فن کے ابعاد اپنی نیرنگیوں میں شمار کی حد سے نکل جاتے ہیں۔ شاعری ہو کہ فکشن،باطن میں چھپی آگ کی کریدہے۔ اس آگ میں تپ کرکندن ہوجانے والالفظ کبھی بانجھ نہیں ہوسکتا۔ کہانی لفظوں سے بنتی ہے۔ تنہا لفظ کہانی خلق نہیں کرسکتا۔ لفظوں کا اجتماع تجربے کااجتماع ہے۔ کوئی تجربہ واردات بن کرجب تک روح کی گہرائی میںاتر نہیں جاتا،واقعہ توبن سکتا ہے، کہانی ہرگزنہیں۔ کہانی انسان کا سایہ ہے کہ وہ ساتھ تو چلتا ہے،مگراس کے قدم نہیں رکتے،اور ایسا بھی ہوتاہے کہ وہ کسی غارمیں جاکرچھپ جاتا ہے۔ یعنی کہانی رات کابدن ہے۔ باذوق قاری اس بدن میں گم ہوجاتاہے۔ مکروہ سیاست دان اس بدن کو نوچ کھاتے ہیں۔ کہانی حواکی بیٹی ہے کہ آج تک لٹ رہی ہے۔ افلاس،بھوک اور بیماری سیاسی نعروں سے نہیں مٹتی۔ کہانی کاراس دکھ کوسمجھتاہی نہیں؛اس میں جیتابھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے لفظ رقص نہیں کرتے،جل کربھسم نہیں ہوتے،بلکہ سلگتے رہتے ہیں۔ اس جلن کا اس وقت تک کوئی مرہم نہیں،جب تک خون کی سیاہی دھل نہیں جاتی۔ روسونے کہاتھاکہ انسان آزادپیداہواہے،لیکن ہرقدم پر پابہ زنجیرہے۔ کہانی اس زنجیرسے آزاد ہوناچاہتی ہے۔ غلامی انسان کا مقدرنہیں؛سیاست کا طوق ہے۔ اس سے رہائی کی جنگ میںنہ جانے کتنے تجربے شکست سے دوچارہوتے ہیں۔ یہ شکستگی فن کا مظہر ہے۔
ہمیں پڑھایاگیاتھا کہ افریقہ تاریک براعظم ہے۔ بچپن کی ننھی سمجھ نے یہی جانا کہ وہاں سورج ہی نہیں نکلتا،مگرمعاملہ کچھ اورتھا،جسے خواجہ جاویداخترنے آسان کردیا:
ہاں یہ سورج حیات بخش صحیح
دھوپ کھاکرگزرنہیںہوتا
زندگی توکسی نہ کسی طورگزرہی جاتی ہے،لیکن آگہی کے عذاب نے کب کسی کو بخشا ہے۔ انسان اور جانور میں کچھ توفرق ہے۔ مساوات کانعرہ بلندکرنے والی کھوکھلی جمہوریت محض تماشائی ہے۔ انسان تماشا نہیں، دردِ دل کا شناساہے۔ تماشائی اگراس شناسائی پرایمان لے آئیں تودنیاکانقشہ کچھ اورہوگا۔ لفظ،کالایاگورانہیںہوتا۔ جذبۂ اسفل اسے سیاہ کر دیتا ہے۔ اصل شے بدن کی رنگت نہیں، جذبے اورروح کاتقدس ہے۔ افریقی کہانیوں میں یہ تقدس، آنسوؤں کے جلنے کے ساتھ پیداہواہے۔ افریقہ کی تاریکی کہانی کاپیرہن ہوگئی ہے۔ ظاہر میں یہ پیرہن جتناچاک ہے،باطن میںاس کی گرفت اتنی ہی مضبوط ہے۔ افریقی ادیبوں کے موضوعات میںداستان،اساطیر،غریبی،فاقہ کشی،نسلی منافرت، تعصب، بے روزگاری اوراستحصال باربارآتاہے۔ غلامی اورنوآبادیاتی جبرکے کرب کا اثرآج بھی مضبوط ہے۔ افریقی کہانیاں حالات کا نوحہ نہیں؛احتجاج کی علامت ہیں۔ افریقہ شروع ہی سے استعمال ہوتارہاہے۔ وہاں کے لوگ غلام کی حیثیت سے بیچے اور خریدے جاتے رہے ہیں۔ آج بھی صورتِ حال کچھ زیادہ بہترنہیں۔ روٹی،کپڑااورمکان کے مسائل میں غذائی اجناس کی عدمِ سہولت،تعلیم اورصحت جیسی بنیادی ضرورتیںآج بھی زندگی کوتاریکی میں گھسیٹ رہی ہیں۔
خورشیداقبال میں کئی طرح کی صلاحیتیں ہیں۔ مصروفیات انھیں صیقل کرنے کاموقع نہیں دیتیں۔ وہ شعربھی کہتے ہیں۔ کچھ افسانے بھی لکھے ہیں۔ گاہے گاہے تراجم سے بھی الجھتے رہے ہیں۔ یہ کتاب ان تراجم پرمشتمل ہے ،جوجستہ جستہ گذشتہ دوڈھائی برسوں میں کیے گئے ہیں۔ ان میں سے کچھ، رسائل میں شائع بھی ہوئے۔ پہلی بار کتابی صورت میں یہ ترجمے منظرعام پرآرہے ہیں۔ فکشن کے قارئین کے لیے یہ کتاب دلچسپ ہے۔ یہ دلچسپی دوسطحوں پرہے۔ خورشیداقبال نے محض تراجم پراکتفا نہیں کیا۔ ’خصوصی مطالعہ ‘کے تحت انھوں نے براعظم افریقہ کی تاریخ،تہذیب اورلسانی ارتقا کے مراحل پرروشنی ڈالی ہے۔ ادبی ساخت کی تشکیل اورتنوع کے خصائص نشان زد کیے ہیں۔ یہ مطالعہ سرسری نہیں ہے۔ تحقیق اور غوروخوض کے بعد انھوں نے جو منظرنامہ پیش کیا ہے،وہ ادبی،لسانی،تاریخی،معاشرتی اورسیاسی حالات پرمحیط ہے۔ بڑی بات یہ ہے کہ انھوں نے ترجمے کا عام ڈھب اختیار نہیں کیا۔ مکھی پرمکھی بٹھانے سے تواچھا ہے کہ کوئی اورپیشہ اختیارکیاجائے۔ تخلیق کی طرح ترجمہ بھی سنجیدگی کاتقاضاکرتا ہے۔ اوراگرمعاملہ ادبی تخلیق کے ترجمے کا ہوتویقینایہاں بھی خون پانی کرناپڑتاہے۔ ترجمہ ہوبہوممکن ہی نہیں۔ تخلیقی زبان ٹھوس نہیں،سیال ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ معنی ہاتھوں سے پھسل پھسل جاتاہے۔ بعض ترجمے تخلیق کادرجہ حاصل کرلیتے ہیں۔ یہ رنگ یہاںبھی ہے۔ افسانوں کاانتخاب معمولی کام نہیں۔ یہ نظر کاامتحان ہے۔ مجھے لگتاہے کہ خورشیداقبال یہاں بھی کامیاب ہوئے ہیں۔ عربی،فارسی اورانگریزی سے قطع نظر اردو میں دیگرزبانوں کی ادبیات کے ترجمے کی روایت کچھ مستحکم نہیں۔ یہ سچ ہے کہ انگریزی نے دنیا کے بڑے حصے کو اپنے تسلط میں لے لیا ہے۔ یہ دیگرزبانوں کی تخلیقات تک پہنچنے کا اہم اور سب سے بڑا وسیلہ بن گئی ہے۔ مترجم نے بھی اسی وسیلے کو بروئے کار لایاہے۔
شامل کتاب افسانوں کا تعلق مخصوص سیاق اور خطے سے ہے۔ اردو کاقاری،بھلا ان افسانوں سے کیوںکر محظوظ ہو؟ہوسکتاہے کہ کوئی قاری اس زبان،سیاق اور خطے سے ناآشنا ہو ، لیکن فن کی بنیادی صفت یہ ہے کہ اس میں اشتراک کا پہلوغالب ہوتاہے۔ فن کا موضوع ہے انسان۔ اور انسان دنیاکے کسی بھی مذہب،رنگ،نسل،تہذیب،زبان اور خطے کاہو،انسان کا دکھ سمجھتاہے۔ دردِ دل کی شناسائی ہی جذبے کو آفاقی بناتی ہے۔ توصاحب،لیجیے یہ مسئلہ بھی حل ہوگیا۔ قرأت کے جواز کے بعد دومسئلے سامنے آتے ہیں۔ ایک تومتن کی گتھیوں کو سلجھانے کا،دوسرے اس عمل میںجمالیاتی عناصرکے انکشاف کا۔ چوں کہ معاملہ شرحیات کانہیں، ترجمے کا ہے، اوروہ بھی تخلیقی ترجمے کا ، اس لیے خورشیداقبال کو بھی ا ن مسائل سے جوجھنا پڑاہے۔ تخلیقی کرب کااحساس، دخل در معقولات کوقبول نہیں کرتا۔ یہ کرب ترجمے میں زندگی کی حرارت کا احساس دلاتاہے۔ اس احساس میں قاری کی شرکت نہ صرف متن کواعتبار عطاکرتی ہے، بلکہ اس کی بافت میں معنوی امکانات کوچمک اٹھنے کے مواقع بھی مل جاتے ہیں۔ خورشید اقبال نے ترجمے کو تخلیق کا بدل نہیں گردانا۔ مطالعۂ متن میں انھوں نے بھی تخلیقی کرب کواپنے اندر ہوادیااورتخئیل کے نشیب و فرا زسے گزرتے ہوئے انھوں نے کہانی کی تھیم کو ایک نئی صورت دینے کی کوشش کی۔ اردو کے سیاق،روزمرہ اور محاوروں کالحاظ رکھتے ہوئے انھوں نے جملوں کی ساخت سے لے کر معنوی ربط و تسلسل تک کااہتمام کیا ہے۔ زبان کے برتاؤ میں تخلیقی عناصرکی موجودگی قاری کے ادبی ذوق کومایوسیوں سے بچاتی ہے۔ آنکھوں میں تجسس بھرکر زندگی کے تجربات کامشاہدہ نہ صرف گنجینۂ معنی سے گلے ملتاہے، بلکہ چھوٹے بڑے خطوط،دبے ابھرے جذبات اور افہام وتفہیم کے ہزار رنگ کے ادراک سے گزرتاہے۔ ہزاررنگ کے ادراک کا تجربہ ابہام کی دھند سے آزاد نہیں۔ چھوٹے بڑے تجربے کو بیانیہ کی شکل عطاکرنااور اس میں متعلقاتِ متن کے اقتضاکالحاظ رکھناآسان نہیں۔ ان نکات کے عرفان کے بغیر نہ کوئی تخلیقی عمل پوراہوسکتاہے اور نہ ترجمے کو استنادحاصل ہوسکتاہے۔ خورشید اقبال نے ترجمے میں کہانی کی روح سے سمجھوتا نہیں کیا۔ انھیں تخلیق اور ترجمے کافرق معلوم ہے۔ اس لیے تخلیقی متن میں ترجمے کے سروکاروں کوانھوں نے نظرانداز نہیں کیا:
ترجمہ کرتے وقت میں نے خاص طور پر اس بات کا خیال رکھا کہ پڑھتے وقت قاری کو ترجمے کا احساس نہ ہو،البتہ اسے ایسا لگے جیسے وہ اوریجنل افسانہ پڑھ رہا ہے،کیوں کہ کسی بھی زبان کے ادب کو جب دوسری زبان میں منتقل کیا جاتا ہے تو اس کی اپنی روح ختم ہو جاتی ہے اور ایک نوع کابوجھل پن اس پر حاوی ہو جاتا ہے، اورمیں یہی نہیں چاہتا تھا۔ اس لیے ہر جملے کا ترجمہ کرتے وقت میںبس یہ سوچتا تھا کہ اگر میںنے خود اس افسانے کی تخلیق اردو زبان میں کی ہوتی تو اس جملے کو کس انداز میں لکھتا… اور میں وہی لکھ لیتا۔ [عرض ِحال]
یہ اپروچ مترجم کو نہ صرف لکیرکافقیرہونے سے بچالیتاہے، بلکہ اسے تخلیقیت کی بہاروں سے منہ موڑنے نہیں دیتا۔ یہ رویہ لفظ کو نرا لفظ نہیں سمجھتا۔ خورشید اقبال کے اندر کا تخلیق کا ر کب خاموش رہتا۔ اس رویے نے اسے کمک پہنچایا۔ اس لیے یہاں ترجمہ لفظوں کانہیں ہواہے، بلکہ معانی کی کیفیات کو گرفت میں لانے کی سعی کی گئی ہے۔ اس عمل میں متن کے متعلقات کے خدوخال روشن ہوئے ہیں۔ تجربے کی آنچ محسوس کی گئی ہے۔ اس احساس کو ابھارنے کے لیے الفاظ کے انتخاب اوراطلاق میںموصوف کے تخلیقی ذہن نے کافی ساتھ دیا ہے:
کبھی کبھی حمید کو ایسامحسوس ہوتا جیسے وہ اس دکان میں ہمیشہ سے ہے اور ایک دن اس کی زندگی اسی دکان میں ختم ہو جائے گی۔ حالاں کہ اب اسے یہاں رہنے میں کسی قسم کی پریشانی محسوس نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی اسے رات کے آخری پہروں میں وہ پراسرار آوازیں سنائی دیتی تھیں جو کبھی اس کا دل دہلا دیا کرتی تھیں۔ وہ سمجھ چکا تھا کہ یہ آوازیں شہر کے آخری کنارے پر واقع دلدل سے آتی ہیں جس میں نہ جانے کون کون سے حشرات الارض بھرے پڑے تھے۔ اس کی دکان مضافات کی جانب سے آنے والی سڑک پر،بڑی ہی اچھی جگہ تھی۔ وہ اپنی دکان صبح تڑکے کھولتا جب مزدوراپنے کام پر جانا شروع کرتے اور رات کواس وقت تک بند نہیں کرتا جب تک کہ ان میں سے آخری شخص بھی لوٹ کر اپنے گھر نہ پہنچ جاتا۔ وہ اکثرکہا کرتا تھا کہ وہ اپنی دکان پر بیٹھا زندگی کے ہر رنگ کو اپنے قریب سے گزرتے ہوئے دیکھا کرتا ہے۔ [پنجرے]
میکانے دروازہ کھولا اور تیز ، مضطرب قدموں سے چلتا ہوا باہر نکل گیا۔ جھونپڑیوں کے چھپروں پر پڑنے والی سورج کی اولین کرنیں اور چولھوں سے اٹھنے والے دھوئیں کے مرغولے ایک نئے دن کی شروعات کا اعلان کر رہے تھے۔ [اک شب آوارگی]
لڑکے نے حیرت سے سوچا ، کیا یہی کاہنہ ہے؟۔ اسی دوران ایک بار پھر کتا دھیرے دھیرے اس کی ٹانگوں سے رگڑکھاتا ہوا گزرا۔ لڑکے کو ایک ہلکی سی نرماہٹ بھری گرمی کا احساس ہوا اور ایک عجیب سی سنسناہٹ اس کے پورے جسم میں دوڑ گئی۔ گرمی کا احساس تو لمحاتی تھا لیکن سنسناہٹ باقی رہی جو اس کی پیٹھ سے ہوتی ہوئی اس کی گردن کے پچھلے حصے تک پھیل گئی اور خوف کی ایک سرد لہرسے اس کا جسم ہولے ہولے کپکپانے لگا۔ [کاہنہ]
دس منٹ ایک خوفزدہ سی خاموشی کے سایے میں گزرگئے ایسی خاموشی جیسی شاید کائنات کی ابتدا سے پہلے تھی۔ پھر فوجیوں کے کمانڈر نے انتقامی کاروائی کے آغاز کا اشارہ کر دیا۔ کچھ فوجیوں نے گائوں والوں میں سے چند کو پکڑ کر الٹا لٹکا دیا اور بری طرح پیٹنے لگے، دوسرے فوجی ان کے زخموں پر لال مرچیں لگانے لگے جب کہ کچھ نے انھیں گائے کا تازہ گوبر کھانے پر مجبور کیا،لیکن گائوں والے اس شخص کا نام نہیں بتا رہے تھے۔ آخر،فوجیوں نے گائوں کے تمام مکانات جلا ڈالے،فصلوں کو بھی نہ چھوڑا۔ ایک ایسا ملک جہاں کے لوگوں کو بڑی مشکلوں سے دو وقت کاکھانا نصیب ہوتا تھا، وہاں سال بھر کی محنت کو یوں آگ کی نذر کر ڈالا گیا،لیکن گائوں والوں نے اب بھی اس شخص کے بارے میں نہیں بتایا۔ دراصل ان کی خاموشی کاراز بس اتنا ہی تھاکہ وہ بے چارے جانتے ہی نہیں تھے۔ انھیں سچ مچ یہ پتا نہیں تھا کہ یہ کارنامہ کس نے انجام دیا ہے۔ [وہ آدمی]
یہ اقتباسات ترجمے کو تخلیق بنانے کی مثالیں ہیں۔ یہ افسانے اپنی تہذیبی اورفکری روایات کاتسلسل ہیں۔ اس لیے انھیں اکائی کی صورت میں دیکھنے سے نہ صرف وہاں کی تہذیب،رسم و رواج،عقیدے اور سماجی شعورکاعلم ہوتاہے، بلکہ بنت میں فنی رچاؤ کاسیاق بھی فراہم ہوجاتاہے۔ انھیں اس آغاز کا حصہ سمجھنا چاہیے ، جہاں دیومالاجنم لیتاہے۔ افریقہ جیسے براعظم کی تاریکی شاید وہ دیومالائی ابہام ہے، جس کی گتھیاں آج بھی نہایت پیچیدہ ہیں۔ آج بھی وہاں کے عوام دیومالا میں جیتے ہیں۔ تاریک براعظم میں تخلیق پانے والی کہانیوں کے تجربے سے گزرکران میں اترنااورخود کوان مراحل میں شریک کرنا،اس چمک سے عبارت ہے،جہاں سے روشنی کا سرچشمہ پھوٹتاہے:
ابتدائے آفرینش میں
دودھ کا ایک بہت بڑا قطرہ تھا
ڈونڈاری آیا اور اس نے اس سے پتھر کو پیدا کیا
پھر پتھر نے لوہے کو پیدا کیا
پھر لوہے نے آگ پیدا کی
پھر آگ نے پانی پیدا کیا
پھر پانی نے ہوا پیدا کی
تب ڈونڈاری دوسری بار آیا اور اس نے پانچوں عناصر سے انسان کو پیدا کیا
لیکن انسان مغرور ہو گیا
تب ڈونڈاری نے بے بصری پیدا کی
لیکن جب بے بصری مغرور ہوگئی
تب ڈونڈاری نے نیند پیدا کی
لیکن جب نیند مغرور ہو گئی
تب ڈونڈاری نے پریشانی پیدا کی
لیکن جب پریشانی مغرور ہو گئی
تب ڈونڈاری نے موت کوپیدا کیا
لیکن جب موت بھی مغرور ہوگئی
تب ڈونڈاری تیسری بار دنیا میں آیا
اس بار وہ گوینو کے اوتار میں آیا، جو لافانی تھا
اور گوینو نے موت کو شکست دی
—معیدرشیدی
نئی دہلی
۳۰؍دسمبر۲۰۱۰ء