بھوک کہیں کی ہو کسی زمین کی ہورات کی طرح کالی ہوتی ہے۔ ہجرت بدن کی ہو یا اپنی مٹی کی اماوس میں لپٹی ہوئی آنکھیں ہوتی ہیں۔ جہاں ’بدن‘ کہانی اس لیے بنتا ہو کہ اس کی ہر تہہ میں مٹی کا رنگ گاڑھاہے اور پیٹ کی ازلی فطرت نے ’حسن ‘کی داخلی منطق بھی بدل دی ہو،تو وہاں بدن کی کتھا کالی ہی ہوگی۔ لیکن اس کتھا کی ایک بڑی اور مکروہ سچائی یہ ہے کہ اس کے مدمقابل بدن کے’ روشن‘خطوط میں کوئی کالی روح بھی نواس کرتی ہے۔ اس کالی روح کا سایہ کہاں نہیں ہے؟اس کی شناخت کا عمل شاید آسان نہیں کہ ’پردوں کا چلن‘ عام ہو چکا ہے۔ ہم شاید بے زمین ہو چکے ہیں،البتہ کھنڈروں کی کہانی آج بھی کہیں زندہ ہے۔ بے زمین آنکھوں کی راتیں کیسی ہوتی ہیں؟اس کا بیان شاید ممکن نہیں ہے چوں کہ اس کا راوی ابھی اپنے ’دن‘سے ہی کہاں نکلا ہے۔ رات تو ان زمینوں میں اُگتی ہے جہاں بدن چہرہ سب سالم ہوں،ورنہ افریقی براعظم میں سب جانتے ہیں کہ دن اور رات ،بدن کی کالی کتھا اور اس کے اسلوب وآہنگ سے الگ کوئی وجود نہیں رکھتے۔ ہندوستان ایسے ملک میں اس سائکی کو ہر وہ فرد سمجھ سکتا ہے جس کو اپنی مٹی کا پاس ہے،یہاں کی صدیوں پرانی روایات اور اس کے مادری اسلوب کو نوآبادیات کی منطق نے اس طور دھندلا دیا ہے کہ مجھے اپنے وجود میں لپٹا ہوا ہر سایہ’ افریقہ ‘معلوم ہوتا ہے۔ شاید اس لیے تاریک براعظم کا کوئی بھی کردار مجھے اجنبی نہیں لگتا۔ ’خورشیدبدن‘ کی قرأت میں یہ سیاہی ایسی شدید ہے کہ میں خود کو کسی اجنبی جزیرہ کا باشندہ سمجھنے لگا ہوں۔ پروین شاکرکی ایک نظم اس وقت مجھے کیوں یاد آرہی ہے ؟
کھوئی کھوئی آنکھیں
بکھرے بال
شکن آلود قبا
لٹا لٹا انسان!
سائے کی طرح سے میرے ساتھ رہا کرتا ہے -لیکن
کسی جگہ مل جائے تو گھبرا کے مُڑجاتا ہے
اور پھر دور سے جاکر مجھ کو تکنے لگتا ہے
کون ہے یہ؟
(نظم’اجنبی‘،مشمولہ’خوشبو‘)
شاید ’خورشید بدن‘کا اسلوب وآہنگ سالم ہے،ورنہ ترجمے کی شرحیات سے نباہ کرتے ہوئے اکثرقواعد کی تشکیل اس نوع کی ہوجاتی ہے کہ احساس کی سائکی کا گزر بھی بہ مشکل ہوتا ہے۔ قرأت کی اس کیفیت کو سمجھنے کی سعی میں یہ نکتہ روشن ہوتا ہے کہ اُردو ایسی زبان میں افریقی سیاہی کو روشن کرنے کی ازلی فطرت موجود ہے۔ اس لیے خورشید اقبال کے ترجمے میں افریقی سیاہی اکثر طبع زاد معلوم ہوتی ہے۔ میں نے خورشیداقبال کی تخلیقی ریاضت اور اُردو کی اس فطرت کو قرأت کی اسی منطق میں ’خورشیدبدن‘کا نام دیا ہے۔ ’خورشید بدن‘ کے سائے میں کالے دن کی کتھا ایسے روشن ہوتی ہے جیسے کسی کی معصوم نظروں میں ممتا کا ٹیکا۔ ’خورشید بدن‘ کی تفریدی جہت یہی ہے کہ اس میں فن اور احساس کی منطق اپنے مادری اسلوب میں پھیل گئی ہے۔ ان افسانوں کے مطالعات میں اکثریہ محسوس ہوتا ہے کہ تخلیقی متون کے تاریک بری قطعات کی سیاحت ترجمے کی معراج ہے۔ حالاں کہ کسی بھی نوع کے متن کے علمیاتی زمرہ کی نشاندہی اور اس کے G-SPOTکی تخصیص کے بغیر اس آرٹ کی کامیابی ان معنوں میں مشکوک سمجھی جاتی ہے کہ صرف ونحو کی شدت پسندی میں اکثر متن اپنے غیاب کا انعکاس نہیںکرتا۔ اس طورپر نئی ساخت میں زبان کی اپنی تہذیب اور مادری اسلوب کو بیک وقت قائم کرنا کسی تخلیقی صدمہ سے کم نہیںہوتا۔ ’خورشیدبدن‘ میں یہ پہلو نہ صرف روشن ہے بلکہ زبان کی تخلیقی منطق میں نئی لغت کی تشکیل بھی ایک قابل ذکر واقعہ ہے۔ ان باتوں کے باوجود کسی نئی ساخت میں تخلیقی احساس کا بعینہ ادراک وعرفان فراڈہے،لیکن احساس کی انفرادی جہتوں سے انکار بھی غیر ممکن ہے۔ لفظ اپنے تشکیل کے عمل میں ہی اپنی سانسوں کو پا لیتاہے،اس لیے اس کی ANATOMYخود تشکیل کار کو بھی بدلی ہوئی لگتی ہے۔ ترجمہ کا آرٹ اس سے الگ نہیں ہے۔ ’خورشید بدن ‘میں بھی یہ بات پورے طور پر روشن ہے کہ زبانیں فقط نشانات کا مجموعہ ہوتی ہیں،تخلیقی احساس کی انفرادی قواعد لفظوں کو بینائی عطا کرتی ہے۔ گویا کوئی بھی زبان اس حد تک غیر اور مردہ ہوتی ہے کہ ہم ان نشانات سے واقف نہیں ہوتے ورنہ ’تخلیقی نشاط‘ حضرت انسان کا مشترکہ کرب ہے۔ خورشید اقبال نے ان نشانات کی تجدید کی ہے اور یہ باور کرایا ہے کہ تخلیق فن عبادت ہے اور ترجمہ اس عبادت کے بہ ہر پہلواستغراق کی شدت کا نام ہے۔ بعض جگہوں پر بالخصوص عنوان کے تعین میں خورشید اقبال نے لفظوں پر اعتبار کیا ہے،اس کے باوجود ان کی کہانیاں اپنے تکنیکی مشاہدات کی نفی کرتی ہیں اور احساس کی ایک فرہنگ وضع کرتی ہیں۔ یہ ایسی بات ہے جس کو ان کا عیب گرداننے کے بہ جائے تشکیل کار کی مجبوری کہہ سکتے ہیں۔ اس طورپر’اک شب آوارگی‘ ،کے مطالعات میں’ خورشید بدن‘ کا شناخت نامہ یہ ہے:
-خورشید اقبال کے آرٹ میں فکشن کا بدن اور چہرہ سالم ہے۔
-خورشید اقبال کے ہاں تخلیقی محاورات کی تشکیل وتعمیر فنی ریاضت اور احساس کی منطق سے الگ نہیں ہے۔
-افریقی ثقافت اور اس کا مادری اسلوب’ خورشید بدن‘ میں شامل ہے۔
-ان کے فن میں احساس اور تخیل کی سانس کہیں پھولی نہیں ہے۔
-راوی کے بیان اور کرداروں کے تشخص میں ان کا بیانیہ اپنی فطری سائکی کو صیقل کرنے میں صدگونہ کامیاب ہے۔
-ثقافتی نقوش کے بیان میں ان کا بیانیہ، اسلوب کے فطری مشاہدہ کو صیقل کرتا ہے۔
-ان کے ہاں احساس کا رنگ اپنی بالائی ساخت سے زیادہ قصہ گوئی کی داخلی کیف میں نمایاں ہے۔
ایسی بہت سی باتیں ’خورشید بدن ‘کا عنوان ہو سکتی ہیں۔ بعض جگہوں میں فن کی داخلی کرید شکستہ بدن کی ترجمان بھی ہے۔ لیکن بدن کی سندرتا اپنی ساخت میں اتنی نمایاں نہیں ہوتی جتنی کہ اس کے بھائو میں اس کا داخلی حسن پیدا ہوتا ہے۔ اس طور پر’خورشید بدن‘ کی تفریدی جہت یہ بھی ہے کہ اس میں فن کی ہر کروٹ کا صیغہ موجود ہے۔ ان افسانوں کی خالص شعریات میں فکشن کی اپنی معراج کا حسن کسی قدر نظر آتا ہے۔ بعض افسانوں میں اختتامیہ اتنا شدید اور غیر متوقع ہے کہ خورشید اقبال مترجم سے زیادہ تخلیق کار معلوم ہوتے ہیں۔ دراصل بیانیہ کے تخلیقی خواص کی تشکیل میں انھوں نے ترجمے کی شرحیات سے الگ ہوکر فن کی داخلی بافت سے روشنی حاصل کی ہے۔ اس باب میں ان کا اپنا شعوری تجربہ بھی ہے کہ’ہر جملے کا ترجمہ کرتے وقت میں بس یہ سوچتا تھا کہ اگر میں نے خود اس افسانے کی تخلیق اردوزبان میں کی ہوتی تو اس جملے کو کس انداز میں لکھتا‘۔ خورشید اقبال نے شعوری طور پر فن کے اجتماعی وجود اور اس کے تخلیقی خواص کو اپنے اسلوب وآہنگ میں پیش کرنے سعی کی ہے، اس لیے ان کے ہاںTARGET TEXTبھی باز تخلیق کے عمل میں انفرادی طورپر استھاپت ہو گیا ہے۔ SOURCEکے اکتشاف کو ادبی جمال میں منقلب کرنے کی ہنرمندی ان کے ہاں اکثر مقامات میں موجزن ہے۔ اس نوع کے ترجمے کے لیے متعلقہ کلچر کی روپ ریکھا،اس کے روزمرہ،دیومالا،لوک روایات اور ایسے ہی بعض محاورات کا تخلیقی احساس ناگزیر ہے۔ خورشید اقبال نے اپنے انتساب ،تخلیقی بیانیہ اور علمی مضامین کے وسیلہ سے اس بات کا ثبوت دیا ہے کہ افریقہ ان کے لیے فقط جغرافیائی حدود نہیں ہے۔ اس لیے ان کہانیوں کے درون میں یہ محسوس ہوتا ہے کہ جہاں اسلوب کی مقامیت اہمیت رکھتی ہے وہیں فن کا آفاقی چہرہ بھی ہوتا ہے۔
’خورشید بدن‘ کے مطالعات میں مجھ ایسے قاری کی اپنی ترجیحات یہ ہیں کہ ان افسانوں کی موجودہ صورت کیا ہے؟ان میں فن کا انفراد کن سطحوں پرہے؟فقط قواعد کی پابندی ہے،بیانات کے منقلب ہونے کا انداز ہے یا پھراس کے اجتماعی وجود میں تخلیقی کیف وکم بھی ہے؟یہاںمیں اپنے اس خیال کا اعادہ کرنا چاہتاہوں کہ ان کے ہاں فکشن کی خالص شعریات وضع ہوگئی ہے۔ بعض مثالیں ملاحظہ کیجیے:
-وہ بہت دور دیس ہے…امریکہ(اڑان)
-ایک پرندہ اپنے پروں کو پھڑپھڑارہا تھا…مسٹرویلجی اپنی کرسی پر بیٹھے دانشمندانہ اندازمیں سرہلارہے تھے…اورماں کی آنکھیںدور کہیں تک رہی تھیں۔ (اڑان)
-مرغیاں ڈرکر جدھرسینگ سمائے بھاگ نکلیں۔ (پاپا،سانپ اور میں)
-کیا تمہارے کپولانا کے اندر بہت گرمی لگ رہی ہے۔ (پاپا،سانپ اور میں)
-کیا مرغیوں کے باڑے میں ہمیشہ سانپ رہتے ہیں۔ (پاپا،سانپ اور میں)
-انسان کو امید قائم رکھنی چاہیے۔ (پاپا،سانپ اور میں)
-سدھائے ہوئے گھوڑے روز مرتے ہیں۔ (پاپا،سانپ اور میں)
-وہ چپ چاپ کھڑا اندھیرے کے اس ٹکڑے کو گھورتا رہا جس میں وہ غائب ہوگئی تھی۔ (پنجرے)
-اتنی باوقار لگتی ہے کہ سورج کو بھی اس پر اپنی دھوپ کی کرنیں ڈالتے ہوئے جھجک محسوس ہو۔ (پنجرے)
-برسوں کے اندھیرے نے اس کی حالت غیر کردی تھی۔ (پنجرے)
-روشنی کے ننھے ننھے نقطے جو تاریکی کی سیاہ چادر میں ستاروں کی طرح ٹنکے ہوئے تھے۔ (پنجرے)
-اچانک بجلی کے ایک انتہائی تیز کوندے نے جیسے ان کی آنکھیں اچک لیں۔ (اللہ کی مرضی)
-کھانسیاں جیسے اس کے اندر سے ابلی آرہی تھیں۔ (کاہنہ)
ان مثالوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے ہاں فن کا داخلی بھید بیانیہ کی اپنی ساخت میں ہے۔ تخلیقی محاورات کی کوئی صورت نظر آتی ہے تو یہ بھی بیانیہ کی اس ساخت سے الگ نہیں ہے۔ تفکر،تجسس،تحیرغرض حرف وصوت کا ہر آہنگ اس بیانیہ کو صیقل کرتا ہے اور قاری کو اپنے بدن کی لمس کا موقع فراہم کرتا ہے۔ ان افسانوں کے مطالعات میں قاری کی شرکت کا ایک جواز یہ بھی ہے کہ ہمارے ہاں فکشن کے ثقافتی نقوش میں ان موضوعات کا احاطہ کم وبیش کیا گیا ہے۔ بعض افسانہ تو ایسے ہیں کہ منٹو کے متون کا چہرہ ہماری نگاہوں میں پھرنے لگتا ہے۔ ’خورشیدبدن ‘کی اس تخلیقی ریاضت کو ہماری تنقید شاید اپنے اکتشاف میں جگہ نہ دے لیکن فکشن پسند قارئین اس کے اسلوب وآہنگ کو بامعنی بنائیں گے۔ اک شب آوارگی،کی تخلیقی تپش کو میں ایک قاری کی حیثیت سے خوش آمدید کہتا ہوں۔ خالد سہیل کے بعد خورشید اقبال کے ہاں ’کالے جسموں کی ریاضت ‘کا ایک بھرپور عنوان قائم ہوا ہے اس لیے بھی اس کی پذیرائی ہوگی۔ ’خورشید بدن‘ کی مصوری میں جمیل خاں نے لکیروں کو بے پناہ گویائی عطاکی ہے۔ چنانچہ معنی کی نئی جہتیں قائم ہوگئی ہیں۔
— فیاض احمد وجیہہ
نئی دہلی
۲۸؍دسمبر۲۰۱۰ء