وہ اس مقام پر دوسری بار آئی تھی۔ گھوڑے پر سوارپولیس والے نے نیچے اس پر نگاہ ڈالی۔ سہ پہر کا وقت تھا۔ زرد رنگ کی چہار دیواری گلی کے کنارے دور تک پھیلی تھی۔ چہار دیواری کے اندر ایک بہت بڑی مستطیل ، سہ منزلہ عمارت تھی جس کی ایک جیسی چھوٹی چھوٹی کھڑکیاں تاریک سوراخوں کی طرح لگ رہی تھیں۔ عورت گھوڑے سے چند قدم دور کھڑی تھی۔ پولیس والے نے اپنے پیچھے کھڑکیوں کی طرف دیکھا پھر عورت پر نظر ڈالی۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھ گھوڑے کی زین کے اگلے حصے پر ٹکا کر اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ تھوڑی دیر بعد گھوڑے نے حرکت کی ، وہ گلی سے تھوڑا نیچے اتر آیا تھا۔ ایک لمحے بعد گھوڑا گھوما اور واپس اپنی جگہ پر آگیا۔
عورت دو قدم آگے بڑھی۔ گھوڑے نے اپنی ایک اگلی ٹانگ موڑی اور پھر سیدھی کر لی۔
’’سارجنٹ …پلیز… مجھے اس سے بس دو باتیں کرنے دیجیے۔ ‘‘
سارجنٹ کی آنکھیں اب تک بند تھیں اور اس کے ہاتھ گھوڑے کی زین کے اگلے حصے پر ٹکے ہوئے تھے۔
دیوار کے اوپر کانٹے دار تاروں کی باڑھ لگی تھی۔ دیوار کے آخر ی سرے پر لکڑی کا ایک واچ ٹاور تھاجس پر ایک مسلح سپاہی کھڑا تھا۔
عورت نے دوسرا قدم آگے بڑھایا۔
’’دیکھیے… اسے یہاں سے کہیں اورمنتقل کیا جا رہا ہے…۔ ‘‘
سورج نصف النہار سے گزر کر ایک طرف جھک چکا تھا، اس کے باوجود گرمی بہت تھی۔ چہار دیواری کی بنیاد کے قریب سایے کی ایک پتلی سی پٹی دکھائی دے رہی تھی۔
عورت نے اپنے بچے کو کاندھے پر ڈال لیا۔
جب اس نے دوبارہ پولیس والے کے چہرے کی طرف دیکھا تو اسے اس کی پیشانی پر پسینے کے قطرے دکھائی دیے۔
خاموشی کے ساتھ وہ گھوڑے کے سامنے سے ہٹ کر دیوار کے قریب چلی گئی اوردیوار سے تھوڑی دوری پر، جیل کی سہ منزلہ عمارت کے سامنے موجود پتھروں کے ایک ڈھیر پر بیٹھ گئی۔
کھڑکیوں کی سلاخوں سے قیدیوں کے کپڑے آستینوں اور پائنچوں کی مدد سے لٹکے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔ ہلکی ہلکی ہوا چلنے کے باوجود ان میں کوئی حرکت دکھائی نہیں دے رہی تھی۔
عورت زیرلب بڑبڑائی ’’شاید یہ بہت بھیگے ہیں۔ ‘‘
اس نے بچے کو گود میں لے لیا۔ ایک لمحے کو اس کی نگاہیں ایک جلابہ پر ٹک گئیں جو ہوا میں بہت آہستگی کے ساتھ ہل رہا تھا۔ اس نے اپنی ٹانگیں پھیلا لیں اور پیروںپرچپکی مٹی کو گھورنے لگی۔ اس نے دونوں پیروں کو آپس میں رگڑکر مٹی چھڑانے کی کوشش کی اور پھر سے انھیں دیکھا۔
سر کو پیچھے کر کے اس نے نیم وا آنکھوں سے تیسری منزل کی کھڑکیوں کو دیکھا۔
واچ ٹاور میں موجود سپاہی نے ایک قدم آگے بڑھ کراپنے سر کو لکڑی کی دیوارکے کنارے سے ٹکا لیا۔ اس نے آسمان کی طرف دیکھا، مکانوں کی چھتوں اور گلی پر نظر دوڑائی اور آخر ، اس کی نگاہیں گھوڑے کے سفید سر پر رک گئیں۔
اچانک سناٹے میں ایک چیخ گونجی۔ عورت نے تیزی سے اپنے پیر سمیٹ لیے۔ اس کی نگاہوں نے تیسری منزل کی ایک کھڑکی کی سلاخوں کے درمیان سے باہر نکلے ایک ننگے بازو کو دیکھ لیا تھا۔
’’عزیزہ! عزیزہ! میں عاشور ہوں …۔ ‘‘
وہ دیوار کی طرف ایک قدم آگے بڑھ گئی اور خاموشی سے کھڑکی کی طرف دیکھنے لگی۔
’’ میں عاشور ہوں عزیزہ…عاشور…۔ ‘‘
اس نے اس کے دوسرے بازو کو بھی کھڑکی سے باہر آتے دیکھا۔ اس کی نگاہوں نے دونوں بازوئوں کے درمیان کچھ تلاش کرنے کی کوشش کی اور بالآخر دو سلاخوں کے درمیان چپکا ہوا اس کا چہرہ اسے نظر آ گیا۔ اس کے ارد گرد اور پیچھے کچھ دوسرے چہرے بھی نظر آئے۔
’’عزیزہ…مجھے یہاں سے منتقل کیا جا رہا ہے… کیا تمھیں میرا خط ملا تھا؟…چار دن بعد میں یہاں سے چلا جائوں گا…کیا تم نے کھجور کے دونوں درختوں کے پھل جھاڑ لیے؟… حامد اور ثانیہ کہاں ہیں؟… انھیں ساتھ کیوں نہیں لائیں؟… میں یہاں سے منتقل ہو رہا ہوں… حامد کہاں ہے؟‘‘
اچانک وہ پیچھے مڑ کر چیخا ،’’ خاموش رہو کمینو۔ ‘‘
اس نے اسے چیختے ہوئے سنا اور پھر دوسرے چہروں کو کھڑکی سے غائب ہوتے دیکھا۔ ایک لمحے بعد اس کا چہرہ دوبارہ کھڑکی کی سلاخوں کے پیچھے دکھائی دیا اور پھر دوسرے چہرے بھی اس کے چہرے کے اوپر نظر آئے۔
’’عزیزہ!‘‘
عورت نے گھوڑے پربیٹھے پولیس والے کی طرف دیکھا اور پھر دوسری نگاہ واچ ٹاور میں موجود سپاہی پر ڈالی۔
’’عزیزہ…تمھاری گود میں کون ہے؟…شاکر؟‘‘
اس نے اپنا سر دو بار ہلا یا۔
’’اسے اٹھائو… اسے اوپر اٹھائو…۔ ‘‘
عورت نے بچے کو اپنے ہاتھوں میں لے کر اپنے سر کے اوپر اٹھالیا۔
اس نے دیکھا کہ اس کے بازو اچانک کھڑکی کے اندر چلے گئے اور اس کے ہاتھوں نے کھڑکی کی سلاخوں کو پکڑ لیا۔ پھر اس کا چہرہ وہاں سے غائب ہو گیا۔ ایک لمحے کے لیے اس نے وہاں موجود دوسرے چہروں میں اس کا چہرہ تلاش کر نے کی کوشش کی۔ اس نے اپنے ہاتھ ذرا نیچے کر لیے۔ اسے کھڑکی سے قہقہوں کی آوازیں سنائی دیں۔ اس نے اس کے بازوئوں کو ایک بار پھر کھڑکی سے نکلتے دیکھااور اس کا چہرہ کھڑکی کے درمیان نظر آیا۔
’’اوپر عزیزہ … اور اوپر… اس کا چہرہ سورج کی طرف کرو تاکہ میں اسے دیکھ سکوں۔ ‘‘ اس نے ایک لمحے کو اپنے بازوئوں کو نیچے کیا اور پھر انھیں اوپر اٹھا دیا … اس نے بچے کا چہرہ سورج کی طرف کر دیا۔ بچے نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور زور زور سے رونے لگا۔
’’یہ رو رہا ہے۔ ‘‘
وہ ہنستے ہوئے پیچھے کی طرف مڑا۔
’’بچہ رو رہا ہے…عزیزہ…اسے رونے دو…میں اس کی آواز سننا چاہتا ہوں…۔ ‘‘
اس نے اپنی ہتھیلیوں کو اپنے منہ کے گرد پھیلا کر چیخ کر کہا، ’’اسے رونے دو…۔ ‘‘
وہ قہقہہ لگا رہا تھا۔ اس کے ارد گرد کچھ اور چیخیں بھی سنائی دیں۔ اس کی بڑی سی ناک سلاخوں کے درمیان سے جھانک رہی تھی۔
’’بیوقوف عورت… اتنا کافی ہے… بچے کو چھپائو… اسے لُو لگ جائے گی…۔ ‘‘ اسے کسی کی چیخ سنائی دی۔
اس نے بچے کوفوراً اپنے سینے سے لگا لیا۔ اس کی نگاہ سپاہی پر پڑی جو ٹاور کے اندر جا رہا تھا۔
’’تم نے دونوں کھجوروں کے پھل جھاڑ لیے؟‘‘
عورت نے نفی میںسر ہلایا۔
’’کیوں؟… تم کچھ بول کیوں نہیںرہی ہو؟…میں یہاں سے منتقل ہو رہا ہوں… ابو اسمٰعیل کے پاس جاکر اسے میرا سلام کہنا…وہ درختوں کے پھل جھاڑنے میں تمھاری مدد کرے گا… پھر تم تھوڑی کھجوریں لے آنا… کیا تم سگریٹ لائی ہو؟ ‘‘
اس نے اپنے ہاتھ سے ایک اشارہ کیا۔
’’ منھ سے بولو نا ۔۔۔۔۔۔۔۔ تم کیا کہہ رہی ہو؟‘‘
’’وہ تمھیں مل جائیں گے۔ ‘‘
’’زور سے بولو۔ ‘‘
’’وہ تمھیں مل جائیں گے… میں بھیج چکی ہوں۔ ‘‘
’’کب؟‘‘
’’ابھی ابھی۔ ‘‘
’’ابھی ابھی؟… اچھا رکو… میں دیکھتا ہوں۔ ‘‘
وہ اچانک وہاں سے غائب ہو گیا۔ کھڑکی میں دو چہرے اب بھی دکھائی دے رہے تھے۔ ان میں سے ایک نے اپنا ایک بازو کھڑکی سے باہر نکالا اور ایک فحش سا اشارہ کیا۔ عورت نے اپنی نظریں جھکا لیں اور واپس پتھروں کے ڈھیر پر جا بیٹھی۔
’’عزیزہ! ‘‘
حالاں کہ یہ آواز اس کے لیے نئی تھی، پھر بھی اس نے اوپر، کھڑکی کی طرف دیکھا۔ اس نے دیکھا کہ ایک آدمی وہاں مسکرا رہا ہے اور اس کا بازو اب بھی وہی فحش حرکت کر رہا ہے۔ ایک اور شخص گھٹنوں کے بل جھکا ہوا تھا ،اس نے اپنا جلابہ اپنی رانوں کے اوپر اٹھا رکھا تھا اور چلا رہا تھا: ’’عزیزہ… یہ دیکھو۔ ‘‘
وہ مسکرائی۔ پولیس والا گھوڑے پر ویسے ہی بیٹھا ہوا تھا جیسے سو گیا ہو۔ ٹاور کی بغلی کھڑکی سے اسے سپاہی کے سر کا ایک حصہ دکھائی دے رہا تھا۔ اس نے اپنا ہلمیٹ اتار دیا تھا۔
اس نے کئی آوازیں سنیں جو اسے پکار رہی تھیں۔ اس کے کان آوازوں پر لگے ہوئے تھے لیکن نظریںٹاور میں موجود سپاہی کے سر پر جمی تھیں۔ اسے پکارنے کی آوازیں بار بار سنائی دے رہی تھیں۔ ان آوازوں میں چند گالیاں اور فحش الفاظ بھی شامل تھے۔ سپاہی نے ہلمٹ پھر سے پہن لیا تھا لیکن وہ اب بھی ٹاور کے اندر ہی بیٹھا تھا۔
اچانک آوازیں بند ہوگئیں اور سناٹا چھا گیا۔ پھرایک لمحے بعد اس کے شوہر کی ہانپتی ہوئی آواز سنائی دی۔
’’عزیزہ… میں نے پانچ کہا تھا نا… میں نے تم سے پانچ پیکٹ سگریٹیں بھیجنے کے لیے نہیں کہا تھا؟‘‘
وہ اسے خاموشی سے تک رہی تھی۔
’’تین پیکٹ سگریٹوں سے کیا ہوگا؟ ‘‘
اس نے ہاتھوں سے کوئی اشارہ کیا۔
’’تم کیا کہہ رہی ہو؟‘‘
’’پانچ… میں نے پانچ ہی بھیجے تھے۔ ‘‘
’’پانچ؟ ‘‘ وہ غصے سے چیخا ’’سالے کمینے…۔ ‘‘
وہ اچانک غائب ہو گیا… پھر دوبارہ کھڑکی میں جھکتے ہوئے بولا ’’ابھی جانا نہیں… میرا انتظار کرنا۔ ‘‘
عورت نے اپنی نگاہیں ٹاور کی کھڑکی کی طرف گھمائیں۔
اس کا شوہر تھوڑی ہی دیر بعد واپس آگیا اور بولا ’’ٹھیک ہے عزیزہ… کوئی بات نہیں…پانچ ہی تھے… دو انھوں نے لے لیے… خیر کوئی بات نہیں…سنو …ہاںمیں کیا کہنے جا رہا تھا؟…۔ ‘‘
اس نے اسے خاموشی سے کھڑکی سے باہر تکتے ہوئے دیکھا۔ اس نے اپنا سیاہ جیلابہ ہلا یا اوراور دیوار کی طرف بڑھی۔ وہ مسکرایا۔
’’عزیزہ… میں سوچ رہا ہوںکہ تم سے کیا کہوں۔ ‘‘
ایک بار پھر وہ خاموش ہو گیا۔ عورت نے اپنا چہرہ دوسری طرف کر لیا جس سے اس کے چہرے کا ایک حصہ سورج کی مخالف سمت میں ہو گیا۔ اس نے اپنا دوپٹہ ٹھیک کیا۔
’’ان لوگوں نے دو پیکٹ لے لیے… خیر عزیزہ… فکر نہ کرو۔ ‘‘
وہ ہنسا۔ اس کی آواز میں ٹہرائو تھا۔ اس کے اگل بغل کے دوسرے چہرے غائب ہو گئے تھے صرف ایک چہرہ اس کے پاس موجود تھا۔
’’تم نے دیواربنوادی؟‘‘
’’ابھی نہیں۔ ‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’جب احمد چچا کی بھٹی میں اینٹیں تیار ہوں گی تو میں ان سے کچھ اینٹیں لے لوں گی۔ ‘‘
’’ٹھیک ہے… ٹرام میں ہوشیار رہنا… بچے کی حفاظت کرنا۔ ‘‘
وہ کھڑی رہی۔
’’تمھیں کچھ چاہیے؟‘‘
’’نہیں۔ ‘‘
اس نے اپنے شوہر کے چہرے پر نگاہ ڈالی، اس کی بڑی ناک، اور ننگے بازوئوں کو دیکھا، وہ مسکرائی۔ اس کے پاس موجود دوسراچہرہ بھی مسکرایا۔
’’کیا تمھیں خط ملا تھا ؟… میں دوسری جگہ منتقل کیا جا رہا ہوں۔ ‘‘
’’کہاں؟‘‘
مجھے نہیں معلوم۔ ‘‘
’’کب؟‘‘
’’اصل میں اس جیل کو بند کیا جا رہا ہے۔ ‘‘
’’تم کہاں جائو گے؟‘‘
’’اللہ جانے… کہیں بھی ہو سکتا ہے… کسی کو کچھ نہیںمعلوم۔ ‘‘
’’کب؟‘‘
’’دو یا تین دنوں میں…یہاں اب مت آنا… جب میرا ٹرانسفر ہو جائے گا تو میں تمھیں اطلاع دوں گا…کیا بچہ سو گیا ہے؟‘‘
’’نہیں جاگا ہوا ہے۔ ‘‘
وہ ایک لمحے خاموشی سے اسے تکتا رہا پھر بولا۔
’’عزیزہ۔‘‘
ایک بار پھر خاموشی چھا گئی۔ اس کے پاس موجود دوسرا چہرہ مسکرایا پھر دھیرے سے پیچھے ہٹا اور غائب ہو گیا۔ اس کا شوہر خاموش تھا۔ اس کے بازو کھڑکی کی سلاخوں کے گرد لپٹے ہوئے تھے۔
اچانک اس نے اپنے پیچھے دیکھا اور اپنے ہاتھوں کو اندر کر لیا۔ اس نے بیوی کو چلے جانے کا اشارہ کیا اور کھڑکی سے غائب ہو گیا۔
وہ چند قدم پیچھے ہٹی لیکن اس کی نظریں کھڑکی پر ہی ٹکی تھیں۔
تھوڑی دیر کے بعد وہ پتھروں کے ڈھیر پر بیٹھ گئی۔ اس نے اپنی ٹانگیں سیدھی کر لیں اور اپنی جلابہ سمیٹ کر اپنے بچے کو دودھ پلانے لگی۔
دیوار کا سایہ اب گلی میں آدھی دور تک آگیا تھا اور اس کے قدموں کو چھو رہا تھا۔ اس نے اپنے پیروں کو تھوڑا سمیٹ لیا۔ ہر طرف خاموشی تھی اور لٹکے ہوئے کپڑے اب ہوا میں ہلکے ہلکے ہل رہے تھے۔
اس نے اپنے پیروں کی طرف دیکھا۔ سایہ اب اس کے انگوٹھے تک آگیا تھا۔ وہ کھڑی ہو گئی۔
سپاہی اب بھی ٹاور کے اندر تھا، اس کے جوتے کی نوک لکڑی کے پلیٹ فارم سے نکلی ہوئی دکھائی دے رہی تھی۔ گھوڑے کے قریب پہنچنے سے قبل اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ کھڑکی خالی تھی۔
اس نے خاموش نگاہوں سے پولیس والے کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھیں بند تھیں۔ اس کے ہاتھ گھوڑے کی زین کے اگلے حصے پر جمے ہوئے تھے۔ گھوڑا، اپنی جگہ ساکت و جامد تھا۔
وہ پتلی گلی میں چلتی ہوئی بڑی سڑک کی طرف بڑھ گئی۔
Original Story : A Conversation From The Third Floor
By : Mohamed El-Bisatie (Egypt)