اس کی رہائی کی خبر ملتے ہی میںاپنے کھیت میں پاگلوں کی طرح دوڑتی ہوئی، کھیتوں کے درمیانی احاطے کو چھلانگ کر پار کرتی ہوئی، دوسرے کھیت میں جا پہنچی تاکہ یہ خوشخبری دوسروں کو سنا سکوں۔ اس بات کا احساس تو مجھے بہت بعد ہوا کہ احاطے کے کانٹے دار تاروں سے الجھ کر میرا لباس بری طرح پھٹ گیا تھا، اور میرے کاندھے پر ایک لمبی خراش آگئی تھی جس سے خون رس رہا تھا۔
اسے یہاں سے گئے آٹھ سال بیت گئے تھے۔ وہ ایک کنسٹرکشن کمپنی میں نوکری کرنے کے لیے شہر گیا تھا…ایک بڑی کنسٹرکشن کمپنی جو کانچ کی دیواروں والی فلک بوس عمارتیں بناتی ہے۔ پہلے دوسالوں تک وہ مہینے میں ایک بار دو دنوں کے لیے اورکرسمس میں دو ہفتوں کے لیے گھر آیا کرتا تھا۔ اسی دوران اس نے میرے باپ سے میرا ہاتھ مانگا تھااور رقم دینی شروع کر دی تھی۔ ہم دونوں کا خیال تھا کہ اگلے تین سالوں میں وہ اچھی خاصی رقم چکانے میں کامیاب ہو جائے گا اور پھر ہم شادی کر سکیں گے،لیکن اسی دوران اس نے انقلابی نعروں والی ٹی شرٹ پہننی شروع کر دی۔ اس نے بتایا کہ وہ یونین میں شامل ہو گیا ہے۔ اس نے ہمیں ہڑتال کے بارے میں بتایا۔ اس نے بتایا کہ وہ اپنے ایک ساتھی کے ساتھ کس طرح مالکوں سے بات چیت کرنے گیا تھاکیوں کہ کچھ لوگوں کو ہڑتال کرنے کے جرم میں نوکری سے نکال دیا گیا تھا۔ وہ بات چیت بہت سلیقے سے کرتا تھا… انگلش میں بھی۔ وہ اخباربھی پڑھا کرتا تھا ۔۔۔۔۔ وہی اخبار جن میں اسٹور کا ہندوستانی مالک صابن اور شکر لپیٹ کر گاہکوں کو دیا کرتا ہے۔
جس ہوسٹل میں وہ رہا کرتا تھا اس میں کرائے کو لے کر کچھ مسائل پیدا ہوگئے تھے۔ اس نے مجھے… صرف مجھے بتایا کہ…گائوں میں،قصبوں میں، جہاں بھی لوگ اپنے حقوق کے لیے لڑ رہے ہیں ،تقریریں کر رہے ہیں، جلوس نکال رہے ہیں…در اصل وہ اپنے لیے نہیں بلکہ ہم سب کے لیے لڑائی کر رہے ہیں…یونینیںان کے ساتھ ہیں…وہ ان کے ساتھ ہے۔
تیسرے سال ہم نے سنا کہ اسے گرفتار کر لیا گیاہے۔ شادی کا خواب ادھوراہی رہ گیا۔ جب تک مقدمہ شروع نہیں ہوا ،ہمیں یہ بھی پتا نہ چل سکاکہ اسے کس جیل میں رکھا گیا ہے۔ مقدمہ ایک دور دراز شہر میں چل رہا تھا۔ میں بار بار وہاں جا بھی نہیں سکتی تھی کیوں کہ میں نے آٹھویں جماعت پاس کر لی تھی اور اب ایک فارم اسکول میں کام کرتی تھی۔ میرے گھر والوں کے پاس بھی پیسوں کی کمی تھی۔ میرے دو بھائی جو کمانے کے لیے شہر گئے تھے، وہ کچھ بھیجتے ہی نہ تھے۔ شاید وہ اپنی گرل فرینڈز کے ساتھ رنگ رلیوں میں مصروف ہوں گے اور ساری کمائی انھیں پر لٹا رہے ہوں گے۔ میرا باپ اور تیسرا بھائی سفید فام مالک کے لیے کام کرتے ہیں۔ ان کی تنخواہ بے حد کم ہے۔ ہمارے پاس دو بکریاں اور چند گائیں تھیں اور زمین کا ایک مختصر سا ٹکڑا جس پر میری ماں تھوڑی سی سبزیاں اگا لیتی تھی۔ اس سے کوئی آمدنی نہیں ہوتی تھی۔
جب میں نے اسے عدالت میں دیکھا تو وہ نیلے سوٹ،دھاری دارشرٹ اور بھوری ٹائی میں بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔ تمام ملزمین،جنھیں وہ کامریڈ کہاکرتا تھا،اچھے لباس میں تھے۔ یونین نے ان کے لیے عمدہ لباس کا انتظام کیا تھا،تاکہ جج اور سرکاری وکیل انھیں معمولی درجے کے’یس باس‘ ٹائپ کے سیاہ فام نہ سمجھ لیں،جنھیں اپنے حقوق کے بارے میں کچھ پتا ہی نہیں ہوتا۔ یہ بات،اوردوسری کئی اہم باتیںاس نے مجھے اس وقت بتائیںجب مجھے جیل میں اس سے ملنے کی اجازت دی گئی تھی۔ مقدمے کے دوران ہی ہماری بچی پیدا ہوئی۔ جب میں بچی کوعدالت میں پہلی بار اسے دکھانے کے لیے لے کر گئی تو اس کے ’کامریڈس‘ نے اسے گلے سے لگالیا اور پھر قیدیوں کے کٹہرے کے پار ہی سے مجھے بھی باری باری گلے سے لگایااور آپس میں چندہ کر کے انھوں نے مجھے کچھ رقم بھی دی کہ میں بچی کے لیے کوئی تحفہ خرید لوں۔ اس نے بچی کا نام اِنکُو لیلُوکُورکھا۔
مقدمہ ختم ہوا،اوراسے چھ سال کے لیے جزیرے پر بھیج دیا گیا۔ ہم سب کو جزیرے کے بارے میں پتا تھا۔ ہمارے لیڈر وں نے وہاں لمبی سزائیں کاٹی تھیں،لیکن میں نے اسکول کی کتابوںمیں سمندر کو ہمیشہ نیلے رنگ ہی میںدیکھا تھا اور میں تصور بھی نہیں کر سکتی تھی کہ اس کے درمیان زمین کا کوئی ٹکڑا بھی ہو سکتا ہے۔ جزیرے کے تعلق سے جو تصور میرے ذہن میں ابھرتا تھا وہ بارش کے جمع ہوئے پانی پر تیرتے ہوئے گائے کے تازہ گوبرکا ہوتا تھا…بارش کا صاف چمکتا ہوا پانی… جس میں نیلے آسمان کا عکس دکھائی دیتا ہے… اور اس پر تیرتا گوبر… میںاپنے اس تصور پرخود ہی شرمندہ ہوجایا کرتی تھی۔
جیل میںاسے ہر ماہ ایک خط کی اجازت تھی اور وہ خط میرا ہوا کرتا تھا کیوں کہ اس کے ماں باپ لکھنانہیں جانتے تھے۔ میں ان کے پاس اس فارم میں جاتی تھی جہاں وہ کام کرتے تھے اور ان سے پوچھ لیا کرتی تھی کہ وہ اپنے بیٹے کو کیا پیغام بھیجنا چاہتے ہیں۔ اس کی ماں اپنے سر پر ہاتھ رکھ کر رونے لگتی … کبھی کچھ نہ کہتی… اور باپ جو پہلے ہر اتوار کو میدان میں ہمیں نصیحتیں کیا کرتا تھا، کہتا میرے بیٹے کو لکھ دو کہ ہم اس کے لیے دعا کر رہے ہیں۔ خداوند اس کی مشکلات دور فرمائے گا۔ ایک بار اس کا جواب آیا…’’ہمارے لوگ، جو کھیتوں میں کام کرتے ہیں ،ان کے ساتھ یہی مصیبت ہے کہ وہ یہ سوچتے ہیں کہ ان کے لیے جو بھی مناسب ہوگا،خدا خود فیصلہ کرے گا۔ اس لیے وہ خود سے اپنی زندگی بدلنے کی کوشش کبھی نہیں کرتے۔ ‘‘
دو سال گزر گئے۔ اب ہم نے اتنی رقم جمع کر لی تھی کہ کیپ ٹائون جا کر اس سے مل سکیں۔ ہم ٹرین سے گئے اوررات اسٹیشن کے ننگے فرش پر سوئے۔ صبح ہم نے لوگوں سے گھاٹ کا راستہ دریافت کیا۔ لوگ بہت ہمدردی سے پیش آرہے تھے۔ انھیں پتا تھا کہ اگر کوئی گھاٹ کا پتا پوچھے تو اس کا مطلب ہوا کہ اس کا کوئی عزیز جزیرے کی جیل میں قید ہے۔
ہم لوگ ساحل پر پہنچ گئے… سمندر ہماری آنکھوں کے سامنے تھا…نیلے سبز رنگ کا،تاحد نظر پھیلاسمندر…لہریں بار بار اوپر اٹھ کر گر رہی تھیں اور سفید جھاگ میںبدل جارہی تھیں۔ ہوا کے نہایت تیزجھونکے چل رہے تھے۔ جزیرہ دکھائی نہیں دے رہا تھالیکن چند دوسرے لوگ جوہماری طرح کشتی کے منتظر تھے،وہ سمندر میںدور اس طرف اشارہ کر رہے تھے جدھر جزیرہ تھا۔ سب کچھ میرے تصور سے بالکل مختلف تھا۔
وہاں دوسری کشتیاں اور جہازبھی موجود تھے جنھیں دنیا کے دوسرے علاقوں میں جانا تھا… لیکن وہ کشتی جسے جزیرے تک جانا تھا،وہ صرف جزیرے تک ہی جاتی تھی اور کہیں نہیں۔ یعنی وہاں جو لوگ بھی کشتی کے انتظار میں تھے انھیں دراصل جزیرے پر ہی جانا تھا۔ ہمارے پاس مٹھائیاں اور بسکٹ تھے،اس کے لیے پتلونیں اور ایک گرم کوٹ تھا ( ایک عورت جو وہاں کھڑی تھی اس نے بتایا کہ ہمیں اسے کپڑے دینے کی اجازت شاید نہیں ملے گی)۔ میں اپنے سر پر وہ پرانیبیریٹ (نرم کپڑے کی ٹوپی) نہیں پہنے ہوئے تھی جو کھیتوں میں کام کرنے والی لڑکیاں عموماًپہنا کرتی ہیں،بلکہ اس وقت میں نے اپنے بالوں میں ریلیکسر کریم لگا رکھی تھی جو میں نے اس پھیری والے سے خریدی تھی جو ایک بکس میں اس طرح کی چیزیں لیے اپنی سائکل پر کھیتوں میں آیا کرتا تھا۔ میرے بال سلیقے سے سنورے ہوئے تھے اور سر پر ایک پھولدار اسکارف تھا جس نے میرے کانوں میں چمکتی سنہری بالیوں کو نہیں چھپایا تھا۔ اس کی ماں نے اپنے لباس کے اوپر سے اپنا کمبل لپیٹ کرکمر کے پاس باندھ رکھا تھا اور ایک عام دیہاتی عورت معلوم ہو رہی تھی، لیکن میں وہاں موجود کسی بھی لڑکی سے کم نہ تھی۔ جب کشتی ہمیں لے جانے کے لیے تیار ہو گئی تو ہم سب خاموشی سے ایک دوسرے کے ساتھ چپک کر کھڑے ہو گئے جیسے مویشی باڑے کے گیٹ سے نکلتے وقت کھڑے ہوتے ہیں۔ ایک آدمی کھڑا چاروں طرف دیکھ رہا تھا۔ اس کی ٹھوڑی ہِل رہی تھی ،وہ ہمیں گن رہا تھا،شاید وہ ڈرا ہوا تھا کہ مسافروں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور کہیں کشتی والے اسے لے جانے سے انکار نہ کر دیں۔ ہم سب سامنے کھڑے نگراں پولیس والے کی طرف بڑھے اور ہمارے آگے موجود تمام مسافر کشتی میں سوار ہو گئے۔ جب ہماری باری آئی تو پولیس والے نے اپناہاتھ آگے بڑھا دیا۔ میں نہیں سمجھ سکی کہ وہ کیا چاہتا تھا۔
ہمارے پاس اجازت نامہ نہیں تھا۔ دراصل ہمیں پتا ہی نہیں تھا کہ کیپ ٹائون آنے سے قبل، اس گھاٹ پر قدم رکھنے سے قبل ،پولیس سے جزیرے پر جاکر قیدی سے ملنے کا خصوصی اجازت نامہ حاصل کرنا پڑتا ہے۔ میں نے اس پولیس والے سے درخواست کرنے کوشش کی لیکن تیز ہواکے جھونکے میرے منہ سے نکلے الفاظ اڑالے گئے۔
ہم واپس ہو گئے۔ ہم نے کشتی کو لہروں پر ڈولتے دیکھا۔ وہ لہروں کے ساتھ اوپر نیچے ہو رہی تھی اور لمحہ بہ لمحہ چھوٹی ہوتی جا رہی تھی۔ یہاں تک کہ وہ ہماری نگاہوں سے اوجھل ہو گئی اور ہمیں یہ سمجھنا مشکل ہو گیا کہ نظروں کے سامنے لہروں کے ساتھ اوپر نیچے ہونے والی شے وہی کشتی تھی یا کوئی پرندہ تھا۔
ایک بات اچھی ہوئی کہ مسافروں میں سے ایک شخص نے بسکٹ اور مٹھائیاں ہم سے یہ کہہ کر لے لیں کہ وہ اس تک پہنچا دے گا۔ بعد میں اس نے خط میں لکھا تھا کہ وہ مٹھائیاں اور بسکٹ اسے مل گئے تھے،لیکن وہ کوئی اچھا خط نہیں تھا۔ اس میں اس نے اپنے غصے کا زبردست اظہار کیا تھا۔ اس نے لکھا تھا کہ مجھے اتنابے وقوف نہیں ہونا چاہیے تھا،اورمجھے اجازت نامے کے بارے میں پہلے سے پتا ہونا چاہیے تھا۔ اس نے ٹھیک ہی لکھا تھا…میں نے ٹرین کے ٹکٹ خریدے…اس بات کا پتا لگایا کہ کشتی کہاں ملے گی…تو مجھے اجازت نامے کے بارے میں بھی معلومات حاصل کر لینی چاہیے تھی۔ اس نے لکھا تھا کہ میںجاہل نہیں تھی… آٹھویں جماعت پاس کر چکی تھی۔ قصبے میں پوچھ تاچھ کا دفتر تھا،چرچ سے بھی معلومات حاصل کی جا سکتی تھیں،لیکن میں بھی کیا کرتی۔ ہمارے کھیت قصبے سے بہت دور ہیں اور ہم ان چیزوں کے بارے میں کوئی معلومات نہیں رکھتے… اس نے لکھا تھا…ہماری ناواقفیت ہی تمام خرابیوں کی جڑ ہے جس کی وجہ سے ہمیں ہمارے حقوق کا پتا نہیں چلتا، اسے ختم ہونا چاہیے۔
ہم نے واپسی کی ٹرین پکڑلی اور پھر کبھی جزیرے پر نہیں جا سکے… ان تین طویل برسوں میں اسے ایک بار بھی نہیں دیکھ سکے… ایک بار بھی نہیں…ہمارے پاس ٹرین کا کرایہ ہی جمع نہ ہو سکا۔ اس دوران اس کے باپ کا انتقال ہوچکاتھا اور مجھے اس کی ماں کی کفالت اپنی تنخواہ سے کرنی پڑ رہی تھی۔ ہم لوگوں کے لیے رقم ہی سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ میں نے اسے لکھا کہ ہم لوگ کب تک کسمپرسی کی زندگی گزارتے رہیں گے؟…کب ہم لوگوں کے پاس زندگی گزارنے کے لیے مناسب رقم آئے گی؟ … جواب میں اس نے ایک بہت پیارا خط بھیجا۔ اس نے لکھا تھا: یہی وہ وجہ ہے جس کے لیے میں ، تم سے دور، جزیرے میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہا ہوں۔ میں یہاں اسی لیے ہوں کہ ایک دن میرے ہم وطن اپنی ضروریات زندگی کو باآسانی حاصل کر سکیں گے،انھیں بھر پیٹ کھانا مل سکے گا،اور ان کے ساتھ ہونے والے متعصبانہ سلوک کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اس خط میں کچھ اور بھی لکھا تھا جسے میں ٹھیک سے پڑھ نہ سکی ،میں صرف لفظ ’طاقت‘ پڑھ سکی باقی پر سیاہی پھیر کر مٹا دیا گیا تھا۔ دراصل اس کا خط صرف میں ہی نہیں پڑھتی تھی… مجھ سے پہلے جیل کے حکام پڑھتے تھے۔
n
اور پانچ سال کے بعد وہ آرہا تھا !
مجھے جیسے ہی یہ خبر ملی، مجھے لگا کہ درمیان کے پانچ طویل سال اچانک غائب ہو گئے…مجھے سب سے زیادہ خوشی اس بات کی تھی کہ مجھے ابھی ایک اور پورا سال انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ میں نے اپنی… ہماری ۔۔۔۔ ننھی سی بیٹی کو اس کی تصویر دکھائی… یہ تمھارے ڈیڈی ہیں …یہ آرہے ہیں… تم جلد ہی انھیں دیکھ سکوگی۔ اس نے اپنے اسکول میں سارے بچوں کو بتادیا کہ اس کے ایک ڈیڈی بھی ہیں جو جلد ہی آئیں گے۔
ایک طرف ہم چاہتے تھے کہ وہ فوراً آجائے جب کہ دوسری طرف ہم یہ بھی چاہتے تھے کہ ہمیں تیاری کے لیے تھوڑا وقت مل جائے۔ اس کی ماں اس کے ایک چچا کے یہاں رہتی تھی۔ اس کے باپ کی موت کے بعد اب اس کے باپ کا کوئی مکان بھی نہ تھا جس میں وہ شادی کے بعدمجھے لے جا سکے۔ اگر وقت ملتا تو میرا باپ درختوں کے لمبے تنے کاٹ لاتا۔ میں اور میری ماں مل کر اینٹیں بنا کر پکا لیتے اور جھاڑیاں کاٹ لاتے اور ان سب سے ہم ایک مکان بنا لیتے… اس کے لیے… میرے لیے … اورہماری بچی کے لیے…۔
ہمیں پتا نہیں تھا کہ وہ کس دن آئے گا۔ میں نے توبس اس کا نام اپنے ریڈیو پر سنا تھا … اس کا اور اس کے کچھ ساتھیوں کا جنھیں رہا کیا جا رہا تھا۔ پھر میں نے ہندوستانی کی دکان پر اخبار دیکھا۔ ’دی نیشن‘ …جو سیاہ فاموں کا اپنا اخبار ہے… اس کے صفحۂ اول پر کئی لوگوں کی ایک تصویر تھی… رقص کرتے ہوئے …ہاتھ ہلاتے ہوئے …کچھ لوگوں نے کچھ لوگوں کو کاندھوں پر اٹھایا ہوا تھا۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ ان میں سے وہ کون تھا۔ ہم منتظر تھے۔ کشتی نے اسے ساحل پر پہنچا دیا ہوگا۔ لیکن مجھے یہ بھی پتا تھا کہ کیپ ٹائون یہاں سے بہت دور ہے۔ اس لیے اسے وقت لگے گا۔
اور پھر وہ آگیا۔ سنیچر کا دن تھا۔ اسکول کی چھٹی تھی۔ اس لیے ماں کے ساتھ کھیت میں کام کر رہی تھی… میںہاتھ میں کھرپی لیے مکئی اور کہنڑے کے پودوں کی دیکھ بھال میں مصروف تھی…میرے بال، جن کی میں بہت حفاظت کیا کرتی تھی ، ایک بوسیدہ رومال میں بندھے تھے۔ تبھی میں نے دیکھا کہ سامنے گھاس کے میدان سے ایک کومبی گاڑی چلی آرہی ہے… اس کے کامریڈس اس کے ساتھ تھے۔ میں نے سوچا کہ میں دوڑ کر بھاگ جائوں اور ہاتھ منھ دھو لوں لیکن تب تک وہ میرے سامنے آکھڑا ہوا ،اور اپنے کامریڈس کے ساتھ چیخ رہا تھا…ہے! ہے!… اور اس کے گرد ایک شور بپا تھا۔ میری ماں اپنی تیز باریک آواز میں چیخ رہی تھی۔ آئی! آئی! … اور میرا باپ لڑکھڑاتا ہوا، تالیاں بجاتے ہوئے اس کی طرف بڑھ رہا تھا…اس نے اپنی بانھیں ہماری طرف پھیلا رکھی تھیں…اس کی وجیہہ شخصیت شہری لباس اورپالش کیے ہوئے جوتوں میں بہت پروقار لگ رہی تھی۔ اس نے مجھے اپنی بانھوں میں سمیٹ لیا۔ میں اپنی کیچڑ میں سنے، گندے ہاتھوںکو اس کی پشت کی طرف اس سے دور رکھے ہوئے تھی کہ اس کا لباس گندا نہ ہو جائے۔ اس کے دانتوں نے میرے گال کو اپنی مضبوط گرفت میں لے لیا۔ اس نے میری ماں کو پکڑکر اپنی طرف کھینچا اورماں نے خود کو چھڑاتے ہوئے بچی کو اس کی طرف بڑھا دیا۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے ہم سب گر پڑیں گے۔ بچی میری ماں کے پیچھے جا کر چھپ گئی۔ اس نے اسے گود میں اٹھا لیا، لیکن اس نے اپنا سر دوسری طرف گھما لیا۔ وہ اس سے باتیں کر رہا تھا، لیکن وہ اس سے کچھ نہیں بول رہی تھی۔ بیچاری تقریباً چھ سال کی معصوم بچی تھی جس نے اپنے باپ کو دیکھا ہی نہیں تھا…میں نے کہا… ’’یہی تمھارے پاپا ہیں…باتیں کرو۔ ‘‘ تو وہ بولی …’’ ۔نہیں یہ وہ نہیں ہیں۔ ‘‘
اس کے اس جواب پر کامریڈوں نے ایک زبردست قہقہہ لگایا جس میں ہم سب نے ان کا ساتھ دیا…بچی بھاگ گئی ، وہ بولا ’ ’ ابھی اسے کچھ وقت لگے گا۔ ‘‘
وہ موٹا ہو گیا تھا…ہاں! اچھا خاصا۔ ناقابل یقین بات…پہلے وہ اتنا دبلا تھا کہ اس کے پیر ضرورت سے زیادہ بڑے نظر آتے تھے… میں اس کی ہڈیاں محسوس کیا کرتی تھی… لیکن اب… اس رات مجھے اپنے بدن پر اس کا جسم بہت وزنی لگ رہا تھا۔ مجھے یاد نہیں کہ وہ پہلے کبھی اتنا بھاری محسوس ہوا ہو۔ حیرت انگیز بات ہے کہ کوئی جیل میں رہ کر اتنا صحت مند ہو جائے۔ میں سمجھتی تھی کہ اسے جیل میں کھانے کو نہیں ملتا ہوگا اور وہ جیل سے نکلے گا تو انتہائی کمزور ہو چکا ہو گا۔ سب لوگ اس کی طرف دیکھ کر کہتے، دیکھو کیا گبرو جوان بن کر لوٹا ہے۔ اوروہ اپنی مٹھی کو سینے پر مارتا ہوا زور سے ہنس پڑتا۔ وہ بتا تا کہ وہ اور دوسرے کامریڈ جیل کے اندرکس طرح اپنی کوٹھریوں میں ہی کسرت کیا کرتے تھے۔ وہ خود اپنی کوٹھری میں ایک ہی جگہ پر پیروں کو اچھال کر تقریباً تین میل روزانہ دوڑا کرتا تھا۔
پہلے جب ہم رات میں ایک ساتھ ہوتے تو کافی دیر تک سرگوشیاں کیا کرتے تھے لیکن اب میں محسوس کر رہی تھی کہ اس کا ذہن کہیں اور الجھا ہوا تھا۔ وہ پتا نہیں کیا سوچ رہا تھااور میں اپنی باتوں سے اسے پریشان نہیں کرنا چاہتی تھی۔ اور پھر میری سمجھ میں یہ بھی نہیں آرہا تھا کہ میں کیا باتیں کروں؟… اس سے پوچھوں کہ پانچ سال مجھ سے دور وہاں بند رہنا کیسا لگا؟یا اسے اپنے اسکول یا ہماری بچی کے بارے میں بتائوں؟…یا اس کی غیر موجودگی میںپیش آنے والے دیگر واقعات بتائوں؟… نہیں …مجھے انتظار کرنا چاہیے۔
دن میں کسی وقت میں نے اسے بتایا کہ اس کے بغیرمیری زندگی کے پانچ سال اس گھر میں ، اس فارم میں کس طرح گزرے۔ وہ دلچسپی کے ساتھ سنتا رہا…ٹھیک اسی طرح جیسے جب دوسر ے فارم سے لوگ آکر اسے اس کی غیر موجودگی میں پیش آنے والے چھوٹے چھوٹے واقعات بیان کرتے تھے اور وہ سنتا تھا…مسکراتے ہوئے سر ہلاتاتھا… اور پھر کھڑے ہو کر انگڑائی لیتاتھا…یہ اس بات کا اشارہ ہوتا تھا کہ بس اب بہت ہو گیا…انھیں جانا چاہیے۔ میں سمجھ جاتی کہ اس کے ذہن میں پھروہی خیال کلبلانے لگا ہے جس میں وہ ان کے آنے سے قبل گم تھا… جب کہ ہم دیہاتی لوگ بہت سست رفتار واقع ہوئے ہیں اور باتوں کو بہت آہستہ آہستہ بیان کرتے ہیں…خود وہ بھی توپہلے ویسا ہی تھا۔
اس نے کوئی دوسری نوکری تلاش نہیں کی تھی،لیکن وہ یوں ہمارے ساتھ گھر میں پڑا نہیں رہ سکتا تھا۔ ہم سب کا خیال تھا کہ وہ نیلے سبز سمندر کے درمیان جزیرے پر پانچ طویل سال گزار کر آیا ہے اس لیے ابھی کچھ دن آرام کر رہا ہے۔ اکثرکومبی یا کوئی دوسری گاڑی آتی اور وہ اس میں بیٹھ کر چلا جاتا اور ہم سے کہہ کر جاتا کہ اسے نہیں معلوم کہ وہ کس دن واپس آئے گا، لیکن فکر کرنے کی کوئی بات نہیں ، وہ جلد ہی واپس آجائے گا۔ پہلے پہل میں نے پوچھا کہ کب تک؟کیا اگلے ہفتے؟اس نے مجھے سمجھانے کی کوشش کی …تحریک میں پہلے سے یہ پتا نہیں ہوتا کہ مجھے کب ،کہا ں جانا ہے اور میرے ساتھ کیا پیش آنے والا ہے۔ اور یہی معاملہ رقم کا بھی ہے …یہ کسی نوکری کی طرح نہیں کہ ہر ماہ مقررہ تاریخ پر مقررہ رقم مل جائے…اسے یہ بتانے کی ضرورت نہ تھی ،یہ تو مجھے پہلے ہی سے معلوم تھا… وہ یہ سب ہمارے اپنوں کے لیے ہی تو کر رہا تھاجو دنیا بھر کی مصیبتیں جھیلتے ہیں کیوں کہ ان کے پاس رقم نہیں ہے…اپنی زمین نہیںہے…دیکھو …اس نے ہمارے مکان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا… مکان جو میرے ماں باپ کا تھا ، میرا تھا اور اب اس کا اور اس کی بچی کا بھی ہونے والا تھا…اس جگہ کو دیکھو…گورا مالک ساری زمین کا مالک ہے، اور اس نے ہمیں کیچڑ بھری زمین پر ، ٹن کے جھونپڑے میں رہنے کی اجازت دی ہے اور وہ بھی تب تک ،جب تک ہم اس کے لیے کام کرتے رہیں…بابا اور تمھارا بھائی اس کے لیے کھیتی کرتے ہیں اور اس کے مویشیوں کی دیکھ بھال کرتے ہیں…ماں اس کے مکان کی صفائی کرتی ہے اور تم اسکول میں پڑھاتی ہو جہاںایک ٹیچر کے طور پر تمھاری ضروری ٹریننگ کا بھی انتظام نہیں۔ گورا کہتا ہے کہ وہ ہم سب کا مالک ہے۔ پہلے میں سوچتی تھی کہ ہم اس کے جزیرے سے لوٹنے سے قبل اس کے لیے گھر نہیں بنا سکے…لیکن اب یہ سمجھ میں آیا تھا کہ حقیقت میں گھر تو ہم میں سے کسی کا بھی نہیں تھا…میں اس کا نقطۂ نظر سمجھ گئی تھی۔
میں بے وقوف نہیں ہوں۔ جب اس کے کامریڈ کومبی میں بیٹھ کر اس سے باتیں کرنے کے لیے آتے تو میں اپنی ماں کے ساتھ ان کے لیے چائے بنا کرلے جاتی یا اگر ماں نے ہفتے کی شام کے لیے بیئر تیار کی ہوتی تو وہی لے جاتی۔ وہ لوگ ماں کے ہاتھوں کی بنی بیئر بہت پسند کرتے۔ وہ لوگ ہماری تہذیب و ثقافت کی باتیں کیا کرتے۔ ان میں سے ایک اکثر میری ماں کے گلے میں بانھیں ڈال کر اسے پیار سے’ سب کی ماں‘ کہا کرتا تھا… پورے افریقہ کی ماں۔ کبھی کبھی وہ لوگ ماں کو خوش کرنے کے لیے وہ گیت سناتے جو وہ جزیرے میں قید کے دوران گایا کرتے تھے اور ماں سے وہ قدیم گیت سنا کرتے تھے جو ہم سب بچپن میںاپنی اپنی دادیوں سے سنا کرتے تھے،پھر وہ لوگ اس کی آواز میں اپنی بھاری آوازیں ملا دیا کرتے تھے۔ میرا باپ اس شور و غل کو پسند نہیں کرتا تھا۔ اسے خوف تھا کہ کہیں گورے مالک کو یہ پتا نہ چل جائے کہ میرا آدمی ایک انقلابی ہے اور جزیرے کی قید سے چھوٹ کر آیا ہے اور اب اس کی زمین پر بیٹھ کر سیاسی میٹینگ کیا کرتا ہے۔ ایسی حالت میں وہ میرے باپ کو ہمارے پورے خاندان کے ساتھ اپنی زمینوں سے ہمیشہ کے لیے نکال دیتا،لیکن میرے بھائی کا کہنا تھا کہ ڈرنے کی بات نہیں، گورا مالک اگر اس سلسلے میں کبھی کچھ پوچھے تو اسے سیدھے یہ کہہ دیا جائے کہ یہ مذہبی دعا کی محفل ہے…جب گانا ختم ہو جا تا تو میری ماں سمجھ جاتی کہ اب اسے مکان کے اندر چلے جانا چاہیے۔
لیکن میں اندر نہیں جاتی… میں وہیں بیٹھ کر اس کی باتیں سنتی…وہ جب کسی مسئلے پر گفتگو شروع کر دیتا تو پھر یہ بھول جاتا کہ میں بھی وہاں موجود ہوں لیکن جب اس کا کوئی کامریڈ کسی موضوع پر بولتا تو وہ میری طرف دیکھتا… انھی نظروں سے جن سے میں اسکول میں اپنے کسی پسندیدہ بچے کی طرف دیکھتی، تاکہ اسے حوصلہ ملے اور وہ بات سمجھ سکے۔ وہ لوگ براہ راست کبھی مجھ سے مخاطب نہیں ہوتے تھے اور نہ ہی میں ان سے کچھ بولتی تھی۔
وہ لوگ جن موضوعات پر باتیں کرتے ان میںسب سے اہم موضوع ہوتا… کھیتوں میں کام کرنے والے مزدوروں میں بیداری پیدا کرنا…میرے باپ اور بھائی جیسے کھیت مزدوروں میں… خود اس کے ماں باپ بھی ایسے ہی مزدور ہوا کرتے تھے… میں اب ان کی باتوں کو سمجھنے لگی تھی…مناسب اجرت…کام کے معین گھنٹے…ہڑتال کا حق…سالانہ ضروری چھٹیاں…حادثات کا معاوضہ…پینشن…بیماری اور زچگی کی چھٹیاں وغیرہ۔ وہ لوگ کبھی کبھی ’بڑے آدمی‘ اور ’بوڑھے آدمی‘ کا ذکر کیا کرتے۔ میں اب سمجھنے لگی تھی کہ یہ کون لوگ ہیں۔ یہ ہمارے محترم رہنما ہیں جو جیلوں سے چھوٹ کر آگئے ہیں۔
میں پھر حاملہ ہوں…میرے اندر دوسرا بچہ پل رہا ہے…میں نے اسے آنے والے بچے کے بارے میں بتا یا…اس نے کہا’’…اور یہ بچہ ایک نئے ملک کا باشندہ ہوگا …ایک آزاد ملک کا…یہ اس ملک کی تعمیر کرے گا جس کی آزادی کی جنگ ہم لڑ رہے ہیں۔ ‘‘ میں جانتی ہوں کہ وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے لیکن اس کے پاس ان باتوں کے لیے فی الحال وقت نہیں۔ اس کے پاس بچوں کے لیے وقت ہے ہی نہیں۔ وہ میرے پاس ویسے ہی آیا کرتا ہے جیسے وہ کھانا کھانے اور کپڑے بدلنے کے لیے آیا کرتا ہے۔ وہ بچی کو گود میں اٹھا کر ایک دو بار گول چکر لگا لیتا…بس…اور پھر کومبی میں بیٹھ کر چلا جاتا۔ بیچاری ننھی بچی آج تک اس سے مانوس نہیں ہو پائی تھی،لیکن مجھے پتا تھا کہ ایک دن وہ اپنے باپ پر فخر کرے گی۔
ایک چھ سال کی بچی کو یہ سب باتیں کیسے بتائی جا سکتی ہیں…لیکن میں اسے بتا تی تھی…’’ہمارے سیاسی رہنمائوں،’بڑے آدمی‘ اور’بوڑھے آدمی‘ کے بارے میں…تاکہ وہ یہ جان سکے کہ اس کا باپ بھی انھی لوگوں کے ساتھ جزیرے میں قید تھا…اس کا باپ بھی ایک عظیم آدمی ہے۔
سنیچر کو،اسکول نہیں ہوتا۔ اس دن میں اپنی ماں کے ساتھ کھیتوں میں کام کرتی ہوں۔ کام کرتے وقت وہ گایا کرتی ہے، لیکن میں نہیں گاتی…میں سوچتی ہوں…اتوار کو کوئی کام نہیںہوتا …صبح میں ہم گورے مالک کے احاطے میں پیڑوں کے نیچے دعا کی محفل میں شامل ہوتے ہیں اور پھر کیچڑ بھری زمین پر بنی ٹن کی جھونپڑیوں میں ،جہاں ہمارے گورے مالک نے ہمیں رہنے کو جگہ دے رکھی ہے، بیئر پی جاتی ہے،لیکن اس دن میری مصروفیات الگ ہی ہوتی ہیں۔ میں بچپن ہی سے اتوار کے دن بالکل تنہا بیٹھی کھلونے بنایا کرتی یا پھر خود سے باتیں کیا کرتی …ایسی جگہ جہاں کوئی دوسرا سننے والا نہ ہو۔
سہ پہر کو میں کسی اونچے مقام پر،کسی گرم پتھر پر بیٹھ جاتی جہاں سے پوری وادی پہاڑیوں کے درمیان ایک ایسے راستے جیسی نظر آتی جو میرے قدموں سے شروع ہو رہاہو ۔۔۔۔۔۔۔وہ گورے مالک کا فارم ہے…لیکن نہیں یہ فارم اس کا کہاں؟…یہ تو کسی کا بھی نہیں ہے…جس طرح ایک گائے کو یہ پتا نہیں ہوتا کہ کون اس پر اپنا حق ملکیت جتا رہا ہے…جیسے وادی میں چرتی بھیڑیں۔۔۔۔جو بھورے پتھروں کے طرح دکھائی دے رہی ہیں ۔۔۔ اور جب وہ ایک ساتھ چلتی ہیں تو ایک رینگتے ہوئے بھورے، موٹے سانپ جیسی لگتی ہیں۔۔۔۔انہیںبھی یہ پتا نہیں کہ وہ کس کی بھیڑیں ہیں۔۔۔۔۔ہمارے جھونپڑے۔۔۔۔۔شہتوت کا بوڑھا درخت ۔۔۔۔بھوری زمین کا ٹکرا جسے میری ماں کل کھود رہی تھی۔۔۔۔۔ چمنی کے ارد گرد بکھرے درختوں کے جھنڈاور فارم ہائوس پر لگا چمکدار ٹی وی اینٹینا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سب ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس زمین پر کوئی اہمیت نہیں رکھتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ انہیں یوں فنا کر سکتی ہے جیسے ایک کتا اپنی دم پر بیٹھی مکھی کو اڑا دیتا ہے۔
میں بادلوں کے ساتھ اوپر اڑ رہی ہوں۔ میرے عقب میں سورج آسمان پر مختلف رنگ بکھیر رہا ہے اور بادل دھیرے دھیرے اپنی شکلیں بدل رہے ہیں۔۔۔۔ان میں کچھ سفید ہیں جوخود کو بلبلوں کی طرح اڑا رہے ہیں۔۔۔۔ان کے نیچے سیاہ بادلوں کی پرت ہے جو اتنے کم ہیں کہ برس نہیں سکتے، وہ بس لمبائی میں پھیلتے جا رہے ہیں۔۔۔۔۔ان کے نیچے کے سارے بادل گلابی ہیں۔۔۔۔۔انہیں دیکھ کر ایسا لگ رہاہے۔۔۔۔ جیسے ایک پتلی سی تھوتھنی ہو، لمبا سا جسم ہو اور آخر میں ایک طویل دم ہو۔۔۔۔جیسے آسمان میں ایک بڑا سا چوہا آسمان میں گھوم رہا ہو اور آسمان کو نگلتا جا رہا ہو۔
میں وہیں بیٹھی ہوں جہاں میں اس زمانے میں آیا کرتی تھی جب وہ جزیرے میں تھا…میں یہاں دوسروں سے دور، اکیلے بیٹھ کر اس کا انتظار کیا کرتی تھی… میں چوہے کو دیکھ رہی ہوں۔ وہ اپنے آپ کو کھو رہا ہے۔۔۔۔ اپنی شکل کو ۔۔۔۔۔۔ آسمان کو کھا تے ہوئے ۔۔۔۔!
اور میں اس کا انتظار کر رہی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔
اس کے واپس آنے کانتظار…انتظار…طویل انتظار!
Original Story : Amnesty
By : Nadine Gordimer (South Africa)