نیچے آنا کافی حد تک ایک دائمی خودمختار نظام ہے۔
ماؤس ٹریپ گیم ساٹھ کی دہائی کی ابتدا میں متعارف کروائی گئی اور آج بھی موجود ہے۔ کھیلنے والوں کو گیم کے دوران ایک نہایت پیچیدہ ماؤس ٹریپ بنانا پڑتا ہے۔ یہ ٹریپ ایک طرف ایک سادہ سی حرکت مثلاً ایک گیند کے چھوڑنے سے فعال ہو جاتا ہے۔ یہ گیند سرکنا شروع کرتی ہے اور مختلف قسم کے مراحل سے گزرتی ہے جن میں ایک سلائیڈ، ایک کک مارنے والا بوٹ ، ایک سیڑھی، اور ڈائیونگ بورڈ سے چھلانگ لگاتا ایک آدمی شامل ہیں۔ جب تک تمام ٹکڑے بالکل صحیح طریقے سے جوڑے گئے ہوں تو یہ چین بالکل صحیح چلتی ہے اور آخر میں چوہا ایک جال کے اندر آکر پکڑا جاتا ہے۔ اگر ایک حصہ بھی صحیح طرح سے جڑا نہ ہو تو پوری گیم خراب ہوجاتی ہے اور ٹریپ کام نہیں کرتا ۔
ڈیولپنگ ایمبریو ایک ماؤس ٹریپ کی طرح ہے۔ زائیگوٹ پہلے سے ہی بہت سی پروٹین سے آراستہ ہے جن میں سے اکثر ایگ سائٹوپلازم سے آئی ہیں۔ یہ ایگ سے آئی پروٹین نیوکلئس میں چلی جاتی ہیں اور ٹارگٹ جینز کیساتھ جڑ جاتی ہیں جنکو ہم بوٹس کہیں گے اور انکے اظہار کو ریگولیٹ کرتی ہیں۔ یہ کچھ ایپی جینیٹک اینزائمز کو بھی بوٹس جینز پر کھینچ کر لاتی ہیں۔ یہ اینزائمز بھی ایگ سائٹوپلازم سے آئے ہوئے ہوسکتے ہیں اور یہ ڈی این اے اور کرومیٹن کی ہسٹون پروٹین پر دیرپا ترامیم کرتے ہیں۔ یہ ایپی جینیٹک اینزائنز اس بات پر بھی اثرانداز ہوتے ہیں کہ کیسے یہ بوٹس جینز آن یا آف ہوتے ہیں۔ بوٹس پروٹینز ڈائیور جینز کیساتھ جڑتی ہیں اور انکو ان کردیتی ہیں۔ ان میں سے کچھ جینز خود بھی ایپی جینیٹک اینزائمز کو کوڈ کرتی ہیں جو کہ سلائیڈ جینز کے اوپر کیمپلیکسز بناتے ہیں۔ جینیٹک اور ایپی جینیٹک پروٹیز ملکر ایکساتھ ایک ترتیب وار فیشن میں کام کرتی ہیں بالکل ماوئس ٹریپ کی طرح۔
ہماری اس تشبیہ کے اندر نام ہمارے اپنے بنائے ہوئے ہیں لیکن اسکو ہم حقیقی مثال پر لاگو کرسکتے ہیں۔ ابتدائی ایمبریونک ڈیولپمنٹ کے دوران اہم پروٹینز میں سے ایک Oct4 ہے ۔ یہ پروٹین چند اہم جینز کیساتھ جڑتی ہے اور ایک مخصوص ایپی جینیٹک اینزائم کو بھی کھینچتی ہے۔ یہ اینزائم کرومیٹن میں ترمیم کرتا ہے اور اس جین کے ریگولیشن کو بھی بدل دیتا ہے۔ Oct4 اور ایپی جینیٹک اینزائم جوکہ ایکساتھ کام کرتے ہیں دونوں ابتدائی ایمبریو کی ڈیولپمنٹ کیلئے اہم ہیں۔ ان میں سے ایک بھی موجود نہ ہو تو زائیگوٹ کبھی ICM نہ بنا سکے گا۔ جب کچھ پروٹینز کا اظہار ہوتا ہے تو یہ پروٹینز Oct4 پروموٹر کیساتھ جڑ سکتی ہیں اور اس جین کے اظہار کو آف کردیتی ہیں۔ عام حالات کے اندر جسمانی خلیات Oct4 کا اظہار نہیں کرتے۔ ایسا کرنا انکے لئے بہت خطرناک ہوسکتا ہے کیونکہ Oct4 جینز کے اظہار کے نارمل پیٹرن میں خلل ڈال دیتی ہے اور سٹیم سیلز کی طرح بنا دیتی ہے۔ یہی شنیا یاماناکا نے کیا تھا جب اس نے Oct4 کو بطور ریپروگرامنگ فیکٹر استعمال کیا۔ مصنوعی طریقے سے خلیات کے اندر Oct4 کی بہت بلند سطح پیدا کرکے وہ خلیات کو ابتدائی ڈیولپمنٹل خلیات کی طرح بناکر دھوکہ دینے میں کامیاب ہوگئے تھے۔
نارمل ڈیویلپمنٹ نے ہمیں ایپی جینیٹک ترامیم کی خلیات کی قسمت کنٹرول کرنے کے حوالے سے کافی شواہد مہیا کئیے ہیں۔ ایسے حالات جن میں ڈیولپمنٹ صحیح طرح سے نہیں ہوتی ان سے بھی ہمیں ایپی جینیٹکس کی اہمیت کا اندازہ ہوا ہے۔ مثلاً 2010 میں نیچر جینیٹکس میں شائع ہونے والے ایک پیپر میں ایک ایسی میوٹیشن کی نشاندہی کی گئی جس سے ایک نایاب بیماری پیدا ہوتی تھی جسکو کبوکی سینڈروم کہتے ہیں۔ کابوکی سینڈروم ایک پیچیدہ ڈیولپمنٹل بیماری ہے جسکی علامات کافی ہیں جیساکہ ذہنی معذوری، جسامت کا چھوٹا ہونا، چہرے کی ساخت میں بگاڑ اور تالو میں سوراخ۔ اس تحقیق نے بتایا کہ کبوکی سینڈروم MLL2 نامی ایک جین کے اندر میوٹیشن کی وجہ سے ہوتا ہے۔ MLL2 پروٹین ایک ایپی جینیٹک لکھاری ہے جو لائیسین امائنو ایسڈ کی چوتھی پوزیشن پر ہسٹونH3 پر میتھائل گروپ جوڑتی ہے۔ اس میوٹیشن کے حامل مریض اپنا ایپی جینیٹک کوڈ صحیح طرح سے لکھنے سے محروم رہتے ہیں اور اسکی وجہ سے علامات ظاہر ہوتی ہیں۔
انسانی بیماریاں ان اینزائمز میں میوٹیشن کی وجہ سے بھی ہو سکتی ہیں جو ایپی جینیٹک ترامیم کو اتارتے ہیں۔ PHF8 نامی جین جو لائیسین کی پوزیشن نمبر 20 پر ہسٹونH3 پر سے میتھائل گروپ اتارتا ہے اس میں میوٹیشن سےذہنی معذوری پیدا ہوتی ہے۔ اس کیس میں مریض کے خلیات ایپی جینیٹک ترامیم اتار لیتے ہیں لیکن صحیح طرح سے نہیں اتارتے۔ یہاں یہ بات دلچسپ ہے کہ MLLP2 اور PHF8 پروٹینز کے رول الگ الگ ہیں لیکن ان میں میوٹیشن سے پیدا ہونے والی علامات میں کچھ حد تک یکسانیت ہے۔ دونوں صورتوں میں ذہنی معذوری اور تالو میں سوارخ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ ایپی جینیٹک عوامل ساری زندگی ہی اہم ہیں لیکن ڈیولپمنٹ کے دوران یہ کچھ زیادہ ہی اہم ہیں۔ ان ہسٹون لکھاریوں اور مٹانے والوں کے علاوہ سو کے قریب پروٹینز ایسی ہیں جو ایپی جینیٹک مارک کے ساتھ جڑ کر اس ہسٹون کوڈ کے ریڈر کے طور پر کام کرتی ہیں۔ یہ ریڈر دوسری پروٹینز کو بھی کھینچ کر لاتے ہیں کمپلیکس بناتے ہیں جو جینز کو آن یا آف کرتے ہیں۔ یہ بالکلMeCP2 کہ طرح ہیں جو ڈی این اے میتھائی لیشن والے جینز کے اظہار کو آف کرتی ہے۔
ہسٹون ترامیم ڈی این اے میتھائی لیشن سے ایک اہم حوالے سے مختلف ہیں۔ ڈی این اے میتھائی لیشن ایک دیرپا ایپی جینیٹک تبدیلی ہے۔ ایک دفعہ ڈی این اے ک ایک حصہ میتھائی لیٹد ہوگیا تو وہ زیادہ تر حالات میں ویسا ہی رہیگا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ ایپی جینیٹک ترمیم نیورونز کو نیورونز ہی رکھتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہماری آنکھ میں دانت نہیں اگتے۔ گوکہ ڈی این اے میتھائی لیشن کو ہٹایا جاسکتا ہے لیکن یہ صرف کچھ مخصوص حالات میں ہی ہوتا ہے اور عام طور پر ایسا نہیں ہوتا۔ اسکے مقابلے میں زیادہ تر ہسٹون ترامیم لچکدار ہوتی ہیں۔ ایک خاص ترمیم کسی جین پر ہسٹون پر کی جاسکتی ہے ، ہٹائی جاسکتی ہے اور دوبارا بھی کی جاسکتی ہے۔ یہ خلیے کے نیوکلئس کے باہر کی طرف سے تمام قسم کے محرکات کے جواب میں ہوتا ہے۔ یہ محرکات مختلف قسم کے ہوتے ہیں۔ کچھ خلیات میں ہسٹون کوڈ کچھ ہارمونز کے جواب میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ مثلاً انسولین جب پٹھوں کو سگنل دیتی ہے یا پھر(Menstrual cycle) ہیض کی حالت میں جب ایسٹروجن چھاتیوں کے خلیات کو متاثر کرتا ہے۔
دماغ کے اندر ہسٹون کوڈ نشہ اور چیزوں مثلاً کوکین کی وجہ سے تبدیل ہوسکتا ہے۔ آنتوں کے اندر موجود بیکٹیریا کی فیٹی ایسڈ کی پروڈکشن کی مقدار ایپی جینیٹک ترامیم کے پیٹرن کو بدل سکتی ہے۔ ہسٹون کوڈ کے اندر یہ تبدیلیاں کچھ اہم طریقوں میں سے ایک ہیں جن سے ماحول ہمارے جینز ہر اثرانداز ہوتا ہے اور نتیجے میں زمین پر موجود تمام بڑے جانداروں کی پیچیدگی کی تخلیق ہوتی ہے۔ ہسٹون ترامیم خلیات کو ڈیولپمنٹ کے دوران مختلف جین کے اظہار کے پیٹرن چننے کی طاقت دیتی ہیں۔ جینز عارضی طورپر غیر فعال ہوجاتےہیں جب جین کے اظہار کو کم کرنے والی ہسٹون ترامیم انکے قریبی ہسٹون پر کی جاتی ہیں۔ اگر ان جینز کے آف رہنے میں خلیے کو کوئی فائدہ ہو تو یہ ترامیم لمبے عرصے تک موجود رہتی ہیں اور ڈی این اے میتھائی لیشن کا نتیجہ بنتی ہیں۔ ہسٹون ترامیم ریڈر پروٹینز کو کھینچ کر لاتی ہیں جو نیوکلیوسوم پر دوسری پروٹینز کے کمپلیکس بناتی ہیں۔ کچھ کیسز میں یہ کمپلیکس DNMT3A اور DNMT3B پر مشتمل ہوتے ہیں۔ ان حالات میں DNMT3A اور 3B ساتھ والے ڈی این اے کو میتھائی لیٹ کردیتے ہیں۔ اگر کافی میتھائی لیشن ہوجائے تو جین کا اظہار بند ہوجاتا ہے۔ بعض انتہائی حالات میں پورا کروموسوم ریجن ہی غیر فعال ہو جاتا ہے اور ایک سے زائد خلیاتی تقسیم تک ایسے ہی رہتا ہے یا پھر نا تقسیم ہونے والے خلیات جیسے نیورونز میں دہائیوں تک ایسے ہی رہتا ہے۔
جانداروں کے اندر جین کے اظہار کو ریگولیٹ کرنے کیلئے یہ پیچیدہ ہسٹون ترامیم کے پیٹرن ہی کیوں موجود ہیں؟ اگر ہم ڈی این اے میتھائی لیشن کی قطعیت کو نظر میں رکھیں تو یہ نظام کافی پیچیدہ ہے۔ ایک وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ شاید پیچیدگی نفیس عمدہ ٹیوننگ کو ممکن بناتی ہے۔ اسکی وجہ سے ہی خلیات اور جاندار اپنے جین کے اظہار کو ماحول میں تبدیلوں کے مطابق ایڈاپٹ کرپاتے ہیں۔ لیکن آگے ہم دیکھیں گے کہ اس عمدہ ٹیوننگ کے نتائج عجیب بھی ہوسکتے ہیں۔