یہ تب کی بات ہے جب میں بہت چھوٹا تھا۔ مجھے یہ تو یاد نہیں کہ اس وقت میری عمر کیا تھی ،بس اتنا یاد ہے کہ ان دنوں جب بھی لوگ مجھے میرے دادا کے ساتھ دیکھتے تو پیار سے میرا سر تھپتھپاتے اور میرے گال کو پیار سے مسلتے… ایسا وہ دادا کے ساتھ بالکل نہیں کرتے تھے۔ عجیب بات تھی کہ میرے والد مجھے اپنے ساتھ کبھی باہر نہ لے جاتے ، لیکن دادا جب بھی کہیں جاتے ،مجھے اپنے ساتھ ضرور لے جاتے۔ صرف صبح کے وقت ایسا نہ ہوتا،کیوں کہ اس وقت میں مسجد میں قرآن پڑھنے جایا کرتا تھا۔ مسجد، دریا اور کھیت… تینوں کامیری زندگی سے بہت گہرا تعلق تھا۔ عام طور سے میری عمر کے بچے مسجد میں جاکر قرآن پڑھنے سے کتراتے تھے، لیکن مجھے یہ بہت اچھا لگتا تھا۔ بلا شبہ اس کی وجہ یہی تھی کہ میں پڑھائی کے معاملے میں بہت ذہین واقع ہوا تھا اورجب بھی مدرسے میں باہر سے لوگ آتے تو میرے شیخ مجھے کھڑے ہوکر سورۃ رحمٰن کی تلاوت کرنے کا حکم دیا کرتے۔ میری ترنم ریز آواز سن کر مہمان بہت خوش ہوتے، میرا سر تھپتھپاتے اور میرے گال پیار سے مسلتے …بالکل ویسے ہی جیسے لوگ مجھے دادا کے ساتھ دیکھ کر کیا کرتے تھے۔
ہاں،مجھے مسجد سے پیار تھا… اور مجھے دریا سے بھی پیار تھا۔ قرآن کا سبق ختم کرتے ہی میں اپنی چوبی تختی ایک طرف پھینکتا اور کسی جن کی طرح برق رفتاری سے ماں کے پاس پہنچ جاتا، جلدی جلدی اپنا ناشتہ نگلتا اور دریا میں چھلانگ لگانے کے لیے دوڑ پڑتا۔ تیرتے تیرتے جب میں بری طرح تھک جاتا تودریا کنارے بیٹھ جا تا اور پانی کے دھاروں کو تکتا رہتا ،جو مشرق کی جانب بہتے ہوئے کیکر کے گھنے درختوں کے درمیان مڑ کر کہیں غائب ہو جاتے۔ میں اپنے خیالوں میں کھو جاتا… تصور کی آنکھوں سے میںکیکر کے ان گھنے درختوں کے جنگل میں دیوئوں کے ایسے قبیلے کے لوگوں کو دیکھتا جو دبلے اور بہت زیادہ لمبے ہوتے۔ جن کی ناکیں نوک دار، داڑھیاں لمبی اور سفید ہوا کرتیں…بالکل میرے دادا کی داڑھی جیسی۔ میرے ہر سوال کا جواب دینے سے قبل میرے دادا شہادت کی انگلی سے ناک ضرور کھجاتے۔ ان کی داڑھی نرم اور بے حد سفید تھی… بالکل روئی کے گالے جیسی۔ میں نے اپنی زندگی میں ان کی داڑھی سے زیادہ سفیداور حسین کوئی دوسری شے نہیں دیکھی۔ میرے دادا بہت لمبے بھی تھے… میں نے پورے علاقے میںایسا کوئی شخص نہیں دیکھا تھا جسے ان سے بات کرتے وقت اپنی گردن اوپرنہ اٹھانی پڑتی ہو اور نہ ہی میں نے انھیں کسی گھر میں بغیر جھکے داخل ہوتے دیکھاتھا…وہ اتنا زیادہ جھکتے کہ مجھے کیکر کے جنگل کے درمیان مڑتا ہوا دریا یاد آجا تا تھا۔ میں ان سے بہت پیار کرتا تھا اور بڑا ہوکر انھی جیسا لانبا اور چھریرا بننا چاہتا تھا،تاکہ میں انھی کی طرح لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہو ئے چل سکوں۔
مجھے پورا یقین ہے کہ میں ہی ان کا سب سے پیارا پوتا تھااوراس میں حیرت کی کوئی بات نہ تھی۔ میرے باقی چچیرے بھائی میرے مقابلے خاصے بے وقوف تھے۔ لوگ مجھے’ عقل مند بچہ‘ کہا کرتے تھے۔ مجھے پتا تھا کہ داداکب یہ چاہتے ہیں کہ میں ہنسوں اور کب خاموش رہوں۔ اس کے علاوہ مجھے دادا کی نمازوں کے اوقات کا بھی علم تھااور میں کہے بغیر ہی ان کے لیے جانماز بچھا دیا کرتااور وضو کا لوٹا بھر دیا کرتا۔ جب انھیں کوئی کام نہ ہوتا ،تو وہ میری مترنم آواز میں قرآن مجیدکی تلاوت سنا کرتے اور ان کے چہرے سے مجھے بخوبی اندازہ ہو جاتا کہ وہ اس میں کتنا ڈوب چکے ہیں۔
ایک دن میں نے ان سے اپنے پڑوسی مسعود کے بارے میں پوچھا۔ میں نے دادا سے کہا ’’دادا! مجھے لگتا ہے کہ آپ ہمارے پڑوسی مسعود کو پسند نہیں کرتے ؟‘‘
جس کے جواب میں انھوں نے اپنی ناک کی نوک کھجاتے ہوئے کہا ’’وہ کاہل انسان ہے اور میں ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا۔ ‘‘
میں نے پوچھا ’’ کاہل کسے کہتے ہیں؟‘‘
میرے دادا نے ایک لمحے کے لیے سر جھکا یا پھر دور تک پھیلے کھیتوں کی طرف دیکھتے ہوئے بولے ’’تم ریگستان کے کناروں سے لے کر دریائے نیل کے ساحل تک پھیلی ان زمینوں کو دیکھ رہے ہو؟…تقریباًایک سو فِدان زمین…تم کھجوروں کے وہ سارے درخت دیکھ رہے ہو؟…اور وہ ببول اور دوسرے درخت دیکھ رہے ہو؟ …یہ سب کچھ مسعود کے باپ کے بعد اسے وراثت میں ملا تھا۔ ‘‘
دادا چند لمحوں کے لیے خاموش ہوئے تو میں نے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی نگاہیں دادا کے چہرے سے ہٹا کر زمین کے اس پورے رقبے پر دوڑائیں… ’’ مجھے اس بات کی کوئی پروا نہیں۔ ‘‘ میں نے اپنے آپ سے کہا، ’’ …کہ کون ان کھجور کے درختوں کا مالک ہے یا یہ سیاہ پھٹی ہوئی زمینیں کس کی ہیں؟… میں تو صرف اتنا جانتا ہوں کہ یہ میرے خوابوں کی سرزمین ہے…میرے کھیلنے کا میدان!‘‘
میرے دادا نے پھر کہنا شروع کیا ’’ میرے بچے! آج سے چالیس سال قبل یہ سب کچھ مسعود کا تھا… لیکن آج اس کا تقریباً دو تہائی حصہ میرا ہو چکا ہے۔ ‘‘
یہ اطلاع میرے لیے نئی تھی۔ میں تو اب تک یہی سمجھتا آیا تھا کہ یہ زمینیں ابتدائے آفرینش ہی سے میرے دادا کی ہیں۔
’’میں نے جب اس گائوں میں قدم رکھا تھا تو ایک فدانزمین کابھی مالک نہ تھا۔ ان دنوں مسعود ان ساری زمینوں کا مالک تھا،لیکن آج حالات بدل چکے ہیں اور میرا خیال ہے کہ اس کے مرنے سے پہلے پہلے بقیہ زمین بھی میری ہی ہو جائے گی۔ ‘‘
معلوم نہیں کیوں دادا کے ان الفاظ سے مجھے ڈر سا محسوس ہوا اور اپنے پڑوسی مسعود کے لیے مجھے اپنے دل میں ہمدردی کی ایک لہر دوڑ گئی۔ شاید اسی لیے میں نے دل ہی دل میں دعاکی کہ دادا جو کچھ کہہ رہے ہیں ایسا کبھی نہ ہو۔ مجھے مسعود کا گانا یاد آیا … اس کی خوبصورت آواز…اس کے بھر پور قہقہے…جن کی آواز گلے میں پانی لے کر غر غرہ کرنے جیسی ہوتی تھی۔ میرے دادا تو کبھی ہنستے ہی نہ تھے۔
میں نے دادا سے پوچھا ’’ مسعود نے اپنی زمینیں کیوں فروخت کر دیں؟‘‘
’عورتیں‘دادا نے جس لہجے میں یہ لفظ ادا کیا تھا، اس سے ایسا لگا ،جیسے ’عورتیں ‘بہت ہی بری اور ڈرائونی ہوتی ہیں’’میرے بچے!مسعود نے بہت سی شادیاں کیں اوراپنی ہر شادی کے موقع پر اس نے اپنی ایک یا دو فدان زمین میرے ہاتھوں فروخت کر دی۔ میں نے دل ہی دل میں فوراً حساب لگایا… تو اس کا مطلب ہے مسعود اب تک نوے شادیاں کر چکا ہے؟…مجھے مسعود کی تین بیویاں یاد آئیں… اس کی مجہول سی شخصیت… اس کا لنگڑا ٹٹو اور اس کی سال خوردہ زین… اس کی پھٹی آستینوں والی عبا…میں مسعود کے بارے میں ہی سوچ رہا تھا تبھی میں نے اسے اپنی جانب آتے ہوئے دیکھا۔ دادا، اور میں نے ایک دوسرے کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھا۔
’’ ہم لوگ آج کھجوریں توڑیں گے‘‘ اس نے دادا سے کہا ’’ کیا آپ اس وقت وہاں موجود رہنا پسند کریں گے؟‘‘
مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے وہ دادا کو آنے کی دعوت تو دے رہا ہے لیکن حقیقتاً وہ دادا کی موجودگی کوپسند نہیںکرتا۔ میرے دادا اچھل کر کھڑے ہو گئے۔ چند لمحوں کے لیے میں نے ان کی آنکھوں میں تیزچمک پیدا ہوتے دیکھی۔ انھوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر کھینچا اور ہم اس طرف روانہ ہو گئے جہاں مسعود کی کھجوریں توڑی جانی تھیں۔
ایک شخص دادا کے لیے اسٹول لے آیا جس پر بیل کے چمڑے کا غلاف لگا تھا، جب کہ میں کھڑا رہا۔ وہاں بہت سے لوگ موجود تھے، میں چوں کہ سبھی سے واقف تھا اس لیے میں نے کسی کی طرف توجہ نہیں دی… میری ساری توجہ مسعود کی طرف تھی جو اس بھیڑ سے الگ تھلگ اس طرح کھڑا تھا جیسے اس سارے معاملے سے اس کا کوئی تعلق ہی نہ ہو… حالاں کہ جو کھجور توڑے جانے والے تھے وہ اسی کی ملکیت تھے۔ کبھی کبھی وہ زور دار آواز کے ساتھ نیچے گرتے کھجوروں کے گچھوں کی طرف متوجہ ہو جا تا۔ ایک بار جب ایک لڑکا کھجور کے درخت کی چوٹی پر پہنچ کر اپنی لمبی ، تیز کٹار سے کھجوروں کے گچھوں کو کاٹ رہا تھا تو وہ چلا پڑا ’’اے دھیان سے!…درخت کے قلب کو کوئی نقصان نہ پہنچے۔ ‘‘
اس نے جو کچھ بھی کہا،اس پرکسی نے بھی توجہ نہ دی اور چوٹی پر بیٹھا ہوا لڑکا اپنی دھن میں ،پوری توانائی کے ساتھ کام کر رہا تھا اور کھجور اس طرح گر رہے تھے جیسے آسمان سے کھجوروں کی بارش ہو رہی ہو۔
میں مسعود کے الفاظ ’درخت کے قلب‘ پر غور کر رہا تھا۔ مجھے لگا جیسے واقعی کھجور کے درخت کے مرکز میں ایک دھڑکتا ہوا دل موجود ہوتا ہے جس میں جذبات بھی ہوتے ہیں۔ مجھے مسعود کا ایک جملہ یاد آگیا جو اس نے مجھ سے کہا تھا جب میں کھجور کے ایک نوخیز درخت کی شاخیں پکڑ کر کھیل رہا تھا۔ اس نے کہا تھا ’’میرے بچے! انسانوں کی طرح کھجور وں کے درختوں کو بھی خوشی اور تکلیف کا احساس ہوتا ہے‘‘… اور میں نے اپنے اندر ایک بے نام سی ندامت محسوس کی تھی۔
میں نے اپنے سامنے پھیلی وسیع و عریض زمین کی طرف نگاہیں دوڑائیں…میرے ساتھی بچے کھجوروں کے تنوں کے گرد چونٹیوں کی طرح جمع تھے اور کھجوریں اٹھا رہے تھے اور ان میں سے زیادہ تر کھجوریںخود کھا جارہے تھے۔ کھجوروں کو اونچے اونچے ڈھیروں کی صورت میں جمع کیا جا رہا تھا۔ پھر میں نے دیکھا کہ لوگ ان کھجوروں کو پیمانوں سے ناپ کر بڑے بڑے تھیلوں میں بھر رہے ہیں… جنھیں میں نے دل ہی دل میں گنا… تیس بوریاں تھیں۔ سب لوگ چلے گئے صرف کھجوروں کا تاجر حسین، ہماری زمین کی مشرقی جانب کی زمینوں کا مالک موسیٰ اور دو دوسرے لوگ جنھیں میں نہیں پہچانتا تھا، وہاں رہ گئے تھے۔
میں نے ہلکے خراٹوں کی آوازیں سنیں… گھوم کر دیکھا تو پتا چلا کہ دادا سو گئے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ مسعود اب بھی اسی حالت میںکھڑا تھا…صرف اتنا فرق پڑا تھا کہ اس نے کھجور کی ایک ننھی سی ٹہنی اپنے منہ میں ڈال لی تھی اور اسے چبا رہا تھا… اس آدمی کی طرح جس کا پیٹ بھر چکا ہو، اور وہ منہ میں لقمہ لیے سوچ رہا ہو کہ اب وہ اس کا کیا کرے۔
اچانک دادا جاگ گئے اور اپنے پیروں پر کھڑے ہوکر کھجوروں کی جانب بڑھے۔ ان کے پیچھے تاجر حسین، اور ہمارے پڑوس کی زمینوں کا مالک موسیٰ اور دونوں اجنبی بھی آگے بڑھے۔ میں نے مسعود کی طرف دیکھا… وہ ہماری طرف انتہائی سست روی سے بڑھ رہا تھا…کسی ایسے آدمی کی طرح جو رکنا چاہتا ہو لیکن اس کے قدم اسے آگے لیے جارہے ہوں۔ وہ کھجوروں کے تھیلوں کے گرد دائرے کی شکل میں کھڑے ہو کر ان کا جائزہ لینے لگے… کسی کسی نے ایک دو کھجوریں کھانے کے لیے اٹھا لیں۔ میرے دادا نے ایک مٹھی کھجوریں مجھے دیں، جنھیں میں کھانے لگا۔ میں نے دیکھا کہ مسعود نے اپنی دونوں ہتھیلیوں میں کھجوریں اٹھا کر اپنی ناک کے پاس لے جاکر انھیں سونگھا اور پھرانھیں واپس رکھ دیا۔
پھر میں نے دیکھا کہ ان لوگوں نے کھجوروں کے تھیلے آپس میں تقسیم کر لیے۔ تاجر حسین نے دس تھیلے لیے، دونوں اجنبیوں نے پانچ پانچ تھیلے لیے، ہمارے پڑوس کی زمینوں کے مالک موسیٰ نے پانچ تھیلے لیے اور میرے دادا نے پانچ تھیلے لیے۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔ میں نے مسعود کی طرف دیکھا … اس کی آنکھیں دائیں بائیں حرکت کر رہی تھیں… ایسے چوہوں کی طرح جو اپنی بلوں کا رستہ بھول گئے ہوں۔
’’ تم ابھی بھی میرے پچاس پونڈ کے مقروض ہو۔ ‘‘میرے دادا نے مسعود سے کہا ،’’خیراس سلسلے میں ہم بعد میں بات کریں گے۔ ‘‘
حسین نے اپنے کارندوں کو آواز دی۔ وہ لوگ کھجوریں لادنے کے لیے چندخچر لے آئے، دونوں اجنبیوں نے اونٹوں کا انتظام کر رکھا تھا اور کھجوروں کے تھیلے ان پر لاد رہے تھے۔ ایک خچر زور دار آواز میں ہنہنایا جس کا برا مانتے ہوئے اونٹوں نے بھی زور دار آواز کے ساتھ اپنے منھ سے جھاگ اڑایا۔ نادانستہ طور پر میں مسعود کے قریب ہوگیا اور میرا ہاتھ اس کی طرف بڑھا جیسے میں اس کی عباکا دامن پکڑنا چاہ رہا ہوں۔ اچانک اس کے گلے سے عجیب سی آواز نکلی جیسے کسی بھیڑ کو ذبح کیا جا رہا ہو۔ اور نہ جانے کیوں… مجھے اپنے سینے میں درد کی تیز ٹیس محسوس ہوئی۔
میں وہاں سے دوڑ کر بہت دور چلا گیا۔ میں نے سنا دادا مجھے آوازدے رہے تھے…ایک لمحے کے لیے میں جھجکا لیکن پھر دوڑتا چلا گیا…اس لمحے مجھے دادا سے نفرت سی محسوس ہوئی۔ میں نے اپنی رفتار بڑھا دی… میرے اندر کچھ تھا جس سے میں جلد از جلد نجات پانا چاہتا تھا۔ میں دریا کے کنارے اس جگہ پہنچا جہاں دریا مڑ کر کیکر کے درختوں میں گم ہو جا تا تھا۔ اور پھر… مجھے معلوم نہیں کیوں؟…میں نے اپنے گلے میں انگلیاں ڈال کر ان کھجورں کو قے کرنے لگا جنھیں میں نے کھایا تھا۔
Original Story : A Handful Of Dates
By : Tayeb Salih (Sudan)