تقریباً تین سال قبل میں نے چند افریقی افسانے پڑھے تو دل میں برسوں پرانی ترجمہ نگاری کی خواہش عود کر آئی۔ انگریزی زبان میں جب بھی کوئی اچھی کہانی پڑھتا توبے ساختہ دل میں آتا کہ اسے اردو کا جامہ پہنا یا جائے، لیکن حقیقت یہ بھی ہے کہ میں نے اس سلسلے میں کبھی کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھا یا تھا۔ دراصل انگریزی ادب کاترجمہ، میں اس خیال سے نہیں کر نا چاہتا تھا کہ تقریباً تمام معروف افسانہ نگاروں کی کہانیاں پہلے ہی کئی کئی بار ترجمہ کی جاچکی تھیں۔ میں یہی سوچ کر رک جاتا کہ ان کو ترجمہ کر کے میں کون سا تیر مار لوں گا۔
لیکن جب افریقی افسانے پڑھے تو لگا کہ ان کا ترجمہ ضرور ہونا چاہیے ،کیوں کہ یہ اردو ادب میں اضافہ ہوگا۔ جہاں تک میںجانتا ہوں افریقی افسانوںپر اردو میں باقاعدہ کوئی کام نہیں ہوا۔ سوائے جاوید دانش اور خالد سہیل کی مشترکہ کاوش’کالے جسموں کی ریاضت‘کے، جس میں نظموں،لوک کتھائوں،ڈراموں ، مضامین،سوانح حیات وغیرہ کے ساتھ چند افسانے بھی شامل ہیں۔ علاوہ از ایں اُس کتاب میں صرف افریقہ کا ادب نہیں،بلکہ سیاہ فاموں کا ادب تھا جن میں آسٹریلیا، امریکہ اور یورپ میں بسے سیاہ فام بھی شامل ہیں۔
چند افریقی افسانے پڑھنے کے بعد میری دلچسپی بڑھتی گئی اور میں نے انٹر نیٹ کی مدد سے تلاش کر کے بہت سے افسانے حاصل کر لیے۔ ان میں کچھ اچھے تھے، کچھ بہت اچھے اور کچھ بالکل بکواس۔ میں نے اُن میں سے چنندہ افسانوں کا ترجمہ شروع کر دیا۔
n
ترجمہ کرتے وقت میں نے خاص طور پر اس بات کا خیال رکھا کہ پڑھتے وقت قاری کو ترجمے کا احساس نہ ہو،البتہ اسے ایسا لگے جیسے وہ اوریجنل افسانہ پڑھ رہا ہے،کیوں کہ کسی بھی زبان کے ادب کو جب دوسری زبان میں منتقل کیا جاتا ہے تو اس کی اپنی روح ختم ہو جاتی ہے اور ایک نوع کابوجھل پن اس پر حاوی ہو جاتا ہے، اورمیں یہی نہیں چاہتا تھا۔ اس لیے ہر جملے کا ترجمہ کرتے وقت میںبس یہ سوچتا تھا کہ اگر میںنے خود اس افسانے کی تخلیق اردو زبان میں کی ہوتی تو اس جملے کو کس انداز میں لکھتا… اور میں وہی لکھ لیتا۔ میرا یہ انداز، فن ترجمہ نگاری کے معیار پر کس حد تک پورا ،اترے گا ،یہ میں نہیں جانتا۔ ہوسکتا ہے کچھ لوگ اسے سرے سے ترجمہ ہی نہ مانیں۔ بات کسی حد تک درست بھی ہے۔ در اصل میں نے ہر جملے کو اردو میں ترجمہ نہیں کیا بلکہ Re-writeکیا ہے۔ ایسا کرنے کی وجہ سے مجھے کہیں کہیں اوریجنل افسانے سے ہلکاپھلکااختلاف بھی کرنا پڑا ہے،کیوں کہ محض ترجمہ کر دینے سے کہانی میں وہی بوجھل پن آجاتا۔ ہر زبان کا اپناانداز ہوتا ہے، اپنے محاورے ہوتے ہیں ،الفاظ کے استعمال کا اپنا طریقہ ہوتا ہے جو دوسری زبان میں بالکل مختلف ہوتا ہے۔ اگر ترجمہ شدہ مضمون میں سلاست اور بلاغت پیدا کرنی ہو تو اس میں اردو کا اپنا مخصوص نظام،اندازِبیان اور محاورات استعمال کرنے ہوں گے اور اس صورت میں بعض تبدیلیاںنا گزیر ہیں۔
اتنا تو یقین ہے کہ میرا یہ انداز قارئین کو پسند آئے گا،لیکن ناقدین ادب کا رویہ کیا ہوگا، مجھے نہیں معلوم۔
n
ادب سماج کا آئینہ ہوتا ہے اور کسی بھی ملک کے ادب میں ہمیں وہاں کا پورا کلچر سانسیں لیتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اس لیے کسی بھی ملک کے ادب کو پڑھنے سے قبل اس ملک کے تواریخی، جغرافیائی، سماجی، معاشی اور سیاسی حالات کاجاننا بے حد ضروری ہے ورنہ ہم اس کے ساتھ صحیح انصاف نہیں کر پائیں گے۔
جغرافیائی حالات کی وجہ سے افریقہ کو’ تاریک براعظم‘ بھی کہا جاتا ہے،کیوں کہ انیسویں صدی سے قبل تک یورپ اور ایشیا کے لوگ افریقہ کے بارے میں زیادہ نہیں جانتے تھے۔ ہاں! بر اعظم افریقہ کا ایک ملک جو ہزاروں برسوں سے ساری دنیا میں مشہور تھا… وہ تھا مصر (Egypt)بلاد مصر کی اپنی تہذیب اور اپنا ادب تھا۔ مصر چوں کہ افریقہ کے بالکل شمالی حصے میں ، عرب ملکوں کے قریب واقع ہے، اس لیے مصر کا باقی دنیا سے رابطہ بہت پرانا ہے۔ اسلامی فتوحات کے دور میں افریقہ کے کچھ، اور شمالی حصوں مثلاً مراقش، تیونس، لیبیا ،موریطانیہ اور الجیریا وغیرہ پر مسلمانوں نے قبضہ کیا اور اسلامی سلطنت کی بنیاد ڈالی(ان ممالک کو مسلمانوں نے مغرب(Maghreb) کا نام دیا،آج بھی یہ نام رائج ہے)۔ یہ سارے وہ علاقے تھے جہاں بیرونی دنیا کے افراد با آسانی پہنچ سکتے تھے۔
لیکن اس براعظم کے باقی حصوں تک پہنچنا ،ناممکن نہیں، تو کم از کم مشکل ضرور تھا ،بلکہ جان جوکھم کا کام تھا۔ راستے ناقابل عبور تھے۔ دنیا کے خطرناک ترین جنگل اوردنیا کے سب سے بڑے ریگستان درمیان میں تھے۔ خطرناک ترین درندے اورنہایت زہریلے سانپ بچھو راہ میں تھے۔ خطرناک بیماریوں کے جراثیم اور وائرس فضا میںتھے۔ یہاں تک کہ مکھیاں تک زہریلی تھیں۔ انھی جنگلوں کے درمیان انسانی بستیاں آبادتھیں۔ جن میں بسنے والے لوگ عجیب، ان کے رسم و رواج عجیب، مذہب عجیب…تہذیب و تمدن کی بو، انھیں چھو کربھی نہیں گزری تھی۔ یہاں تک کہ بعض قبائل آدم خورتھے اور سیاحوں کو پکڑ کر کھا جاتے تھے۔ ایسے میں بھلا کون ان تک پہنچنے کی ہمت کرتا۔ یہی وجہ تھی کہ انیسویں صدی تک دنیا والے اس براعظم کے زیادہ تر حصوں سے ناآشنا تھے۔ اسی بنیاد پر ۱۸۷۸ء میں ہنری ایم۔ اسٹینلے نے اس براعظم کو’ تاریک براعظم‘ کا نام دیاتھا۔
آہستہ آہستہ بیرونی دنیا کے لوگوں نے افریقہ میں داخل ہونا شروع کیا،لیکن افسوس یہ ہے کہ ان کا مقصد وہاں کے اَن پڑھ اور بھولے بھالے لوگوں کا استحصال کرناتھا۔ غلامی کے دورِ عروج میں افریقہ غلاموں کے حصول کا سب بڑا ذریعہ تھا۔ غلاموں کے کاروباری افریقہ کے گائوں اور بستیوں سے افریقیوں کو بالکل جانوروں کی مانند پکڑ کر لے جاتے۔ کبھی کبھی اس کوشش میں مقامی لوگوں سے تصادم بھی ہوتا، لیکن یہ لوگ اپنے جدید اسلحہ جات کی بنا پر ہمیشہ کامیاب رہتے اور بڑی بے رحمی سے افریقیوں کا خون بہاتے۔ مائوں سے ان کے بچے چھین لیے جاتے، شوہروں سے ان کی بیویاں اور بیویوں سے شوہروں کو الگ کر دیا جاتا۔ غلاموں کو پکڑنے کے بعد ان کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا۔ انھیں جہازوںمیں بھیڑ بکریوں کی طرح بھرا جاتا،جہاں وہ مہینوں لمبے سفر کے دوران ہاتھ پائوں بھی مشکل سے ہلا پاتے۔ انھیں چابکوں سے پیٹا جاتا،زنجیروں میں جکڑ کر رکھا جاتا اور کتوں سے بھی بدتر خوراک دی جاتی۔
خدا خدا کر کے غلامی کے کاروبار کا خاتمہ ہوا، لیکن افریقیوں کو راحت کی سانس نصیب نہیں ہوئی۔ ان پر دوسری افتاد حریص حکومتوں کے نوآبادیاتی نظام کی صورت میں پڑی۔ برطانیہ ، پرتگال، فرانس، اٹلی، جرمنی ، اسپین اور بیلجیم وغیرہ ان پر گِدھوں کی طرح ٹوٹ پڑے اور پورا افریقہ غلامی کی زنجیروں میں جکڑ گیا۔ ان میں سب سے بڑا حصہ برطانیہ اور فرانس کا تھا۔ دونوں تقریباً دو تہائی افریقہ پر قابض تھے۔ غلامی کیا ہوتی ہے اور اس کے نتائج کیا ہوتے ہیں، یہ ہم ہندوستانی بہت اچھی طرح جانتے ہیں، کیوں کہ ہم نے بھی ۲۰۰ برسوں تک انگریزوں کی غلامی برداشت کی ہے۔ یوروپی سفید فاموں نے افریقہ کے قدرتی وسائل کو بری طرح لوٹااور اسے کھوکھلا کر ڈالا،لیکن وہاں کے لوگ … ان کے نصیب میں اب بھی وہی غریبی، وہی جہالت ، وہی بے بسی کی موت تھی۔
اور آج …
افریقہ، ایشیا کے بعد، دنیا کا دوسرا سب سے بڑا، اور سب سے گھنی آبادی والابر اعظم ہے جو روئے زمین کی تقریباً ۲۰ فیصد سطح پر پھیلا ہوا ہے۔ اس بر اعظم میں ۵۴آزاد مملکتیں ہیں، جن میں تقریباً ایک ارب انسان رہتے ہیں۔
آج غلامی کی زنجیریں کٹ چکی ہیں۔ کہنے کو تو افریقی ممالک آزاد ہو چکے ہیں، لیکن حالات اب بھی وہی ہیں۔ بیشتر ممالک میں سیاسی عدم استحکام ہے۔ بغاوتیں عام ہیں۔ جمہوریت بس ایک تماشہ ہے۔ آمریت کی دھوم ہے۔ جس کے ہاتھ میں طاقت آجاتی ہے ،وہی حکومت کا تختہ پلٹ کر حکمراں بننا چاہتا ہے۔
اورافریقی عوام؟
وہ آج بھی بھوک سے مر رہے ہیں۔ کیا آپ نے ایتھوپیا اور صومالیہ کے لوگوں کی تصاویر اخباروں اور رسائل میں نہیں دیکھیں جو فاقہ کشی کی وجہ سے ہڈیوں کا ڈھانچہ بن گئے ہیں؟افریقہ میں آج بھی جہالت ہے۔ افریقہ کے بیشتر ممالک کے عوام آج بھی بنیادی تعلیم سے محروم ہیں۔ آج بھی صدیوں پرانی توہم پرستی کے اندھیروں میں اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ نوکری اور تجارت کے راستے معدوم ہیں۔ غریبی اور بھک مری نے ان کے اخلاق پر گہرا ،اثر ڈالا ہے جس کی وجہ سے جرائم اور کرپشن عام ہو گئے ہیں۔
ایسا لگتا ہے جیسے تاریک براعظم کے باشندوں کا مقدرہی تاریک ہے۔
n
کسی بھی ملک کے ادب میں اس ملک کے سماج کی تصویر دکھائی دیتی ہے۔ جب آپ یوروپی اور امریکی افسانے اور ناول پڑھتے ہیں تو ان میں آپ کو چمچماتی ہوئی کاریں،فلک بوس عمارتیں،فائیو اسٹار ہوٹلز، کیبرے ڈانس اورکڑکڑاتے ہوئے ڈالر نظرآتے ہیں،مگریہ حیرت کی بات نہیں۔ درحقیقت یہی وہاں کا سماج ہے۔
لیکن اس کے بر عکس جب آپ افریقی افسانے پڑھتے ہیں تو ان میں آپ کو بھوک سے بلکتا ہوا بچہ دکھائی دیتا ہے،مجبوری میں خود کو فروخت کرتی ہوئی عورت دکھائی دیتی ہے،روزی روٹی کے لیے پریشان حال مرد، دکھائی دیتا ہے، اورالجھنوں میںشکار نوجوان نظر آتا ہے۔ ان کہانیوں میں توہم پرستی،جہالت، کرپشن اوربغاوتیں ہیں۔ انقلاب اور حکمرانوں کا ظلم ہے۔ عوام کی بے بسی ہے… اور ان سب ساتھ ساتھ بہتر کل کی امید بھی ہے۔
n
اس انتخاب میں جو افسانے شامل ہیں وہ چوں کہ افریقہ کے مختلف ممالک سے چنے گئے ہیں، اس لیے ان میں سے ہر افسانے کا ماحول اور وہاں کے مسائل آپ کو مختلف نظر آئیں گے۔ مجھے امید ہے کہ ان کے مطالعے سے افریقہ کے مختلف ممالک کے سماج، وہاں کے عوامی مسائل ، وہاں کے لوگوں کے رہن سہن کی متعدد تصویریں آپ کی نگاہوں کے سامنے آجائیں گی۔
n
اس انتخاب کے ہر افسانے کی شروعات میں متن سے متعلق تصویر بھی شامل کی گئی ہے جو مشہور آرٹسٹ جمیل خان کی کاوشوں کا نتیجہ ہیں۔ ان تصاویر کی شمولیت کا مقصد ایک طرف جہاں کتاب کی خوبصورتی میں اضافہ ہے وہیں ایک اور بات بھی میرے ذہن میں تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں چاہتا تھا کہ افسانہ شروع کرنے سے قبل قاری کے ذہن میں اس متن کے ’افریقی‘ کرداروں کی تصویریں بس جائیں تاکہ افسانہ پڑھتے وقت اس کے تصور میں ’افریقی‘ کردار جیتے جاگتے دکھائی دیں۔
n
آخر میں، میں اپنے دوستوں عظیم انصاری اوربلند اقبال،اور عزیز ی معید رشیدی کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنھوںنے اس کتاب کے آئیڈیا سے لے کر طباعت واشاعت تک کے ہر مرحلے میں ، ہر قدم پر، میری ہمت افزائی کی، اور اپنے گراںقدر مشوروں سے نوازا۔ میں عزیزی جمیل خان کا بھی ممنون ہوں جنھوں نے اس انتخاب کے لیے بڑی محنت سے تصویریں بنائیں۔
جگتدل
۲؍ ستمبر ۲۰۱۰ء