جیسے ہی پاپا ڈائننگ ٹیبل سے اٹھ کرسِٹنگ روم میں اخبار پڑھنے چلے گئے، میں بھی اٹھ گیا۔ مجھے پتا تھا کہ مامااورباقی لوگوں کو ابھی دیر لگے گی لیکن مجھے اب وہاں رکنے میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔
میں جیسے ہی کھڑا ہوا،ماما نے میری طرف دیکھا اور بولیں’’یہاں آئو… ذرا،اپنی آنکھیںتو دکھائو۔ ‘‘
میںڈرتے ڈرتے ان کے قریب پہنچا ،کیوں کہ ماما جب ہمیں بلاتی ہیں تو یہ کہنا مشکل ہو تا ہے کہ وہ غصے میں ہیں یا خوش ہیںاور اس کے بعد ہمارے ساتھ کیا ہوگا۔
انھوں نے اپنے بائیں ہاتھ سے میری پلکوں کو اٹھا کر میری آنکھوں کا معائنہ کیا ، اور پھر اپنی پلیٹ کی طرف متوجہ ہو گئیں،میں کھڑا انتطار کرتا رہا کہ وہ مجھے وہاں سے جانے کو کہیں یا کوئی اور حکم دیں۔ لقمہ چبانے اور نگلنے کے بعدہڈی کو اپنے ہاتھ میں اٹھا کر ایک آنکھ بند کر کے وہ اس کی درمیانی سوراخ میں جھانکنے لگیں۔ پھر وہ اچانک میری طرف مڑیں ، ان کے چہرے پر غصے کے آثار تھے۔
’’تمھاری آنکھیں سرخ ہیں…تم بہت کمزور ہو گئے ہو… تمھاری بھوک بھی کم ہو گئی ہے۔ ‘‘
انھوں نے یہ الفاظ جس لہجے میں ادا کیے … میں دل ہی دل میں بہت خوش ہوا کہ اس میں میری کوئی غلطی نہیں تھی… ان میں سے ایک کے لیے بھی میںخود ذمہ دار نہیں تھا۔ باقی سب لوگ متجسس نگاہوں سے مجھے دیکھ رہے تھے کہ پتا نہیں اب آگے کیا ہوگا۔
ماما نے پھر ہڈی کی درمیانی سوراخ میں جھانکا۔ پھر اپنی آنکھیں بند کر کے اسے چوسنے لگیں۔ دفعتاًانھوں نے رک کر میری طرف دیکھا اور بولیں ’’کل تمھیں جلاب لینا ہے۔ ‘‘
دوسروں نے جیسے ہی یہ حکم سنا ،سب کے سب بڑی تیزی سے، زوردار آواز کے ساتھ کھانے لگے۔ ماما کو شاید کچھ اور نہیں کہنا تھا۔ میں باہر آنگن میں نکل آیا۔
گرمی بہت تیز تھی، سڑک پر کوئی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ پچھلی چہار دیواری کے پار بیٹھے تین بیلوں نے میری طرف دیکھا۔ شاید وہ انتظامیہ کے ذریعہ بنائے گئے پانی کے حوض سے نکل کر آئے تھے اور سایے میں آرام کر رہے تھے۔ بیلوں کی سینگوں کے اوپر بہت دور ،خار دار جھاڑیوں کے جھنڈ ہوا میں شعلوں کی طرح کپکپا رہے تھے۔ دوری پر موجود ہر چیز کانپ رہی تھی… یہاں تک کہ سڑک پر موجود پتھروں سے بھی حرارت کی لہریں خارج ہوتی محسوس ہو رہی تھیں۔ مکان کے سایے میں سارٹیناتنکوں کی بنی چٹائی پر بیٹھی اپنا کھانا کھا رہی تھی۔ آس پاس نگاہیں دوڑاتی ہوئی وہ دھیرے دھیرے چبا رہی تھی۔ وقفے وقفے سے وہ کھانے کے قریب پہنچ جانے والی مرغیوں کو بھگا بھی رہی تھی۔ اس کے باوجود اکثر کوئی نہ کوئی بہادر مرغی پلیٹ کے کنارے پر جھپٹا مار کر اسکی پلیٹ سے میلی میل(مکئی کے موٹے آتے سے بنی ایک افریقی ڈش) کا تھوڑا حصہ اپنی چونچ میں لے بھاگتی لیکن پھر ان مرغیوں کے آپسی جھگڑے میں وہ ٹکڑے ٹکڑے ہوکر اتنے ننھے ذرات میں بکھر جاتا کہ پھر چھوٹے چوزوں کے لیے بھی اسے اپنی چونچ میں اٹھانا،نا ممکن ہو جاتا۔
جیسے ہی مجھے آتے دیکھا،اس نے فوراًاپنا کپولانا(افریقی عورتوں کا لنگی جیسا لباس) اپنی ٹانگوں پر نیچے تک کھینچ لیا۔ یہی نہیں اس نے اوپر سے اپنے ہاتھ کو بھی گھٹنوں پر پھیلا لیا جیسے اسے یقین ہو کہ میں جھانک کر کچھ دیکھنے والا ہوں۔ میں نے اپنی نگاہیں دوسری طرف پھیر لیں ،پھر بھی اس نے اپنے ہاتھ کو نہیں ہٹایا۔
ٹوٹواپنی زبان نکالے،دھیرے دھیرے چلتا ہوا سارٹینا کے پاس پہنچ گیا۔ اس نے تھوڑی دوری سے پلیٹ کو سونگھا۔ پھر مڑ کردیوار کے سایے کی طرف چلا گیا اور اپنے لیے ایک آرام دہ جگہ ڈھونڈ کر لیٹ گیا۔ وہ سمٹ کر گول ہوگیا اوریہاں تک کہ اس کی ناک اس کی دم سے جا لگی، اس نے ایک لمبی جماہی لی۔ سر کو دونوں پنجوں کے درمیان رکھ کر جسم کو ہلکا سا بل دیا اور یہ محسوس کر کے کہ وہ انتہائی آرام دہ حالت میں ہے، اپنے کانوں کو پیروں سے بند کر کے سو گیا۔
کھانا ختم کرنے کے بعد اپنا ہاتھ گھٹنوں کے درمیان سے ہٹانے سے قبل اس نے میری طرف دیکھا اور جیسے ہی اسے اس بات کا یقین ہوا کہ میں اس کی طرف نہیں دیکھ رہاہوں، وہ تیزی سے اچھل کر اپنے پیروں پر کھڑی ہو گئی۔ اس کی پلیٹ اتنی صاف تھی کہ چمک رہی تھی۔ ایک مشکوک نظرمجھ پر ڈالتے ہوئے اس نے اسے حوض میں ڈال دیا۔ وہ بے دلی سے چل رہی تھی اور اس کے کپولانا میں اس کے کولھے اوپر نیچے حرکت کر رہے تھے۔ وہ حوض پر جھک گئی،پیچھے سے اس کی پنڈلیوں کے عریاںحصے مجھے نظر آرہے تھے۔ جیسے ہی اسے اس بات کا احساس ہواوہ فوراً حوض کی دوسری طرف چلی گئی تاکہ میری نظروں سے محفوظ ہو جائے۔
ماما کچن کے دروازے میں دکھائی دیں۔ ہڈی ابھی تک ان کے ہاتھ میں تھی۔ ٹیبل صاف کرنے کے لیے سارٹینا کو آواز دینے سے قبل انھوںنے اپنی متجسس نگاہیں چاروں طرف دوڑائیںکہ سب کچھ اپنی جگہ پر ٹھیک ٹھاک ہے یا نہیں۔
’’ٹوٹو کو کھانا دینا مت بھول جانا۔ ‘‘انھوں نے رونگا زبان میں کہا۔
سارٹینا اپنے ہاتھوں کو اپنے کپولانا میں پوچھتے ہوئے ،اندر چلی گئی… وہ واپس لوٹی تو اس کے ہاتھ میں ڈھیر ساری پلیٹیں تھیں۔ دوسری بار جب وہ باہر آئی، اس کے ہاتھ میں ٹیبل کلاتھ تھا جسے وہ سیڑھییوں کے قریب جھاڑنے لگی۔ مرغیاں کھانے کے ٹکڑوں کے لیے آپس میں جھگڑنے لگیں۔ وہ ٹیبل کلاتھ کو دو، چار اور پھر آٹھ تہوں میں موڑ کر واپس اندر لے گئی۔ جب وہ دوبارا واپس آئی، اس کے ہاتھ میں المونیم کی پلیٹ تھی، جس میں ٹوٹو کا کھانا تھا، جسے اس نے پانی کے میٹر کے اوپر بنے سیمنٹ کے ڈھکن کے اوپر رکھ دیا۔ ٹوٹو کو کھانے کے لیے آواز دینے کی ضرورت نہ تھی ،پلیٹ رکھتے ہی وہ کھانے پر ٹوٹ پڑا۔ اس نے اپنی ناک چاولوں کے اندر گھسا دی اور گوشت کے ننھے ننھے ٹکرے تلاش کر نے لگا۔ جیسے ہی کوئی ٹکر ا ،اسے ملتا وہ فوراً کھا جا تا۔ تمام گوشت ختم ہوگیا تو اس نے ہڈیوں کو ایک طرف کیا اور چاولوں کو کھانے لگا۔ مرغیاں اس کے چاروں طرف موجود تھیں، لیکن وہ قریب آنے کی ہمت نہیں کر پارہی تھیں، کیوں کہ انھیں پتا تھا کہ ٹوٹو کو کھاتے وقت ان کی مداخلت بالکل پسند نہیں۔
جب وہ جی بھر کے چاول نگل چکا تو جاکر گنے کے پودوں کی چھائوں میں جا بیٹھا، جیسے اسے اور کھانے کی حاجت نہ ہو، اور انتظار کر نے لگا کہ مرغیاں کیاکرتی ہیں۔ وہ خوفزدہ انداز میں پلیٹ کی طرف بڑھیں اور ڈرتے ڈرتے ایک دو چونچیں ماریں۔ ٹوٹوکوئی بھی حرکت کیے بغیر بالکل خاموش پڑا،انھیں دیکھتا رہا۔ کتے کی لاپروائی سے مرغیوں کی ہمت بڑھی اور وہ بڑے جوش و خروش سے پلیٹ کے گرد جمع ہوگئیں،اوربے تحاشہ شور غل مچاتے ہوئے چونچیں مارنے لگیں۔ اچانک ٹوٹو اچھل کرکھڑا ہو گیااور اپنے چاروں پیروں کوتیزی سے حرکت دیتے ہوئے شیر کی طرح غرانے لگا۔ مرغیاں ڈر کر جدھر سینگ سمائے بھاگ نکلیں۔ ٹوٹو پھر سے چھائوں میں جاکر بیٹھ گیا اور مرغیوں کے واپس آکر جمع ہونے کا انتظار کر نے لگا۔
n
کام پر جانے سے قبل پاپا، ماما کے ساتھ مرغیوں کے باڑے کا معائنہ کرنے کے لیے گئے۔ دونوں کچن کے دروازے سے باہر نکلے۔ ماما اپنا ایپرن پہنے ہوئے تھیں اور پاپا منھ میں ٹوتھ پِک اور بغل میں آج کا اخبار دبائے ہوئے تھے۔ جب وہ میرے قریب سے گزرے ، پاپا کہہ رہے تھے ’’ناممکن… ایک دم نا ممکن… چیزیں اس طرح غائب نہیں ہو سکتیں۔ ‘‘
میں ان کے پیچھے پیچھے گیا اور جیسے ہی ہم مرغیوں کے باڑے میں داخل ہوئے ،ماما میری طرف گھومیں، جیسے وہ مجھ سے کچھ کہنا چاہتی ہوں ،لیکن پھر انھوں نے اپنا ارادہ بدل دیا اور تار کی جالی کی طرف بڑھ گئیں۔ مرغیوں کے باڑے کی دوسری طرف ڈھیر سارا کاٹھ کباڑ پڑا ہوا تھا۔ کھیتوں میں پون چکی کی تعمیر سے بچنے والے پائپ ، کنکریٹ کے بلاک، جو پا پا نے آئوٹ ہاؤز کی تعمیر کے لیے خریدی تھیں، سیمنٹ، بکس، لکڑیاں اور نہ جانے کیا کیا وہاں جمع تھا۔ مرغیاں عموماً ان کے اندر جاکر انڈے دے دیا کرتی تھیں جو ماما کی پہنچ سے باہر ہوتے تھے۔ باڑے کی ایک جانب ایک مرغی مری پڑی تھی۔ ماما نے اس کی طرف اشارہ کیا اور پرتگالی زبان میںبولیں ’’اب یہ ایک ادھر ہے…مجھے نہیں پتا ادھر چند دنوں میں کتنی مرغیاں مریں ہیں … چوزے اور انڈے تو غائب ہی ہوجاتے ہیں… اسے میں نے تمھیں دکھانے کے لیے یہاں چھوڑ دیا تھا …میں تمھیں بول بول کر تھک گئی ہوں … لیکن تم ہو کہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہو۔ ‘‘
’’ٹھیک ٹھیک ہے …لیکن تم مجھ سے کیا چاہتی ہو؟ ‘‘
’’دیکھو مرغیاں اچانک مر رہی ہیں۔ چوزے اور انڈے غائب ہو جاتے ہیں… رات میں کوئی بھی مرغی کے باڑے میں نہیں جاتا…اور ہم نے کبھی کسی طرح کی آوازیں بھی نہیں سنیں…تم پتا لگائو کہ مرغیاں اور چوزے کیوں مر رہے ہیں؟‘‘
’’تمھارا کیا خیال ہے؟…‘‘
’’مرغیوں پر دانتوں کے نشان ہوتے ہیں اور چوزے کھا لیے جاتے ہیں … تم سمجھ سکتے ہو، یہ کام صرف ایک ہی جانور کر سکتا ہے…کیوں؟… یا کوئی اور خیال تمھارے دماغ میں ہے؟‘‘
’’ٹھیک ہے میں کل ہی سانپ کو ختم کرنے کا انتظام کرتا ہوں…کل اتوار ہے اور اس کام میں مدد کرنے کے لیے ہمیں لوگ مل جائیں گے… کل…۔ ‘‘
پاپا مرغیوں کے باڑے سے باہر نکل ہی رہے تھے کہ ماما نے کہا ’’لیکن کل ضرور… میں نہیں چاہتی کہ میرا کوئی بچہ سانپ کا شکار بنے۔ ‘‘
پاپا کام پر جانے کے لیے نکل کر مکان کے کونے تک پہنچ چکے تھے۔ تبھی ماما مجھ سے مخاطب ہوئیں ’’کیا یہ بات تمھیں کبھی نہیں سکھائی گئی کہ جب تمھاری ماما اور پاپا ضروری باتیں کررہے ہوں تو وہاں رک کر ان کی باتیں نہیں سننی چاہییں۔ میرے بچے اتنے بد تمیز تو نہیں ہوسکتے…۔ ‘‘
پھر وہ سارٹینا کی طرف مڑ یں جو تارکی جالی سے لگی کھڑی ہماری باتیں سن رہی تھی۔ ’’ تم یہاں کیوں ہو؟ کیا کسی نے تمھیں بلایا؟…میں اپنے بیٹے سے بات کر رہی ہوں اور تمھاری یہاں کوئی ضرورت نہیں۔ ‘‘
سارٹینا کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا، کیوں کہ وہ پرتگالی اچھی طرح نہیںسمجھ پاتی تھی، لیکن وہ شرمندہ سی ہوکر وہاں سے تیزی سے حوض کی طرف چلی گئی۔ ماما پھر میری طرف متوجہ ہو گئیں۔ ’’اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ تم مجھے بیوقوف بنادوگے اور بندوق لے کر شکار پر جاسکوگے تو یہ تمھاری بہت بڑی بھول ہے… اگر تم نے ایسا کرنے کی کوشش بھی کی تو میں تمھیں مار مار کر ٹھیک کر دوں گی… اور اگر تم سمجھتے ہو کہ تم مرغیوں کے اس باڑے میں رہوگے تو بھی غلط سوچ رہے ہو…میں تمھاری کوئی غلطی برداشت نہیںکرنے والی … کیا تم سن رہے ہو؟ ‘‘
ماما آج بے حد غصے میں تھیں، کیوں کہ میں نے سارے دن انھیں ہنستے ہوئے نہیں دیکھا ، جیسا کہ وہ عموماً کرتی تھیں۔ مجھ سے باتیں کرنے کے بعد وہ مرغیوں کے باڑے سے باہر نکل آئیں، میں بھی ان کے پیچھے تھا۔ جب وہ سارٹینا کے قریب سے گزریں تو اس سے رونگا زبان میں بولیں ’’کیا تمھارے کپولانا کے اندر بہت گرمی لگ رہی ہے؟کس نے تمھیں یہاں آکر سب کو اپنی ٹانگیں دکھانے کے لیے کہاتھا؟‘‘
سارٹینا نے کوئی جواب نہیں دیا اور حوض کے گرد گھوم کر دوسری جانب چلی گئی اورجھک کر برتن دھونے لگی۔
ماما چلی گئیں اور میں پہلے جہاں بیٹھا تھا، وہیںجا بیٹھا۔ سارٹینا نے میری طرف غصیلی نظر سے دیکھا اور اس نے اپنایک سُراگیت گانا شروع کر دیا۔ یہ انھی گیتوں میں سے ایک تھا جسے و ہ غصے کی حالت میں کبھی کبھی پورے سہ پہر گایا کرتی تھی۔
n
ٹوٹو مرغیوں کے ساتھ کھیل کھیل کر بور ہو چکا تھا۔ اس دوران وہ اپنے چاولوں کو کھا کر ختم کر چکا تھااور اپنے اگلے پیروں کے پنجوں سے کانوں کو ڈھکے سو رہا تھا۔ کبھی کبھی وہ زمین میں لوٹتا اور پیٹھ کے بل سو کر اپنے مڑے ہوئے پیروں کو ہوا میں اٹھائے رکھتا۔
گرمی بہت تھی اور میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میں شکار کے لیے جائوں جیسا کہ میں ہر سنیچر کو کیا کرتا تھا یا مرغیوں کے باڑے میں جا کر سانپ کو دیکھوں۔
مڈونانا اپنی پشت پر جلاون کی لکڑیا ں لیے آیا اور انھیں رکھنے کے لیے اسی سمت گیاجہاں سارٹینا بیٹھی برتن دھو رہی تھی۔ سارٹینا نے اسے دیکھا تو گانا بند کردیا اور ہونٹوں پر بھدی سی مسکراہٹ بکھیرنے کی کوشش میں مشغول ہو گئی۔
چاروں طرف دیکھتے ہوئے مڈونانا نے اس کے کولہے پر ایک چٹکی لی جس کے جواب میں اس نے شرمیلی ہنسی کے ساتھ اس کے بازو پر ہولے سے ایک طمانچہ مارا اور دونوں ہنس پڑے۔
ٹھیک اسی وقت ننڈیٹو، زوزنہو، نیلیلا اور گیٹا ایک گیند لیے ہوئے وہاں آئے اور کھیلنے لگے۔
ماما کچن کے دروازے سے وارد ہوئیں ، وہ کپڑے پہن کرشاید کہیں باہر جانے کو تیار تھیں۔ جیسے ہی وہ آئیں مڈونانا فوراً زمین پر جھک گیا ،جیسے وہ وہاں کچھ دیکھنے کی کوشش کر رہا ہو اور سارٹینا جلدی سے حوض پر جھک گئی۔
’’سارٹینا، خیال رکھنا کہ ایک بھی پلیٹ نہ ٹوٹے … جلدی کرو… اور تم مڈونانا …سارٹینا کو اس کا کام کر نے دو اور اپنا کام دیکھو… میں اپنے گھر میں اس قسم کی بد تمیزیاں برداشت نہیں کر سکتی… اگر تم آئندہ ایسا کرو گے،تو میں تمھارے مالک سے شکایت کروں گی۔ ‘‘
’’اورتم … گِنہو…۔ ‘‘ وہ میری طرف مخاطب ہو کر پرتگالی زبان میں بولیں ’’گھر کا خیال رکھنا… یہ یاد رکھنا کہ تم اب بچے نہیں رہے…کسی کو مارنا نہیں اور بچوں کو آنگن کے باہر مت جانے دینا۔ ٹینا اور لولوٹا اندر صفائی کر رہی ہیں …خیال رکھنا کہ وہ اپنا کام ٹھیک ڈھنگ سے انجام دیں۔ ‘‘
’سارٹینا‘(رونگا زبان میں )’’یہ کام ختم کرنے کے بعد بچوں کی چائے کے لیے کیتلی چولہے پر رکھ دینا اور مڈونانا سے کہو کہ وہ جاکر بریڈ خرید لائے… دیکھنا کہیں بچے مکھن کا پورا پیکٹ نہ ختم کر دیں۔ ‘‘
’گِنہو‘ (پرتگالی زبان میں )’’ہر چیز کا خیال رکھنا… میں ابھی تھوڑی دیر میں آجائوں گی۔ میں آنٹی لوسیا کے پاس تھوڑی گپ شپ کے لیے جارہی ہوں۔ ‘‘
ماما نے اپنا لباس ٹھیک کیا اور آس پاس ایک نظر دوڑائی کہ سب کچھ ٹھیک ہے یا نہیں… اور پھر وہ چلی گئیں۔
سینہور کاسٹرو کا کتا ، اولف، گلی سے ٹوٹو کو دیکھ رہا تھا۔ جیسے ہی ٹوٹو نے اسے دیکھا وہ بھی دوڑ کر اس کی طرف گیا اور دونوں ایک دوسرے پر بھونکنے لگے۔
گائوں کے سارے کتے ٹوٹو سے ڈرتے تھے۔ یہاں تک کہ ان میں سب سے بڑا کتا بھی ٹوٹوکو دیکھ کر بھاگ جاتا تھا ،جب ٹوٹو غصے میں ہوتا تھا ،اور یہی دیکھ کر شاید دوسرے کتے زیادہ مرعوب تھے۔
وہ عام طور سے ان سے دور رہتا تھا اور مرغیوں کے ساتھ کھیلنا زیادہ پسند کرتا تھا… یہاں تک کہ کتیوں کو بھی وہ کبھی کبھار ہی منھ لگا تھا۔ میرے لیے تو وہ ایک’خاندانی‘ کتا تھا۔ اس کے اندر ایک حاکمانہ انداز تھا، اور وہ صرف اور صرف ماما سے ڈرتا تھا ، حالاں کہ انھوں نے اسے کبھی مارا نہیں تھا۔ کبھی کبھی اسے ایک کرسی سے اتارنے کے لیے ماما کو بلانا پڑتاتھا۔ ہمیں تو وہ اپنے دانت دکھاتا تھا۔ یہاں تک کہ پاپا کو بھی۔
دونوں کتے آمنے سامنے تھے اور اولف اب ڈر کر پیچھے ہٹنے لگا تھا۔ اسی لمحے ڈاکٹر ریس کا کتا ’کِس‘ وہاں سے گزرا ،اورٹوٹو اس پر بھی بھونکنے لگا۔ کِس بھاگ کھڑا ہوا اور اولف اس کے پیچھے دوڑا۔ وہ اس کے جسم کے پچھلے حصے پر کاٹ رہا تھا۔ اس نے اس کاپیچھا تبھی چھوڑا جب وہ درد سے چیخنے لگا۔ جب اولف واپس آیا تو وہ اچانک دوست بن گئے اور کھیلنے لگے۔
n
ننڈیٹو میرے پاس آکر بیٹھ گیا اور میرے کچھ پوچھنے سے پہلے اس نے بتا یا کہ وہ گیند سے بور ہو چکا ہے۔
’’لیکن تم یہاں کیوں آئے ہو؟‘‘
’’کیا تم نہیں چاہتے کہ میں تمھارے ساتھ رہوں؟‘‘
’’میں نے ایسا تو نہیں کہا۔ ‘‘
’’تب میں یہاں رکوں گا۔ ‘‘
’’ٹھیک ہے… اگر تم چاہتے ہو …۔ ‘‘
میں اٹھ کھڑا ہوا ، وہ میرے پیچھے تھا ’’تم کہاں جارہے ہو؟…کیا تم شکار پر جارہے ہو؟‘‘
’’نہیں۔ ‘‘
’’تب پھر۔ ‘‘
’’مجھے تنگ کرنا بند کرو …میں بچوں سے بات کرنا پسند نہیں کرتا۔ ‘‘
’’تم بھی بچے ہو… ماما تہیں ابھی بھی مارتی ہے۔ ‘‘
’’پھر سے یہ بات کہی تو میں مار کر تمھارا منھ توڑ دوں گا۔ ‘‘
’’ٹھیک ہے …میں اب نہیں کہوں گا۔ ‘‘
میں مرغیوں کے باڑے میں داخل ہوا۔ وہ بھی میرے پیچھے تھا۔ پائپ گرم تھے اور مجھے ایک کپڑے کی مدد سے انھیں ہٹانا پڑرہاتھا۔ نتیجے میں اڑنے والی دھول بہت گھنی تھی جس میں دم گھٹ رہا تھا۔
’’تم کیا ڈھونڈ رہے ہو؟…کیا میں تمھاری مدد کروں؟‘‘
میں کنکریٹ کے بلاک ایک ایک کر کے ہٹانے لگا، ننڈیٹو بھی وہی کر رہا تھا۔
’’تم دور،رہو۔ ‘‘میں نے ڈانٹا۔
وہ باڑے کی دوسری طرف چلا گیا اور رونے لگا۔
جب میں نے آخری بلاک ہٹایا تو میں نے سانپ کو دیکھا۔ وہ ایک انتہائی سیاہ ممبا سانپ تھا(افریقہ کا سب سے زہریلاسانپ)۔ اسے جب یہ احساس ہو گیا کہ اسے دیکھ لیا گیا ہے تو اس نے کنڈلی مار کر اپنا مثلث نما پھن پھیلا لیا۔ اس کی چوکنّی آنکھیں چمک رہی تھیں اور سیاہ دو شاخہ زبان بار بار باہر نکل رہی تھی۔
میں پیچھے ہٹ کر احاطے کے پاس آگیا اور زمین پر بیٹھ گیا۔ ’’ننڈیٹو روئو مت۔ ‘‘
’’تم بہت خراب ہو…تم میرے ساتھ کھیلنا نہیں چاہتے۔ ‘‘
’’اچھا روئو مت… میں تمھارے ساتھ کھیلوں گا …روئو مت۔ ‘‘
ہم دونوں خاموش بیٹھے تھے۔ سانپ نے اپنا پھن دھیرے دھیرے نیچے کر کے اپنی کنڈلی پر رکھ لیا تھا۔ اس کے جسم کی کپکپاہٹ بند ہو گئی تھی،لیکن وہ اب بھی چوکنّی آنکھوں سے مجھے ہی گھور رہا تھا۔
’’ننڈیٹو…کچھ بولو … مجھ سے باتیں کرو۔ ‘‘
’’کیا باتیں کروں؟ ‘‘
’’جو تمھیں پسند ہوں۔ ‘‘
’’میرا دل بات کرنے کو نہیں چاہتا۔ ‘‘
ننڈیٹو ابھی تک اپنی آنکھیں مل رہا تھا اور مجھ سے غصہ تھا۔ ‘‘
’’کیا تم نے کبھی سانپ دیکھا ہے؟… کیا تم سانپوں کو پسند کرتے ہو؟… کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟… جواب دو۔ ‘‘
’’کہاں ہیںسانپ ؟‘‘ننڈیٹو خوف سے اچھل کر کھڑا ہو گیا اور چاروں طرف دیکھنے لگا۔
’’جھاڑیوں میں… بیٹھو اور باتیں کرو۔ ‘‘
’’یہاں تو کوئی سانپ نہیں ؟‘‘
’’نہیں …باتیں کرو … مجھ سے سانپوں کی باتیں کرو۔ ‘‘
ننڈیٹو مجھ سے چپک کر بیٹھ گیا۔
’’مجھے سانپوں سے بہت ڈر لگتا ہے۔ ماما کہتی ہیں کہ جھاڑیوں میں نہیں جانا چاہیے کیوں کہ ان میں سانپ ہوتے ہیں۔ گھاس چلتے ہوئے اگر ہمارا پیر غلطی سے ان پر پڑ جاتا ہے تو وہ کاٹ لیتے ہیں۔ اور جب سانپ کاٹتا ہے تو آدمی مر جاتا ہے۔ سارٹینا کہتی ہے کہ اگر سانپ کاٹ لے اور ہم مرنا نہ چاہیں تو ہمیں چاہیے کہ سانپ کو مارڈالیں ، اسے آگ میں اچھی طرح بھون لیں اور کھا جائیں۔ وہ ایک سانپ کھا چکی ہے اس لیے اب اسے سانپ کاٹ بھی لے تو وہ نہیں مرے گی۔ ‘‘
’’کیا تم نے کبھی سانپ دیکھا ہے؟‘‘
’’ہاں!…چیکو کے گھر میں … اس کے نوکر نے اسے مرغیوں کے باڑے میں مار ڈالا تھا۔ ‘‘
’’کیسا تھا؟‘‘
’’بڑا ،اور لال رنگ کا … اس کا منھ مینڈک جیسا تھا۔ ‘‘
’’کیا تم ابھی ایک سانپ دیکھنا چاہوگے؟‘‘
ننڈیٹو خوفزدہ انداز میں مجھ سے لگ کرکھڑا ہو گیا۔ ’’ کیا مرغیوں کے باڑے میں کوئی سانپ ہے؟مجھے ڈر لگ رہا ہے… مجھے باہر جانا ہے…۔ ‘‘
’’اگر تم باہر جانا چاہتے ہو تو ضرور جائو…میں نے تمھیں بلایا تو نہیں تھا۔ ‘‘
’’میں اکیلے باہر نہیں جائوں گا… مجھے ڈر لگ رہا ہے۔ ‘‘
’’تو پھر بیٹھواور میرے جانے کا انتظار کرو…۔ ‘‘
چند لمحے ہم دونوں بالکل خاموش رہے۔
ٹوٹو اور اولف باڑے کے باہر کھیل رہے تھے۔ وہ ایک کھمبے سے دوسرے کھمبے تک دوڑ رہے تھے۔ ہر کھمبے کے پاس جاکر وہ اس کا ایک چکر لگاتے اور اپنی ایک ٹانگ اٹھا کر پیشاب کرتے۔
اچانک وہ باڑے کے اندر چلے آئے اور اپنے پیٹوں کے بل لیٹ کر آرام کرنے لگے۔ اچانک اولف نے سانپ کو دیکھااور بھونکنے لگا۔ ٹوٹو بھی اس کی دیکھا دیکھی بھونکنے لگاحالاں کہ اس کی پشت اولف کی طرف تھی۔
’’بھائی…کیا مرغیوں کے باڑے میں ہمیشہ سانپ رہتے ہیں؟‘‘
’’نہیں تو…۔ ‘‘
’’کیا یہاں ایک سانپ ہے؟‘‘
’’ہاں۔ ‘‘
’’تو پھرہم لوگ باہر کیوں نہیں جا رہے ہیں؟… مجھے ڈر لگ رہا ہے۔ ‘‘
’’اگر تم جانا چاہو ، جاسکتے ہو… جائو۔ ‘‘
اولف سانپ کی جانب بڑھا۔ اب وہ بڑی تیزی میں بھونک رہا تھا۔ ٹوٹو نے اپنا سر گھمایا لیکن ابھی تک اسے پتا نہیں تھا کہ بات کیا ہے۔ ‘‘
اولف کی ٹانگیں کپکپا رہی تھیں اور وہ غصے میں زمین پر پیر مار، رہا تھا۔ بار بار وہ میری طرف عجیب سی نظروں سے دیکھ رہا تھا ،شاید وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ میں اس کی چیخوں کو سن کر بھی کچھ کر کیوں نہیں رہا ہوں۔ اس کی آنکھیں ، باکل انسانوں کی طرح، خوف سے پھیلی ہوئی تھیں۔
’’یہ اس طرح کیوں بھونک رہا ہے؟ ‘‘
’’کیوں کہ اس نے سانپ کو دیکھ لیا ہے۔ ‘‘
ممبا بلاکوں کی درمیانی جگہ میں سمٹا ہوا تھا اب اس نے کنڈلی کو تھوڑا ساکھول کر اپنے جسم کو پھیلا لیا تھاتاکہ جسم کو زمین کا بہتر سہارا مل سکے،لیکن اس کے سر اور گردن پر باقی جسم کی حرکت کا کوئی اثر نہیں پڑاتھا اور وہ اب بھی اوپر اٹھے ہوئے تھے۔ اس کی آنکھوں میں آگ نظر آرہی تھی۔ اولف کے بھونکنے میں اب زیادہ تیزی آ گئی تھی۔ اس کی گردن کے بال کھڑے ہو گئے تھے۔
سارٹینا، لولوٹااور مڈونانا باڑے کی جالی کے قریب کھڑے پر تجسس انداز میں اندر جھانک رہے تھے۔
’’تم سانپ کو مار کیوں نہیں ڈالتے؟‘‘ نندیٹو نے بے حد خوفزدہ آواز میں کہا، وہ میری گردن میں بانھیں ڈالے مجھے جکڑے ہوے تھا۔
’’کیوں کہ میں ضروری نہیں سمجھتا۔ ‘‘
کتے اور سانپ کے درمیان تقریباً پانچ فٹ کا فاصلہ تھا۔ سانپ نے اپنی دم ایک بلاک اور زمین کے درمیان کی جگہ پھنسائی اور اوپر اٹھنے لگا۔ اس کے جسم کے پیچ ایک ایک کرکے کھلتے چلے گئے … وہ حملے کے لیے تیار تھا۔ اس کامثلث نما سر تھوڑا سا پیچھے کو جھکا۔ پھراٹھی ہوئی گردن کا اگلا حصہ آگے کی طرف بڑھا۔ کتے کو شاید حالات کی نزاکت کا احساس ہو گیا تھا اس لیے وہ اور تیزی میں بھونکنے لگا،لیکن وہ بھی پیچھے نہیں ہٹ رہا تھا۔ اس کے تھوڑے پیچھے کھڑے ٹوٹونے بھی اس کے ساتھ ساتھ بھونکنا شروع کر دیا تھا۔
ایک سیکنڈ کے چھوٹے سے حصے میں ،اچانک سانپ کی گردن تھوڑی سی مڑ ی اور اس کا سر پیچھے کی طرف جھکا۔ ایسا لگا جیسے اس کے سر کو زمین سے باندھے رکھنے والی کوئی ان دیکھی ڈور ٹوٹ گئی ہو… انتہائی برق رفتاری کے ساتھ اس کا سر آگے کو بڑھا… حالاں کہ کتے نے اپنے جسم کو بکری کی طرح دو ٹانگوں پر اٹھا لیا تھا…سانپ نے اس کے سینے پر پوری طاقت سے کاٹا۔ کنڈلی کی آخری پیچ کے کھلتے ہی اس کی دم ہوا میں برق رفتاری سے لہرائی۔
اولف دبی دبی غراہٹ کے ساتھ ،پشت کے بل زمین پر گر پڑا۔ اس کے پیر بری طرح ہل رہے تھے۔ ممبا تیزی کے ساتھ واپس ہوا ،اور پائپوں کے درمیان کہیں غائب ہو گیا۔
’نہوکا ‘(سانپ) ،سارٹینا چلائی۔
ننڈیٹو نے مجھے ایک طرف دھکیلا اور بے تحاشہ دوڑتا ہوا باڑے سے باہر چلا گیا اور مڈونانا کی بانھوں میں جاکر سمٹ گیا۔ جیسے ہی اولف نے محسوس کیا کہ سانپ غائب ہو گیا ہے ، اولف نے دس بارہ بڑی چھلانگیں لگائیں اور سینہور کاسٹرو کے مکان کی جانب جاکر غائب ہوگیا۔
بچے یہ سمجھے بغیر کہ ہوا کیا ہے…چیخ چیخ کررونے لگے۔ سارٹینا ننڈیٹو کو اپنے بازوئوں میں اٹھا کر گھر کے اندر لے گئی۔ جب بچے سارٹینا کے پیچھے چلے گئے تو میں نے مڈونانا کو کہاکہ وہ سانپ کو مارنے میں میری مدد کرے۔
مڈونانا ایک کپڑے کو اوپر اٹھائے منتظر تھا جب کہ میں ایک جھاڑو کے ڈنڈے سے پائپوں کو ہٹا رہا تھا۔ جیسے ہی سانپ سامنے آیا مڈونانا نے اس پر کپڑا پھینک دیا اور میں نے جھاڑو کے ڈنڈے سے اسے پیٹ پیٹ کر اس کا بھرکس نکال دیا۔
n
جب پاپا کام سے واپس آئے ،ننڈیٹو کا خوف کم ہو چکا تھا لیکن وہ اب بھی رو ئے جا رہا تھا۔ ماما جنھوں نے اب تک سانپ کو نہیں دیکھا تھا ، پاپا کے ساتھ مرغیوں کے باڑے میں گئیں۔ جب میں وہاں پہنچا تودیکھا کہ پاپا سانپ کو ایک چھڑی کی مدد سے الٹ پلٹ رہے ہیں۔
’’میں یہ بات سوچنا بھی نہیں چاہتا کہ اس قسم کا سانپ میرے کسی بچے کو کیا نقصان پہنچا سکتا تھا۔ ‘‘پاپا مسکرائے ’’ یا کسی بھی دوسرے شخص کو …میں تو یہ سوچ رہا ہوں کہ اس سانپ کا یہ چھ فٹ کا جسم میری مرغیاں کھا کھا کر بنا ہے۔ ‘‘
اسی لمحے سینہور کاسٹرو کی گاڑی ہمارے مکان کے سامنے رکی۔ پاپا اس کی طرف بڑھ گئے اور ماما سارٹینا سے باتیں کرنے کے لیے اس کی طرف چلی گئیں۔ میں پاپا کے پیچھے گیا۔
’’گڈ آفٹر نون ، سینہور کاسٹرو…۔ ‘‘
’’سنو چیمبین… مجھے ابھی ابھی پتا چلا ہے کہ میرا کتا مر گیا ہے…اس کے سینے پر ورم ہے۔ میرے گھر والوں کا کہنا ہے کہ مرنے سے قبل وہ تمھارے مکان سے چیختا ہوا برآمد ہوا تھا… میں بعد کا کوئی جھمیلا پسند نہیں کرتا… میں تم سے کہے دیتا ہوں … تم سیدھی طرح اس کا معاوضہ ادا کرو … ورنہ میں انتظامیہ میں اس بات کی شکایت کروں گا۔ وہ میرا، اب تک کا سب سے اچھا کتا تھا۔ ‘‘
’’دیکھیے میں ابھی ابھی کام سے واپس آیا ہوں… مجھے کچھ پتا نہیں۔ ‘‘
’’میں وہ سب کچھ نہیں جانتا… بحث مت کرو…تم معاوضہ ادا کر رہے ہو یا نہیں؟‘‘
’’لیکن سینہور کاسٹرو…۔ ‘‘
’’سینہور کاسٹروکو چھوڑو… تم معاوضے کی بات کرو… ۷۰۰ ؍پائوس… بہتر ہے کہ یہ معا ملہ گھر ہی میںحل ہو جائے۔ ‘‘
’’جیسا آپ چاہیں، سینہور کاسٹرو…لیکن ابھی میرے پاس اتنی رقم نہیں۔ ‘‘
’’ٹھیک ہے اس بارے میں ہم پھر بات کر لیں گے۔ میں اس مہینے کے آخر تک انتظار کروں گا اور اگر تم نے رقم ادا نہیں کی تو پھر سمجھ لینا۔ ‘‘
’’سینہور کاسٹرو… ہم لوگ ایک دوسرے کو عرصے سے جانتے ہیں اور ہمارے درمیان کبھی کوئی…۔ ‘‘
’’مجھ سے یہ سب کہنے کی ضرورت نہیں… مجھے پتا ہے تمھیں کیا چاہیے…تمھیں تو بس موقع چاہیے …۔ ‘‘
سینہور کاسٹرواپنی گاڑی میں بیٹھ کر وہاں سے چلا گیا۔ پاپا کار کو جاتے ہوئے دیکھتے رہے…’’کتیا کا بچہ…۔ ‘‘
میں ان کے قریب گیا اور ان کے کوٹ کا آستین ہلایا… ’’پاپا آپ نے یہ بات اس کے منھ پر کیوں نہیں کہی؟‘‘
انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
n
جب ہم رات کا کھانا ختم کر چکے تو پاپا نے کہا ’’ سارٹینا سے کہو کہ وہ جلدی سے میز صا ف کردے…میرے بچو !… ہمیں دعا کرنی چاہیے…آج ہم لوگ بائبل کی تلاوت نہیں کریں گے… آج ہم لوگ صرف دعا کریں گے۔ ‘‘
پاپا رونگا زبان میں باتیں کر رہے تھے… مجھے افسوس ہو رہا تھا کہ میں نے تھوڑی دیر قبل ان سے وہ سوال کیوں کیا تھا؟‘‘
جب سارٹینا نے پلیٹیں اٹھا لیں اور ٹیبل کلاتھ تہ کر لیا تو پاپا نے دعا شروع کی ، ’’ تتانا،ہاکوڈُمباہوسی یا ٹیلو میسا با…(مقدس باپ ! ہم تجھ پر ہی بھروسہ کرتے ہیں۔ اے آسمان و زمین کے مالک …)۔ ‘‘
جب انھوں نے دعا ختم کی تو ان کی آنکھیں سرخ تھیں۔
’’آمین ! ‘‘
’’آمین ! ‘‘
ماما کھڑی ہوگئیں۔ انھوں نے بڑے ہی بیزار لہجے میں پوچھا۔
’’لیکن یہ سینہور کاسٹرو آخر چاہتا کیا ہے؟‘‘
’’کوئی خاص بات نہیں۔ ‘‘
’’ ٹھیک ہے … کمرے میں آکر اس کے بارے میں بتائو… میں جاتی ہوں مجھے بچوں کی چیزیں ٹھیک کر نی ہیں…تم گِنہو!… کل سویرے اٹھنا اور جلاب لینا۔ ‘‘
جب سب لوگ چلے گئے تو میں نے پاپا سے پوچھا ’’ پاپا، جب آپ بہت غصے میں ہوتے ہیں تو ہمیشہ دعا کیوں کرتے ہیں؟‘‘
’’کیوں کہ وہ سب سے بڑا مددگارہے۔ ‘‘
’’اور اس نے آپ کو،کون سی راہ بتائی؟‘‘
’’وہ مجھے راستہ نہیں بتا تا… وہ مجھے اپنے موقف پر ڈٹے رہنے کی ہمت عطا کرتا ہے۔ ‘‘
’’پاپا، کیا آپ اس پر بہت زیادہ یقین کرتے ہیں؟‘‘
پاپا نے مجھے ایسی نظروں سے دیکھا جیسے وہ مجھے پہلی بار دیکھ رہے ہوں، اور پھر وہ غصے سے بولے۔ ’’میرے بچے، انسان کو امید قائم رکھنی چاہیے۔ جب ایک دن ختم ہو اور ہم جانتے ہوں کہ آنے والا دن بھی بالکل کل جیسا ہی ہوگا ،تمام حالات ویسے ہی رہیں گے،تو ہمیں اس ہمت کی ضرورت ہوتی ہے کہ ہم پھر بھی مسکرا سکیں اور یہ کہہ سکیں کہ ’’کوئی بات نہیں۔ ‘‘روزانہ کی اس بہادری کے لیے ہمیں اپنے لیے ایک انعام خود ہی مقرر کر لینا ہوگا۔ ہمیں اس انعام کے لیے ایک دن مقرر کرنا ہوگا ، بھلے ہی وہ دن ہماری موت ہی کاکیوں نہ ہو۔ آج تم نے دیکھا سینہور کاسٹرو نے کس طرح میری بے عزتی کی۔ یہ تو آج کے دن کا صرف ایک حصہ تھاجو تم نے دیکھا،آج بہت سی ایسی باتیں ہوئیں، جنھیں تم نے نہیں دیکھا… نہیں میرے بچے… ہمیں امید ہر حال میں قائم رکھنی ہے… ہر حال میں…اور…اگر ساری دنیا ’اسے‘ جھٹلائے ،پھر بھی ’وہ ‘ موجود رہے گا۔ ‘‘
پاپا اچانک خاموش ہوگئے اور مسکرانے کی کوشش کی… پھر بولے ’’ایک بے حد غریب آدمی کو بھی کچھ نہ کچھ تو چاہیے… خواہ وہ محض امید ہو… جھوٹی امید ہی سہی۔ ‘‘
’’ پاپا ! میں سینہور کاسٹرو کے کتے کو سانپ کے کاٹنے سے بچا سکتا تھا …۔ ‘‘
پاپا نے میری طرف شفقت بھری نگاہوں سے دیکھا اور نرمی سے بولے ’’کوئی بات نہیں … یہ اچھا ہی ہوا کہ سانپ نے اسے کاٹ لیا۔ ‘‘
ماما دروازے پر دکھائی دیں ’’ تم بچے کو سونے کے لیے جانے دوگے یا نہیں؟‘‘میں نے پاپا کی جانب دیکھا۔ ہم دونوں کے دل میں سینہور کاسٹرو کا خیال آیا اور ہم دونوں زور سے ہنس پڑے۔ ماما کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔
’’کیا تم دونوں پاگل ہو گئے ہو؟‘‘
’’ہاں!… ہم دونوں پاگل ہو گئے ہیں۔ ‘‘
پاپا اپنے کمرے کی طرف جا رہے تھے۔ میں نے ذرا تیز آواز میں ان سے کہا ’’پاپا …کبھی کبھی ۔۔۔۔پتا نہیں کیوں… مجھے نہیں معلوم کیوں …ایسا لگتا تھا جیسے میں آپ سے پیار نہیں کرتا… آئی ایم ساری…۔ ‘‘
ماما کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ہم کیا باتیں کر رہے ہیں۔ اس لیے وہ خفا ہو گئیں اور بولیں ’’بند کرو یہ بکواس…۔ ‘‘
’’تمھیں پتا ہے ،میرے بچے ‘‘ پاپا نے بھاری آواز میں کہا۔ وہ ہر لفظ کے ساتھ اپنے ہاتھوں کو حرکت دے رہے تھے ’’تم جانتے ہو… اندر کے خالی پن کو برداشت کرنا سب سے مشکل کام ہے…اور یہ انسان کو بہت دکھ دیتا ہے… بہت، بہت بہت دکھ…لیکن چیخنا بھی مشکل ہو تا ہے… تم سمجھ رہے ہو؟‘‘
’’پاپا… اورجب سینہور کاسٹروآئے گا؟‘‘
ماما دخل دینا چاہ رہی تھیں لیکن پاپا نے ان کا کندھا دبا دیا ’’ کو ئی بات نہیں،تم جانتی ہو ، ہمارے بیٹے کو پتا ہے کہ لوگ جنگلی گھوڑوں پر سواری نہیں کرتے بلکہ وہ بھوکے اور سدھے ہوئے گھوڑوں کو اپنے مقصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اور جب بھی کوئی گھوڑا بے قابو ہو جاتا ہے تو اسے گولی مار دی جاتی ہے، اور اس کی کہانی ختم ہو جاتی ہے…سدھائے ہوئے گھوڑے روزانہ مرتے ہیں۔ روزانہ… کیا تمھیں سنائی دیتا ہے؟… ہر دن…ہر ایک دن…جب تک وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکتے ہیں۔ ‘‘
ماما انھیں دیکھ رہی تھیں، ان کی آنکھیں حیرت سے پھیلی ہوئی تھیں۔
’’تم جانتی ہو… اس سچائی پر اعتبار کرنابہت مشکل ہے…لیکن میں یہ بھی نہیں چاہتا کہ میں اس سے یہ کہوں کہ یہ جھوٹ ہے… وہ اس سچائی کو دیکھتا ہے… آج بھی اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے… میں صرف یہ چاہتا ہوں کہ میرے بچوں میں وہ صلاحیت موجود ہو کہ وہ ان حالات کو سمجھ سکیں۔ ‘‘
پاپا اور ماما اپنے کمرے میںجا چکے تھے۔ اس لیے میں کچھ اور نہیں سن پایا، لیکن ماما نے وہیں سے چیخ کر کہا ’’ کل صبح تم جلاب لینا…اس سے تمھیں پتا چل جائے گا… میں تمھارے پاپا جیسی نہیں ہوں جو لوگوں کے سامنے نرم پڑ جاتے ہیں۔ ‘‘
n
بستر زرد چاندنی میں نہایا ہوا تھااور اپنی عریاں جلد پر چاندنی کا ٹھنڈا لمس بہت بھلا لگ رہا تھا۔ نہ جانے کیوں …اچانک سارٹینا کے وجود کی گرمی میرے احساس میں رینگ آئی … کئی منٹ تک میں اس کے خیالی وجود کو اپنی بانھوں میں سمیٹے رہا… میں اسے اپنے ساتھ لیے سو جانا چاہتا تھا، تاکہ کتے اور سانپ میرے خوابوں میں داخل نہ ہوسکیں۔
Original Story : Papa, Snake & I
By: B. L. Honwana (Mozambique)