کِشویلے اسٹریٹ کا نام اب اُوہُورُو اسٹریٹ ہو گیا تھا۔ میری دو نوں بہنیں اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد شادی کرکے اپنے اپنے گھروں کی ہو چکی تھیں۔ ماں اکثر انھیں یاد کر کے اداس ہوجایا کرتی تھی۔ مہرُن نے شادی کے کئی خواہش مندوں میں سے آ خر کار ہمارے اسکول کی کرکٹ ٹیم کے سابق سلامی بلّے باز کو چن لیاتھا اوراب وہ اس کے ساتھ اسی شہر میں رہتی تھی، جبکہ رضیہ دارالسّلام کے شمالی ساحلی قصبے ٹانگا کی ایک متمول خاتونِ خانہ تھی۔ میرے بھائی فیروز نے اپنے آخری تعلیمی سال میں اسکول کو خیرباد کہہ دیا تھا۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس کا اتنا پڑھ لینا ہی کچھ کم حیرت کی بات نہیں۔ اور اب وہ ’اورینٹل امپوریم‘ میں منشی تھا جہاں سے وہ کبھی کبھی اسٹیشنری کی چیزیں چرا کرگھر لے آ یا کرتا تھا۔
ماں نے اپنی ساری امیدیں ہم دونوں چھوٹے بیٹوںیعنی مجھ سے اور اَلو سے لگا رکھی تھیں۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ ہم اسٹور کے کاموں میں الجھ کر تعلیم سے اپنی توجہ ہٹائیں۔ اس لیے اس نے ایک شام آخری بار اسٹور کے مضبوط چوبی تختوں والے دروازوں پر نصف درجن تالے لگائے اور اسٹور فروخت کر دیا۔ یہ رضیہ کی شادی کے ٹھیک ایک ہفتے بعد کا واقعہ ہے۔ رضیہ پُر اشک آنکھوں کے ساتھ رخصت ہو چکی تھی اور اپنے پیچھے اُوہُورُو اسٹریٹ کے چکر کھاتے غبار کے درمیان کھڑی پریشان حال ماں کو چھوڑ گئی تھی۔
پھرہم لوگ اُپانگا کے رہائشی علاقے میں منتقل ہو گئے۔ اُوہُورُو اسٹریٹ کی ہما ہمی کے مقابلے یہاں کا ماحول بے حد پر سکون تھا۔ سڑک پر بسوں ، سائیکلوں اور کاروں کے شور کی بجائے ہم اب مینڈکوں کی ٹر ٹراہٹ اورجھینگروںکی آوازیں سنا کرتے تھے۔ راتیں ڈرائونی، سنسان اورویران ہوا کرتی تھیںجن کی عادت ڈالنے میںہمیںایک عرصہ لگا تھا۔ اوپانگا روڈ شام کے سات بجتے ہی سنسان ہو جایا کرتا تھا اوربغلی گلیاںتاریکی میں ڈوب جاتی تھیں، کیوں کہ روشنی کا کوئی انتظام نہ تھا۔ زیادہ تر علاقے اب تک غیر آباد تھے، اور جہاںتک مکانات بن چکے تھے، ان کے بعد کا پورا علاقہ گھنی جھاڑیوں ،دیوپیکر، ہیبت ناک’ باؤباب ‘کے درختوں، آموں اور ناریل کے جھنڈسے بھرا پڑا تھا۔
کبھی کبھی شام کوجب ماںبہت اداس ہوتی تو اَلو اور میں ماںکے ساتھ دو۔ تین۔ پانچ کھیلتے ، جو تاش کی، تین لوگوں کے درمیان کھیلی جانے والی ایک قسم ہے۔ میںاب یونیورسٹی میں داخل ہو چکا تھااور اکثر سنیچر ہی کوگھر آیا کرتا تھا۔ اَ لو اسکول میں اپنے آخری سال میں تھا۔ وہ پڑھائی میں بے حد تیز تھا… ہماری امیدوں سے کہیں زیادہ۔
اسی سال مسٹر داتو، ہمارے اسکول کے ایک سابق ٹیچر ،جو اسی اسکول کے طالب علم بھی رہ چکے تھے، امریکہ سے چند دنوں کے لیے لوٹے۔ مسٹر داتو طلبہ میں کافی مقبول تھے۔ وطن واپسی پر انھیں ایک زبر دست استقبالیہ دیا گیا۔ اس کے بعد کے چند دن انھوں نے کسی مقبول رہنما کی طرح پورے قصبے کا دورہ کیا۔ وہ جہاں جاتے، ان کے پیچھے ان کے مداح طلبہ کا ایک جم غفیر بھی ساتھ ہوتا۔ انھی میں سے ایک اَلو بھی تھا۔
اس پر جوش واقعے نے اَلو کے دل میں بھی امیدوں کے چراغ روشن کر دیے تھے کہ اسے بھی کسی امریکن یونیورسٹی میں نہ صرف داخلہ مل سکتا ہے بلکہ اسے جانے کے لیے اسکالر شپ بھی مل سکتی ہے۔ باقی پورے سال کے دوران اس نے بے شمار یونیور سیٹیوں کو خطوط لکھے جن کے نام، اس نے USISمیں موجود کتابوں سے حاصل کیے تھے۔ یو نیورسیٹیوں کے ناموں کا انتخاب وہ اکثر یونہی بلا سوچے سمجھے یا پھر ناموں کے صوتی آہنگ کی بنیاد پر کیا کرتا تھا۔
ماں اس کی ان کاوشوں کو ہنسی میں اڑا دیتی۔ وہ اکثر مسکرا کر کہتی’’وہاں امریکہ میں تمھارے ماموں بیٹھے ہیں جو تمھیں کالج میں داخلہ دلانے کے لیے ہزاروں شیلنگ ادا کریں گے؟‘‘ اسکی نظر میں یہ سب تضیع اوقات کے سوا کچھ نہ تھااور اَلو بیچارہ اس سے کبھی یہ نہ کہہ پاتا، کہ اسے جو مدد ماں سے مل سکتی ہے، وہ کسی اور سے کبھی نہیں مل پائے گی۔
چند ہفتوں ہی میںاس کی اس خط و کتابت کے نتائج ظاہر ہونے لگے جن میں سے زیادہ تر امید افزا تھے۔ آہستہ آہستہ اَلو کو پتا چلنے لگا کہ ان میں سے بہتر جگہیں کون سی ہیںاور ان میں سے کون صحیح معنوں میں اہم اور مشہور ہیں۔ جلد ہی چند مختلف یونیورسیٹیوں کے معلوماتی کتابچے بھی موصول ہوئے جو کافی دل کش تھے۔ ایسا لگتا کہ وہ خط و کتابت میں جتنا زیادہ محنت کررہا تھا،کسی امریکن یونیورسٹی میںاس کے داخلے کے امکانات اتنے ہی روشن ہوتے جا رہے تھے، یہاں تک کہ مشہور ترین یونیورسیٹیوں سے بھی اسے مایوس نہیں ہونا پڑ رہا تھا۔ اب اسے ان مضامین کے بارے میں پتا چل رہا تھا جن کے بارے میں اس نے پہلے کبھی سنا تک نہ تھا: جینیٹکس، کاسمو لوجی، آرٹی فیشیل انٹیلی جینس:ایک بالکل ہی نئی کائنات وہاں اس کی منتظر تھی … شرط بس اتنی تھی کہ وہ ایک بار کسی طرح وہاں تک پہنچ جائے،لیکن اسے یقین نہیں تھا کہ وہ وہاں تک کبھی پہنچ سکے گا۔ پتا نہیں وہ اس قابل تھا بھی یا نہیں۔ اس کا وجود امید اورناامیدی کے درمیان جھولتا رہتا تھا۔
بے شک اَلو مقامی یونیورسٹی میں جگہ پانے کے قابل تھا۔ سال کے آخر میں جب اخبارات میں منتخب امیدواروں کے نام شائع ہوئے تو اس کا بھی نام اس میں شامل تھا،لیکن شاید کسی بد قماش افسر نے ،جو شایدرشوت خور بھی تھا،اس کی قسمت کا ایسافیصلہ کیا ،جو اس کے لیے ایک صدمے سے کم نہ تھا۔ اس نے میڈیسن میں داخلے کے لیے درخواست دی تھی، لیکن اسے ایگری کلچر میں جگہ دی گئی تھی۔ وطن پرستی اپنی جگہ ،لیکن کسی دیہات میں ایگری کلچرل آفیسر کے طور پر کام کرنا ،اس کی زندگی کا مقصد نہیں تھا۔ وہ کبھی شہر سے باہر نہیں نکلا تھا۔ صرف ایک بار اسکول کی جانب سے جنگل کی سیر کرنے گیا تھا…بس !
جب اَلو کو کیلیفورنیا انسٹی ٹیوٹ آف ٹکنا لوجی کی جانب سے ایک خط ملا جس میں اسے داخلے اور اسکالر شپ کی پیش کش کی گئی تھی تو وہ بالکل ہکا بکا رہ گیا۔ اس نے خط کو بار بار پڑھا۔ اس میں جو کچھ درج تھا، اس پر اسے یقین نہیں آرہا تھا۔ اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے کہیں اس نے پڑھنے میں کوئی غلطی نہ کی ہو۔ اس نے مجھ سے کہا کہ میں وہ خط پڑھ کراسے سنائوں۔ اور جب اسے یقین ہو گیا کہ اس میں کسی غلطی کا امکان نہیںہے تو وہ خوشی سے جیسے پاگل ہو اٹھا۔
’’جہنم میں گیا ایگری کلچر۔ ‘‘اس نے زہر خند کے ساتھ کہا۔
لیکن اسے سب سے پہلے ماں کو رام کرنا تھا۔
ماں کو اس کی بات پریقین ہی نہیںآیا۔ ’’جاؤ…جاؤ !… میرا دماغ مت چاٹو …مجھے تنگ مت کرو۔ ‘‘
’’لیکن یہ سچ ہے۔ ‘‘ اَلو نے احتجاج کیا، ’’ وہ لوگ مجھے اسکالر شپ دے رہے ہیں۔ ‘‘
ہم لو گ میزپر تھے… ہم تینوں… اور تھرماس سے ابھی ابھی چائے انڈیلی گئی تھی۔ ماں میرے سامنے بیٹھی تھی۔ اس نے اپنی طشتری پر ایک نگاہ ڈالی اور پھر سر اٹھا کر میری طرف دیکھا۔
’’کیا یہ سچ ہے؟‘‘ اس نے مجھ سے پوچھا۔
’’ہاں یہ سچ ہے۔ بس اسے اپنے ساتھ صرف ۴۰۰ ڈالر جیب خرچ کے طور پر لے جانے ہیں۔ ‘‘
’’ یہ کتنے شیلنگ کے برابر ہیں؟‘‘اس نے پوچھا۔
’’ تقریباً تین ہزار۔ ‘‘
’’ اور ہم لوگ یہ تین ہزار شیلنگ کس طرح پیدا کریں گے؟ ۔۔۔۔۔۔ کیا تمھاری لاٹری لگی ہے؟… اور ٹکٹ کا کیا ہوگا؟…کیا وہ لوگ ہمیں ٹکٹ بھی بھیج رہے ہیں؟‘‘
اس نے جیسے ہی یہ کہا اَلو کو اپنے سارے منصوبے خاک میں ملتے دکھائی دینے لگے۔ وہ ٹھیک ہی تو کہہ رہی تھی۔ اَلو کو جتنے روپیوں کی ضرورت تھی، وہ ہمارے لیے ایک خطیر رقم تھی۔
’’کیا ہم قرض نہیں لے سکتے؟ ‘‘ اس نے پوچھا’’میں وہاں کام بھی کروں گا … ہاں میں وہاں ویٹر کا کام کروں گا… ایک ویٹر کا … میں جانتا ہوں، تم پیسوں کا انتظام کر سکتی ہو ماں … میں پیسے واپس بھیج دوں گا۔ ‘‘
’’ امریکہ میں تمھارے ماموں ہو سکتے ہیں جو تمھاری مدد کریں گے۔ ‘‘ ماں نے اس سے کہا،’’ لیکن یہاںکوئی ہماری مدد نہیں کرے گا۔ ‘‘
اَلو کے کندھے جھک گئے اور وہ وہاں بیٹھااپنے کپ کو گھماتا رہا۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے وہ کسی بھی پل رو پڑے گا۔ ماں بیٹھی اپنی طشتری میں چائے انڈیل کرپیتی رہی۔ اس کی پیشانی شکن آلود تھی۔ میری پشت کی جانب واقع کھڑکی سے شام کی روشنی کمرے میں داخل ہو رہی تھی،جس میں اس کا چشمہ چمک رہا تھا۔ آخر کار اس نے اپنی طشتری میز پر رکھ دی۔ وہ غصے میں تھی۔
’’ اور آخر ہم سے اتنی دور وہاں جانا ہی کیوں چاہتے ہو؟کیا میں نے تمھیں اسی دن کے لیے پال پوس کر بڑ ا کیا تھا کہ تم مجھے چھوڑ کر دور دیس چلے جائو؟ جہاں تم جانا چاہتے ہو کیا وہاںتمھیں ہماری یاد نہیں آئے گی؟ کیا ہم تمھارے لیے اتنے غیر اہم ہو گئے ہیں؟ اگرتمھیں کچھ ہو گیا تو …۔ ‘‘
اَلو رو رہا تھا۔ اس کی کپ میں آنسو کا ایک قطرہ گرا، اس کی ناک بھی بہہ رہی تھی۔ ’’کتنے ہی بچے جاتے ہیں اور واپس آجاتے ہیں… انھیں کچھ بھی نہیں ہوتا… اگر یہی کرنا تھا تو پھر مجھے پہلے ہی کیوں نہیں روک دیا؟… جب مجھے جانے نہیں دینا چاہتی تھیں تو پھر مجھے درخواستیں بھیجنے سے کیوں نہیں روکا؟… اگر میری امیدوں کو یوں چکنا چور ہی کرنا تھا تو پھرانھیں پروان کیوں چڑھنے دیا؟‘‘ وہ بہت تیز آواز میں بولے جا رہا تھا… میں نے پہلی بار اسے ایسا کرتے دیکھا تھا۔ جذبات کی شدت سے وہ کانپ رہا تھا۔
پھر اس دن کے بعد اس نے یہ سوال پھر کبھی نہیں اٹھایا۔ اس نے ایگری کلچر کالج میں داخلے کے لیے خود کو ذہنی طور پر تیار کر لیا اور کلاسز شروع ہونے کا انتظار کر نے لگا۔ گھر پر وہ صوفے پر پڑا ناول پڑھتا رہتا… روزانہ ایک ناول !
اگر وزارت تعلیم کے اس نامعلوم افسر نے اس کے ساتھ نا انصافی نہ کی ہوتی تو اَلو کو اتنا غم نہ ہوتا،اور ماں کومجبور ہوکر اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت بھی نہ پڑتی۔
چند دنوںبعد، اتوار کی صبح،ماں نے اپنی سلائی مشین سے نظریں اٹھائیںاور ہم دونوں سے مخاطب ہوئی ’’ہم لوگوں کو چل کر یہ خط مسٹر ویلیجی کو دکھانا چاہیے۔ وہ ان معاملات کے ماہر ہیں، ہمیں ان سے مشورہ کرنا چاہیے۔ ‘‘
مسٹر ویلیجی ہمارے اسکول کے سابق ایڈ منسٹریٹر تھے۔ ان کا سر کافی بڑا ،انڈے جیسا ،جسم چھوٹا اور گٹھا ہوا تھا۔ اپنی چوڑی پیشانی اور سیاہ چشمے کے ساتھ وہ کسی روایتی دانشور کی مضحک تصویر نظر آتے تھے۔ ہم تینوں ان کے نشست کے کمرے میں کرسیوں پر بیٹھے ایک دوسرے کو دیکھ رہے تھے اور انتظار کر رہے تھے۔ تبھی وہ اکڑے ہوئے سے،کسی کھلونے سپاہی کی طرح چلتے ہوئے، کمرے میں داخل ہوئے اور ہمیں خوش آمدید کہا۔
’’ تم کیسی ہو بہن؟‘‘ انھوں نے کہا ’’ میں تمھارے لیے کیا کر سکتا ہوں؟‘‘
ان کے بیٹھنے تک اَلو اور میں ادب سے کھڑے رہے۔
’’ہم آپ کے پاس مشورے کے لیے آئے ہیں۔ ‘‘ ماں نے کہنا شروع کیا۔
’’ ٹھیک ہے… بولو۔ ‘‘ انھوں نے اطمینان سے بیٹھ کر اپنے ہاتھوں کوسر کے پیچھے باندھتے ہوئے کہا۔
ماں نے انھیں اپنے بارے میں بتایا کہ وہ کس خاندان میں پیدا ہوئی،کس خاندان میں اس کی شادی ہوئی،میرے والد کے مرنے کے بعد اس نے کیسے اپنے بچوں کی پرورش کی۔ اس نے توہمارے خاندانوں کے درمیان مشترکہ رشتے بھی تلاش کر لیے۔ ’’ اب یہ… ‘‘ ماں نے اَلوکی طرف اشارہ کیا۔ ’’ یونیورسٹی میں پڑھتا ہے یہ لڑکا … امریکہ جانا چاہتا ہے… اپنے کاغذات انھیں دکھائو۔ ‘‘ ماں نے اَلو کو حکم دیا۔
یوں لگا جیسے اَلو نے بڑی مشکلوں سے خود کو صوفے سے اٹھایا اور آہستہ آہستہ آگے بڑھ کر کاغذات مسٹر ویلیجی کے ہاتھوں میں دے دیے۔ کاغذات دیکھنے سے قبل مسٹر ویلیجی نے اَلو سے اس کے فائنل امتحان کے رزلٹ کے بارے میں پوچھا۔
اَلو کے جواب سے ان کی آنکھیں پھیل گئیں ’’ ہیں؟… ‘‘ انھوں نے کہا ’’سارے کے سارے A گریڈ؟‘‘
’’جی ہاں‘‘ اَ لو نے نہایت ادب سے جواب دیا۔
مسٹر ویلیجی نے پہلے پہل یوں ہی بے دلی کے ساتھ ایک کے بعد ایک کاغذات پلٹے،لیکن پھروہ انھیںنہایت توجہ سے دیکھنے پر مجبور ہوگئے۔ انھوں نے طویل ویزا فارم کو دیکھا جس میں ایک اصل فارم کے نیچے کئی کاربن کاپیاں سلیقے سے پِن کی ہوئی تھیں۔ انھوں نے فارن سٹوڈنٹ ایڈوائزر کا دوستانہ انداز میں لکھا خط پڑھا۔ انڈر گریجویٹ کلب کے ممبران کے دعوتی خطوط پڑھ کر انھوں نے خوشی کا اظہار کیا۔ آخر کار انھوں نے منکسرانہ انداز میںسر اٹھایا۔
’’ یہ لڑکا ٹھیک کہتا ہے۔ ‘‘ وہ بولے، ’’یونیورسٹی اچھی ہے اور وہ لوگ اسے وظیفہ بھی دے رہے ہیں۔ میں تمھیں مبارک باد دیتا ہوں۔ ‘‘
’’لیکن اب مجھے کیا کرنا چاہیے؟‘‘ماں نے پریشانی کے ساتھ پوچھا’’آپ کا کیا مشورہ ہے؟ ہمیں بتائیے کہ ہم کیا کریں۔ ‘‘
’’ ٹھیک ہے۔ ‘‘ مسٹر ویلجی بولے ’’یہ اس کی تعلیم کے لیے بہتر ہوگا۔ ‘‘انھوں نے اپنا ہاتھ اٹھا کر گلا صاف کیا اور پھر دھیرے سے بولے ’’لیکن تم اگر اسے جانے دوگی تو اپنے بیٹے کو کھو دو گی۔ ‘‘
’’ وہ بہت دور دیس ہے…امریکہ۔ ‘‘ انھوں نے گویا بات ختم کرتے ہوئے پوچھا ’’ اب بتائو تم کیا لوگی؟… چائے؟… نارنگی کا جوس؟ ‘‘
اور آرڈر لینے کے لیے ان کی بیوی کسی جن کی طرح اچانک نمودار ہو گئی۔
’’ تمام امیر لڑکے ہر سال جاتے ہیں اور وہ نہیں کھوتے۔ ‘‘ گھر لوٹتے ہوئے اَلو تلخ لہجے میں بدبدایا۔ ماں خاموش رہی۔
اس رات وہ سلائی مشین پر تھی اور اَلو صوفے پر لیٹا پڑھ رہا تھا۔ ریڈیو دھیمی آواز میں بج رہا تھااور سامنے کے کھلے دروازے سے ہوا کے خوشگوار جھونکے آکر سٹنگ روم کے ماحول کو سرد کر رہے تھے۔ میں دروازے پر کھڑا تھا۔ باہر کیلے کے درخت ہوا میں لہرا رہے تھے۔ سڑک پر ایک کار تیزی سے گزرتے ہوئے پڑوس کے مکانات پرپرچھائیاں ڈال رہی تھی۔ ایک جوڑا جو شاید سیر کو نکلا تھا،آہستہ آہستہ باتیں کرتے ہوئے نا ہموار باڑھ کے پاس سے گزر رہا تھا۔ لڑکے لڑکیوں کے جھنڈ اپنے اپنے مکانوں کو لوٹنے سے قبل گپیں مار رہے تھے۔ تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعدماں کی سلائی مشین میں لگے ہوئے موٹر کی گھر گھراہٹ سنائی دے رہی تھی۔ کمرے میں وہ ہم سے دور دوسرے کونے میں بیٹھی تھی جہاں اندھیراکچھ زیادہ تھا۔
تھوڑی دیر بعد ، اس نے ہماری طرف دیکھا اور دھیمے لہجے میں بولی ’’ ذرا مجھے دکھاؤ تو سہی کہ یہ یونیورسٹی آخر ہے کیسی… وہ کتاب لائو… لائو گے؟‘‘
ماں نے یونیورسٹی کا معلوماتی کتابچہ کبھی نہیں دیکھا تھااور ہمیشہ اسے نظر انداز کیا تھا۔ اس نے اس مقام کے بارے میں جاننے کی کبھی ہلکی سی بھی خواہش ظاہر نہیں کی تھی جہاں جانے کے لیے اَلو اس قدر بے قرار تھا۔
اب ہم تینوں کتابچے کے چمکدار صفحات پر جھکے جدید کلاسکی انداز کی عمارتوں ، گنبدوں اور انسانوں سے کئی گنا بلندستونوں کی تصاویر دیکھ رہے تھے۔ طلبہ و طالبات مختلف قسم کے کاموں میں مصروف تھے۔ وسیع لانوں میں گھنے سایوں کے نیچے کلاسز ہو رہے تھے۔ یہ سب کچھ حیرت انگیزبھی تھا اور دلفریب بھی۔
’’ غضب کی جگہ ہے…ہے نا؟‘‘ اَلو نے دھیرے سے کہا۔ وہ اپنا جوش چھپا نہیں پا رہا تھا ’’ وہاں سیکڑوں طرح کے کورسز کرائے جاتے ہیں…وہ لوگ خلا میں راکٹ بھیج رہے ہیں…دوسری دنیا ئوں میں … چاند پر۔ ‘‘
’’ میرے بیٹے !اگر تم چاند پر چلے گئے تو میرا کیا ہوگا؟‘‘ماں نے بڑی خوش مزاجی سے کہا۔ وہ چمکتی ہوئی آنکھوں سے ہماری طرف دیکھ رہی تھی۔
اَلو واپس اپنی کتاب لے کر بیٹھ گیا اور ماں پھر سے سلائی کرنے لگی۔
تھوڑی دیر بعد میں نے ماں کی طرف دیکھا۔ وہ گہری سوچ میں ڈوبی ہوئی تھی،اورجیسا کہ وہ عموماً ایسے موقعوں پر کیاکرتی تھی،وہ بے خیالی میں اپنی ٹھوڑی کھجا رہی تھی۔ شایدمیں پہلی باراسے اپنی ماں کی بجائے ایک عورت کے طور پر دیکھ رہا تھا۔ میں سمجھ سکتا تھا کہ اس وقت اس کے دماغ میں کیا چل رہا ہے۔ وہ ہماری پرورش و پرداخت کے لیے کتنی مشکلات سے گزری تھی۔ جب ہمارے والد کا انتقال ہوا، وہ صرف ۳۳ سال کی تھی،لیکن اس نے شادی کے لیے آنے والی کئی درخواستوں کو ٹھکرا دیا تھا،کیوں کہ شادی کی صورت میں ہمیں یتیم خانے بھیجنا پڑتا۔ والد کے انتقال سے قبل کی تصویروں میں ماں بے حد خوبصورت اور مسرور دکھائی دیتی تھی۔ وہ صحت مند تو تھی، لیکن اسے موٹی بالکل نہیں کہا جا سکتا تھا۔ بال فیشن ایبل انداز میں سنوارے ہوئے ہوتے تھے۔ پیروں میں اونچی ایڑی کے سینڈل اور چہرے پر میک اپ بھی نظر آتا تھا۔ ان میں سے ایک تصویر، جو کسی اسٹوڈیو میں لی گئی تھی اوراسے ٹچ اپ کرکے نکھارا بھی گیا تھا، اب والد کی تصویر کی بغل میں لٹکی ہوئی تھی۔ اس تصویر میں وہ سیاہ پس منظر کے سامنے،بڑی ادا سے ایک کتاب ہاتھ میں لیے کھڑی تھی۔ نائیلون کے لباس کو ہلکے سبز رنگ سے پینٹ کیا گیا تھاجس کا گھیرا بڑے پر وقار انداز میں نیچے تک پھیلا ہوا تھااور کناروں پر سکے نما ،زیورات ٹنکے ہوئے تھے۔ میں نے اسے اس حالت میں کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اسے تو میں نے ہمیشہ کھردرے چہرے کے ساتھ دیکھا تھا جو عمر کے ساتھ ساتھ مزید کھردرا ہوتا چلا گیا،کیوں کہ جھریوں کی لکیریں مستقل ہوتی چلی گئیں۔ بال کم ہوگئے تھے ،جسم موٹا ہو گیا تھااور آواز بھی بھاری ہوگئی تھی۔
مجھے یاد آیا کہ بچپن میں اَلو اور میںکیسے رات میں اس کے بڑے بستر پر اس کے ساتھ سونے کے لیے اپنی اپنی باریوں کا انتظار کرتے تھے؛ کیسے وہ مجھے اپنے گداز بازئوں میں سمیٹ کر اپنے سینے سے لگا لیتی تھی۔ یہاں تک کہ مجھے سانس لینے میں دشواری ہونے لگتی تھی اور میں سوچتا تھا کہ وہ مجھے جلد چھوڑ دے تاکہ میں سانس لے سکوں۔
اس نے مجھے اپنی طرف دیکھتے ہوئے دیکھا اور بولی…مجھ سے نہیں، اَلو سے…’’ وعدہ کرو… وعدہ کرو کہ اگر میں تمھیں وہاں جانے دوں گی تو تم کسی سفید فام عورت سے شادی نہیں کروگے۔ ‘‘
’’اوہ ! ماں ! … تم جانتی ہو کہ میں ایسا نہیں کر وں گا۔ ‘‘ اَلو نے کہا۔
’’ اور وعدہ کرو کہ تم سگریٹ اور شراب نہیں پیوگے۔ ‘‘
’’ تمھیں پتا ہے …میں وعدہ کرتا ہوں۔ ‘‘ وہ روہانسا ہو کر بولا۔
n
اَلو کا پہلا خط اس کے جانے کے ایک ہفتے بعد لندن سے آیا۔ یہاں وہ اپنے ایک پرانے دوست سے ملنے کے لیے رکا تھا۔ اس خط میں جذبات کا ایک سیلاب بند تھا۔
’’ میں کیسے بیان کروں۔ ‘‘ اس نے لکھا تھا ’’ہوائی جہاز سے نظر آنے والا منظر… میلوں میل تک پھیلے سلیقے سے سجے کھیت …جیسے زمین کو خوبصورت سبز مربعوں میں تقسیم کر دیا گیا ہو، یہاں تک کہ پہاڑ بھی صاف اور مہذب۔ اور لندن،اوہ لندن ایسا لگتا ہے، جیسے اس شہرکا کوئی آخری سرا ہے ہی نہیں… مکانات کے ان گنت بلاک، چوراہے، پارک، یادگاریں کیا کوئی شہر اس سے بھی بڑا ہو سکتا ہے … اس ایک بڑے شہر میں ہمارے شہر دارالسلام جیسے کتنے ہی شہر سما جائیںگے …۔ ‘‘
n
ایک پرندہ اپنے پروں کو پھڑ پھڑا رہا تھا … مسٹر ویلجی اپنی کرسی پر بیٹھے دانش مندانہ انداز میں سر ہلا رہے تھے …اورماں کی آنکھیںدور کہیں تک رہی تھیں۔
Original Story: LEAVING
By: M. G. Vassanji (Tanzania)