لڑکا زمین پر اکڑوں بیٹھا ایک چھوٹی سی کھلونا کار پر جھکا ہوا تھا۔ کار کی باڈی کارڈ بورڈ کے مستطیل ٹکروں سے بنی تھی جوبے شمار مڑے تڑے تاروں کے درمیان پھنسایے گئے تھے۔ اس کے پہیے جوتے پالش کے خالی ڈبوں سے بنے تھے۔ اسٹیرنگ راڈ کے طور پرسرکنڈے کا ایک لمبا ٹکڑا استعمال کیا گیاتھاجس کے آخر میں بے بی پائوڈر کے خالی ڈبے کا ڈھکن لگا ہوا تھا۔
لڑکے کا انہماک اس کے چہرے سے ظاہر تھا۔ منھ سختی سے بند تھا،ناک سکڑی ہوئی تھی، پیشانی پر بل پڑے تھے اورآنکھیںمِچی ہوئی تھیں۔ اس کے ہاتھ بے قراری سے ایک تار کو ٹھیک کرنے میں لگے ہوئے تھے ،جو ڈھیلا پڑ گیا تھا۔ چند لمحوں میں آخر ،وہ اسے پھر سے ٹھیک کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ ایک اطمینان بھری ہنکار کے ساتھ اس نے کار کے پہیوں کوتیزی سے گھمایااور اس کے ہونٹوں سے ایک گیت پھوٹ پڑا :
ازنگوُ زیروُ
کوپنگا دیگے
سی کانتھوُ کینا
کوما دی کھاما
اسکی باریک اور تیز آواز فضا میں تیرتی چلی گئی اور سول سروس کوارٹرز کئی منٹوں تک اس سے گونجتے رہے۔ گیت کے اس سلسلے کواس کوڑے گاڑی سے نکلنے والی چرچراہٹ، گڑگڑاہٹ اور جھنجھناہٹ کی ملی جلی آوازوں نے توڑا،جو مکانات کے آخری سلسلے سے بیس گز کی دوری پر واقع دھول بھری سڑک سے گزر رہی تھی۔ اس کا گیت جیسے فضا میں لڑکھڑایااور کمزور ہو کر گرپڑا۔ جیسے جیسے کوڑا گاڑی قریب آتی جارہی تھی چرچراہٹ، گڑگڑاہٹ اور جھنجھناہٹ کی ملی جلی آوازیں تیز تر ہوتی جا رہی تھیں۔
یہ مزامبیزی تھا۔ اس کے پیٹھ پیچھے سب اسے اسی نام سے پکارتے تھے …مزامبیزی… ہوائی اڈے کا صفائی والا… اپنی کوڑا گاڑی لے کر آ رہا تھا۔
لڑکے نے اپنی کار کو دو ٹوٹی اینٹوں کے درمیان کھڑی کرنے کا کام ترک کر دیا۔ اس کا دل دھک سے ہو گیا جب اسے یاد آیا آج جمعہ کا دن تھا اورآج وہ لندن سے آنے والے بڑے جہاز کو اترتے ہوئے دیکھنا بھول گیا تھا۔ عام طور سے وہ جہاز’چار انجنوں والے ‘ کے نام سے مشہور تھا۔ مزامبیزی اسی جہاز کا کچرا لا رہا تھا، اور اس کا مطلب تھا کہ جہاز اب سے گھنٹوں پہلے اتر چکا تھا۔ اس نے خود کو ملامت کی کہ وہ اپنی بالکونی میں کھڑے ہوکر ،دور دیس سے آنے والے، بیش قیمت کپڑوں میں ملبوس مسافروں کو، تھیلے، کیمرے اور ڈھیروں سمجھ میں نہ آنے والی اشیا ء کے ساتھ جہاز سے اترتے ہوئے نہیں دیکھ سکاتھا۔ اب اتنی دیر ہو چکی تھی کہ ہوائی اڈے پر جانا بھی بیکار تھا۔ تمام مسافراب تک اپنی اپنی منزلوں کی طرف روانہ ہو چکے ہوں گے۔ بلکہ اب تک تو اس جہاز سے روانہ ہونے والے مسافر بھی اس میں سوار ہو چکے ہوں گے۔
تبھی ٹیک آف کے لیے تیارجہاز کی لمحہ بہ لمحہ تیز تر ہوتی ہوئی گڑگراہٹ کی آوازنے اس کے اس خیال کی تصدیق کردی۔ لڑکے نے اپنی نگاہیں اس سمت مرکوز کردیں جدھر سے جہاز کو آسمان پر ابھرناتھا۔ چندہی لمحے بعد جہاز کی کانوں کو پھاڑدینے والی آواز سے اس کے گھر کی ٹین کی چھت اس بری طرح لرزنے لگی جیسے ابھی ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گی۔ کسی بین الاقوامی ہوائی اڈے کے بالکل قریب رہنے کا یہ سب سے بڑا نقصان تھا۔ ہر تھوڑی تھوڑی دیر بعد اترنے اور اڑنے والے جہازوں کے شور سے پیدا ہونے والے ننھے زلزلوں سے اسٹاف کوارٹر لرز اٹھتے تھے،لیکن وہ اسے کوئی اہمیت نہیں دیتا تھا۔ یہ تیز شور سن کر اس کا دل انسانی عقل و شعور کے لیے استعجاب و احترام کے جذبات سے لبریز ہو اٹھتا تھا،جس نے اتنی بڑی چیز کو آسمان پر اڑنے کی صلاحیت بخشی تھی۔
چند لمحے بعداس کی نگاہیںبادلوں سے آنکھ مچولی کھیلتی، دھیرے دھیرے مدغم ہوتی ہوئی دھوئیں کی نقرئی لکیروں کا پیچھا کر رہی تھیں جو جلد ہی نظروں سے اوجھل ہو گئیں۔ وہ سوچنے لگاکہ آج اس جہاز میں پتا نہیںکون لوگ سوار ہوں گے اور کہاںکہاں جا رہے ہوں گے۔ اس کے باپ نے ایک بار اسے بتایا تھا کہ یہ جہاز انگلینڈ جانے سے قبل جوہانس برگ اور سیلس بری میں رکتا ہے۔ جب وہ پڑھنا سیکھ جائے گاتو ان مقامات کے بارے میں اس کتاب میں پڑھے گا جس کے بارے میں اس کے باپ نے بتایا تھا کہ اس میں دنیا کے تمام مشہور مقامات کے بارے میں درج ہے…بہر حال ، یہ نہایت افسوس کی بات تھی کہ آج وہ بالکونی میں نہیں جا سکا تھا۔
کوڑے گاڑی کی کرخت آواز اب بالکل قریب آچکی تھی۔ اس کی آواز کسی پرانی خستہ حال موٹر سائیکل کی آواز سے ملتی تھی جسے زبردستی اسٹارٹ کرنے کی کوشش کی جارہی ہو۔ لڑکااپنی کار دو اینٹوں کے درمیان کھڑی کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ وہ اس راستے کی طرف بڑھ گیا جدھر سے مزامبیزی کو آنا تھا۔ کوڑے کا ڈھیر اس کے گھر سے صرف سو گز کے فاصلے پرواقع تھا۔
’’مارننگ جوائے! ‘‘مزامبیزی نے لڑکے کو پکارا۔
’’مارننگ‘‘جوائے رک کر اس کے قریب آنے کا انتظار کرنے لگا۔
’’آج تم اسکول نہیں گئے؟‘‘
’’ میری ایک ماہ کی چھٹی ہے۔ ‘‘
’’ بہت خوب۔ ‘‘
’’ کیا لے کر جا رہے ہو؟‘‘
’’ مجھے معلوم نہیں۔ ‘‘مزامبیزی بولا، ’’ممکن ہے الٹیوں میں ڈوبے ہوئے پنیر کے چند ٹکڑے…۔ ‘‘
جوائے نے الٹیوں کا ذکر سن کر اپنی ناک سکوڑی۔ اس نے سناتھا کہ جہاز کے مسافر کبھی کبھی پلاسٹک کے تھیلوں میں قے کرتے ہیں، جو انھیں اسی مقصد سے دیے جاتے ہیں۔ جوائے کو حیرت ہوتی تھی کہ آخر ان لوگوں کو جہاز میںاڑتے ہوئے قے کرنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے ؟اس نے اپنے باپ کو شراب پی کر گھر میں قے کرتے دیکھا تھا اور وہ منظر اسے بہت گھنائونا معلوم ہواتھا۔
جوائے نے مزامبیزی سے اپنی دوری بر قرار رکھی تھی جو اس کے آگے اپنی اس کھٹارہ گاڑی کو دھکیلتا ہوا چلا جا رہا تھا۔ اس کی کوڑا گاڑی اس کے وجودکا ہی ایک حصہ معلوم ہوتی تھی۔ جوائے مزامبیزی کا، اس کی کوڑا گاڑی کے بغیر،یا کوڑا گاڑی کا ،مزامبیزی کے بغیر، تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ در اصل ایر پورٹ ڈسٹرکٹ میں اپنے والدین کے ساتھ پہلا قدم رکھتے ہی جوائے نے جو پہلا دلچسپ منظر دیکھا تھا اس میں مزامبیزی اور اس کی کوڑا گاڑی دونوں شامل تھے اور اس کے بعدسے اس نے ہمیشہ دونوں کو ساتھ ہی دیکھا تھا۔
شاید وہ کوڑا گاڑی کبھی ایر پورٹ کے دمکتے جہازوں کی طرح ہی دھات کے چمکدار ٹکڑوں سے بنی ہوگی،لیکن یہ بہت پرانی بات تھی۔ اب تو وہ بری طرح زنگ آلود ہو چکی تھی جس پر پنیر اور دوسری سڑی گلی چیزوں کے لاتعداد دھبے موجود تھے۔ اس کا رنگ بگڑ کراب دھات کے اس ٹکڑے جیسا ہو گیا تھا جو برسوںنم زمین میں دفن رہا ہو۔ اس کے پہیے ایک گھسے ہوئے دھرے کے گرد گھومتے تھے۔ یہی وہ مقام تھا جہاں سے چرچراہٹ، گڑگڑاہٹ اور جھنجھناہٹ کی آوازوں کا پریشان کن شور پیدا ہوتاتھا۔ شاید ان آوازوں کو کم کرنے کے لیے گریزکا استعمال کیا گیا تھا لیکن اس کو بھی ایک مدت گزر چکی تھی۔ اب تو صرف گریز کے خشک سیاہ دھبے ہی بطور ثبوت باقی رہ گئے تھے۔
ان دونوں کی جوڑی خوب تھی…وہ دونوں… ایک انسان اور ایک مشین…گزرتے موسموں کے بے شمار نشانات دونوں ہی کے وجود پر ثبت تھے۔ بوڑھے مزامبیزی کے بوسیدہ کپڑے اب اس قابل ہو چکے تھے کہ انھیں اس کے جسم پر نہیں بلکہ کوڑے کے ڈھیر پر ہونے چاہیے تھے۔ اس کی خاکی ہاف پینٹ جو اس کے پھٹے ہوئے اوور آل کے نیچے صاف دکھائی دے رہی تھی، مختلف رنگ کے کپڑوں کے پیوند لگنے کی وجہ سے رنگ برنگی ہوگئی تھی۔ ایک ویسی ہی بوسیدہ سی فوجی ہیٹ اس کے سر پر جمی ہوئی تھی جو اسے چلچلاتی دھوپ سے ایک حد تک راحت دیتی تھی۔ ہیٹ کے چھجے کاایک بڑا حصہ پھٹ کر غائب ہو گیا تھا اور اس طرح اب وہ ہیٹ کی بجائے کیپ زیادہ معلوم ہو رہا تھا۔ ہیٹ کے نیچے اس کے سیاہ بال سفید بالوں کے ساتھ مل کر کالک ملے ہوئے چونے کا تصور پیش کر رہے تھے۔
مختلف قسم کی بدبوئوں نے ان دونوں کو یہ بتا دیا کہ وہ کوڑے کے ڈھیر کے قریب آچکے ہیں۔ کوڑے کے ڈھیر سے بدبوئوں کی لہریں اٹھ رہی تھیںجومزامبیزی اور جوائے کو اپنے گھیرے میں لیتی ہوئی آگے بڑھ کر قریبی کوارٹروں تک پہنچ رہی تھیں۔
جوائے کو اس پہلے دن کی ابکائیاں یاد آئیں جب وہ مزامبیزی کے پیچھے یہاں تک آیا تھا۔ دراصل وہ اپنے تجسس کے ہاتھوں مجبور تھا۔ اسے حیرت ہوتی تھی کہ کوڑا پھینکنے کے عمل میں مزامبیزی آخر اتنی دیر کیوں لگاتا تھا؟آخر وہ اتنی دیر تک وہاں کیا کرتا تھا؟جیسے جیسے وہ اس گڑھے کے قریب پہنچ رہا تھا بدبو تیز ہوتی جارہی تھی۔ اس نے دیکھا کہ بوڑھا گڑھے کے قریب بیٹھا اس میں جھانک رہا ہے۔ بدبو کا ایک زبردست جھونکا جوائے کے نتھنوں سے ٹکرایا اور اسے ایسا محسوس ہوا جیسے وہ کسی سڑے ہوئے رقیق میں تیر رہا ہو۔ بدبو نے جیسے اس کا گلا دبوچ لیا تھا اور پھر اس کے معدے میں داخل ہو گئی تھی۔ اسے ابکائی آگئی۔ اسی دوران اس نے کسی ابھری ہوئی شے سے ٹھوکر کھائی اور لڑکھڑا کر کسی نرم اورلسدار شے پر گر پڑا۔ ابکائیاں بڑھتی جارہی تھیں جس کا خاتمہ ایک تکلیف دہ قے پر ہوا۔ اس نے اپنے کندھے پر ایک ہاتھ محسوس کیا اور اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی کوششیں کرنے لگا۔
’’کیا تم ٹھیک ہو؟‘‘ بوڑھے کی کرخت آواز اسے کہیں دور سے آتی ہوئی سی محسوس ہو رہی تھی۔
’’مجھے مت چھوئو۔ ‘‘وہ پیچھے ہٹتے ہوئے چیخا۔
’’میں نے پوچھا کیا تم ٹھیک ہو؟‘‘
’’میرے قریب مت آئو۔ ‘‘ وہ نفرت سے چیخا، ’’ …گندے ، بوڑھے، مزامبیزی۔‘‘
بوڑھا دھیرے دھیرے سیدھا ہوا۔ جوائے بھی اپنی دوسری کوشش میں اٹھ کر کھڑا ہوا ،اور میدان کی طرف دوڑ پڑا جو کوڑے کے ڈھیر اور مکانات کے درمیان واقع تھا۔ کافی دور پہنچ جانے کے بعد اس نے پلٹ کر دیکھا…بوڑھا دوبارہ اپنی پہلی حالت میں جابیٹھا تھا۔ جوبھی ہو…بہر حال اس کے جذبہ تجسس کی تسکین ہو گئی تھی۔ وہ بوڑھا مزامبیزی کچرے کے ڈھیر کو کریدکر اس میں سے کھانے کی بچی کھچی چیزیں نکال کر ایک کاغذ پر جمع کرتا ہے، اور کھا لیتا ہے۔
سب کچھ بھول کرجوائے اب ٹوکیو ایر پورٹ کے ٹاور پر موجود آپریٹر سے لینڈنگ کی اجازت مانگ رہا تھا، جیسا کہ اس کے باپ نے اسے سکھایا تھا : ’’لینڈنگ کی اجازت چاہیے… لینڈنگ کی اجازت چاہیے…‘‘وہ کسی لینڈنگ کے منتظر جہاز کی طرح گول گول گھوم کر یہی الفاط دہرائے جا رہا تھا۔ ’’ لینڈنگ کی اجازت چاہیے… کیا تم میری آواز سن رہے ہو؟ … اوور۔ ‘‘
’’ دیکھو جوائے ! ‘‘ ایک آواز نے اس کے کھیل میں دخل اندازی کی ’’میں تمھارے لیے ایک سچ مچ کا جہاز لایا ہوں۔ ‘‘
یہ مزامبیزی تھا۔ وہ بڑی خاموشی کے ساتھ کوڑے کے گڑھے سے اٹھ کر آیا تھا ،اس کی کوڑا گاڑی بھی اس کے ساتھ نہیں تھی۔ ’’ ایئر روڈیشیا‘‘ کے جہاز کا ایک چھوٹا سا ماڈل اس کے ہاتھ میں تھا۔ جوائے نے خوفزدہ نگاہوں سے اس کی جانب دیکھا۔ مزامبیزی کی بھوری آنکھوں میں معذرت تھی۔ جوائے ایک قدم پیچھے ہٹا، اس نے پلٹ کر اپنے گھر کی جانب دیکھا، جہاز کو پکڑا اور جتنی تیز اس کے لیے ممکن ہو سکتا تھا دوڑ پڑا۔ باورچی خانے کے پیچھے پہنچ کر وہ جہاز کو اپنے سینے سے لگائے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر جھک گیا اور کئی منٹوں تک بری طرح ہانپتا رہا۔ اس کی آنکھوں میں آنسو جھلملا رہے تھے۔ اس نے میدان کی طرف دیکھا۔ بوڑھا جا چکا تھا۔ جوائے نے اس کی کوڑا گاڑی کی آواز بھی نہیں سنی تھی۔ وہ کھڑ اہو گیا اور باورچی خانے کے مختلف حصوں میں نگاہیں دوڑائیں،پھر اس نے جہاز کو اپنی شرٹ کے اندر گھسا لیاجس سے اس کی شرٹ کئی جگہ سے کافی ابھر آئی۔ اس نے زیادہ ابھرے ہوئے مقامات پر اپنے ہاتھ رکھ لیے اور دھڑکتے دل کے ساتھ ، کاندھے اچکاتا ہوا گھر کی طرف بڑھ گیا۔ چلتے ہوئے وہ گا رہا تھا:
ازنگوُ زیروُ
کوپنگا دیگے
سی کانتھوُ کینا
کوما دی کھاما
خوش قسمتی سے اس کی ماں اس وقت بیڈ روم کی صفائی میں مصروف تھی۔ جوائے دوڑ کر اس کمرے میں داخل ہو گیا جس میںوہ سویا کرتا تھا۔ اس کا اسکول بیگ کھلا ہوا تھا اور چند کتابیں اور کاپیاں باہر نکلی ہوئی تھیں۔ اس نے جلدی سے اپنا ’ ائیر روڈیشیا ‘ اس میں چھپا دیا۔ اس کے بیگ میں کتابوں کے علاوہ غیر ملکی سکوں کا ایک ننھا سا ذخیرہ، ٹورسٹ گائڈس،سگریٹ کے خالی پیکٹ وغیرہ جیسی بہت سی چیزیں بھری ہوئی تھیں جو اس نے ائیر پورٹ سے اکٹھی کی تھیں۔ ہر بار جب وہ ائیر پورٹ کی بالکنی میں جاتا کوئی نہ کوئی نئی چیز اپنے اس پوشیدہ خزانے کے لیے ضرورلاتا۔ چھٹی کے دنوں میں ان چیزوں کو چھپانا، بے حد آسان تھا۔ کسی کو بھی اس کے بیگ کی تلاشی لینے کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔
جوائے نے اپنی چٹائی بچھائی اور لیٹ گیا۔ دوسرے کمرے سے چیزوں کو صاف کرنے کی آوازیں آرہی تھیں۔ اس کا ہاتھ بیگ میں رینگ گیا اور جہاز کے ساتھ باہر آیا۔ اس نے باریکی سے جہاز کا مشاہدہ کیا۔ اس کی دم ٹوٹی ہوئی تھی لیکن اگر اسے دم کی طرف، ٹوٹی ہوئی جگہ سے پکڑ لیا جائے تو پھر اس کا عیب چھپ جاتا ہے اور ہو بہواصل ہوائی جہاز جیسالگتا ہے۔
’’ جوائے ! کیا تم موجود ہو؟ـ‘‘
’’ ہاں ماں۔ ‘‘ جوائے نے جواب دیا اور جہاز کو جلدی سے بیگ میں چھپا کر بیگ کو دیوار کی جانب دھکیل دیا۔ تبھی دروازہ کھلا، وہ چٹائی پر پڑا گہری گہری سانسیں لے رہا تھا۔
’’ تم یہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘ اس کی ماں کے لحیم شہیم جسم نے دروازے کے فریم کو پوری طرح بھر دیا تھا۔
’’ مم…میرے سر میں درد ہے …ماں۔ ‘‘
’’ تم نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا۔ ‘‘
’’تم مصروف تھیں ماں۔ ‘‘
’’اتنی مصروف تو نہیں تھی کہ تم اپنی بیماری کا ذکر نہ کرتے۔ ‘‘
’’ میں …میں…۔ ‘‘
’’جوائے ! یہاں آئو۔ ‘‘
’’ہاں ماں۔ ‘‘
’’جھوٹ موٹ بیماری کا ناٹک مت کرو‘‘اس کی موٹی انگلی جوائے کی ناک سے محض دو انچ دور تھی۔
’’ نہیں ماں۔ ‘‘
’’ میں نے صرف چند منٹ پہلے تمھیں دوڑتے اور گاتے ہوئے دیکھا تھا۔ ‘‘
’’میں…میں …ماں …۔ ‘‘
’’مجھ سے جھوٹ مت بولو۔ ‘‘
’’ نہیں ماں۔ ‘‘
’’ بہت اچھے !… اب سیدھے بنیے کی دکان پر جائو اور ایک پائونڈ چینی اور ایک پیکٹ چائے کی پتی لے آئو۔ ‘‘
’’ہاں ماں ! ‘‘
’’ یہ لو پیسے۔ ‘‘
جوائے نے رقم لی اور ایک لفظ بھی کہے بغیر گھر سے نکل گیا ۔۔۔۔۔۔۔ وہ کچھ پریشان سا تھا۔ کیا ہوگا اگر ماں نے جہاز کو دیکھ لیا؟اس نے بنیے کی دکان تک جانے اور واپس آنے میں تیز رفتاری کے گذشتہ سارے ریکارڈ توڑ ڈالے تھے۔ اس کی ماںاسے دیکھ کر بولی’’کیوں ؟ تمھارے سر میں تو بہت تیز درد تھا۔ ‘‘
’’ وہ … وہ … ماں… وہ ٹھیک ہو گیا۔ ‘‘
’’ بہت خوب ! … اب آئو ذرا ،ان چیزوں کو ہٹانے میں میری مدد کرو تاکہ میں تمھارا کمرہ صاف کر سکوں۔۔۔۔۔تم نے کمرہ اتنا گندہ کیوں کر رکھا ہے۔ ‘‘
جوائے نے دوڑ کر اپنا اسکول بیگ اٹھا کر سینے سے لگا لیا۔
’’ میں نے ان تمام چیزوں کے بارے میں کہا تھا…صرف وہ بیگ نہیں۔ ‘‘
’’ہاں ماں۔ ‘‘
اس نے بیگ کو بڑی احتیاط سے چٹائی ،کتابوںاور کپڑوںکے اوپر رکھا اور کمرے سے باہر لے جا کر ایک کونے میں رکھ دیا اور خودوہیں کھڑا ہو گیا۔ تھوڑی ہی دیر میں اس کی ماں نے آواز دے کر اسے آگاہ کیا کہ وہ صفائی ختم کر چکی ہے۔ اس نے اسی احتیاط سے سامان کو واپس کمرے میں پہنچایا۔
’’ کیا بات ہے ؟ آج تمھارا رویہ کچھ عجیب سا نہیں ہے؟‘‘اس کی ماں نے اسے گھورتے ہوئے پوچھا، ’’ کیا سچ مچ تمھارا درد سر ختم ہو گیا؟‘‘
’’ نہیں ماں۔ ‘‘ جوائے نے ماں سے نظریں چراتے ہوئے کہا، ’’ وہ پھر سے ہونے لگا ہے۔ ‘‘
’’ ممکن ہے۔ ‘‘ وہ بولی،’’ تم لیٹ جائو۔ ‘‘
جوائے نے چٹائی بچھائی اورلیٹ گیا۔ اب اسے اطمینان محسوس ہو رہا تھا۔ اس رات اس کا باپ کافی دیر سے گھر آیا۔ وہ شراب میں دھت تھا اور بلند آواز میں گا رہا تھا۔ گھر میں داخل ہوتے ہی اس نے اسی طرح بلند آواز میں کھانا مانگا۔ جوائے کے کانوں تک ماں کی دھیمی دھیمی آوازیں پہنچ رہی تھیں… وہ کچھ پوچھ رہی تھی۔ باپ نے اسی زور دار آواز میں بتا یا کہ ایک سفید فام نے اسے شراب پلائی تھی۔ اس نے بتایا کہ وہ سفید فام بہت اچھا آدمی ہے۔ وہ اکثر کہا کرتا تھا کہ ہم سیاہ فام بھلا ان گوروں کے بغیر کچھ کر سکتے ہیں؟ جب وہ موڈ میں ہوتا تھا تو اکثر گوروں کے احسانات گنوانے لگتاجوانھوںنے ملک پر کیے ہیں۔ نوکریاں، کاریں، ہوائی جہازاور شراب…سب انھی کی دین تو ہیں۔ افریقیوں کو ان کا احسان مند ہونا چاہیے۔ ان کی وجہ سے وہ آج اچھے گھروں میں رہ رہے ہیں، اچھے کپڑے پہن رہے ہیںاور عمدہ زندگی گذار رہے ہیں… سنتے سنتے جوائے کو نیند آگئی۔ اس کی ماں بیڈ روم میں چلی گئی تھی۔ حالاں کہ اس کا باپ جانتا تھا کہ وہ سن رہی ہے لیکن وہ تو زور دار آواز میں جیسے اپنی باتیں ساری دنیا کو سنانا چاہتا تھا۔
جوائے کو مزامبیزی سے دوبارہ سڑک پر ملاقات کرنے کے لیے ہمت جٹانے میں ایک ہفتہ لگ گیا۔ اس نے شرمسار لہجے میں جہاز کے لیے اس کا شکریہ ادا کیا،لیکن جواب میں بوڑھے نے دھیرے سے جو کچھ بھی کہا وہ اس کی کوڑ اگاڑی کی چرچراہٹ، گڑگڑاہٹ اور جھنجھناہٹ کی ملی جلی آوازوں میں دب کر رہ گئی۔ جوائے ان دونوں کے پیچھے چل پڑا۔ ہر قدم پر بوڑھے کے پھٹی ایڑیوں والے پیروں کے نیچے سے دھول کا ہلکا سا گرداب پیدا ہورہا تھا۔ اس کا اوور آل اس کی کوڑا گاڑی کی طرح ہی دھول میں اٹا ہوا تھا۔ جوائے نے اپنی رفتار تیز کر دی اور مزامبیزی کے بازو میں چلنے لگا۔
’’ آج تم کیا لے جا رہے ہو؟‘‘
’’مجھے نہیں معلوم۔ ‘‘ بوڑھاسیدھااپنے سامنے دیکھتے ہوئے بولا ’’شایدگوشت کے چند ٹکڑے اور باقی وہی سب…۔ ‘‘
جوائے نے پوری کوشش کی کہ ناگواری کے احساسات اس کے چہرے سے نہ ظاہر ہوں۔ بوڑھا آدمی اور لڑکا اس راستے پر مڑ گئے تھے جو سیدھا کوڑے کے ڈھیر کی جانب جاتا تھا۔ جیسے جیسے وہ قریب پہنچ رہے تھے۔ تعفن بڑھتا جا رہا تھا۔
کوڑے کا گڑھا کافی پرانا اور بہت بڑا تھا لیکن گہرائی زیادہ نہیں تھی۔ یہ وہاں جوائے کی پیدائش کے پہلے سے موجود تھا۔ پرانا کچرا اب سڑ گل کر مٹی میں تبدیل ہو چکا تھا۔ یہاں صرف مزامبیزی ہی کوڑا نہیں پھینکتا تھا دوسرے لوگ بھی یہاں کوڑا ڈالتے تھے۔ یہاں کیلوں، نارنگیوں اور دوسرے پھلوں کے چھلکے، گنے اور بھٹے کے باقی ماندہ حصے،کاغذ، ڈبے، مرغیوں اور مچھلیوں کے باقی ماندہ اندرونی حصے اور جانوروں اور بچوں کے فضلات جیسی ہزاروں گندی چیزوں کاانبار تھا۔ ان پر بڑی بڑی نیلی مکھیاں شہد کی مکھیوں کی طرح بھنبھنا رہی تھیں۔ مزامبیزی اور جوائے کے گڑھے کے کنارے پہنچتے ہی کوئوں نے کائیں کائیں کر کے آسمان سر پر اٹھا لیا۔
’’ کیا یہ سارا کچرا جہاز سے نکلا ہے؟‘‘
’’ہاں۔ ‘‘
’’ وہ لوگ بہت زیادہ کھاتے ہوں گے۔ ‘‘
’’یہ گورے جب کھاتے ہیں تو خوب کھاتے ہیں۔ ‘‘
’’لیکن جہاز میں صرف گورے ہی تو سفر نہیں کرتے ؟‘‘
’’ نہیں ! لیکن پھر بھی یہ گوروں کی غذائیں ہیں۔ تمھیںمیری اس کوڑا گاڑی میں کھوبوے یا مگائیوا کبھی نہیں دکھائی دیگا ۔۔۔۔کیوں کبھی دیکھا؟‘‘
’’نہیں … یہ لوگ کیا کھا تے ہیں؟‘‘
’’ڈبل روٹی۔ ‘‘
’’او…۔ ‘‘
’’ ذرا سوچو۔ ‘‘ مزامبیزی اچانک باتونی بن گیاتھا۔ اس نے اپنی کوڑا گاڑی گڑھے کے کنارے روک کر گڑھے سے ایک خالی کین نکالا۔ ’’ ذرا سوچو۔ ‘‘ اس نے دوبارہ کہا، ’’ تم اندازہ لگا سکتے ہو یہ کہاں سے آیا ہوگا؟‘‘
’’ لندن سے۔ ‘‘
’’ نہیں۔ ‘‘
’’ پیرس سے۔ ‘‘
’’ نہیں ، یہ ہانگ کانگ کا بنا ہوا ہے۔ ‘‘اس نے ڈرامائی انداز میں کہا’’ میں یہاں روزانہ بیٹھ کر گڑھے میں دیکھتا رہتا ہوں۔ میں اس میں سے کاغذ کے ٹکڑے یا گوشت کے خالی کین نکالتا ہوں اور انھیں دیکھتا ہوں اور یہ تصور کرتا رہتا ہوں کہ یہ کہاں سے آئے ہوں گے…جاپان سے؟… روس سے؟…انگلینڈ سے ؟…امریکہ سے ؟… سائوتھ افریقہ سے ؟میں یہاں بیٹھا پنیر کے ٹکڑے کھاتا رہتا ہوں اور میرے سامنے ایک پوری دنیا آباد ہوتی ہے۔ یہ مچھلی کا کین کتنے ہزار کیلو میٹر راستہ طے کر کے یہاں پہنچا ہے؟اس بسکٹ کے خالی پیکٹ نے کن مقامات کی سیر کی ہوگی؟اس بیگ میں کس نے الٹیاں کی ہوں گی؟وہ کون سی زبان بولتا ہوگا؟ اس کے دل میں کیسی کیسی امیدیں اور آنکھوں میںکیسے کیسے خواب ہوں گے؟مجھے ان کے جہازوں میں سوار ہونے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ میں یہاں بیٹھا رہتا ہوں اور روس، امریکہ، جاپان اور ہانگ کانگ سب میری دسترس میں ہوتے ہیں۔ ان سب کی آخری منزل یہ کوڑے کا ڈھیر ہے۔
’’ میں بھی یہی کرتا ہوں‘‘ جوائے نے اس سے باتوں کا سلسلہ منقطع کرتے ہوئے کہا ’’جہازوں کو اڑان بھرتے اور اترتے ہوئے دیکھنے کے لیے میں جب بھی بالکنی میں جاتا ہوں۔ ہردن جب میں اسکول میں اپنی کتابیں کھولتا ہوں۔ میں سوچتا ہوں کہ کیا میں کبھی اتنا پڑھ لکھ سکوں گا کہ ان مقامات کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جان سکوں۔ کیا میں خودکبھی وہاں جاسکوں گا۔ لندن، نیو یارک یا ٹوکیو کی سڑکوں پر ٹہلنے کا تصور کتنا حسین ہے۔ ‘‘
میں سمجھ سکتا ہوں کہ تم کیا محسوس کرتے ہوگے‘‘ اپنے بازو میں بیٹھے لڑکے کی جانب دیکھتے ہوئے مزامبیزی کے چہرے پر کچھ عجیب سے ، کھوئے کھوئے سے تاثرات تھے۔
’’ لیکن میں نے تو ان مقامات کو دیکھا بھی ہے‘‘ جوائے کی آنکھیں چمک اٹھی تھیں۔
’’کیا سچ مچ !‘‘
’’ ہاں، روزانہ، جب میں اپنی کار ڈرائیو کرتا ہوں ، یا وہ جہاز اڑاتا ہوں جو تم نے مجھے دی تھی،میں ان مقامات کو صاف دیکھتا ہوں۔ میں نیو یارک میں کوکا کولا پیتا ہوں، لندن میں چائے پیتا ہوں اور ٹوکیو میں ڈرائیو کرتا ہوں۔ ‘‘
وہ دونوں کوڑے کے ڈھیر کے کنارے بیٹھے تھے، ان کے پیر گڑھے میں لٹکے ہوئے تھے،اور ان کی نگاہیں انگلینڈ میں بنی ٹوٹی بوتل پر تھیں،امریکہ میں بنے ڈبّا بند کھانے کی کین پر تھیں،جاپان اور روس میں بنی پلاسٹک کی ٹوٹی پھوٹی چیزوں پر تھیں۔ دونوں اپنے اپنے خیالوں میں گم تھے۔ کچرے کی مرطوب سی بدبو ان چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی، ان کے اندر پھیلی ہوئی تھی اور ان سے ہوتی ہوئی قریبی کوارٹروں تک پہنچ رہی تھی۔ کوّے ان کے سروں پر سیاہ لینڈنگ کرنے والے جہازوں کی طرح منڈلاتے ہوئے چیخ رہے تھے۔ کچرے کے درمیان زرداور مٹیالی مکھیاں اوجھڑی کے اوپر منڈلا رہی تھیں۔
’’لو…۔ ‘‘بوڑھے کی آوازنے اچانک خوابوں کا سلسلہ توڑ دیا،’’یہ پنیر کا ٹکڑا کھائو۔ شاید یہ سائوتھ افریقہ سے آیا ہے۔ ‘‘
جوائے نے اپنا ہاتھ بڑھایا۔ اس نے آرام کے لیے جھک کر کوڑے گاڑی سے ٹیک لگا لی۔ وہ خراب ہو رہے پنیر کے ٹکڑے کو چبانے لگا۔ اس کی نگاہیں گندگی کے اوپر منڈلاتی مکھیوں پر جمی تھیں۔ مکھیوں کی بھنبھناہٹ اور کوئوں کی کائیں کائیں کے شور کے سوا وہاں مکمل سناٹا تھا،لیکن اچانک ایک جہاز کے اڑان بھرنے کی آواز نے اس سکون کو درہم برہم کردیا۔
’’یہ چا رانجنوں والا جہاز ہے۔ ‘‘ جوائے بولا۔
’’ ہاں بڑا جہاز اڑ ان بھر رہا ہے۔ ‘‘
’’ میں سوچتا ہوں کیا یہ سیلس بری میں اترے گا۔ ‘‘
’’ ہو سکتا ہے۔ ‘‘
’’ پتا نہیں اس میں کون لوگ سوار ہیں؟‘‘
’’اوہ!ہمیشہ کی طرح !زیادہ تر دولت مند موٹے سفید فام یاگندمی چمڑی والے اور صرف چند سیاہ فام۔ ‘‘
’’ چند طالب علم اعلیٰ تعلیم کے لیے جا رہے ہوں گے۔ ‘‘
’’ ہاں میں انھیں بھول گیاتھا۔ ‘‘
مزامبیزی ایک لمبی ہنکار کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوا اور اپنے استخوانی ہاتھوں کو اوور آل سے پونچھتے ہوئے بولا’’ اب مجھے چلنا چاہیے۔ ‘‘
’’گڈ بائے‘‘ جوائے دھیرے سے بولا۔ وہ بھی کوڑا گاڑی کو چھوڑ کر کھڑا ہوگیا،’’کل پھر ملاقات ہوگی؟‘‘
’’ضرور‘‘بوڑھے نے کوڑا گاڑی کے دستے سنبھالتے ہوئے کہا۔ چند منٹوں میں چرچراہٹ، گڑگڑاہٹ اور جھنجھناہٹ کی آوازیں دور کہیں جاکر فضامیں مدغم ہوگئیں۔ جوائے سوچ رہا تھا ان میں پہلے کون مرے گا؟…انسان یا مشین؟ … مشین کی چرچراہٹ، گڑگڑاہٹ اور جھنجھناہٹ کی آوازیں اوراس کے پیچھے چلتے ہوئے انسان کی مستقل خاموشی کسی الو کی غمگین چیخ سے بڑی مماثلت رکھتی ہے۔ لیکن جوائے کو پتا تھا کہ مزامبیزی کے ساتھ روزانہ’’آج بڑے جہاز سے تم کیا لا رہے ہو؟‘‘…’’اوہ! گوروں کے ملک کی کچھ چیزیں …‘‘جیسے جملوں کا تبادلہ ابھی ایک لمبی مدت تک ہونے والا ہے۔ ہر قسم کا کچرا ، کوڑا پھینکنے کے گڈھے کا سفر کرتا رہے گا… اور وہیں موجود رہیں گے کوّے، مکھیاں ، مزامبیزی… اور جوائے!
Original Story : The Rubbish Dump
By : Steve Chimombo (Malawi)