افریقی ادب کی تاریخ بہت پرانی ہے،لیکن چونکہ افریقہ جدید تہذیب و تمدن کی روشنی سے دور ایک تاریک براعظم تھا اوروہاں کے لوگ لکھنا پڑھنا بالکل نہیں جانتے تھے۔ اس لیے وہاں کی زیادہ ترقدیم زبانیں رسم الخط سے محروم تھیں۔ یہ زبانیں صرف بولی جاتی تھیں،لکھی نہیں جاتی تھیں۔ اسی لیے افریقہ کا قدیم ادب زیادہ تر زبانی تھا۔ نوشتہ ادب یہاں سولہویں صدی کے بعد (نوآبادیاتی نظام کے بعد) وجود میں آیا۔
]یہاں یہ بات خاص طور پر ذہن میں رکھنے کی ہے کہ نوآبادیاتی نظام کے دور میں سائوتھ افریقہ اور دوسرے کئی ملکوں میں بسے سفید فاموں نے بھی ادب کی تخلیق کی، لیکن ہم اسے افریقی ادب میں شمار نہیں کریں گے۔ یہاں اس مضمون میں ہم خصوصی طور پر اس افریقی ادب کا تذکرہ کریں گے جس کی تخلیق سیاہ فام افریقیوں نے کی۔ [
افریقہ کسی ایک ملک کا نام نہیں،بلکہ براعظم کا نام ہے جس میں کل ۵۴آزاد مملکتیں ہیں اوریہاں تقریباً ایک ارب انسان بستے ہیں جو لگ بھگ ایک ہزار مختلف زبانیں بولتے ہیں۔ ایسے ایک بر اعظم کے ادب پرنگاہ ڈالنے سے پہلے ایک نظر وہاں کی زبانوں پر ڈالنا لازمی ہے، تاکہ مضمون میں آگے چل کر جب ان زبانوں کے نام ہمارے سامنے آئیں تو ہم باآسانی سمجھ سکیں۔
افریقہ کی زبانیں :
افریقہ کے مختلف حصوں میں تقریباً ۱۰۰۰ زبانیں بولی جاتی ہیں لیکن ان میں سے بہ مشکل ۵۰ زبانیںہی ایسی ہیں جن کے بولنے والوں کی تعداد پانچ لاکھ سے زیادہ ہے۔ بقیہ زبانیں چھوٹے چھوٹے خطوں یا قبیلوں میں بولی جاتی ہیں۔
شمالی افریقہ کے لوگ مصری اور بربری زبانیں بولتے ہیں جو دراصل عربی اور عبرانی زبانوں کی ہی بدلی ہوئی شکلیں ہیں۔ ۳۰ ق۔ م۔ میں روم کے شہنشاہ آگسٹس نے مصر و شمالی افریقہ فتح کیا تھا اور یہ خطہ ایک طویل عرصے تک رومنوں کے قبضے میں رہا۔ روم کے زوال کے بعد مصر کی سلطنت بازنطینیوں کے ہاتھ لگی۔ رومنوں اور بازنطینیوں کے دور اقتدار میںیہاں کے لوگ لاطینی اور یونانی زبانیں بولنے لگے تھے۔ دسمبر ۶۳۹ء میں حضرت عمر وبن العاصؓ کی سربراہی میں ۴۰۰۰ عربوں کی فوج مصر میں داخل ہوئی اور رومیوں اور بازنطینیوںکے ۹۷۵سالہ دور اقتدار کا خاتمہ ہوگیا۔ اس کے بعد سے شمالی افریقہ کے ایک بڑے حصے پر عربی زبان کا غلبہ ہو گیا جب کہ باقی لوگ بربر زبانیں بولتے ہیں۔ اس خطے کی ادبی زبان عربی ہے۔
مغربی افریقہکے لوگ Bantu(بَان تُو)زبانیں بولتے ہیں۔ Bantu دراصل زبانوں کی ایک جماعت کا نام ہے جس میں تقریباً ۲۵۰ زبانیں شامل ہیں مثلاً Kongo, Sawzi, Tumbuka, Tetela Tutubu, Yoruba, Meru, Kamba, Rawanda,اورHausaوغیرہ۔
مشرقی افریقہ کی سب سے اہم زبان Sawahili(سَواحِلی)ہے۔ یہ بھی در اصل ایک بانتُو زبان ہی ہے لیکن اس میں عربی زبان کے بے شمار الفاظ شامل ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے یہ مخلوط زبان بن گئی ہے۔ یہ افریقہ کی سب سے بڑی بول چال کی زبان (Lingua franca)ہے۔ آٹھ ملکوں میں اس کے بولنے والوں کی تعداد تقریباًآٹھ کروڑ ہے۔ اس کے علاوہ یہاں کی دوسری زبانیں Somali اورAmharic ہیں۔
جنوبی افریقہکی زبانوں میں بار بار چٹکاری اصوات(clicking sounds)سنائی دیتی ہیں۔ یہ خصوصیت افریقہ کے کسی دوسرے خطے کی زبانوں میں نہیں ہے۔ یہاں کی مختلف زبانوں میں !kungکو خاص اہمیت حاصل ہے۔ تقریباً ۵۰۰ء میں بان تُو زبانیں بولنے والے لوگ سائوتھ افریقہ میں داخل ہوئے اور بان تو اور !Kung زبانوں کے ملنے سے Xhosa, Shonaاور Zuluزبانیں وجود میں آئیں جو آج بہت مقبول ہیں۔
نو آبادیاتی نظام کے بعد افریقہ کے مختلف ممالک انگریزوں، فرانسیسیوں اور پرتگالیوں کے قبضے میں آگئے۔ ایک لمبے عرصے تک غلامی کی چکی میں پستے پستے غلاموں نے آقائوں کی زبانیں سیکھ لیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے ہم ہندوستانیوں نے انگریزی سیکھی اور اپنائی۔ حالانکہ آج نو آبادیاتی نظام کا خاتمہ ہو چکا ہے اور افریقی ممالک آزاد ہو چکے ہیں لیکن زیادہ تر ملکوں میںمقامی زبانوں کے ساتھ ساتھ انگریزی، فرانسیسی اور پرتگالی بھی بولی، پڑھی اور سمجھی جاتی ہے ،اور اس میں ادب بھی تخلیق کیا جاتا ہے۔
آسانی کے لیے ہم پورے افریقی ادب کو دو حصوںمیں تقسیم کر سکتے ہیں۔
۱۔ زبانی ادب(Oral literature)
۲۔ نوشتہ یا تحریری ادب (Written Literature)
۱۔ زبانی ادب(Oral Literature or Orature) :
یہ افریقہ کا قدیم ترین ادب ہے۔ صدیوں قبل جب افریقہ کے لوگ لکھنا پڑھنا بالکل نہیں جانتے تھے ،تب بھی وہ ادب کی تخلیق کیا کرتے تھے لیکن ان کا ادب ان دنوں زبانی ہوا کرتا تھا۔ یہ بالکل اسی قسم کا ادب تھا جیسا ہم اپنی دادی یا نانی کی زبانی بچپن میں کہانیوں، پہیلیوں، لوک گیتوں اور لوریوں کی صورت میں سنا کرتے تھے۔ یہ تخلیقات ایک نسل سے دوسری نسل تک سینہ بہ سینہ منتقل ہوا کرتی ہیں۔
افریقی زبانی ادب نظموں، گیتوں، پہیلیوں ،ضرب الامثال،بھجنوں،دیومالائی کہانیوں، تاریخی کہانیوں اور حیوانی کہانیوں کی صورت میں تھا۔
افریقی سماج میں پیشہ ور قصہ گو بہت مقبول تھے۔ ان کا کام مختلف گائووں اور قبائل میں جا کر قصے سنا نا تھا۔ بدلے میں لوگ انھیں اناج اور دوسری اشیا پیش کیا کرتے تھے۔ یہ قصہ گو کہانیاں سنانے کے لیے عموماً جو طریقہ استعمال کرتے تھے اسے ہم آج کے زمانے کی اصطلاح میں Call & Response Techniqueکہتے ہیں۔ اس تکنیک کے مطابق وہ کہانی کو آگے بڑھانے کے لیے سامعین سے سوال کرتے اورسامعین کے جواب کے ساتھ ساتھ کہانی آگے بڑھتی رہتی۔ آج کل یہ طریقہ اکثراساتذہ کلاس روم میں چھوٹے بچوں کو پڑھانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
قصہ گوئوں کی ایک دوسری قِسم گا کر کہانیاں سنانے والوں کی تھی جنہیں Griotsکہا جاتا تھا۔ یہ لوگ کہانیاں سنانے کے لیے موسیقی کا استعمال کرتے تھے۔
افریقی زبانی ادب کی مختلف شکلیں :
(۱) دیو مالا ئی قصے : دنیا کے ہر ملک کی طرح افریقہ کا قدیم ترین ادب بھی دیو مالا پر مشتمل تھا۔ اس میں کائنات کی تخلیق ، دیوی دیوتائوں کے قصے، جانوروں اور انسانوں کی تخلیق کی کہانیاں شامل تھیں۔ دیوتائوں کی حمد و ثنا(بھجن) اور مختلف تہواروں کے موقع پر گائے جانے والے مذہبی اور قربانی کے گیت شامل تھے۔
ٰایک مثال : کائنات کی تخلیق سے متعلق ،مالی کے فولانی قبیلوں کی ایک دلچسپ دیومالائی نظم کا ترجمہ انگریزی میں Ulli Beierنے The origin of life and death کے نام سے ۱۹۶۱ء میں کیا تھا۔ اس کا اردو ترجمہ درج ذیل ہے۔ (ان قبائل کا پیشہ مویشی پالنا ہے اس لیے ان کی نظروں میں دودھ کی جو حیثیت ہے وہ نظم سے ظاہر ہے۔ ڈونڈاری اس دیوتا کا نام ہے جس نے کائنات کی تخلیق کی)۔
ابتدائے آفرینش میں
دودھ کا ایک بہت بڑا قطرہ تھا
ڈونڈاری آیا اور اس نے اس سے پتھر کو پیدا کیا
پھر پتھر نے لوہے کو پیدا کیا
پھر لوہے نے آگ پیدا کی
پھر آگ نے پانی پیدا کیا
پھر پانی نے ہوا پیدا کی
تب ڈونڈاری دوسری بار آیا
اور اس نے پانچوں عناصر سے انسان کو پیدا کیا
لیکن انسان مغرور ہو گیا
تب ڈونڈاری نے بے بصری پیدا کی
لیکن جب بے بصری مغرور ہوگئی
تب ڈونڈاری نے نیند پیدا کی
لیکن جب نیند مغرور ہو گئی
تب ڈونڈاری نے پریشانی پیدا کی
لیکن جب پریشانی مغرور ہو گئی
تب ڈونڈاری نے موت کوپیدا کیا
لیکن جب موت بھی مغرور ہوگئی
تب ڈونڈاری تیسری بار دنیا میں آیا
اس بار وہ گوینو کے اوتار میں آیا، جو لافانی تھا
اور گوینو نے موت کو شکست دی
(۲) نظمیں : افریقی لوگوں کی زندگی کا ہر موقع گیتوں بھرا تھا۔ کوئی چرواہا اپنے بیل کے لیے گاتا تھا : ’’میرے بیل کا رنگ طوفان میں چھائے بادل کی طرح سیاہ ہے ‘‘ (دِنکا قبیلے کا گیت)، کوئی نوجوان سپاہی اپنی نئی نویلی دلہن کے لیے گاتا تھا ’’نہ اس کی ایڑی کھردری ہے اور نہ ہی ہتھیلی ،یہ تو چھونے میں اتنی چکنی ہے جیسے کلیجی ‘‘ (فولانی قبیلے کا گیت)۔ ان کی تعریفی نظمیں نہ صرف دیوتائوں کے لیے ہوا کرتی تھیں بلکہ انسانوں، جانوروں،درختوں اور مقامات کے لیے بھی ہوا کرتی تھیں۔ مثال کے طور پر درج ذیل نظم زولو قبیلے کے عظیم سردار شاکا کی شان میں تخلیق کی گئی۔
وہ شاکا ہے، جسے ہلا یا نہیں جا سکتا
بادلوں کی طرح گرجنے والا،مینزی کا بیٹا
وہ ایسا پرندہ ہے جو دوسرے پرندوں کا شکار کرتا ہے
اس کی جنگی کلہاڑی دوسری جنگی کلہاڑیوں سے بہتر ہے
( زولو سے انگریزی ترجمہ :Es'kia Mphahlele )
افریقی زبانی ادب میںنظموں کی بہت ساری قسمیں رائج تھیں۔ مختلف قبائل میں ان کی مختلف ہیئتیں تھیں اور مختلف نام تھے۔ مثلاً یوروبا قبائل میںنظموں کی مندرجہ ذیل قسمیں رائج تھیں۔
orin (گیت) ، oriki (شخصیات سے متعلق تعریفی نظمیں)، orile (سلسلۂ نسب بیان کرنے والی نظمیں) ، ijala (شکاریوں کے گیت) ، ese (پیش گوئیوں والی نظمیں)، iwi (سوانگ بھرنے والوں کے گیت ) ، ofo ( منتروں والا گیت) ، rara (فی البدیہہ نظمیں اور گیت)
(۳) داستانیں: یہ اکثر کسی سوپر ہیرو ، عظیم فاتح یا نجات دہندہ سے متعلق طویل قصوں پر مشتمل ہوا کرتی تھیں۔ اس کی چندمشہور مثالیں مندرجہ ذیل ہیں :
(الف) ]مغربی افریقہ[ سون جاہ توکی داستان : سون جاہ تو عظیم مالی سلطنت کا بانی تھا۔ مالی کے لوگ اسے مالی کا ہیرو اور نجات دہندہ خیال کرتے تھے۔
(ب) ]قدیم گھانا سلطنت [ دِ نگا کی داستان
(ج) ] ایتھوپیا [ کیبرا نیگاسٹ ( بادشاہوں کی داستان)
(د) ]کانگو [ مووِنڈو کی داستان
(۴) لوک کتھائیں : ان قصوں کے موضوعات زیادہ تر اصلاحی ہوا کرتے تھے جس کے ذریعہ سماجی اور شخصی سطح پر اصلاحی اقدار کے فروغ کا کام لیا جاتا تھا اور غیر سماجی عناصر کی مذمت کی جاتی تھی۔ لوک کہانیوں کی کئی قسمیں ہیں۔
(الف) عیّاروں کی کہانیاں (Trickster stories) : حیوانی کرداروں والی ان کہانیوں میں ایک ننھا سا کمزور جانور اپنی چالاکی سے بڑے اور موذی جانور کو شکست دے کر اپنی جان بچا نے میں کامیاب رہتا تھا۔ (اردو میں بھی ایسے قصے مشہور ہیں:مثال کے طورپر ایسا ہی ایک قصہ ہم سب نے اپنے بچپن میں پڑھا یا سنا ہے کہ کس طرح ایک چالاک خرگوش شیر کو کنویں میں گرا کر اپنی جان بچانے میں کامیاب ہو جاتا ہے)۔
ایسے کرداروں والی جوکہانیاں افریقہ میں مقبول ہیں ان میں سے چند درج ذیل ہیں۔
(i) گھانا کے اشانتی قبائل میں اَنانسی نامی ایک عقلمند مکڑی کی کہانیاں مشہور ہیں۔
(ii) نائجریا کے یوروبا قبائل میں اِجاپا نامی ایک کچھوا کی کہانیاں مقبول ہیں۔
(iii) مشرقی اور وسطی افریقہ کے علاقوں میں سِنگُورُو نامی ایک خرگوش کے کارنامے لوگ بڑے شوق سے سنتے ہیں۔
ایسے ہی بے شمار حیوانی کرداروں پر مشتمل کہانیاں افریقہ کے مختلف خطوں میں لوگ یاد رکھتے اوربڑے شوق سے سنتے اور سنایا کرتے ہیں۔
(ب) بچ نکلنے کی کہانیاں (Escape stories) : یہ ان عقلمندوں کی کہانیاں ہیں جو بہت مشکل حالات میں اپنی جان بچانے میں کامیاب رہتے ہیں۔
مثلاً ایک کہانی میں ایک ظالم بادشاہ چند لوگوں کوایک عمارت کی تعمیر کا حکم دیتا ہے لیکن شرط لگا دیتا ہے کہ عمارت کی تعمیر اوپر سے شروع کی جائے یعنی چھت پہلے بنائی جائے اور بنیاد سب سے آخر میں۔ ناکامی کی صورت میں انھیں قتل کر دیا جائے گا۔ بادشاہ درحقیقت ان لوگوں کو اسی بہانے قتل کرناچاہتا تھا،لیکن ان میں ایک عقلمند آدمی موجود تھا جس نے بادشاہ کو خبر دی کہ عمارت کی تعمیر کی ساری تیاریاں ہو چکی ہیں، لیکن ہمارے قبائلی رواج کے مطابق آپ جب تک اپنے ہاتھوں سے سنگ بنیاد نہیں رکھیں گے، ہم کام شروع نہیں کر پائیں گے۔ بادشاہ شر مندہ ہو جاتا ہے اور ان لوگوں کو بخش دیتا ہے۔
(ج) ذوالجہتی کہانیاں (Dilemma stories) : لوک کہانیوں کی یہ تیسری قسم ہے۔ اس میں ایسے قصے شامل ہیں جن میں گو مگو کی کیفیت ہوتی ہے اور کہانی کا فیصلہ سامعین پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔
ایک مثال : ] سینیگال کے Wolofقبائل کی کہانی[
تین بھائی ایک اجنبی ملک میں گئے۔ وہاں تینوں نے ایک ہی لڑکی سے شادی کرلی۔ وہ باری باری اس کے ساتھ راتیں گزارتے تھے۔ ایک رات لڑکی کو ایک ڈاکو نے قتل کردیا۔ قتل کا شبہ بڑے بھائی پر کیا گیا جو اس رات لڑکی کے ساتھ تھا۔ فیصلہ یہ ہوا کہ اسے بھی قتل کر دیا جائے۔ بڑے بھائی نے درخواست کی مرنے سے قبل اسے اپنے بوڑھے باپ سے آخری بار ملنے کی اجازت دی جائے۔ اسے اجازت دے دی گئی۔ جب اس کے لوٹنے میں بہت زیادہ تاخیر ہوئی تو لوگوں نے سوچا کہ وہ بھاگ گیا ہے اور وہ اب نہیں آئے گا۔ تبھی دوسرے بھائی نے اس کی جگہ خود کو پیش کیا کہ اسے قتل کر دیا جائے۔ جب اسے قتل کرنے کی تیاری ہورہی تھی، تبھی تیسرے بھائی نے کہا کہ اصل قاتل وہ ہے، اسے سزا دی جائے، اور اس کے بھائی کو چھوڑ دیا جائے۔ جب لوگ تیسرے بھائی کو قتل کرنے ہی جارہے تھے کہ بڑا بھائی واپس آگیا اور اس نے خود کو قتل ہونے کے لیے پیش کر دیا۔
یہاں تک کہانی سنانے کے بعد قصہ گو سامعین سے سوال کرتا ہے کہ ان میں سے کون سا بھائی سب سے اچھاتھا؟
(۵) کہاوتیں اور پَہیلیاں : افریقی زبانی ادب میں ان کی بہت اہمیت ہے۔ افریقی سماج میں کسی بھی تقریر یا عوامی خطاب یا بحث کی کامیابی کا دارومدار زیادہ تر کہاوتوں کے استعمال پر ہوتا ہے۔ کہاوتوں میں اکثرعقل و دانش کی باتیں ہوا کرتی ہیں۔ اس لیے مقرر ،ان کی مدد سے اپنی بات میں زور پیدا کرتے ہیں اور لوگوں کو اسے ماننے پر مجبور کرتے ہیں۔
ایک مثال : افریقی کہاوت(اُم بُنڈُو زبان میں) :
Etako lia muine omangu, utima ka wa muine omangu.
ترجمہ : جسم کی تشفی بڑی آسان ہے لیکن دل کی نہیں۔
امریکی ماہر لسانیات البرٹ شیون نے ۱۹۸۱ء میں Swahili Proverbsکے نام سے مشرقی افریقہ کی کہاوتوں کا انتخاب شائع کیا تھا۔
پہیلیاںبھی افریقی زبانی ادب میں کافی اہمیت رکھتی ہیں۔ یہ عوام میں بے حد مقبول ہیں۔ سننے والے بڑی دلجمعی سے انھیں حل کر نے کی کوشش کرتے ہیں۔
مثالیں :
وہ کون سی چیز ہے جو کھڑی ہوکر گرتی ہے اور لیٹ کر دوڑتی ہے؟
جواب : بارش ]کانگو کی پہیلی[
وہ کون ہے جس کا گھر مہمانوں کے لیے چھوٹا ہوتا ہے؟
جواب : کچھوا ] نائجریا کے یوروبا قبائل کی پہیلی]
Brian Swann نے The House With No Doorنامی کتاب میں ڈھیر ساری افریقی پہیلیوں کو یکجا کیا ہے۔
(۶) جادو کے منتر: یہ عموماً ایسی نظمیں ہوتی تھیں جن میں شامل الفاظ کے معنی مشکوک اور مفہوم بے ربط سا ہوا کرتا تھا۔ انھیں بالکل صحیح انداز اور تلفظ کے ساتھ پڑھنا لازمی تھا۔ افریقیوں کا عام خیال یہ تھا کہ ان منتروں میں فائدہ یا نقصان پہنچانے کی قوت ہے لیکن اس کے لیے اس کا صحیح طریقے سے پڑھنا ضروری ہے۔ منتروں کا استعمال دیوتائوں کی پوجا اور قربانیوں کے موقع پر کیا جاتا تھا۔ اس کے علاوہ شادی بیاہ کے موقعوں پر، بیماروں کو اچھاکرنے کے لیے اور دشمنوں کو تباہ کرنے کے لیے بھی منتروں کو پڑھا جاتا تھا۔
زمانۂ حال میں افریقی زبانی ادب کی حیثیت :
افریقی زبانی ادب بھلے ہی افریقہ کے زمانۂ جاہلیت کی نشانی ہو لیکن اس کی اہمیت آج بھی بر قرار ہے۔ گزشتہ کئی صدیوں میں افریقہ کے حالات میں بے شمار تبدیلیاں آئی ہیں لیکن افریقی لوگ آج بھی اپنے زبانی ادب کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ قبائلی اور دیہاتی لوگوں میں یہ ادب آج بھی سینہ بہ سینہ منتقل ہوتا چلا جا رہا ہے۔ پڑھے لکھے لوگ بھی کسی نہ کسی حد تک زبانی روایات سے جڑے ہوئے ہیں۔ دور حاضر کے مصنفین ان روایات کا استعمال کر کے اپنی تحریروں کو خالص افریقی رنگ عطا کر تے ہیں جس سے وہ یوروپی ادب سے الگ ایک ممتاز حیثیت اختیار کر لیتی ہیں۔
وہ زبانی ادب جو دیوتائوں کی پوجا اور عبادات سے متعلق تھا اسے اب لوگ بھلاتے جارہے ہیں لیکن توصیفی نظمیں اب نئے طریقوں سے استعمال کی جارہی ہیں۔ انتخابات کے موقعوں پر یہ نظمیں لیڈروں کے لیے گائی جاتی ہیں اور عام ووٹر ان سے بہت متاثر ہوتے ہیں۔ مخالفین کی تضحیک کے لیے بھی ان کا استعمال ہوتا ہے۔
اعلیٰ تعلیم نے افریقیوں کے جذبۂ قومیت کو ابھارا ہے اور وہ اب اپنی وراثت کی حفاظت میں جٹ گئے ہیں۔ بے شمار مصنفین، مولفین ، اسکالرز اور یونیورسیٹیاںافریقی زبانی ادب کواکٹھا کرنے کام میں لگی ہوئی ہیں۔ بہت جلد اس کا ایک بڑا حصہ جمع کر کے مختلف زبانوں میں اس کا ترجمہ کر دیا جائے گا جس سے یہ ادب ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جائے گا۔
۲۔ نوِشتہ ادب (Written Literature) :
افریقہ کے لوگ حروف سے ناواقف تھے۔ وہ اپنی زبانیں بول تو سکتے تھے لیکن انھیں لکھ نہیں سکتے تھے۔ صرفHorn of Africaکے ممالک مثلاً صومالیہ، ایتھوپیا، ایریٹیریا، اور جی بائوٹی اس سے مستثنیٰ تھے جہاں ۲۰۰۰سال سے Ge'ezنامی زبان میں لکھنے کا رواج تھا۔ ان کا رسم الخط Fidaal یا Fidelکہلاتا ہے اور آج یہ Amharic اورTigrinyزبانوں کو لکھنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
جب افریقہ میں مسلمان داخل ہوئے تو ان کے ساتھ ہی عربی زبان داخل ہوئی۔ ساتویں صدی عیسوی کے بعد سے افریقی شمالی ساحلی ملکوں پر اسلامی ادب،زبان و کلچر کی چھاپ صاف محسوس کی جا سکتی ہے۔ عربی زبان کو سواحلی زبان کا رسم الخط قرار دیا گیا جو آج شمالی اور وسطی افریقہ کے لیے رابطے کی زبان (Lingua franca)کی حیثیت رکھتی ہے۔ دوسری طرف صحارا کے جنوبی خطوں میں عیسائی مشنریوں کے ذریعہ تعلیم کی روشنی پھیلنی شروع ہوئی۔ ان لوگوں نے بہت سارے اسکول کھولے۔ ان کا اصل مقصد مقامی لوگوں کو اپنے کاموں میں مدد کے لیے تربیت دینی تھی،لیکن بعد میں یہی لوگ یوروپ کی نوآبادیوں کے قیام کے لیے مفید ثابت ہوئے۔
جن علاقوں میں مسلمانوں نے علم کی روشنی پھیلائی وہاں زیادہ ترعربی یامقامی افریقی زبان میں ادب کی تخلیق ہوئی اور وہ علاقے جہاں عیسائی مشنریوں نے تعلیم کا سلسلہ شروع کیا تھا وہاں زیادہ تر انگریزی، فرانسیسی یا پرتگالی زبانوں میں ادب لکھا جانے لگا۔
افریقہ کے نوشتہ ادب کو ہم تین ادوار میں تقسیم کر سکتے ہیں۔
۱۔ نوآبادیاتی نظام سے قبل کا ادب
۲۔ نوآبادیاتی نظام کے دوران کا ادب
۳۔ نوآبادیاتی نظام کے خاتمے کے بعد کا ادب
۱۔ نو آبادیاتی نظام سے قبل کا ادب(Precolonial Literature) :
نو آبادیاتی نظام کے قائم ہونے سے قبل ہی شمالی افریقہ ، مغربی افریقہ کے ساحلی علاقے اور سواحلی خطے میں کافی ادب لکھا جانے لگا تھا۔ اس زمانے کے بے شمار مسودے اور قلمی نسخے دستیاب ہوئے ہیں۔ صرف ٹمبکٹو کی لائبریریوں میں ہی تقریباً تین لاکھ سے زیادہ قلمی نسخے موجود ہیں۔ یہ نسخے زیادہ تر عربی زبان میں لکھے ہوئے ہیں لیکن کچھ کچھ مقامی زبانوں جیسے Peulیا Songhaiوغیرہ میں بھی ہیں۔ یہ قلمی نسخے مختلف موضوعات پر محیط ہیں جیسے شاعری، تاریخ، عقائد، سیاست اور فلسفہ وغیرہ۔ سواحلی ادب پرگہری اسلامی چھاپ موجود ہے۔ Utendi wa Tambuka (تمبوکا کی کہانی) اس زمانے کا سب سے قدیم اور سب سے مشہور قلمی نسخہ ہے۔
۲۔ نو آبادیاتی نظام کے دوران کا ادب (Colonial Literature):
سولہویں صدی کے بعد نوآبادیاتی دور میں افریقی ادب مغربی دنیا کے سامنے آیا۔ اس دور کی سب سے پہلی اور مشہور ادبی تخلیق The Interesting Narrative of the Life of Olaudah Equianoتھی جو ۱۷۸۹ء میں شائع ہوئی تھی۔ یہ دراصل ایک افریقی غلامOlaudah Equiano کی آپ بیتی ہے۔ اس میں ایکوینو نے لکھا ہے کہ بچپن میںکیسے اسے نائجریا میں واقع اس کے گائوں Essaka سے اس کی بہن کے ساتھ اغوا کیا گیا اورپھر دونوں کو جدا کر کے فروخت کر دیا گیا۔ برسوں تک وہ مختلف آقائوں کے پاس رہا اور اس دوران اس نے بے انتہا مظالم جھیلے۔ اس دوران ایک بار وہ اپنی بہن سے بھی ملا لیکن افسوس کہ انھیں دوبارہ جدا کر دیا گیا اور اس کے بعد اس نے اپنی بہن کو پھر کبھی نہیں دیکھا۔ یہ ایکوینو کی دل دہلا دینے والی داستان ہی تھی جس نے برٹش حکومت کو ۱۸۰۷ء میں Slave Trade Actکے ذریعہ غلاموں کی تجارت پر پابندی عائد کر نے پر مجبور کیا۔
نو آبادیاتی دور میں افریقہ کے لوگ مغربی زبانوں سے واقف ہوئے اور ان زبانوں میں لکھنے لگے۔ ۱۹۱۱ ء میں افریقہ کا پہلا انگلش ناول Ethopia Unbound : Studies in Race Emancipationشائع ہوا۔ یہ ایک کہانی کے ساتھ ساتھ ایک زبردست احتجاج بھی تھی۔ اس کی اشاعت اور اس کے تجزئے افریقی ادب میں کافی اہمیت کے حامل ہیں۔ اسی دور میں افریقی ڈراموں کی بھی شروعات ہوئی۔ سائوتھ افریقہ کے Herbert Issacاور Ernest Dholmoنے انگریزی زبان میں پہلے افریقی ڈرامے The Girl Who Killed To Save (1935) کی تخلیق کی۔
۱۹۶۲ء میں کینیا کے Ngugi wa Thiongoنے پہلا مشرقی افریقی ڈرامہ The Black Hermitلکھا جو افریقی قبائلی عصبیت پر مبنی تھا۔
پہلی جنگ عظیم کے بعد کے نو آبادیاتی ادب کے موضوعات عام طور پر آزادی، خود مختاری اور خاص طور سے فرانسیسی نو آبادیوں میں چلنے والی Negritudeتحریک وغیرہ تھے۔ Negritude تحریک کے ایک رہنما ، شاعر اور سینیگال کے سابق صدر Leopold Sedar Senghorنے ۱۹۴۸ء میں افریقیوں کے ذریعہ فرانسیسی زبان میں لکھی نظموں کا مجموعہ شائع کیا جس کا عنوان تھا :Anthologie de la nouvelle poésie nègre et malgache de langue française ۔ اس دور کے افریقی ادیبوں اور شاعروں کو ان کی تحریروں کی بنا پر بے حساب مشکلات سے گذرنا پڑتا تھا۔ نسلی منافرت کی بنیاد پر ان کی تحریروں پر پابندی لگا دی جاتی تھی۔ انھیں زبردستی جنگ کی آگ میں جھونک دیا جاتا تھا۔ کئی مثالیں موجود ہیں:
Christopher Okigbo کو ۱۹۶۰ء میں بیافرا کی جنگ میں نائجریا ئی تحریک کے خلاف لڑنے پر مجبور کیا گیا جس میں اس کی موت ہوئی۔ Mongane Wally Serote کو سائوتھ افریقہ کے Terrorist Act No. 83 کے تحت بلا مقدمہ چلائے جیل میں بند کر دیا گیا۔ سائوتھ افریقہ کے ہی Arthur Norje کو خود کشی کر نی پڑی۔ مالاوی کے Jack Mapanje کو ایک شراب خانے میں حکومت کے خلاف محض ایک جملہ کہہ دے دینے کی پاداش میں جیل میں بند کر دیا گیا اور Ken Saro-Wiwa کو gallowsنامی پھانسی کے پھندے میں پھانسی دے دی گئی۔
یہ صرف چند مثالیں ہیں۔ نوآبادیاتی دور میں مظالم کا ایک سلسلہ تھا جو شعرا ادبا کو جھیلنا پڑا۔
۳۔ نو آبادیاتی نظام کے بعد کا ادب (Postcolonial Literature) :
۱۹۵۰ء سے ۱۹۶۰ء کے دوران زیادہ تر افریقی ممالک نے آزادی حاصل کر لی۔ جس کے بعد وہاں تعلیمی انقلاب آیا۔ جس کاسیدھا اثر وہاں کے ادب پر بھی پڑا۔ ادب کی تخلیق کرنے والوں کی تعداد بڑھی اور دنیا میں اسے ایک پہچان ملنے لگی۔ افریقی ادیب و شاعر انگریزی، فرنچ ، پرتگالی اور مختلف مقامی زبانوں میں لکھنے لگے۔
اس دور میں نیا نظام زندگی رائج ہو رہا تھا ،پرانے اقدار مٹ رہے تھے۔ تعلیمی اور سماجی پس منظر بدل رہا تھا نتیجے میں دور جہالت کی فرسودہ رسمیں ختم ہو رہی تھیں۔ ایسے میں پرانی اور نئی قدروں کے درمیان تصادم ناگزیر تھا۔ وہاں بھی ہوا۔ Ali A. Mazrui نے ان دنوں کے افریقی ادب میں سات ایسے موضوعات کی شناخت کی ہے۔
(۱) افریقہ کا ماضی اور حال (۲) روایت اور جدیدیت (۳) افریقیت اورغیر افریقیت (۴) شخصیت اورسماج (۵) اشتراکیت اورسرمایہ دارانہ نظام (۶) افریقیت اورانسانیت اور (۷) ارتقأ اور خوداعتمادی
آج کے افریقی ادب کے اور بھی موضوعات ہیں جیسے corruption، نئے نئے آزاد ہونے والے ممالک میں مالی بد انتظامی، عورتوں کے حقوق وغیرہ۔
تحریری زبان کی بنیاد پر افریقہ کے نوشتہ ادب کو دوبڑے حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
(۱) افریقی زبانوں میںنوشتہ ادب
(۲) یوروپی زبانوں میں زبانوں میںنوشتہ ادب
افریقی زبانوں میں نوشتہ ادب
(Literature written in African languages)
یوروپی زبانوں کے مقابلے میں افریقہ کی مقامی زبانوں میں لکھے گئے ادب کو ہمیشہ نظر انداز کیا گیا۔اس کی وجہ سفید فاموں کی نسلی منافرت تھی ۔یوروپی زبانوں کو ہمیشہ مقامی زبانوں پر ترجیح دی جاتی ہے۔دوسری وجہ یہ بھی ہے کہ بہت کم نقاد اور محقق افریقی زبانیں سمجھ سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ خود افریقی اسکالرز بھی زیادہ تر اپنی مقامی زبان کے علاوہ دوسری افریقی زبانیں نہیں جانتے۔
یوں تو افریقی زبانیں بے شمار ہیں اور ان میں سے بہت ساری زبانوں میں ادب لکھا جارہا ہے لیکن جو زبانیں ادبی حیثیت رکھتی ہیں وہ درج ذیل ہیں:
مغربی افریقی ممالک میں Yoruba اورHausa، مشرقی افریقی ممالک میں Amheric ، SomaliاورSwahili زبانیں اور جنوبی افریقی ممالک میں Sotho، Xhosa، Shona اورZulu وغیرہ زبانیں۔
مغربی افریقہ :
Hausa زبان میں نوشتہ افریقی ا دب :
Hausa دراصل شمالی نائجریا اور نائجر کی زبان ہے۔اس بنیاد پر افریقہ کا یہ خطہ Hausalandکہلاتا ہے۔تقریباً پندرہویں صدی سے ہی اس زبان میں لکھنے کی روایت جاری ہے۔انیسویں صدی تک اس زبان کو لکھنے کے لیے عربی کا رسم الخط استعمال کیا جاتا رہا لیکن بیسویں صدی کے اوائل سے ہی رومن رسم الخط کا استعمال ہونے لگا۔
ہائوسازبان میں ادبی تخلیقات کی اشاعت کا سلسلہ بہت پرانا ہے۔اس زبان میں پہلی تخلیق Wakar Mohammadu [1854](محمدؐکا گیت) ہے۔یہ دراصل Asim Degalنامی شاعر کی پیغمبر اسلام حضرت محمدؐکی شان میں کہی گئی نعت ہے۔
اٹھارہویں صدی کے اواخر سے انیسویں صدی کے آغاز کے برسوں کے درمیان مشہور اسلامی مجاہد اور مصلح Usman dan Fodioنے ہائوسا شاعری میں بہت اہم کردار نبھایا۔ اس نے عربی اور ہائوسا زبانوں میں شاعری کی اور اس کا استعمال اسلام کی تبلیغ و ترویج کے لیے کیا۔دیگر صوفیائے کرام نے بھی اسی مقصد کے تحت اس زبان میں شاعری کی۔اس زمانے کی شاعری زیادہ تر نعتِ پاک، اخلاقی نظموں، سیکولر لیڈروں کے لیے لکھی گئی توصیفی نظموں اور دیگر اہم واقعات پر مبنی ہوا کرتی تھیں۔اس زمانے میں شاعری کو عوامی ،محفلوں میں پڑھنے کا رواج تھا۔ خاص طور سے اندھے فقیر اکثر انھیں گا کر بھیک مانگا کرتے تھے۔
بیسویں صدی کے آغاز کا سب سے بڑا شاعر الحاجی عمرو تھا۔اس کی مشہور نظم Zuwan nasara میں انگریزوں کی آمد سے مقامی لوگوں کو درپیش مشکلات کا ذکر ہے۔مشہور سیاسی رہنما Sa'adu Zungur نے بہت ساری نظمیں لکھیں جن میں Wakar maraba da soja [1957] بہت مقبول ہوئی۔اس نظم میں برما اور ہندوستان کے محاذوں سے واپس لوٹنے والے سپاہیوں کو خوش آمدید کہا گیا تھا۔دوسرے شعرا جنھوں نے عصری موضوعات پر مبنی نظمیں لکھیں وہ تھے Mudi Sipikin اور Hamisa Yadudu Funtuwa تھے۔ان میں سے Funtuwaنے خاص طور سے سماجی برائیوں جیسے شراب نوشی، جسم فروشی وغیرہ کے خلاف نظمیں لکھیں مثلاً Wakar uwar mugu [1957]جسم فروشی کے خلاف تھی۔Garba Gwanduنے Julius Nyerere [1971] جیسی نظموں میں بین الاقوامی سیاست کو اپنا موضوع بنایا۔ Akilu Aliyuنے نائجریا میں پھوٹ پڑنے والی خانہ جنگی اور دیگر سیاسی حالات پر نظمیں لکھیں۔
ہائوسا میں ناول نگاری بہت بعد میں شروع ہوئی۔۱۹۳۳ء میں ناول نگاری کا ایک مقابلہ منعقد ہوا جس کے نتیجے میں کئی اچھے ناول منظر عام پر آئے۔ناولوں کے موضوعات زیادہ تر روایتی افریقی زندگی یا ماضی کی اہم شخصیات کے حالات زندگی پر مبنی تھے۔سیاسی کرپشن بھی آج کے ناولوں کا اہم موضوع ہے مثلاً Sulaiman Ibrahim Katsinoکا ناول Tarmin danya [1983] نوجوانوں میں سائنس فکشن خاص طور سے بے حد مقبول ہے۔Umrau Denboکا ناول Tauraruwa maiwutsiya [1969] اس کی بہترین مثال ہے۔
ہائوسا زبان میں سوانح حیات اورسفرنامے بھی تصنیف کیے گئے مثال کے طور پر Aminu Kanoکا سفرنامۂ یوروپ Motsi ya fizama [1955]۔
Yoruba زبان میں نوشتہ افریقی ا دب :
Yorubaزبان افریقہ کے نائجریا اور بینین میں بولی جاتی ہے اور یہ علاقے اسی مناسبت سے Yorubalandکہلاتے ہیں۔اس زبان کا رسم الخط ۱۹۰۰ء میں لاگوس میں واقع چرچ مشنری سوسائٹی کے Bishop Ajayi Crowtherنے ایجاد کیا تھا۔اسی سال بائبل کا ترجمہ یوروبا میں کیا گیا۔
۱۹۱۱ء میںانگریز مصنفJohn Bunyan کی مشہور کتابThe Pilgrim’s Progress کا ترجمہ یوروبا میں کیا گیا جس نے بہت زیادہ مقبولیت حاصل کی۔
مشہور شاعر J. Sobowale Sowandeکی نظموں کا انتخاب Iwe ekini sobo یوروبا زبان میں نظموں کا پہلامجموعہ تھا جو ۱۹۰۵ء میں شائع ہوا تھا۔ Sowandeکے اس کے بعد ۱۹۳۴ء تک یکے بعد دیگرے کئی مجموعے شائع ہوئے ۔
اس زبان میں پہلا ناول Sgilola eleyinju egu ، ۱۹۲۹ء میں شائع ہوا۔ یہ ناول پہلے پہل لاگوس، نائجریا کے اخبارAkedo Ekoمیں قسط وار شائع ہوا کرتاتھا۔
یوروبازبان کا سب سے مشہور ادیب Daniel Olorunfemi Fagunwa ہے۔ اس نے اپنی تحریروں کو عیسائیت کی حمایت کے لیے استعمال کیا۔اس کا پہلا ناول Ogboju odeninu igbo irunmale ۱۹۳۸ء میں شائع ہوا جس کا انگریزی ترجمہ نوبل انعام یافتہ ادیب Wole Soyinka نے ۱۹۶۸ ء میں The Forest Of A Thousand Deamons کے نام سے کیا تھا۔
Fagunwaکا دوسرا ناول Igbo Olodumare [1949] تھا۔اس کے بعد اس نے تین اور ناول لکھے۔اس کے ناولوں میں تخیلاتی ،مہماتی کہانیاں ہوا کرتی تھیں جن میںآسیب، روحیں،عفریت، دیوتا اور کالا جادو وغیرہ ہوا کرتے تھے۔اسی لیے عوام میں بے حد مقبول تھے۔
۱۹۶۰ء میں نائجریا کی آزادی کے موقع پر ناول نگاری کا ایک مقابلہ منعقد ہوا جس میں Femi Jeboda کے ناول Olowolaiyemoکواوّل انعام ملا۔اس ناول میں یوروبا لینڈ کی شہری زندگی کے مسائل کو موضوع بنایا گیا تھا۔Afolabi Olabimtan نے بھی یوروبالینڈ کے لوگوں کی عام زندگی کے مسائل پر مبنی کئی ناول لکھے۔اس کا پہلا ناول Kekere Ekun [1967] تھا جس میں ایک زیادہ شادیوں والے ایک خاندان کی کہانی تھے۔دوسرے ناول Ayanmo [1973]میں گائوں کے ایک اسکول ماسٹر کی کہانی پیش کی گئی تھی جو اپنی لگن اور محنت کی وجہ سے ڈاکٹر بن جاتا ہے جب کہ کئی خوبصورت عورتیں اسے اس مقصدکے حصول ے بھٹکانے کے لیے موجود ہوتی ہیں،پھر بھی وہ اپنی دھن میں لگا رہتا ہے۔ایک اورکامیاب مصنف Akinwunmi Isolaہے جس کے ناول O Le Ku [1974]نے بہت مقبولیت حاصل کی۔
مشرقی افریقہ :
Ge'ez زبان میں نوشتہ افریقی ا دب :
ایتھوپیا کی سب سے قدیم ادبی زبان Ge'ezہے جس کا تعلق قدیم عربی زبان سے ہے۔چوتھی صدی عیسوی سے یہی زبان عیسائی مذہبی دستاویزات کی قلمبندی کے لیے استعمال کی جاتی رہی تھی۔انیسویں صدی تک یہ زبان استعمال میں رہی۔بہت ساری عیسائی مذہبی نظمیں بھی اس زبان میں لکھی گئیں۔
Amharic زبان میں نوشتہ افریقی ا دب :
Amharicزبان آج پورے ایتھوپیا میں بولی جاتی ہے۔اور یہ وہاں کی سرکاری زبان ہے۔ یہ ایک جدید زبان ہے جوGe'ezکے بعد بیسویں صدی میں پورے طور پر رائج ہوئی۔ اس زبان میں ادب کی تخلیق کا سلسلہ بھی بیسویں صدی میں شروع ہوا۔ویسے اس زبان میں سترہویں صدی کے گمنام ادیبوں کی تحریر شدہ چند دستاویزات ملی ہیں جیسے Mazmura Dawit اور Waddasee Maryam وغیرہ ۔
Amharicزبان کا پہلا ادیب Blattengeta Hiruy Walda Sillaseتھا جس نے دو ناول لکھے جن میں نئی نسل کو موضوع بنایا گیاتھا جو یوروپی طرز کے اسکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد پرانی روایات کا مذاق اڑاتی ہے۔ایک اور کامیاب ادیب Afawarq Gabra Iyasusتھاجس کا پہلا ناول Libb Wallad Tarlk ۱۹۰۸ء میں شائع ہوا۔
۱۹۳۶ء میں ایتھوپیا پر اٹلی کے قبضے کے بعد Amharicادب کو بہت نقصان پہنچا،لیکن اس دوران بھی ادبی تخلیقات کا سلسلہ کسی نہ کسی طرح جاری رہا۔ ۴۹۔۱۹۴۸ء میں Girmacchaw Takla Hawaryat کا ناول Arayaشائع ہوا۔ اس ناول کا ہیرو جب جدید مغربی تعلیم حاصل کر کے اپنے گائوں لوٹتا ہے اور وہاں جدید تہذیب کی روشنی پھیلانا چاہتا ہے تو کچھ لوگ حکومتی سطح پر اس کی راہ میں رکاوٹیں پیدا کرتے ہیں۔ Abbe Gubaññaکے ناول And Lannatu [1967] اور Birhanu Zarihun کے ناول [1966] Ya-Tewodros Inba میں عظیم قومی ہیرو ، انیسویں صدی کے عظیم شہنشاہ Tewodros II کی کہانی بیان کی گئی تھی۔
سماجی مسائل کے موضوع پر بھی بہت کچھ لکھا جارہا ہے ۔ مثال کے طور پر Taddasa Libanکا افسانہAbbonas جو اس کے افسانوی مجموعے Lelaw Mangad [1959]میں شامل تھا،جسم فروشی کے پیشے کے خلاف تھا ۔Innanou Aggonafir نے ایک ناول Satinna Ahanلکھا جس میںسماجی نامساعد حالات کا شکار ایک عورت کی درد بھری کہانی تھی ۔Haddis Alamayyahuنے Wanjalannak Danna [1974] نامی ناول میںشہنشاہ Haile Selassie I کے اہلکاروں کے کرپشن کا ذکر کیا ہے۔جب کہ Fiqir Iska Maqabir [1958] مختلف سماجی حالات سے وابستہ دو پریمیوں کی داستان ہے۔
نئے اور پرانے اقدار کے درمیان تصادم آج کے ایتھوپیائی افسانہ نگاروں اور ناول نگاروں کا خاص موضوع ہے۔Taddasa Libanکا افسانہ Yataba¡¡asa Fireاس کی بہترین مثال ہے جو اس کے افسانوی مجموعے Maskaramمیں شامل ہے۔
سوشلسٹ تحریک کی حمایت میںZarihun Bihanu نےMaibalکے نام سے تین ناولوں پر مشتمل ایک Trilogyلکھی جس میں انقلاب کے فوائد کا تذکرہ کیا گیا تھا۔
صومالی زبان میں نوشتہ افریقی ا دب :
صومالیہ میں زبانی ادب کی روایت بہت پرانی ہے جو آج بھی تحریری ادب پر اثر انداز ہے۔ تحریر کے لیے صومالیہ کے لوگ صدیوںعربی زبان کا استعمال کرتے رہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد صومالی رسم الخط کی طرف توجہ دی گئی اور آخر کار ۱۹۷۳ء میں صومالی حکومت نے رومن حروف تہجی پر مبنی صومالی رسم الخط کو سرکاری طور پر رائج کیا۔
۱۹۶۰ء سے ہی دو رسالے Sahan ا ور Horseed صومالی زبان میں شائع ہورہے ہیں جنھوں نے اس زبان کی اشاعت میں بہت بڑا کردار ادا کیاہے۔پہلا شاعر جس نے صومالی زبان میں شاعری کی اس کا نام Cali Xuseen Xirsi تھا ۔اس کی دو نظمیں Sahan ا ور Horseed میں شائع ہوئیں۔اس کی نظموں کے موضوع عموماً سماجی اور سیاسی مسائل ہوا کرتے تھے۔مثلاً اس نے اپنی ایک نظم میں ملک میںغیر ملکی کاروں کی برآمد کے خلاف احتجاج کیاتھا کیونکہ ملک کی زیادہ تر آبادی شدید ترین مفلسی کا شکار تھی۔
صومالیہ میں آج بھی تحریری ادب کے مقابلے زبانی ادب زیادہ مقبول ہے۔ نظمیں لکھی جاتی ہیں لیکن زیادہ تر انھیں ریڈیو پر پڑھا جاتا ہے یا آڈیو کیسٹ اور سی ڈی کی مدد سے عوام تک پہنچایا جاتا ہے کیونکہ عوام آج بھی ادب پڑھنے سے زیادہ سننا پسند کرتے ہیں۔
صومالی ادب میں شاعری کا عنصر غالب ہے۔صومالیہ کا سب سے بڑا شاعر Sayyid Maxamed Cabdulle Xasan انیسویںصدی کے وسط میں پیدا ہوا تھا ۔اس نے اپنی نظموں میں یوروپی ممالک کی ہوس ملک گیری کے خلاف آواز اٹھائی۔آج کی سوشلسٹ صومالیہ کا سب سے مشہور شاعرCabdulqaadir Xirsi “Yamyam” ہے۔اس کی شاعری عموماًسوشلسٹ نظام کی حمایت میں ہوا کرتی ہے۔
نثر میں Faarax M. I. Cawl کا نام لیا جا سکتا ہے جس نے روایتی زبانی ادب کی بنیادوں پر اپنی ناول نگار ی کی بنیاد رکھی۔اس کا ناول Aqoondarro waa u nacab jacayl [1974] ایک بہت ہی اچھا ناول ہے اور کافی مقبولیت حاصل کر چکا ہے۔اس ناول میں ایک ان پڑھ درویش مجاہد کی کہانی پیش کی گئی ہے جو اپنی محبوبہ کا خط نہیں پڑھ پاتاہے اوراس کی محبت کا انجام برا ہوتا ہے۔Axmed Cartan Xaarge نے ایک ناول Qawdhan iyo Qoran لکھا۔یہ بھی ایک ناکام محبت کی داستان تھی۔
سواحلی زبان میں نوشتہ افریقی ا دب :
Swahiliزبان میں مسلم شعرا و ادبا نے سترہویں صدی ہی میں لکھنا شروع کر دیا تھا۔ان کی تخلیقات زیادہ تر مذہب اسلام سے متعلق تھیں اور ان پر عربی، فارسی اور اردو زبانوں کا کافی اثر تھا، جو افریقہ کے مشرقی ساحل پر آنے والے تاجروں کے ذریعہ وہاں تک پہنچا تھا۔انیسویں صدی کے وسط تک سواحلی کو لکھنے کے لیے عربی رسم الخط استعمال کیا جاتا رہا لیکن اس کے بعد سے لاطینی رسم الخط کا استعمال ہونے لگا ۔
سواحلی میں سب سے پرانی تحریر جو دستیاب ہے وہ Sayyid Aidarusi کی نظم Hamziya [1749]ہے۔یہ ایک درباری نظم ہے جو اس نے موجودہ کینیا کے بادشاہ Bwana Mkuw II کے حکم پر عربی رسم الخط میں ، سواحلی کی ایک شاخ Kingozi بولی میں لکھاتھا۔
شروع ہی سے سواحلی ادب پر اسلامی ادب کی گہری چھاپ رہی ہے۔اکثر اسلامی تعلیمات کو نظموں میں ڈھالا جا تا رہاہے۔اس قبیل کا پہلا شاعر کینیا کے لامو جزیرے کا Mwana Kupona binti Msham تھا ۔اس نے ایک نظم Utendi wa Mwana Kupona ۱۸۵۸ء میں لکھی تھی۔
انیسویں صدی کا ایک شاعرMuyaka bin Haji al-Ghassany تھا۔اس کا تعلق کینیا کے مومباسا سے تھا۔ اس نے اپنی نظموں میں شہری زندگی میں پیش آنے والے مختلف مسائل کو پیش کیاتھا۔
جدید سواحلی ادب کی شروعات ۱۹۲۵ء کے بعدہوئی جب کینیا، تنزانیہ اور یوگانڈا نے اس زبان کو اسکولی طلبہ کے لیے درسی زبان قرار دے دیا۔ جدید سواحلی زبان کا سب سے بڑا شاعرو ادیب ٹانگا نیکا، تنزانیہ کا Shaaban Robert ہے ۔جو بنیادی طور پر شاعر ہے لیکن بعد میں ناول نگار اور مضمون نگارکے طور پر بھی مشہور ہوا۔اس کی تحریریں تنزانیہ کی قدیم تہذیب کی حمایت میں ہوتی ہیں۔اس کی ایک مشہور نظم Almasi za Afrika [1960; “African Diamonds”] ہے۔اس کے ناولوں کے موضوعات عموماً عصری سماجی مسائل ہوا کرتے ہیں۔Siku ya Watenzi Wote [1968] اور [1968] Utubora Mkulima اس کے دو مشہور ناول ہیں۔
نئے لکھنے والوں میں کینیا کے دومشہور شاعر Abdillatif Abdalla اور Ahmad Nassir اہم ہیں۔Faraji Katalambulla تنزانیہ کا ایک بڑا ایکشن ناول نگار ہے۔
افریقہ کی روایتی زندگی اور جدید تہذیب کے درمیان ایک تصادم کا عمل جاری ہے۔شعرا ، افسانہ نگاروں اور ناولہ نگاروں نے اکثر اسے اپنا موضوع بنایا ہے۔تنزانیہ کے Euphrase Kezilahabiکا تیسرا ناول [1975] Dunia Uwanja wa Fujo اس کی بہترین مثال ہے۔
جنوبی افریقہ :
Shona زبان میں نوشتہ افریقی ا دب :
زمبابوے کی زبان Shonaمیں تحریر کا چلن ابھی حال ہی میں ۱۹۵۰ء کے بعد شروع ہوا ہے۔ Solomon Mutswairo نے اس زبان میں Fesoنامی ایک ناول ۱۹۵۶ء میں لکھا جو ممکنہ طور پر اس زبان کا پہلا ناول ہے۔ Patrick Chakaipa نے اپنے ناول [1961] Pfumo reropa میںسفید فاموں کی آمد سے قبل کی شونا تہذیب کو اجاگر کیا ہے۔جب کہ اپنے دوسرے ناولوں Rudo ibofu [1962]اور Garan dichanya [1963] میںاس نے دونوں تہذیبوں کے درمیان تصادم کو اپنا موضوع بنایا ہے۔
John Marangwanda کے ناول Kumazi vandadzoke [1959] اور Mutswairoکے ناول Murambiwa Goredema [1959] میں جدید تعلیم حاصل کر کے لوٹنے والوں کے ذریعہ لائی گئی نئی تہذیب کے خلاف آواز اٹھائی گئی ہے۔
Sotho زبان میں نوشتہ افریقی ا دب :
جنوبی افریقہ کی Sothoزبان میں شائع ہونے والی پہلی کتاب John BunyanکیThe Pilgrim’s Progress کا سوتھو میں ترجمہ تھا جس میں عیسائی مذہب قبول کر نے والوںکے لیے ہدایتیں تھیں۔Sothoزبان کا پہلا ناول Meoti Oa Bochabellaتھا جسے Thomas Mofoloنے ۱۹۰۶ء میں لکھا تھا جس کا انگریزی ترجمہ The Traveller of The Eastکے نام سے ۱۹۳۴ء میں ہوا۔
Zulu زبان میں نوشتہ افریقی ا دب :
Zuluزبان جنوبی افریقہ کی سب سے بڑی زبان ہے جس کے بولنے والوں کی تعداد تقریباً ایک کڑوڑ ہے ۔یہ زبان سائوتھ افریقہ، موزمبیق، مالاوی، لیسوتھو اور سوازی لینڈ میں بولی جاتی ہے اور اس بنیاد پر یہ پورا علاقہ Zululandکہلاتا ہے۔اس کا رسم الخط لاطینی ہے۔
اس زبان میں میں Magema ka Magwaza Fuze نے ۱۹۲۲ء میں Abantu abamnyama lapha bavela ngakhona کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں اس نے زولو قوم کی تاریخ لکھی اور سیاہ فاموں کے درمیان اتحاد کی اہمیت پر زوردیا تھا۔
زُولوزبان کی ترویج و اشاعت میں Ilanga lase Natal نامی اخبار نے بہت بڑا کردار نبھایا۔آگے چل کر اسی اخبار کے ایک ایڈیٹر R.R.R. Dhlomo نے انیسویں صدی سے بیسویں صدی کے اوائل تک کے کئی زُلو بادشاہوں کی سوانح حیات پر مبنی کئی ناول لکھے جیسے : UShaka [1936] ، ,UDingane[1936] UMpande[1938]، UCetshwayo [1952] اور UDinuzulu [1968] ۔اسی اخبار کے مالک John L. Dubeنے ایک تاریخی ناول Insila kaShaka [1933] لکھا۔ اس ناول میں عظیم زولو شہنشاہ شاکا کے دور کی کہانی پیش کی گئی تھی۔۱۹۳۶ء میں اس نے UShembeنامی ناول لکھا جس میں زولو قوم کے کرشماتی’پیغمبر‘ Isaiah Shembe کی سوانح حیات پیش کی گئی تھی۔بعد کے مصنفین نے بھی زُولو قوم کی تاریخ سے جڑے موضوعات پر بہت کچھ لکھا جیسے Leonard Mncwangoکا ناول Ngenzeni? ۔
Muntu Xulu کا ناول Simpofu [1969]زولو بادشاہ Cetshwayo اورنٹال کے سفید فام سیاست داں Theophilus Shepstoneکے درمیان کشمکش کی کہانی ہے۔
روایتی افریقی زندگی اور جدید شہری زندگی کے درمیان تصادم زولو ادب کا خاص موضوع رہا ہے۔ Dholmoکا ناول Indlela yababi [1946]گائوں کے بھولے بھالے لوگوں پر شہری زندگی کے برے اثرات کے موضوع پر مبنی ہے۔J.K. Ngubaneکا ناول Uvalo lwezinhlonzi [1957] ، C.L.S. Nyembeziکا ناول Inkinsela yaseMgungundlovu [1961] بھی اسی موضوع پر مبنی ہیں۔ Nyembezi کے ناول Mntanami! Mntanami! [1950] میں ایک لڑکا شہر جاکر جرائم کے دلدل میں بری طرح پھنس جاتا ہے اور آخر ایک دن کسی طرح لوٹ کر واپس اپنے گھر چلا آتا ہے۔
D.B.Z. Ntuliنے افسانوں کا انتخاب Uthingo lwenkosazana ۱۹۶۱ء میں اور D.B.Z. and C.S.Z. Ntuliنے دوسرا انتخابAmawisa کے نام سے ۱۹۸۲ء میں شائع کیا۔ ان میں شامل زیادہ تر افسانوں کے موضوعات زولو کا ماضی، روایت اور جدیدیت کے درمیان تصادم، جدید تعلیم کے فوائد اور نقصانات پر مشتمل تھے۔
زولو زبان کا عظیم ترین شاعر B.W. Vilakaziہے۔اس کی شاعری کے موضوعات عموماً قدرت، زولو کا ماضی اور سائوتھ افریقہ میں سیاہ فاموں کے ساتھ کی جارہی نا انصافیاں وغیرہ ہوا کرتی ہیں۔اس کے دو شعری مجموعے Inkondlo kaZulu اور Amal'ezuluبالترتیب ۱۹۳۵ء اور ۱۹۴۵ء میں شائع ہوئے۔ J.C. Dlamini اور Phumasilwe Myeni شاعری کے لیے روایتی انداز اپنایا۔ Dalminiکا مجموعہ Inzululwane کے نام سے ۱۹۵۹ ء میں اور Myeniکا مجموعہ Hayani maZulu کے عنوان سے ۱۹۶۹ء میں شائع ہو چکا ہے۔ N.J. Makhaye ایک ایسا شاعر ہے جو روایت اور جدیدیت کی درمیانی سطح پر شاعری کرتا ہے۔اس کا مجموعہ Isoka lakwaZulu ۱۹۷۲ء میں شائع ہو چکا ہے۔
Xhosa زبان میں نوشتہ افریقی ا دب :
Xhosaجنوبی افریقہ کیایک مقبول زبان ہے جو سائوتھ افریقہ اور لیسوتھو میں بولی جاتی ہے اور اس کے بولنے والوں کی تعداد تقریباً ۸۰ لاکھ ہے۔اس زبان کا رسم الخط لاطینی ہے۔Xhosaزبان میں ادبی تحریروں کی شروعات انیسویں صدی کے وسط میں ہوئی۔Xhosa قوم کے ماضی،عیسائیت اور سفید فاموں کے مظالم سے متعلق مضامین اور دیگر تخلیقات کئی Xhosaاخباروںاور رسالوں جیسے Ikhwezi ، Isigidimi samaXhosa ، Imvo zabantsundu اور Izwi labantu وغیرہ میں شائع ہوا کرتی تھیں۔
Xhosaکے اولین شاعروں میں Samuel E.K. Mqhayi اور J.J.R. Jolobeکے نام اہمیت کے حامل ہیں۔Mqhayi نے روایتی Xhosaشاعری کا انداز اپنایا تھا جب کہ Jolobe نے اپنی شاعری کے لیے جدید یوروپی لب و لہجہ اور انداز چنا تھا اور اس طرح اس نے جدید Xhosaشاعری کی بنیاد رکھی۔Maqhayi بہت ہی اچھا شاعر تھا اور اس کے چاہنے والوں نے اسے Imbongi yesizwe jikelele ( شاعرِ قوم) کا خطاب دیا تھا۔اس نے ناول بھی لکھے۔اس کے ناول Ityala lamaweleمیںدکھایا ہے کہ سفید فاموں کی آمد سے قبل افریقہ کا روایتی عدلیہ کتنا کامیاب تھا۔ A.C. Jordan نے اپنے ناول Ingqumbo Yeminyanya [1940] میںجدید تہذیب کے طوفان میں روایت کو قائم رکھنے کا راستہ دکھایا۔کچھ ناول نگاروں جیسے Ingqumbo Yeminyanya نے اپنے ناولIzagweba میں اور K.S. Bongela نے اپنے ناول Alishoni lingenandabaمیں گائوں اور شہر کی تہذیبوں کے ٹکرائو کو اپنا موضوع بنایا۔
Godfrey Mzamaneکے ناول Izinto zodidi [1959] میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ روایت اور جدیدیت کے درمیان کا راستہ سب سے بہتر ہے۔اس کے ناول میں گائوں کا ایک لڑکا اپنی صلاحیت کی بنا پر شہر میں بڑی کامیابیاں حاصل کرتا ہے جبکہ اس کے باپ کو ناکام ہو کر گائوں واپس لوٹنا پڑتا ہے۔
عربی زبان میں نوشتہ افریقی ادب
(African Literature written in Arabic language)
مصر: آٹھویں صدی عیسوی میں مصر پر مسلمانوں کا قبضہ ہوا۔اس کا سیدھا اثر ان کی زبان و ادب پر پڑا۔عربی یہاں کی ادبی زبان بن گئی اور مصری ادب پر اسلامی چھاپ نظر آنے لگی۔ انیسویں صدی میں معروف مصری ادیب نقیب محفوظ کو نوبل انعام ملا تو مصریوں میں ادبی انقلاب آگیا۔۱۹۱۴ء میں محمد حسین ہیکل نے ’’زینب‘‘ نامی ناول لکھا جو مصر کا پہلا جدید ناول تھا۔یہاں کے مشہور ادبا و شعرا میں طٰہ حسین، یوسف ادریس، ثنا اللہ ابراہیم، توفیق الحکیم، محمد البساطی (جن کا ایک افسانہ تیسری مزل سے ہونے والی گفتگو ‘ اس مجموعے میں شامل ہے)، جمال عبدالناصر، نقیب محفوظ، بہا ظاہر، علیٰ الاسوی ، عبدالحکیم قاسم وغیرہ کے نام اہم ہیں۔
سوڈان: سوڈان کا زیادہ تر ادب آج عربی میں لکھا جاتا ہے۔یہاں کے زبانی ادب میںمدیح نامی ایک صنف پائی جاتی ہے جو دراصل نعتِ رسول پاک ﷺ کی ہی ایک شکل ہے۔
سوڈان میں ادب کی ترویج و اشاعت میں خرطوم سے سے شائع ہونے والے اخبارالریاض نے بہت بڑا کردار نبھایا۔۱۹۱۴ء سے مسلسل اس اخبار نے نظم و نثر کی اشاعت کی اور عربی میں لکھنے والے شعرا و ادبا کی حوصلہ افزائی کی۔۱۹۶۰ء کے بعد سوڈان میں سماجی ناول لکھے جانے لگے۔الفراغ العرید کو پہلا ناول کہلانے کا شرف حاصل ہے جو معروف خاتون ناول نگار Malkat Ed-Dar Mohammadنے لکھا تھا۔
سوڈان کا ایک اور معروف ناول نگار و افسانہ نگار الطیّب صالح ہے۔اس کا سب سے مشہور کارنامہ ’’موسم الہجرۃ الیٰ شمال‘‘ (Season Of Migration To The North)ہے۔(طیب صالح کا ایک افسانہ’ مٹھی بھر کھجوریں ‘اس مجموعے میں شامل ہے)۔
سوڈان کے چند دوسرے ادبا وشعرا کے نام مندرجہ ذیل ہیں:
Ali EL-Maak، Bushra Elfadil، Amir Tagelsir، Leila Aboulela، Ra'ouf Mus'ad، Faisal Mustafa ، Muhsin Khalid وغیرہ۔
المغرب : شمالی افریقہ کے ممالک الجریا، مراقش اور تیونس کو مغرب (Maghreb)کہا جاتا ہے۔یہ تینوں ممالک رفتہ رفتہ فرانس کے غلام بنے اور برسوں غلامی کی چکی میں پستے رہے۔غلامی کا اثر وہاں کی زبان و ادب پر بھی پڑا۔فرانسیسی وہاں کی قومی و سرکاری زبان بنادی گئی۔لوگ فرانسیسی پڑھنے اور اسی میں لکھنے پر مجبور ہوئے۔ لیکن عربی چونکہ ان کی مذہبی زبان تھی اس لیے اس سے ان کا رشتہ نہیں ٹوٹا اور اور عربی زبان لاکھ کوشش کے باوجود اس علاقے سے نہیں مٹ سکی۔
لمبے عرصے تک ان ممالک میں فرنچ زبان میں ادب لکھا جاتا رہا لیکن آخر کار بیسویں صدی میں ،آزادی ملنے کے بعد ،یہاں کے لوگ پھر سے عربی کی طرف راغب ہوئے ۔تیونس کے Abdelwahhab Meddeb ، الجریا کے Habib Tengour اور مراکش کے Taher Ben Jelloun نے نئے موضوعات کی تلاش میں اپنی تاریخ و ثقافت کی جانب مراجعت کی اور عربی زبان کو اپنایا۔
عورتوں نے اپنے جذبات کے اظہار کے لیے زیادہ تر شاعری کووسیلہ بنایا۔تیونس کی مشہور ادیبہAhlam Mustaghanmi نے Dhakirat al-jasad[1998] اور Fawda al-Hawas [1998]نامی دو ناول لکھے ۔تیونس کی ہی Hela Beji نے اپنے پہلے ناول L'oeil du jour [1985] میں قدامت پسندی اور جدیدیت کی کشمکش کو اجاگر کیا۔عربی میں لکھنے والی دوسری خواتین ناول نگار Hind Azzouz, Nadjia Thamer, اور Arusiyya Naluti ہیں۔Zoubeida Béchir ایک اچھی شاعرہ ہیں۔Zahra al-Jlasi نے al-Nas al-Mumannath کے ذریعہ عورتوں کے حق میں آواز بلند کی۔مراکش میں Khanatha Bannounah کے چار افسانوی مجموعے اور دو ناول al-Nar wa al-Ikhtiyar اور al-Ghad wa al-Ghadabشائع ہوئے ۔دھیرے دھیرے خواتین ناول نگاروں کی ایک نئی کھیپ سامنے آرہی ہے جو عربی زبان میں ادب کی تخلیق کر رہی ہیں۔
۱۹۳۱ میں الجریا میں فرانسیسی اثرات کو دور کر نے کیے AUMAنامی تحریک چلائی گئی۔AUMAکے دو اخباروں al-shahab اورal-Basamir میں بہت ساری نظمیں اور کہانیاں شائع کی گئیں۔معروف ادبااحمد رضا ہوہو اور ظہور وینیسی اسی تحریک سے تعلق رکھتے تھے۔
مراقش میں بیسویں صدی کے وسط میں جو ناول لکھے گئے ان میں زیادہ تر کا موضوع مراقش کا سنہرا ماضی تھا۔Bensalem Himmish نے Majnun al-Hukm اور Lotfi Akaley نے ’’ابن بطوطہ‘‘ نامی ناول لکھے۔انھوں نے اپنے ناول کا مواد مراقش کے عرب کلچر سے لیا تھا۔
مراقش کے سب سے مشہور شاعر Muhammad Bannis ہیں۔ شاعرات میں Malika al-Asimi کا نام سر فہرست ہے۔
مغرب کا ایک ملک لیبیا بھی ہے لیکن لیبیا کا ادب دنیا میں زیادہ مشہور نہیں ہوسکا ۔یہاں کے پہلے شاعر کا نام سلیمان البرونی ہے جب کہ دوسرا مشہور ادیب ابراہیم الکونی ہے ۔
انگریزی زبان میں نوشتہ افریقی ادب
(African Literature written in English language)
انیسویں صدی کی شروعات سے ہی انگریزوں نے افریقہ کے مختلف ممالک میں اپنی نو آبادیاں قائم کرنی شروع کر دی تھیں۔آہستہ آہستہ مصر، سوڈان، یوگانڈا،کینیا، گھانا، سیرا لیون، نائجریا، زامبیا، زمبابوے، بوٹسوانا، سائوتھ افریقہ انگریزوں کے غلام بن گئے۔یہی وجہ ہے کہ افریقی ادب دوسرے یوروپی زبانوں کے مقابلے انگریزی میں زیادہ تخلیق ہوا۔
شاعری: انگریزی زبان میں شاعری کا پہلا مجموعہ An Anthology of West African Verse [1957]ہے جس میں فرانسیسی زبان میں نوشتہ افریقی نظموں کے ترجمے تھے۔انھیں نائجریا کے Olumbe Bassirنے ترجمہ کیا تھا۔پہلا شاعر جس نے انگریزی میں اپنی نظمیں شائع کروائیں ،وہ گامبیا کا Lenrie Petersتھا۔اس کے شعری مجموعے Poems ۱۹۶۴ء میں اورSelected Poetry ۱۹۸۱ء میں شائع ہوئے۔نائجریا کے نوبل انعام یافتہ شاعر Wole Soyinkaکے کئی شعری مجموعے شائع ہوئے جن میں Idanre and Other Poems [1967] بہت مشہور ہے۔Christopher Okigboبھی انگریزی زبان کا ایک مشہور افریقی شاعر تھا۔اس کی نظموں کا مجموعہ Labyrinths, with Path of Thunder کے نام سے ۱۹۷۱ء میں شائع ہوا۔گھانا کے Kofi Anyidoho کا شعری مجموعہ A Harvest of Our Dreams ۱۹۸۴ء میں شائع ہوکر مقبول ہوا۔یوگانڈا کے Okot p’Bitek کامجموعہ Song of Lawino [1966] کے نام سے شائع ہوا۔ کینیا کے Okello Oculi کی شاعری Words of My Groaning (1976)نامی انتخاب میں شامل ہے۔
سائوتھ افریقہ میں سفید فام حکومت کی نسلی منافرت کے خلاف بہت سے شاعروں نے لکھا۔ان میں سے زیادہ تر نظمیں جلاوطنی کے حالات میں لکھی گئیں۔سائوتھ افریقہ کے سیاہ فام شاعروں میں سب سے اہم نام Dennis Brutusکا ہے جس نے ۱۹۶۸ء میں Letters to Martha شائع کیا۔اس کے علاوہ Mazisi Kunene کامجموعہZulu Poems ، Oswald Mtshali کامجموعہ Sounds of a Cowhide Drum ، Sipho Sepamla کامجموعہ The Soweto I Love اور Frank Chipasula کامجموعہ Whispers in the Wings شائع ہوئے۔
ناول اور افسانے : افریقہ میں انگریزی زبان میں ناول و افسانے دوسری یوروپی زبانوں کے مقابلے میں زیادہ شائع ہوئے ہیں۔ Joseph Ephraim Casely-Hayford کا ناول Ethiopia Unbound: Studies in Race Emancipation ۱۹۱۱ء میں شائع ہوا۔۱۹۴۳ء میں R. E. Obeng نے Eighteenpenceنامی ناول لکھا۔ نائجریائی ادیب Amos Tutuola نے ۱۹۵۸ء میںایک ناول The Palm-Wine Drinkard and His Dead Palm-Wine Tapster in the Dead’s Townلکھا جو یوروپ اور امریکہ میں بہت مقبول ہوا۔یہ پہلا افریقی ناول تھا جسے افریقہ کے باہر اتنی مقبولیت ملی۔Tutuolaکی کامیابی سے متاثر ہوکر Chinua Achebeنے۱۹۵۸ء میں اپنا پہلا ناول Things Fall Apart شائع کیا۔نائجریا کے دو اور ناول نگار Cyprian Ekwensi اور Flora Nwapa ہیں ۔ Ekwensiکا ناول Jagua nana [1961] نائجریا کے شہر لاگوس کی ایک جسم فروش لڑکی کی زندگی کی کہانی پر مبنی تھا جب کہ Nwapaکا ناول Efuru [1966] خواتین کے سماجی مسائل سے متعلق ہے۔
گامبیا کے William Conton نے اپنے ناول The African [1960]میں سائوتھ افریقہ میں جاری نسلی منافرت کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک نئی سیاسی پارٹی بنانے کا خیال پیش کیا تھا۔گامبیا کے ہی Ayi Kwei Armah نے ۱۹۶۸ء میں The Beautyful Ones Are Not Yet Born کے ذریعہ رہنمائوں کی سیاسی بد معاشیوں پر تنقید کی تھی۔گھانا کےKofi Awoonor نے اپنے ناول This Earth, My Brother [1971] کے ذریعہ گھانا کے سیاسی مسائل اور عوام پر اس کے اثرات کا اظہار کیا۔
نائجریا میں ۱۹۶۶ء سے ۱۹۶۹ء کے درمیان بیافرا نامی ایک نئی خود مختارمملکت کے قیام کی تحریک کے نتیجے میں زبردست خانہ جنگی ہوئی جس نے نائجریا کی حالت خستہ کر دی۔ اس لڑائی کے تلخ نتائج بہت ساری ادبی تخلیقات کا سبب بنے مثلاً Wole Soyinkaکا Season of Anomy [1973] ، Eddie Iroh کا Forty-Eight Guns for the General [1976] اور Buchi Emechetaکا Destination Biafra [1982] وغیرہ۔(اس مجموعے میں شاملChinua Achebeکا افسانہ’’امن کے بعد‘‘ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے)۔کینیا کے Ngugi wa Thiong’o کے ناول Weep Not, Child [1964] میںسفید فام حکومت کے ذریعہ عوام کی زمینیں چھینے جانے کا موضوع پر احتجاج بلند کیا گیا۔اس کے بعد اس موضوع پر کئی کہانیاں اور ناول منظر عام پر آئے۔ تنزانیہ کے Ismael Mbise نے بھی اس موضوع پر ۱۹۷۴ء میں ایک ناول Blood on Our Land لکھاتھا۔J. N. Mwaura کے ناول Sky is the Limit [1974] میں باپ اور بیٹے کے درمیان اختلاف کو موضوع بنایا گیا تھا۔
پہلی مشرقی افریقی خاتون ناول نگار جس نے انگریزی میں ناول لکھا وہ ہے کینیا کی Grace Ogot جس کا ناول Promised Land۱۹۶۶ء میں منظر عام پر آیا۔کینیا کی دو اور مشہور خاتون ناول نگار Rebeka Njau اور Lydia Nguya ہیں۔ ریبیکا ناجو کا ناول Ripples in the Pool ۱۹۷۵ء میں شائع ہوا۔ اس ناول میں عورتوں کے ازدواجی مسائل کو موضوع بنا یا گیا ۔ Lydiaکا ناول The First Seed بھی اسی سال شائع ہوا۔ اس ناول میں شہری اور دیہاتی زندگی کے درمیان موازنہ پیش کیا گیا تھا۔
نسلی منافرت کے موضوع پر بھی بہت ساری کتابیں شائع ہوئیں جیسے Peter Abrahams کاناولTell Freedom [1974] ، Es’kia Mphahleleکا ناول A Walk in the Night [1962] ، riam Tlali Miکا ناولMuriel at Metropolitan [1975]، Mongane Serote کا ناول To Every Birth Its Blood [1981] ، Mphalele کا ناول The Unbroken Song [1981] اور Sipho Sepamla کا ناول A Ride on the Whirlwind [1981] وغیرہ۔
ڈرامے: انگریزی زبان میں لکھا جانے والا پہلا افریقی ڈرامہ The Girl Who Killed to Save:Nongquase the Liberator تھا جسے سائوتھ افریقہ کے Herbert Isaac Ernest Dhlomo نے ۱۹۳۵ء میں لکھا تھا۔نسلی امتیاز کے خلاف جد وجہد میں سیاہ فاموں کے ڈراموں نے بہت اہم کردار نبھایا۔بہت سے ڈرامے اس موضوع پر لکھے گئے جن میں Lewis Nkosiکا ڈرامہ The Rhythm of Violence [1964] بہت مقبول ہوا۔ گھانا کے ڈرامہ نگار Joe de Graft کا ڈرامہDear Parent and Ogre [1965] ماں باپ اور اولاد کے درمیان کشمکش کی کہانی پر مبنی ہے جب کہNgugi wa Thiong’o کا ڈرامہ Black Hermit قبائلی عصبیت کے موضوع پرمبنی ہے۔
انگریزی زبان میںچند دیگر مشہور ڈرامے درج ذیل ہیں:
Wole Soyinka کے ڈرامے The Swamp-Dwellers اور A Play of Giants ، Ama Ata Aidooکا ڈرامہ The Dilemma of a Ghost ، Ebrahim Hussein کا ڈرامہ Kinjeketile ، Femi Osofisan کا ڈرامہ Once Upon Four Robbers ، Percy Mtwa کے ڈرامے Bhopa! اور Woza Albert! وغیرہ۔
فرانسیسی زبان میں نوشتہ افریقی ادب
(African Literature written in French language)
انیسویں صدی کے درمیانی برسوں میں فرانسیسیوں نے افریقہ میں اپنی نو آبادیاں قائم کرنی شروع کردی تھیں۔انھوں نے جن ممالک کو اپنا غلام بنایا وہ تھیں: مراقش، الجیریا، تیونس، موریطانیہ ، مالی، نائجر، چاڈ، سینیگال، مڈغاسکر اور کوٹے ڈی آئیوائر۔یہ ممالک ۱۹۶۰ء تک ایک ایک کر کے فرانس کے پنجۂ استبداد سے آزاد ہوئے۔
شاعری : افریقیوں کی فرانسیسی شاعری کا اولین مجموعہ Anthologie de la nouvelle poésie nègre et malgache de langue françaiseتھا جو ۱۹۴۸ء میں پیرس میںشائع ہوا تھا۔اس کی تالیف سینیگال کے مشہور شاعر Léopold Sédar Senghor نے کی تھی۔
فرانسیسی افریقی شاعری میں دوسرا اہم نام کا ہے ۔اس کا مجموعہ Coups de pilon کے نام سے منظر عام پر آیا۔ اس میں شامل نظموں میںفرانسیسیوں کے خلاف انقلاب کی چنگاریاں دبی ہوئی تھیں۔یہ دراصل فرانس کی نوآبادیوں میں چلنے والی négritude تحریک کی بازگشت تھی۔اسی موضوع پرمڈگاسکر کے شاعر Jacques Rabémananjara کے بھی دو مجموعے AntsaاورAntidoteشائع ہوکر مقبول ہوئے۔
ناول اور افسانے : افریقی فرنچ ناول کی ابتدا سینیگال کے Ahmadou Mapaté Diagne کے ناول Les trois volontés de Malik سے ہوئی جو ۱۹۲۰ء میں منظر عام پر آیا۔اس ناول میں ایک محنتی نو جوان کی کہانی ہے جو نوآبادیاتی سامراجیت کی چکی میں پس جاتاہے اور اس کی آرزوئیں خاک میں مل جاتی ہیں۔
دوسرے فرانسیسی افریقی ناولوں میں Ousmane Socé کا ناول Mirages de Paris [1937] ، کیمیرون کے Ferdinand Oyono کا ناول Une vie de Boy [1956] ،کیمیرون کے ہی Mongo Beti کا ناول Le pauvre Christ de Bomba [1971] اور سینیگال کے Ousmane Sembène کا ناول Xala [1973] اہم ہیں۔
خواتین ناول نگاروں میں سینیگال کی Mariama Bâ اور Aminata Sow Fall کے نام اہمیت رکھتے ہیں۔Mariama Bâ نے ۱۹۸۰ء میں Une si longue lettre لکھا اور Aminata Sow Fall نے ۱۹۷۹ء میں La grève des bàttu کی تخلیق کی۔
ڈرامے : فرانسیسی زبان میں جن افریقی ڈراموںنے مقبولیت حاصل کی ان میںکیمیرون کے Guillaume Oyono-Mbia کا ڈرامہ Trois prétendants, un mari [1964]، مالی کے Saydou Badian کا ڈرامہ La mort de Chakaاور کانگو کے Tchicaya U Tam’si کا ڈرامہ Le zoulou وغیرہ بہت اہمیت کے حامل ہیں۔
پرتگالی زبان میں نوشتہ افریقی ادب
(African Literature written in Portuguese language)
پرتگالیوں کا افریقہ سے رشتہ دوسرے یوروپی ممالک کے مقابلے میں زیادہ پرانا ہے(تقریباً پندرہویں صدی سے) لیکن اس کے باوجود افریقہ میں پرتگالی سلطنت دوسرے یوروپی ممالک سے بہت چھوٹی تھی۔ پرتگالیوں نے جن ممالک پر قبضہ کیا تھا وہ تھیں: انگولا، کیپ ورڈے، گینیا بیسائو، سائو ٹوم، پرنسپ اور موزمبیق۔یہی وجہ ہے کہ پرتگالی زبان میں افریقی ادب کی تخلیق کم ہوئی۔
شاعری : پرتگالی زبان میں شاعری کرنے والے شاعروں میں سب سے اہم نام کیپ ورڈے کا Jorge Barbosa کا ہے جس کا مجموعہ Arquipélago ۱۹۳۵ء میں شائع ہوا تھا۔پہلی خاتون افریقی پرتگالی شاعرہ Noémia de Sousa ہے جو اپنی نظم Sangue Negro(سیاہ خون) کے لیے مشہور ہے۔آزادی کی تحریک کے دوران ہرزبان کی طرح پرتگالی افریقی شاعری پر بھی انقلابی رنگ غالب تھا ۔لیکن ۱۹۷۵ء میں پرتگالی نوآبادیوں کی آزادی کے بعد یہاں کی شاعری کا رنگ تبدیل ہو گیا اور آج کی شاعری میں ایک اہم نام موزمبیق کے شاعر Luís Patraquimکا ہے جس کا مجموعہ A inadiável viagem کے نام سے ۱۹۸۵ء میں شائع ہوا ہے۔
ناول اور افسانے : کیپ ورڈے کے Baltasar Lopes da Silva کا ناول Chiquinho ۱۹۴۷ء میں شائع ہوا یہ ایک ایسے لڑکے کی کہانی ہے جو اپنے باپ کی تلاش میں امریکہ جاتا ہے۔چند دوسرے اہم ناول درج ذیل ہیں :
موزمبیق کے Luís Bernardo Honwana کا ناول Nós matamos o cão tinhoso (۱۹۶۴ء) اور انگولا کے José Luandino Vieira کا ناول Luuanda(۱۹۶۴ء) وغیرہ۔
ڈرامے : پرتگالی افریقہ میں ڈرامے کی تخلیق سب سے کم ہوئی۔اس کی سب سے پہلی مثال۱۹۷۱ء کے بعد انگولا کی راجدھانی لوانڈا میں اسٹیج کیے گئے چند میوزیکل ڈرامے ہیں۔آزادی کی جدوجہد کے دوران افریقی انقلابیوں نے سیاسی اور انقلابی ڈراموں کی ہمت افزائی کی اور شہروں میں تھیئٹر گروپ تشکیل پانے لگے۔
انگولا کا سب سے مشہور ڈرامہ O círculo de giz de bombóہے جو دراصل بچوں کا ڈرامہ ہے جسے Henrique Guerra نے لکھا تھا۔موزمبیق میں Belo Marques نے ریڈیائی ڈراموں کی شروعات کی ۔
عصری افریقی ادب
(Contemporary African Literatures)
آج کا افریقی ادب کافی ترقی کر چکا ہے اور دنیا کے ادب کے شانہ بہ شانہ چلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔افریقی تاریخ میں ۱۹۸۶ء کا وہ دن یقیناً ایک نہایت اہم دن ہے جب افریقی شاعر و ادیب Wole Soyinka کو ادب کے لیے نوبل انعام سے نوازا گیا۔اسی سے عصری افریقی ادب کی اہمیت واضح ہو جاتی ہے۔ افریقہ کے سیاسی و سماجی حالات چونکہ آج بھی زیادہ اچھے نہیں اس لیے آج کے افریقی ادب پر وہاں کے تازہ سیاسی اور سماجی مسائل کی چھاپ ہے۔افریقی شاعروں ادیبوں کے خاص موضوعات نسلی تعصب، غریبی، بے روزگاری، استحصال اور بے کار رسم و رواج ہیں۔و
آج کے افریقہ میں انگریزی میں لکھنے والے چند اہم شعرا و ادبا کے نام درج ذیل ہیں۔
نائجریا کے باغی ادیب Ken Saro-Wiwa کی نظموں کا مجموعہ Songs in A Time of War ۱۹۸۵ء میں شائع ہوا۔ نائجریا کے ہی ایک اور نامور شاعر Tanure Ojaide کا مجموعہ The Fate of Vultures and Other Poems ۱۹۹۰ء میں منظر عام پر آیا۔
سیئرا لیون کے شاعر Syl Cheney-Coker کا مجموعہGraveyard Also Has Teeth ۱۹۸۰ء میں شائع ہوا۔
صومالیائی مصنف نورالدین فرح کی Blood in the sunکے نام سے ایک Trilogyشائع ہوئی جو دراصل تین ناولوں پر مشتمل تھی: Maps [1986] ، Gifts [1992] اور Secrets [1998] ۔ ان ناولوں میں ۱۹۹۰ء کے عشرے میں صومالیہ میں پھوٹ پڑنے والی خانہ جنگی کے درمیان لوگوں کو پیش آنے والی مشکلات کی عکاسی کی گئی تھی۔
نائجریاکے نامور مصنف Ben Okriکا ناول The Famished Road ۱۹۹۱ء میں شائع ہوا اور Booker Prizeسے سر فرازہوا۔ Syl Cheney-Coker نے شاعری کے علاوہ ناول بھی لکھا۔اس کے ناول The Last Harmattan of Alusine Dunbar [1990]نے کافی مقبولیت حاصل کی۔سائوتھ افریقی ناول نگار Zakes Mdaکا ناول Ways of Dying بھی کافی اہمیت رکھتا ہے۔
فرانسیسی زبان میں لکھنے والے شاعروں میں سب سے اہم نام کانگو کے J. B. Tati-Loutard کا ہے جس کا مجموعہ Le dialogue des plateaux کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔کیمیرون کے ادیب Victor Beti Benanga نے سماجی مسائل کے موضوع پر ایک ناول Le miroir bleu لکھا۔یہ ایک ایسے شخص کی کہانی ہے جس نے گائوں میں کاشتکار ی کی زندگی پر شہر میں بیکاری کی زندگی کو ترجیح دی اور مسائل میں گرفتار ہوا۔
افریقی پرتگالی ادب میں شاعری کو زیادہ اہمیت حاصل ہے۔پرتگالی شاعری میں اہم نام انگولا کے شاعر Paula Travares کا ہے جس کا مجموعہ Ritos de Passagem کے نام سے ۱۹۸۵ء میں شائع ہوا۔اس کے علاوہ انگولا کے ہی Ana de Santana (مجموعہ : Sabores, odores & sonho [1985] )، موزمبیق کے Hélder Muteia (مجموعہ : Verdades dos mitos [1988] ) اور Eduardo White (مجموعہ : O país de mim [1989] ) کے نام اہمیت کے حامل ہیں۔
عصری افریقی ادب میں خواتین کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ افریقی خواتین تیزی سے ادب کی طرف متوجہ ہو رہی ہیں۔ان کے موضوعات زیادہ ترعورتوں کے حقوق، سماج میںعورتوں کی اہمیت اور عورتوں پر مردوں کے مظالم ہیں۔سب سے اہم ادیبہTsitsi Dangarembga ہے جس کا مجموعہ Nervous Conditions [1988] بہت مقبول ہوا۔دوسرے اہم نام نائجریا کی Buchi Emecheta (ناول : The Family [1989] ) اورکینیا کی Micere Githae Mugo (نظموں کا مجموعہ : My Mother’s Poem and Other Songs [1994]) کے ہیں۔
پس نوشت :
ا فریقہ کا ادب اتنی زبانوں اور اتنی جہتوں میں بٹا ہوا ہے کہ اس نے نہایت پیچیدہ صورت اختیار کر لی ہے۔ میں نے اس مضمون میں دراصل دریا کو کوزے میں سمیٹنے کی کوشش کی ہے، لیکن میں خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہوں ۔میں جانتا ہوں کہ یہ موضوع ایک مضمون میں سمٹنے والا نہیں ہے اس کے لیے تو ضخیم کتاب بھی نا کافی ہوگی۔بہر حال،اسے افریقی ادب کا سرسری جائزہ ہی سمجھا جائے۔ امید ہے افریقی ادب سے دلچسپی رکھنے والوںکے لیے یہ مضمون کارآمد ثابت ہوگا۔
خورشید اقبال
۲۲ ؍ نومبر ۲۰۱۰ء