بر اعظم افریقہ جسے تاریک براعظم بھی کہا جاتا رہا ہے،وہاں کے شعرو ادب کے سلسلہ میں جہاں دوسری زبانوں میں ترجمہ کا کافی کام ہوا ہے وہیں اردو میں بھی اس پر کچھ نہ کچھ کام کیا جا تارہا ہے۔ افریقی شاعری اور وہاں کی دوسری ادبی اصناف کے اردو تراجم کی چند کتابیں جانی پہچانی ہیں۔ اس سلسلے میں ایک اہم پیش رفت کے طور پر خورشید اقبال کی کتاب’’اک شبِ آوارگی‘‘ کو شمار کیا جانا چاہیے۔ یہ بر اعظم افریقہ کے وسیع و عریض خطہ میں لکھی جانے والی کہانیوں کا ایک مختصر سا انتخاب ہے،جسے خورشید اقبال نے اردو میں ترجمہ کرکے اردو دنیا کے سامنے پیش کیا ہے۔ نائیجیریا سے تین،جنوبی افریقہ اور تنزانیہ سے دو،دو،اور موزمبیق، زنجبار، کانگو، مالاوی، مصر اور سوڈان سے ایک ایک کہانی کا انتخاب کیا گیا ہے۔ یوں مجموعی طور پر تیرہ کہانیاں ترجمہ کی گئی ہیں۔ خورشید اقبال نے ترجمہ کرتے وقت جہاں افریقی معاشرت اور وہاں کے کلچر کو نمایاں کیا ہے وہیں لسانی سطح پر اردو میں ترجمہ کرتے وقت کافی آزادی سے کام لیا ہے۔ کہانی کی روح کو برقرار رکھتے ہوئے جملوں کی ساخت کو اردو کے لسانی کلچر سے ہم آہنگ کرنے کی شعوری کوشش کی ہے۔ اس میں وہ بڑی حد تک کامیاب رہے ہیں۔
کہانیوں سے پہلے ’’عرضِ حال ‘‘ میں اور آخر میں ’’خصوصی مطالعہ‘‘ کے تحت خورشید اقبال نے جو باتیں لکھی ہیں،افریقی ادب کے تناظر میںوہ بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہیں۔ ان سے نہ صرف افریقی ادب کا ماضی اورحال سامنے آتا ہے بلکہ اس ارتقائی عمل کی رفتار سے افریقی ادب کے مستقبل کے امکانات کا بھی اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ کتاب کا نام’’اک شبِ آوارگی‘‘ تنزانیہ کی ایک کہانی کے نام پر رکھا گیا ہے۔ یہ بظاہر ایک سادہ سی کہانی ہے جو وہاں کے مخصوص ماحول کی عکاسی کرتی ہے لیکن شبِ آوارگی میں ننھے بچے کی موت اور ڈرائیور کا کام پورا کرکے خاموشی سے نکل جانا،کہانی کو درد انگیز اور پُر تاثیر بنا دیتا ہے۔ یہاں کہیں کوئی ظلم نہیں ہوا۔ سب کچھ طے شدہ سودے کے مطابق ہوا ہے، مرد نے رقم کی ادائیگی بھی پوری کردی ہے۔ تاہم جنسی ضرورت پوری کرنے کے دوران بیمار بچے کی موت ہوجاناکہانی کو ایک سوگوار کیفیت سے بھر دیتا ہے۔ اس مجموعے کی دوسری کہانیاں ’’اُڑان‘‘، ’’پاپا ،سانپ اور میں‘‘، ’’انتظار‘‘، ’’پنجرے‘‘، ’’اللہ کی مرضی‘‘، ’’کاہنہ‘‘،’’خادمہ‘‘،’’وہ آدمی‘‘، ’’کوڑے کا ڈھیر‘‘،’’تیسری منزل سے ہونے والی گفتگو‘‘،’’مٹھی بھر کھجوریں‘‘ اور’’امن کے بعد‘‘ بھی سب اپنی اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہیں۔ پڑھے جانے کے لائق ہیں۔
جیسا کہ میں پہلے لکھ چکا ہوں ’’عرضِ حال‘‘ اور ’’خصوصی مطالعہ‘‘ کے تحت خورشید اقبال نے بڑی اہم معلومات فراہم کی ہے۔ انھوں نے دریا کو کوزے میں بند کیا ہے اور میں ان کے کوزے میں سے چند قطرے قارئین کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں۔ افریقی ادب کے موضوعات لگ بھگ وہی ہیں جوتھوڑے بہت فرق کے ساتھ مشترکہ انسانی تاریخ کے طور پر ہم دنیا کے ہر خطے کے ادب کے موضوعات میں دیکھتے ہیں۔ دیو مالائی ادوار سے لے کر جدید دور تک کے سارے موضوعات یہاں کے ادب میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ تاہم گزشتہ کچھ عرصہ کے موضوع میں آزادی اور سماجی انصاف کا ذکر زیادہ ہے۔
بر اعظم افریقہ میں ۵۴ ممالک ہیں اور ایک ارب کی آبادی ہے۔ وہاں پورے خطے میں تقریباََ ایک ہزار زبانیں بولی جاتی ہیں۔ تاہم یہ زیادہ تر مقامی قبائلی سطح کی زبانیںہیں،جنہیں افریقہ ہی کے دوسرے علاقہ یا قبیلے کے لوگ بھی نہیں جانتے۔ ۔ ۔ ایک ہزار زبانوں میں سے صرف پچاس زبانیں ایسی ہیں جن کے بولنے والوں کی تعداد پانچ لاکھ سے زیادہ ہے۔ افریقی ادب میں ایک عرصہ تک زبانی ادب( Oral Literature)رائج رہا۔ عرب مسلمانوں کی آمد کے بعد شمالی افریقہ میں عربی زبان میں لکھنے کا آغازہوا۔ شمالی افریقہ میں ابھی تک عربی زبان کا غلبہ ہے۔ افریقہ میں نوآبادیاتی نظام سے پہلے تحریری ادب محفوظ ہونا شروع ہو گیا تھا،چنانچہ صرف ٹمبکٹو کی لائبریری میں تقریباََ تین لاکھ قلمی نسخے موجود تھے جو زیادہ تر عربی زبان میں تھے۔ سترھویں صدی میں نوآبادیاتی نظام کے دوران افریقہ میں انگریزی،فرانسیسی،پرتگالی زبانوں میں بھی لکھا جانے لگا۔ یہ ادب زیادہ تر آزادی و خود مختاری کے جذبات سے مملو ہوا کرتا تھا۔ بیسویں صدی کے وسط تک جب بیشتر افریقی ممالک کو آزادی مل گئی تویورپی اور عربی زبانوں میں لکھنے والوں کے ساتھ مقامی زبانوں میں لکھنے والوں کی بھی ایک بڑی تعداد ابھر کر سامنے آتی گئی۔
شمالی افریقہ میں مسلمان عربوں کی آمد کے بعد سے اب تک عربی زبان ہی کا غلبہ ہے۔ جنوبی افریقہ میں Shona ،Xhosa اور Zulu زبانیں رائج ہیں۔ مشرقی افریقہ میں سواحیلی زبان بولی جاتی ہے جس میں عربی اور ’’بان تُو‘‘ کے کئی الفاظ شامل ہیں۔ مغربی افریقہ میں Bantu ’’بان تُو‘‘زبان بولی جاتی ہے جو بنیادی طور پر ۲۵۰ زبانوں کی ایک پوری جماعت ہے۔ شاید ہم اسے محدود معنی میں وہاں کی قبائلی لشکری زبان کہہ سکتے ہیں۔ انگریزی تو بہر حال اب نہ چاہتے ہوئے بھی عالمی سطح پر رابطے کی زبان بن گئی ہے سو افریقہ میں نوآبادیاتی اثرات کی وجہ سے بھی اور اپنی عالمی اہمیت کی وجہ سے بھی انگریزی زبان موجود ہے۔ نو آبادیاتی اثرات کی وجہ سے فرانسیسی اور پرتگالی زبانیں بھی بعض حصوں میں ابھی موجود ہیں۔
افریقہ کے سیاسی و سماجی مسائل پر ماضی،حال اور مستقبل کے حوالے سے بہت ساری باتیں کی جا سکتی ہیں،بہت سے تجزیے کیے جا سکتے ہیں۔ نوآبادیاتی دور کی شدید مذمت کی جا سکتی ہے،افریقیوں کی جدوجہد آزادی کو خراج تحسین پیش کیا جا سکتا ہے،آزادی کے بعد تاریکی کے سفر سے نکلنے کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا جا سکتا ہے،لیکن میں یہاں ایک تلخ اظہار کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ہمارا افریقیوں کے ساتھ پیار محبت کا سارا سلسلہ زبانی جمع خرچ تک ہے۔ جب دنیا کا منظر نامہ بدلا،مغربی ممالک کواپنی غلطیوں یا زیادتیوں کا احساس ہواتو ان کی ہمدردی زبانی جمع خرچ تک نہیں رہی۔ انھوں نے گورے کو کالے پر اور کالے کو گورے پر کوئی فضیلت نہیں رہنے دی۔ گورے مرد اور افریقی لڑکیاں۔ ۔ افریقی مرد اور گوری لڑکیاں۔ ۔ گوروں کی طرف سے افریقیوں کے ساتھ بے شمار شادیاں کی گئیں۔ یہ اپنی غلطیوں کی تلافی کی عملی اور سماجی صورت تھی۔ اس کے بر عکس ہم اپنی تمام تر ہمدردی کے باوجود ابھی تک یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم نے سماجی سطح پر ہمدردی اور محبت کا کوئی مثالی کردار ادا کیا ہو۔ کیا ہم بھی اہلِ مغرب کی طرح افریقہ والوں سے ایسی محبت اور ہمدردی کا مظاہرہ کرنے کے لیے تیار ہیں؟اس سوال کے جواب میں ہی اصل حقیقت پنہاں ہے۔
سیاسی و سماجی معاملات سے قطع نظر جہاں تک ادبی سطح کا تعلق ہے،اردو میں افریقی ادب کا متعارف کرایا جانا،اردو والوں کے لیے مفید ثابت ہوگا۔ دنیا جہان کا ادب کسی گلدستے کے رنگ برنگے پھولوں کی طرح ہے۔ سو جتنے رنگوں کے پھول اس میں سجائے جاتے رہیں،ادب کے لیے خوبصورتی،خوش رنگی و خوشبو کا باعث بنتے رہیں گے۔ اس اچھے کام کے لیے خورشید اقبال کو مبارک باد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ ترجمہ کے کام سے دلچسپی رکھنے والے ہمارے احباب اردو ادب کو بھی دوسری زبانوں میں متعارف کرانے کی صورت نکالیں گے تاکہ محبت یک طرفہ نہ رہے۔
حیدر قریشی
مدیر جدید ادب جرمنی