دیکھو ،میں نہیں چاہتی کہ میں جو تمھیں بتانے والی ہوں وہ کہیں اور دہرایا جائے۔ پچھلی دفعہ میں نے کسی سے کچھ کہا اور اس ملعون چغل خور نکیچی ا وبیاگونے خدا جانے کس سے اور کیسے سن لیا اور آج پوری دنیا کومیری سوانح حیات کا پتا ہے۔ خیر ، سب سے پہلے ۔۔۔۔کیا میں نے تمھیں بتایا تھا کہ مادام لاگوس سے واپس آچکی ہیں؟وہ اپنے ساتھ جو کچھ لائی ہیں وہ دیکھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ میرے خدا ! لاگوس بھی کیا غضب کی جگہ ہے۔ مختلف اقسام کے زیورات جو ایسے چمکتے ہیں جیسے چاند اور سورج مادام کے اس سخت چمڑے کے بنے سفری تھیلے میں اتر آئے ہوں۔ نظروں کو خیرہ کر دینے والی بے شمار چیزیں جنھیں زمین کی اس جنت میں لوگ جدید ترین فیشن کے طور پر پہنتے ہیں اور محض ایک ہفتے کے بعد ترک کر دیتے ہیں۔ مادام نے اوبیا گیلی کو ایک خوبصورت لبادہ دیا جس میں اتنے خوبصورت رنگ ہیں کہ ہمارے گاؤںانیوگو کے سارے خوبصورت پھول شرما جائیں۔ اوبیا گیلی کو حکم ہوا کہ وہ اپنا ایک پرانا لبادہ اس چڑیل سیلینا کو دیدے۔
n
ہمیشہ کی طرح، میرے لیے کچھ نہیں تھا۔ تمھیں پتا ہے،یہ کیسے ہوتا ہے۔ سیلینا کو سب کچھ ملتا ہے کیوں کہ وہ مادام کے آبائی شہر سے تعلق رکھتی ہے۔ سب سے پرانی نوکرانی ہونے کی وجہ سے میری اولیت کی مادام کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ میں کھانا پکانے میں کتنی ماہرہوں ، مالک ہمیشہ میری بنائی لذیذ ایگوسیکی فرمائش کرتے ہیں، لیکن کیا مادام کو اس کی پروا ہے؟دنیا جانتی ہے کہ میں گھر کے کام کتنے سلیقے سے انجام دیتی ہوںلیکن کیا مادام کو اس کی پروا ہے؟کیا تم نے سیلینا کو ایک کمرے میں بھی جھاڑو لگاتے دیکھا ہے؟مجھے لگتا ہے اس کی ماں نے اسے کچھ بھی نہیں سکھایا۔ میں اس سے اکثر پوچھ بیٹھتی ہوں کہ گھر کے کونوں میں وہ گرد و غبار وہ آخر کس کے لیے چھوڑ دیا کرتی ہے،لیکن۔ ۔ چھوڑویہ ایک الگ کہانی ہے۔
n
خیر ، تمھیں یاد ہے جب مادام کا بیٹا کیلسٹس واپس آیا تھا۔ میں سمجھتی ہوں، تقریباً تین ماہ پہلے کی بات ہے۔ وہ اینوگو میںواقع اپنے اسکول میں پڑھائی میں کافی کمزور تھا، اس لیے مالک نے شاید اسے نکال لیا تھا یا پھر امتحانات میں مسلسل فیل ہونے کی وجہ سے اسے اسکول والوں نے ہی نکال دیاہوگا۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ پڑھنے میں کمزور ہے، بس وہ اتنا بدمعاش ہے کہ کبھی پڑھتا ہی نہیں۔ کیا تمھیں پتا ہے کہ وہ کتابیں پڑھنے کے بجائے ایک پیشہ ور عورت کے چکر میں پڑا ہوا تھا؟ یہ پیشہ ور عورت چیف ایم۔ اے۔ نوا چوکوکی معشوقہ بھی ہے۔ میں اسی چیف کی بات کر رہی ہوں جس نے اس شخص پر اپنی دونالی بندوق سے فائر کر دیا تھاجسے اس نے اپنی پانچویں بیوی کے بیڈ روم سے نکلتے ہوئے پکڑا تھا۔ تم سمجھ رہی ہو میں کس چیف کی بات کر رہی ہوں۔ کیلی خوش قسمت ہے کہ وہ نوا چوکو کے ہاتھوں پکڑا نہیں گیا۔ اوبیا گیلی کا کہنا ہے کہ کیلی ضرور اس پیشہ ور عورت کو روپے دیا کرتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ وہ ہمیشہ کنگال رہتا ہے۔ غضب کا بدمعاش لڑکا ہے…ہے نا؟کیا تم ہم سولہ سالہ خادماؤں سے یہ امید کر سکتی ہو کہ ہم اپنی تنخواہ لڑکوں پر لٹا دیں؟ہاہا ہا… ہم انھیں پیسے خرچ کرنے پر مجبور کر دیں گے۔
n
اوبیا گیلی کہتی ہے کہ وہ ہر ہفتے مادام کو پیسوں کے لیے خط لکھتا تھا، جن میں اسکول کے نئے یونیفارم اور نئی کتابوں کی خریداری سے متعلق بے شمار جھوٹ ہوتے تھے۔ وہ اسے پیسے بھیج ہی دیتی تھیںکیوں کہ وہ ان کا سب سے پیا را بیٹا ہے۔ مادام آج کل ایک فوجی ٹھیکے دار کے طور پر کافی پیسے کما رہی ہیں،لیکن میں جب بھی اپنی تنخواہ کی بات کرتی ہوں تو یا تو وہ مجھے صاف نظر انداز کر دیتی ہیںیا پھر کاٹنے کو دوڑتی ہیں…آہ ظالم ، بے رحم دنیا !صرف اتنی سی بات کے لیے کہ میں اپنا پیسہ ان سے مانگتی ہوں، وہ مجھ پر پھنکارتی ہیں۔ تمھیں پتا ہے کہ جب سے میرے پاپا کی موت ہوئی ہے، انھوں نے مجھے ایک پیسہ بھی نہیں دیا؟…آہ ظالم ، بے رحم دنیا !کوئی نہیں جو میری مدد کر سکے۔ برا مت ماننا۔ میں ذرا، اپنے آنسو پونچھ لوں پھر آگے کی کہانی سناتی ہوں۔
n
کیلی کو گھر پر ہی رہنا تھا جب تک اس کے پاپا اس کے بارے میں کوئی فیصلہ نہ کر لیتے۔ جب بھی اس کے دوست اس سے ملنے آتے ،میں اسے اس پیشہ ور عورت کے بارے میں باتیں کرتے ہوئے سنتی۔ میں اس کے بازو والے کمرے میں جھاڑو دینے کا بہانہ بناتی، اور تم مجھے جانتی ہو، میں اپنے کان کھلے رکھتی ہوں۔ اس معاملے میں تم میری مہارت کی قائل ہو سکتی ہو۔ اگر اس گھر میں کوئی بات سننے لائق ہے تو میرے کانوں سے بچنے والی نہیں۔ وہ لڑکے جن موضوعات پر گفتگو کیا کرتے تھے، خدا کی پناہ!… وہ لڑکے تو کیڑے پڑے ہوئے سڑے پھلوں سے بھی زیادہ سڑے ہوئے تھے۔
n
ایک صبح میں نے دیکھا کہ وہ ڈائننگ ٹیبل پر اپنی کہنیاں ٹکائے ، چہرے کو ہتھیلیوں کے درمیان لیے بیٹھا ہے۔ اسے دیکھ کر ایسا لگ رہا تھا جیسے دنیا بھر کی مصیبتوںکا بوجھ اس کے ناتواں کاندھوں پر ڈال دیا گیا ہو۔ جب میں نے پوچھا کہ کیا ہوا ، تو اس نے کوئی جواب نہیں دیا۔ بس اٹھا اور وہاں سے چل دیا۔ میں نے بھی اس بارے میں زیادہ نہیں سوچا اور صبح صبح کے اپنے ضروری کاموں میں لگ گئی۔ جب میں اس کے کمرے میں جھاڑو لگانے کے لیے گئی تو میں نے دیکھا کہ چڑیلوں کی استانی ، سیلینا اوکوری وہاں جھاڑو لگانے کے لیے پہلے سے موجود ہے،لیکن وہ اپنا کام چھوڑ کر اس کی ٹیبل کے پاس کھڑی تھی اور شاید وہاں کچھ دیکھ رہی تھی۔ میں تمھیں بتائوں کہ جب سے کیلی اینوگو سے آیا ہے ، وہ اس کی محبوب نظر بننے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے۔ وہ باربار اس کے کمرے کے چکر لگاتی ہے ، کمرے کی بے ترتیب چیزوں کو ترتیب سے سجاتی ہے، اور ہمیشہ اس کے ارد گرد گھوم کر اپنی میٹھی آواز میں پوچھتی رہتی ہے…’’کیلی ! کچھ چاہیے؟تمھارے کپڑے دھو دوں؟تمھارے لیے اُگبا پکا دوں؟ ‘‘ہو سکتا ہے اس طرح کی باتوں سے دوسروں کو جلن محسوس ہو تی ہو لیکن میں ایسا کچھ نہیں محسوس کرتی تھی کیوں کہ میں ان باتوں سے بہت اوپر ہوں،لیکن مجھے اس بات پر بالکل حیرت نہیں،کہ کیلی اس کی طرف کبھی متوجہ نہیں ہوتا…شاید اس کے باہر نکلے ہوئے دانتوں کی وجہ سے،جن کی وجہ سے وہ بھیانک چڑیل اگابا جیسی لگتی ہے… اتنی بھیانک کہ مضبوط سے مضبوط اعصاب کے لوگ بھی کانپ اٹھیں۔
n
میں کیلی کے کمرے کے دروازے پر تھوڑی دیر کھڑی اسے دیکھتی رہی ، وہ شاید ٹیبل پر پڑی کسی شے کو پڑھ رہی تھی۔ آخر میں برداشت نہ کر سکی اور اندر داخل ہو گئی۔
’’ سیلینا اوکوری ! ‘‘ میں چلائی۔ وہ چونک کر اچھل پڑی اور اپنا جھاڑو اٹھاکرتیزی سے جھاڑو لگانے لگی لیکن جب اس کی نظر مجھ پر پڑی تو تیزی میںحرکت کرتے اس کے ہاتھ رک گئے۔
’’ کیا دیکھ رہی تھیں تم اس ٹیبل پر؟‘‘میں چلائی’’ میں کیلسٹس سے کہہ دوں گی…چور !… احمق کہیں کی ! ‘‘جیسا کہ تم جانتی ہو میں انگریزی میں گالیاں دینے میں ماہر ہوں۔ میں نے پانچویں درجے تک یوں ہی تعلیم حاصل نہیں کر رکھی ہے۔
’’تمھاری ماں احمق۔ ‘‘ اس نے نہایت اطمینان سے جواب دیا۔ میں تمھیں کیابتائوں، یہ لڑکی دوسروں کو پاگل کرنا اچھی طرح جانتی ہے۔ میں بھی آپے سے باہر ہو گئی۔
’’کیا ! ‘‘ میں چلائی’’ میری ماں نے تمھارا کیا بگاڑا ہے جو تم اسے درمیان میں لا رہی ہو۔ ‘‘
’’تم نے پہلے میری بے عزتی کی۔ ‘‘
’’ ٹھیک ہے… لیکن میں نے تمھاری ماں کی بے عزتی تو نہیں کی تھی۔ ‘‘
’’ ہوتا ہے، ایک ہلکی سی چپت کے جواب میں اکثر زبردست طمانچہ مل جاتا ہے۔ ‘‘
’’تب تمھیں میری طرف سے اس سے بھی زبردست تھپڑ قبول کرنا ہوگا۔ ‘‘
n
اس کی قسمت اس دن بہت اچھی تھی،کیوں کہ اس سے قبل کہ میراطمانچہ اس کے کان کا پردہ پھاڑ دیتا وہ بھاگ کر آنگن میں چلی گئی۔ جب مجھے اطمینان ہو گیا کہ وہ وہاں سے جا چکی ہے تو میں جھاڑو لگانے کا ادھورا کام مکمل کرنے کے لیے کمرے میں آئی۔ خدا گواہ ہے ، کیلی کی ٹیبل پر جو کچھ تھا اسے پڑھنے کا میرا کوئی ارادہ نہ تھا۔ خدا جانتا ہے کہ میں گنہگار نہیں ہوں،لیکن اگر کوئی خط ٹیبل پر لاپروای سے کھلا پڑا ہوتو شیطان کو مجھ جیسی معصوم لڑکی کو بہکانے میں بھلاکتنا وقت لگے گا؟ بیشک میں نے اپنے اندر کے شیطان سے کافی دیر تک لڑائی کی جو مجھے اس خط کو پڑھنے پر مجبور کر رہا تھا، لیکن تمھیں معلوم ہی ہے انجام کیا ہوا ہوگا۔
میں نے خط پڑھنا شروع کر دیا۔
n
یہ اسی اینوگو والی پیشہ ور عورت کا خط تھا۔ اس نے اسے ’ میرے محبوب‘ کہ کر مخاطب کیا تھا۔ ہا ہا ! مجھے یقین ہے کہ اس کے کم از کم بیس اور محبوب ہوںگے۔ خط میں لکھا تھا کہ وہ چیف ایم۔ اے۔ نوا چوکو سے شادی کر رہی ہے۔ میرے خدا ! دولت ! کچھ لوگ اس سے بے حد پیار کرتے ہیں۔ ایک عورت کس طرح کیلی جیسے خوبصورت نوجوان کو چھوڑ کربڈھے کھوسٹ چیف ایم۔ اے۔ نواچوکو سے شادی کر سکتی ہے جس کے جسم میں مردانگی کی رمق بھی باقی نہیں رہی؟ یہ سچ ہے! یہ مجھے اوبیا گیلی نے بتایا تھا،اور اوبیا یہ سب اچھی طرح جانتی ہے کیوں کہ اسے بہتوںکا تجربہ ہے… نہیں نہیں !میں نے کچھ بھی نہیں کہا !میں کچھ بول کر مشکل میں نہیں پڑنا چاہتی۔ میں اس ملعون چغل خور نکیچی ا وبیاگو جیسی نہیں ہوں، جو کسی ریڈیو سے بھی زیادہ خبروں سے بھری ہوئی رہتی ہے۔
n
خیر ، اس پیشہ ور عورت کے خط میں یہ لکھا تھا کہ وہ نہیں چاہتی کہ اب کیلی اس سے کبھی ملاقات کرے یا کوئی رابطہ رکھے، اسی میں دونوں کی بھلائی تھی۔ اوہو !میںنے سوچا،تو یہی وجہ ہے جو وہ آج اس قدر پریشان تھا،لیکن یہ اچھا ہی ہوا۔ اب ان دونوں کا نہ ملنا ہی بہتر ہے …آج کل کی کچھ عورتوں کو کو ئی شرم و حیا نہیں ہے۔ کس طرح ایک ۲۵سالہ حسینہ ایک ۱۷ سالہ لڑکے کو پھنسا کر اس سے پیسے اینٹھ رہی تھی؟ یہ اچھا نہیں تھا۔
n
تھوڑی دیر بعد جب وہ اپنے کمرے میں جا رہا تھا ، میں اس کے قریب سے گزرتی ہوئی بولی’’ مجھے تمھاری پوری تواریخ معلوم ہوگئی ہے… تمھارے سارے راز !‘‘
’’ کیا مطلب ہے تمھارا؟‘‘ وہ مجھے مشکوک نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا۔
’’ بس یوں سمجھ لو کہ میں تمھارے بارے میں ہر بات جانتی ہوں۔ ‘‘ میں نے کہا۔ اس کی پیشانی پر کئی شکنیںپڑ گئیں اور اس نے اپنے کمرے میں جھانکا۔
’’ میرے محبوب…‘‘ میں گنگناتے ہوئے تیزی سے آگے بڑھ گئی۔
’’کک…کیا؟تمھیں کیسے معلوم…؟‘‘وہ چلایا’’یہاں آئو !‘‘
میں کسی لکڑبگھے کی طرح وحشیانہ قہقہے لگاتی ہوئی وہاں سے بھاگی ، وہ میرے پیچھے اپنی پوری طاقت سے چیختا ہوا آرہا تھا’’ کمفرٹ… کمفرٹ،تم نے میرا خط پڑھا ہے…میں تمھیں مارڈالوں گا ! ‘‘
n
اس نے مجھے باہر جانے والی سیڑھیوں کے پاس پکڑا اورمجھے زمین پر گرا کر میری پسلیوں میں گدگدی کرنے لگا۔ میں بری طرح ہنس رہی تھی یہاں تک کہ میری آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ ہم ایک دوسرے سے لپٹے زمین پر لڑھکتے جا رہے تھے… تم مجھے ایسے کیوں گھور رہی ہو؟ اپنے دماغ میں موجود کسی بھی گنہ آلود خیال کو نکال دو۔ یہ سب ایک معصومانہ کھیل تھا… تمھارا دماغ ہمیشہ برے پہلو کی جانب ہی کیوں جاتا ہے؟… بہرحال ہم لڑھکتے ہوئے کسی کی ٹانگوں کے پاس جا کر رکے… سلیقے سے استری کی ہوئی پتلون میں ملبوس ٹانگیں… ہم نے اوپر دیکھا۔ یہ مالک تھے۔ کیلی کے پاپا۔
’’ اوہو!کیلی !میں دیکھ رہا ہوں کہ خواتین کے معاملے میں تم بہت اچھے جا رہے ہو۔ ‘‘ وہ غصے میں اپنا سر ہلاتے ہوئے بولے’’لیکن ایک بات اچھی طرح یاد کر لو…اگر تم نے ان میں سے کسی کو حاملہ کر دیا تو تمھیں اس سے شادی کرنی ہوگی۔ ‘‘میرے دل میں آیا کہ میں ان سے پوچھوں کہ انھوں نے استانی مس اونی جیکو سے شادی کیوں نہیں کی۔ کسی سے کہنا مت… لیکن کیا تم جانتی ہو کہ حال ہی میںاس کا جو بچہ پیدا ہوا ہے، اس کے بارے میں افواہ ہے کہ وہ مالک کا ہے؟یہ سچ ہے ! نیکیچی نے مجھے بتایا ہے۔
n
اس کے کچھ دنوں کے بعد، مادام لاگوس کے لیے روانہ ہوگئیں۔ جانے سے ایک دن پہلے میں پارلر میں گئی جہاں وہ اپنی دوست ماما موزِز کے ساتھ تھیں۔ تم ماما موزِز کو جانتی ہو؟وہ اتنی موٹی ہے کہ ایک پورے کمرے کو بھر دے۔ اس وقت بھی وہ ایک کائوچ پر اکیلی بیٹھی تھی۔ جبکہ مادام اس کے مقابلے میں اس خشک مچھلی جیسی لگتی ہیں، جس سے ہم لوگ سوپ تیار کرتے ہیں،( مجھے ان کا مذاق اڑانے میں کوئی جھجک نہیں ہوتی ہے کیوں کہ وہ میرے لیے بری ہیں)،وہ ماما موزز کے سامنے ایک چھوٹی سی کرسی پر بیٹھی تھیں۔ اپنے کامیاب بزنس کے باوجود مادام روز بروز دبلی ہوتی چلی جا رہی ہیں، کیوں کہ ان کے پتھر دل کی بے رحمی ان کے جسم کو چوس رہی ہے۔ جبکہ ان کی دوست ماما موزز کو دیکھو، وہ بزنس میں ان کی طرح کامیاب نہ ہوتے ہوئے بھی روز بروز پھیلتی جا رہی ہے، کیوں کہ وہ بہت اچھی اور رحم دل ہے۔ ایک دن قبل ہی اس نے نیکیچیکے چرچ جانے کے لیے اسے اونچی ایڑی کے سینڈل خرید ے تھے۔ کیا تم سوچ سکتی ہو کہ میڈم کبھی اپنی کسی نوکرانی کے لیے اتنا کریں گی؟میں صرف اتنا کہہ سکتی ہوں کہ اگر تم اچھی ہوتوخدا تمھیں انعام سے ضرور نوازے گا اور تم کھاتے پیتے دولت مند لوگوں جیسی دکھائی دوگی،اور اگر تم بری ہو تو خواہ تم جتنی بھی امیر رہو ، خدا تمھاری شکل بھُک مری کے شکار لوگوں جیسی بنا دے گا۔
n
خیرجو بھی ہو، اس شام دونوں ’ بزنس مادام‘اپنے بزنس سے متعلق بات چیت میں مشغول تھیں جب میں ماما موزز کے لیے اسٹاؤٹ کی چوتھی بوتل لے کرکمرے میںداخل ہوئی (یہ عورت ہمارے گاؤں انیگو کے کسی بھی مرد سے زیادہ شراب پی سکتی ہے)۔ مادام نے اس سے کہا کہ وہ آج جتنی جی چاہے شراب پی سکتی ہے کیوں کہ ان کا بزنس ان دنوں بہت اچھا جا رہا ہے۔ مادام نے ماما موزز کو بتایا کہ وہ فوج کے ایک میجر جنرل سے ملاقات کر نے کے لیے لاگوس جا رہی ہیں، جو انھیں ایک نیا کنٹریکٹ دلوائے گا، جس سے انھیں تھیلے بھر بھر کر منافع حاصل ہوگا۔ جب میں نے یہ سنا تو میرا دل تیزی سے دھڑکنے لگا، اور میں نے دل ہی دل میں کچھ حساب کتاب کیا،اگر ان کا بزنس آج کل اچھا جا رہا ہے اورجلد ہی انھیں تھیلے بھر بھر کر آمدنی ہونے کی امید ہے ، تو میرے لیے اپنی رقم میں سے کچھ مانگنے کا یہی بہتر موقع ہے۔ انھوں نے میرے مرتے ہوئے باپ سے جو وعدہ کیا تھا اسے بھی یاد دلانے کا یہی اچھا موقع ہے۔ مجھے یاد نہیں کہ میں نے پہلے کبھی تمھیں بتایا ہے یا نہیں…کہ انھوں نے یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ مجھے اپنے بزنس میں شامل کریں گی اور مجھے اپنی طرح کامیاب بزنس مین بننے کے گُر سکھائیں گی۔ یہی وجہ ہے میں اب تک یہاں ہوں، ورنہ میں کب کی کسی دوسری جگہ جا چکی ہوتی… لیکن میں اپنی ساری زندگی محض ایک خادمہ بن کر نہیں گزارنا چاہتی۔ بالآخر اس رات ماما موزز کے جاتے جاتے میں اپنی رقم کے مطالبے کا فیصلہ کر چکی تھی۔
n
ماما موزز کو الوداع کہنے کے بعد ، مادام سیدھی اپنے کمرے میں چلی گئیں تاکہ سفر کے لیے پیکنگ کر سکیں۔ مجھے یہ اعتراف ہے کہ جب ان کے پاس جانے اور رقم کا مطالبہ کرنے کا وقت آیا تو میرا دل بری طرح دھک دھک کرنے لگا، اس بڑے نقارے کی طرح جسے لڑکے نئے’ یام‘ کی دعوت کے موقع پر بجاتے ہیں۔ میں اس کے کمرے کے سامنے سے سات بار گزری ، لیکن اپنے دل کو اتنا مضبوط نہیں کر سکی کہ کمرے میں قدم رکھ سکوں۔ میں اب اپنا اراد ہ بدلنے ہی والی تھی کہ اچانک انھوں نے اندر سے آواز دی ’’کون ہے وہاں؟‘‘
n
جی میں آیا کہ دوڑ کر بھاگ جائوں ،مگر میں نے بڑی مشکل سے اپنے آپ کو روکا۔ میں کیوں بھاگ رہی ہوں؟ میں نے اپنے آپ سے پوچھا۔ میں اپنی ہی رقم تو مانگ رہی ہوں۔
’’ میں ہوں ، کمفرٹ۔ ‘‘
’’ کیا چاہیے؟‘‘
’’میں آپ سے کچھ کہنا چاہتی ہوں۔ ‘‘
’’ہاں، بولو۔ ‘‘
’’جی …وہ… آپ جانتی ہی ہیں … کیا آپ کو یاد ہے؟‘‘
’’کیا بات ہے ؟… جلدی بولو … میں نے ابھی پیکنگ مکمل نہیں کی ہے۔ ‘‘
’’جی… وہ… مادام … میری رقم …۔ ‘‘
’’کیا اسی کی خاطر تم مجھے پریشان کر رہی ہو؟ بھاگ جائو یہاں سے ۔۔۔۔ اس سلسلے میں بات کرنے کے لیے تمھیں کوئی دوسرا وقت نہیں ملا؟تمھیں دکھائی نہیں دیتا کہ میں مصروف ہوں۔ ‘‘
n
میں کمرے سے بھاگی، مکان سے نکلی اور پائیں باغ کی سرد ہوا میںآکر اپنے آپ کو زمین پر گرادیا اور روپڑی۔ کیلی نے مجھے وہاں دیکھا۔
’’ کمفرٹ، کیا بات ہے؟‘‘وہ گھٹنوں کے بل بیٹھ کر میرے چہرے پر جھکتے ہوئے چیخا۔
’’کچھ نہیں۔ ‘‘ میں نے جواب دیا، میں نہیں چاہتی تھی کہ میں اس سے اس کی ماں کے بارے میں کچھ برا کہوں۔
’’چپ ہوجائو ۔۔۔ آئو ہم واپس مکان کے اندر چلتے ہیں۔ ‘‘وہ میراہاتھ پکڑتے ہوئے بولا۔ ’’ مجھے نہیں بتائو گی کہ کیا ہوا ہے؟کیا ماں نے تمھیں مارا۔ ‘‘
وہ اتنا نرم دل لڑکا ہے کہ مجھے پورا یقین تھا کہ وہ مجھ سے ہمدردی سے پیش آئے گا۔ ایک پل کو میرے دل میںآیا کہ اسے سب کچھ صاف صاف بتا دوں، لیکن میں نے اس وقت کچھ کہنا مناسب نہیں سمجھا کیوں کہ میں جانتی ہوں کہ ایسے میں میری زبان سے اس کی ماں کے لیے برا ہی نکلے گا۔
’’ میں تمھیں کل بتائوں گی‘‘میں نے کہا اور آہستہ آہستہ مکان کی طرف چل پڑی۔
n
دوسری صبح تمام نوکر ساڑھے چار بجے اٹھ گئے تاکہ مادام کے سفر کی تیاریاں مکمل کر سکیں۔ ہر طرف’ جلدی جلدی‘کا ماحول طاری تھا۔ تم تو جانتی ہی ہو کہ جب مادام کو کسی کام کی جلدی ہوتی ہے تو کیا ہوتا ہے۔ وہ ہر ایک کو سپاہیوں کی طرح مارچ کرتے دیکھنا چاہتی ہیں۔ ڈرائیور رُومانَس ان کی کار کو دھونے کے لیے باہر لے گیا تھا؛سیلینا نے مادام کے نہانے کا پانی گرم کیا تھا اور اب ان کے کپڑے استری کر رہی تھی؛میں نے ان کے ناشتے کے لیے’ اکارا ‘ تلا تھا اور ’اکامو‘ تیار کیا تھا۔ ابھی کافی اندھیرا تھا ،جھینگر اب تک بول رہے تھے اور مرغوں نے ابھی بانگ دینا شروع ہی کیا تھا۔ یہ وہی وقت تھا جب روحیں ، اچھی بھی اور بری بھی، منڈلانا چھوڑ کر اپنے زیر زمین ٹھکانوں کی طرف لوٹتی ہیں۔ مادام جب اپنی کار کی ’مالکوں والی سیٹ‘ پر بیٹھ گئیں اور رُو مانَس گاڑی کوڈرائیو کرتا ہوا کمپائونڈ سے باہر لے گیا اس وقت ذرا بھی ایسا نہیں لگ رہا تھا کہ مادام کوکسی روح سے ملاقات کا کوئی خوف ہوگا۔
n
مادام کی گاڑی اس شاندار شہر کی طرف روانہ ہو گئی جہاں کی راتیں سدا جوان رہتی ہیں اور جہاںکے لوگ شاید کبھی سوتے نہیں ہیں۔ ہم سب گاڑی کی دور جاتی روشنیوں کو اندھیرے میں مدغم ہوتے دیکھتے رہے پھر گھر کے اندر آ گئے۔ میں نے کچن میں جا کر دن کے کھانے کی تیاری کا بہانہ کیا،لیکن جیسے ہی مجھے یہ یقین ہو گیا کہ کوئی نہیں دیکھ رہا ہے، میں واپس پارلر میں آگئی اور اپنی چٹائی کو ایک لمبے کاؤچ کے پیچھے بچھا کر،خود کو اپنے کپڑوں میں اچھی طرح لپیٹ کر پرسکون میٹھی نیند سو گئی… اسی وجہ سے مجھے مادام کا سفر پر جانا بے حد پسند ہے…ان دنوں مجھے صبح کے ساڑھے پانچ بجے اٹھنے کی جلدی نہیں ہوتی اور مجھے معمول سے زیادہ سونے کا موقع ملتا ہے۔ میرا خدا جانتا ہے…آخر میں کوئی سپاہی یابانگ دینے والا مرغ تو ہوں نہیںجوروزانہ تڑکے اٹھنا میرے لیے ضروری ہو۔
n
مجھے سوئے ابھی تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی جب مادام گھر میں داخل ہوئیں! وہ شاید کچھ بھول گئی ہیں، میں نے سوچا، اس سے قبل کہ وہ مجھے سوتے ہوئے دیکھ لیں مجھے فوراً اٹھ جانا چاہیے۔ میں نے اٹھنا چاہا لیکن نہیں اٹھ سکی، مجھے ایسا لگا جیسے چٹائی نے میرے وجود کو چپکا لیا ہو۔ وہ کمرے میں داخل ہوئیں اور دوسرے ہی لمحے کمرے میں روشنی پھیل گئی۔
’’ کمفرٹ !‘‘
میں جیسے زمین سے چھ فٹ اوپر اچھل گئی۔ میرے ہاتھ متوقع طمانچے کو روکنے کے انداز میں پھیل گئے اور میرے ہونٹوں سے ایک چیخ نکلی ’’ نہیںمادام ! مجھے معاف کر دیجیے ! ‘‘
n
لیکن جب میری آنکھیں کھڑکی سے آتی تیز دھوپ میں کچھ دیکھنے کے قابل ہوئیں تو میں نے دیکھا وہاں مادام نہیں تھیں، صرف سیلینا تھی، جوایک کونے میں کھڑی، قہقہے لگا کر میرا مضحکہ اڑا رہی تھی۔
’’ نہیںمادام!مجھے معاف کر دیجیے!‘‘اس نے قہقہوں کے دوران میری نقل اتاری۔ میں تمھیں کیا بتائوں، یہ سب میری برداشت کے باہر تھا۔ میں اسے سخت سست سنانے کو بے قرار ہو اٹھی۔
’’ سیلینا اوکوری! ‘‘ میں نے شروعات کی۔
’’ بولیے مادا م محوِ خواب ‘‘ اس نے پھر میرا مذاق اڑایا۔
’’ سیلینا!میرا مذاق مت اڑائو،میںہربات میں تم سے سینئر ہوں…عمر میں بھی… ۳۶۵ دن آخر مذاق نہیں ہوتے ، اس لیے تمھیں چاہیے کہ اپنے سے بڑوں کا احترام کرو۔ یہ مت بھولو کہ جب تک مادام باہر ہیں ، کھانا بانٹنا میری ذمے داری ہے۔ اگر تم سیدھی نہیں ہوئیں توشاید چوہوں کو تمھارے مقابلے میں زیادہ کھانا نصیب ہوا کرے گا۔ ‘‘ میری دھمکی نے اثر دکھایا اور اس کے بعد دن بھر وہ بالکل سیدھی رہی۔
n
اسی دن بعد میں، کیلی نے مجھے اپنے کمرے میں بلایا،یہ پوچھنے کے لیے کہ میں گزشتہ شب کیوں رو رہی تھی۔ ’’ اب بات ختم ہو چکی ہے، اسے بھول جائو۔ ‘‘ میں نے کہا۔
’’ نہیں ! مجھے بتائو۔ ممی نے ڈانٹا تھا نا؟ َ …میں سمجھتا ہوں۔ تم مجھے بلا جھجک بتا سکتی ہو۔ میں ممی کو کچھ نہیں بتائوں گا۔ ‘‘
میں خاموش رہی۔
’’بتائو نا۔ ‘‘ اس نے پھر اصرار کیا۔
’’ مجھے اپنی اس گرل فرینڈ کی تصویر دکھائو، وہی جو چیف نوا چوکو سے شادی کر رہی ہے۔ ‘‘
’’ اگر میں تمھیں اس کی تصویردکھادوں تو کیا تم مجھے پوری بات بتائو گی؟‘‘
’’ہاں‘‘
’’جھوٹی… تم بچوں کی کہانی والے کچھوے سے بھی زیادہ مکارہو۔ ‘‘
’’ میں وعدہ کرتی ہوں کہ تصویر دیکھنے کے بعد میں تمھیں سب کچھ بتا دوں گی۔ ‘‘
اس نے مجھے اس کی ایک رنگین تصویر دکھائی۔ وہ بیضاوی چہرے والی ، بے حد گوری اور خوبصورت تھی۔
میں نے اس سے کہا ’’بہت پیاری ہے، لیکن مجھے اس کا لباس پسند نہیں آیا۔ اس نے ایسی اسکرٹ کیوں پہن رکھی ہے جو کمر تک کٹی ہوئی ہے اور ایسا بلاؤز جس سے اس کی چھاتیاں ابلی پڑ رہی ہیں؟ شاید اسے سب کے سامنے عریاں ہوکر پریڈ کرنے میں بھی کوئی شرم نہیں آئے گی۔ ‘‘ وہ ہنستے ہوئے مجھے پکڑنے کے لیے لپکا ،لیکن میں نے عین وقت پر جھکائی دے کر خود کو بچا لیا۔
پھر میں نے اسے بتایا کہ تقریباً ایک سال قبل جب سے میرا باپ مرا ہے ، مجھے میری رقم نہیں ملی۔ میرا باپ ہر ماہ کے آخر میں مادام سے پیسے لینے آیا کرتا تھا…دس نائرا ماہانہ… اور وہ اس میں سے تین نائرا مجھے خرچ کرنے کے لیے دیا کرتا تھا۔ ان دنوں میں خاصی امیر ہوا کرتی تھی۔ میں کانوں کی بالیاں،گلے کے ہار اور چیونگ گم خرید سکتی تھی۔
’’ میری ماں کے پاس تمھاری کتنی رقم نکلتی ہے؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’دیڑھ سو نائرا ‘‘میں نے جواب دیا، اس نے سیٹی بجائی۔
’’ ٹھیک ہے، میں دیکھوں گا ،تمھارے لیے کیا کیا جا سکتا ہے۔ ‘‘
’’ بس اتنا کرنا کہ جو کچھ میں نے تمھیںبتایا ہے وہ کسی اور کو نہ بتانا۔ ‘‘میں نے کہا اور واپسی کے لیے مڑ گئی۔ ’’ ویسے…میں سمجھتی ہوں کہ اب تم اس لڑکی کے لیے رونا بند کر چکے ہو۔ اس کے بارے میں مت سوچو، وہ بے وفاہے اورتم سے صرف پیسوں لے لیے محبت جتا رہی تھی۔ مجھے یقین ہے کہ تمھیں اینوگو میں اس سے کہیںاچھی اور خوبصورت لڑکیا ںملیں گی… دیکھو ! جب تک مادام باہر ہیں میں تمھارے لیے تمھاری پسندیدہ ڈشیں پکاؤں گی، اور جب مجھے فرصت ہوگی میں تمھارے پاس آکر بیٹھوں گی اور ہم ایک دوسرے کو کہانیاں سنائیں گے۔ بہت جلد تم اپنی اس بے وفا دوست کو بھول جائو گے۔ ‘‘ وہ مسکرایا اور میں کمرے سے باہر آگئی۔
n
چند گھنٹوں کے بعد جب میں اس کے کمرے کے سامنے سے گزر رہی تھی، اس نے مجھے اندر کھینچ لیا،اور میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب اس نے چند مڑے تڑے نوٹ میری مٹھی میں پکڑا دیے۔ میرے ہونٹوں سے ایک چیخ نکلی اور میں نے ان نوٹوں کوزمین پر پھینک دیا جیسے وہ سرخ، دہکتے انگارے ہوں۔ اس نے انھیں اٹھایا اور واپس میرے ہاتھ میں پکڑا دیا۔ میں نے گنا۔ وہ تیس نائرا تھے۔ میں نے اس سے پوچھا کہ اس نے یہ رقم کہاں سے حاصل کی، لیکن وہ بتانے پر تیار نہیں ہوا۔ میں نے اس سے کہا کہ چوں کہ مجھے پتا نہیں ہے کہ یہ رقم کیسی ہے ، اس لیے میں اسے قبول نہیں کر سکتی۔ اس نے جلدی سے کہا کہ اس کی جیب خرچ سے بچی ہوئی رقم ہے۔
n
مجھے اس کی اس کہانی پر یقین نہیں آیا۔ میرا دل بڑے زوروں سے دھڑک رہا تھا۔ میں نے نوٹوں پر ایک نظر ڈالی اور مجھے لگا جیسے میرا دل کہہ رہا ہو… دھک دھک… بالیاں، ہار…دھک دھک بالیاں، ہار…میں نے اپنے دماغ کو یوں سمجھایا:کیلی نے یہ رقم کہاں سے حاصل کی ،کسے معلوم؟ ہو سکتا ہے اس نے اپنے باپ کے بٹوے سے چرایا ہو،یا اپنی ماں کی تجوری پر ہاتھ صاٖ ف کیا ہو، اوراس جنگلی لڑکے سے یہ بھی بعید نہیں کہ اس کے کسی دوست نے نقلی نوٹ چھاپے ہوں!لیکن دوسری طرف یہ بھی ممکن ہے کہ اس نے یہ رقم سچ مچ اپنی جیب خرچ سے بچائی ہو۔ میں یہ رقم رکھ لیتی ہوں ،اگر کوئی تیس نائرا کے گم ہونے کی شکایت کرے گا تو میں یہ رقم کیلی کو واپس کر دوں گیاور اگر ایسا نہیں ہوا تو میں اسے خرچ کروں گی۔
n
بدقسمتی سے میں نے شیطان اور اس کے بہکاوے کو نظر انداز کر دیا تھا۔ وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ لڑکیوں کو کیسے بہکانا چاہیے خصوصاً اس وقت جب وہ یہ سمجھتی ہوںکہ حالات ان کے کنٹرول میں ہیں۔ دوسرے دن اوبیا گیلی نے مجھے سُوپ کا سامان لانے کے لیے اکیلے بازار جانے کوکہا:میں ہمیشہ اس کے ساتھ یا مادام کے ساتھ بازار جایا کرتی تھی۔ میں نے اس سے درخواست کی کہ وہ بھی میرے ساتھ چلے، لیکن وہ ایک دوست کے گھر جانا چاہتی تھی جس سے اس کی مدت سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ آخر مجھے اکیلے ہی بازار جانا پڑا۔ شیطان کے میرے دل میںداخل ہونے کایہ سنہرا موقع تھا۔ میں نے وہ تیس نائرا اپنے لباس میں چھپا کر رکھ لیے۔ ’’اگر میں اسے یہاں چھوڑوں گی تو ممکن ہے یہ سیلینا کے ہاتھ لگ جائیں۔ ‘‘ میںنے خود کو یہ جواز پیش کیا۔
n
سُوپ کے لیے بھنڈی اور تیل خریدنے کے بعدمیں نے سستے نقلی زیورات کی دکانوں کا ایک چکر لگا یا۔ دل کو میں نے یہ کہہ سمجھا لیا کہ ’ ممکن ہے مجھے یہ رقم رکھ ہی لینی پڑے ایسے میں معلوم تو ہونا چاہیے کہ آج کل کن ڈیزائنوں کے زیورات دستیاب ہیں تاکہ خریدتے وقت زیادہ سوچنا نہ پڑے‘۔ در اصل مجھ جیسی نوجوان خادمائوں کے لیے یہ مناسب نہیں کہ وہ اتنی لمبی مدت تک رقم کے بغیر رہیں،خصوصاً ایسے موقعوں پر جب نگاہوں کے سامنے خریدنے لائق بے شمار چیزیں موجود ہوں، اور نکیچی ا وبیاگو جیسی دوسری خادمائیںکانوں میں خوبصورت بالیاں اور اونچی ایڑی کی جوتیاں پہنے گھوم رہی ہوں۔ رقم کی کمی ہمیں حاسد بناتی ہے اور ہم میں سے بعض جو بری ہوتی ہیں وہ چوری تک کرنے پر مجبور ہوجا تی ہیںاور بعض کو جب بھی کہیں سے تھوڑی بہت رقم حاصل ہو جاتی ہے تو وہ اسے احمقانہ انداز میں خرچ کر ڈالتی ہیں۔ میں جب بازار سے نکلی تو میرے لباس میں نقلی سونے کی دو بالیاںاور صرف پانچ نائرابچے ہوئے تھے۔
n
اگر تم شیطان کو اور اس کے مکارانہ طور طریقوں سے واقف ہو تو تمھیں پتا ہی ہوگا کہ جب تم اس کے بہکاوے میں آکر کوئی غلط قدم اٹھا لیتی ہوتو وہ قہقہے لگاتے ہوئے بھاگ جاتا ہے،اور اس نے تمھاری آنکھوں پر جو پردہ ڈالا ہوتا ہے وہ اٹھ جاتا ہے ، تب تمھیں یہ احساس ہوتا ہے کہ تم نے کتنی بڑی بیوقوفی کی ہے۔ جلد ہی میری سمجھ میں یہ آ گیا کہ میں اپنا یہ نیا خزانہ اپنی ساتھی خادماؤں کو دکھا کر انھیں جلانھیںسکتی تھی کیوں کہ خطرہ تھا کہ سیلینا ضرور مادام کو بتا دے گی۔ میں بری طرح خوفزدہ ہو گئی۔ اگر یہ رقم کیلی کی نہیں ہوئی اور اس نے مالک یا مادام کی چرائی ہو تو کیاہو گا؟اگر ان میں سے کسی کی رقم غائب ہو اور وہ پولیس کو بلا لے توکیا ہو گا؟ کیاکیلی یہ اقرار کر لے گا کہ یہ چوری اس نے کی ہے؟ وہ ایک اچھا لڑکا ہے ، وہ یقیناً ایسا ہی کرے گا، میں نے خود کو سمجھایا… لیکن اگر یہ چوری اس وقت پکڑی جائے جب وہ شہر سے باہر، اسکول یا کہیں اور گیا ہوا ہو… تب کیا ہوگا؟ میں کیا کروں گی؟مالک یا مادام ضرور پولیس کو بلائیں گیاور وہ لوگ ان پولیس والوں کو بھیجیں گے جو وردی نہیں پہنتے ہیںاور سادہ لباس میں عام لوگوں کی طرح گھومتے پھرتے ہیں…جو ایک نظر تمھارے چہرے پر ڈالیں گے اور انھیں پتا چل جائے گا کہ چوری تم نے کی ہے۔ میں خوف سے کانپنے لگی۔ مجھے رونا آرہا تھا کیوں کہ میں جیل جانا نہیں چاہتی تھی۔
n
میں یہ سوچتے ہوئے گھر میں داخل ہوئی کہ ابھی کوئی مجھ سے پوچھ بیٹھے گا ’’ کمفرٹ ! وہ تیس نائرا کیا ہوئے؟‘‘ لیکن کسی نے نہیں پوچھا؛سارا گھر اتناپرسکون تھاجیسے بالکل خالی ہو۔ تبھی میں نے سیلینا کو دیکھا جو کیلی کے کمرے سے نکل رہی تھی۔
’’تم!‘‘میں چلائی،’’ کیا میں نے تمھیں نہیں کہا تھا کہ تم کیلی کے کمرے میں نہیں جائو گی،چڑیل۔ ‘‘
’’ میں جہاں چاہوں جا سکتی ہوں۔ ‘‘ اس نے بڑے اعتماد بھرے لہجے میں کہا ’’ اور میں کہاں کہاں جاتی ہوں یہ دیکھنا تمھارا کام نہیں۔ ‘‘
’’ اپنی زبان کو لگام دو ، ورنہ میں ایک طمانچے میں تمھارے دماغ میں بھرا خناس نکال دوں گی۔ ‘‘
’’ کوشش کر کے دیکھو۔ ‘‘ اس نے مجھے خونی نظروں سے دیکھتے ہوئے اور اپنی مٹھی کو گھونسے کی شکل میں باندھتے ہوئے ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
میں اسے چند طمانچے لگانا چاہتی تھی لیکن مجھے لگا کہ یہ اس کام کا صحیح موقع نہیں تھا کیوں کہ ابھی میرے پاس بالیاں اور نائرا تھے جو لڑائی جھگڑے میں ظاہر ہو سکتے تھے۔ ٹھیک ا سی وقت کیلی نے اپنے کمرے سے سر باہر نکالا اور بولا ’’ تم دونوں کس بات کے لیے لڑ رہی ہو؟ کمفرٹ ! اسے کچھ مت کہو۔ اسے میں نے اپنا کمرہ صاف کرنے کے لیے بلایا تھا۔ ‘‘
n
میں اس رات اس کے کمرے میں اسے بالیوںکے بارے میں بتانے کے لیے گئی۔ میں نے جب اسے یہ بتایا کہ میں انھیں دیکھ کر خریدنے کے لیے کس قدر بے قرار ہو اٹھی تھی تو وہ ہنس پڑا۔ اس نے مجھے انھیں پہننے کے لیے کہا۔ میں نے بالیاں پہنیں اور اس کی میز کے سامنے لگے آئینے میں خود کو ستائشی نظروں سے نہارنے لگی۔ تم وعدہ کرو، کہ اب میں جو کچھ تمھیں بتانے والا ہوں، تم اس کا ذکر کبھی کسی سے نہیں کروگی۔ جب میں آئینے میں خود کو نہار رہی تھی ، وہ میرے پیچھے آیا اور میرے پیٹ کو سہلانے لگا۔ دھیرے دھیرے اس کے ہاتھ میری چھاتیوں تک پہنچ گئے۔ ہاں!اس نے سچ مچ انھیں چھوا تھا۔ کیلی واقعی جنگلی ہے۔ میں نے اس سے التجا کی ’’ پلیز کیلی ! ایسا مت کرو۔ یہ غلط ہے‘‘،لیکن وہ کہاں سننے والا تھا ’’کیلی رک جاؤ، یہ گناہ ہے۔ ‘‘ میں چیخی۔ اچانک وہ رک گیا۔ ہم دونوں وہاں ایک دوسرے سے نظریں چرائے کھڑے تھے۔ یہ پہلا موقع تھا جب اس نے میرے ساتھ ایسی حرکت کرنے کی کوشش کی تھی۔ مجھے پتا ہے کہ میں صحت مند اور متناسب الاعضا ء ہوںتبھی تو جب میں زمین سے کچھ اٹھانے کے لیے جھکتی ہوں تو گھر کے سارے نوکرچور نگاہوں سے میری طرف دیکھتے رہتے ہیں،لیکن مجھے یہ پتا نہیں تھا کہ کیلی بھی مجھے ایسی نظروں سے دیکھتا ہے۔
n
ایک طویل شرمسار سی خاموشی کے بعد ، اس نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا اور دس نائرا نکال کر میری طرف بڑھائے۔
’’ یہ لو۔ ‘‘ اس نے کہا۔
’’ کیوں؟تم مجھے سمجھتے کیا ہو؟ ‘‘ میں چلائی۔
’’ ارے یہ لے لو۔ یہ اس رقم کا ہی حصہ ہے جو ممی کے ذمہ باقی ہے۔ اس لیے اسے لے لو۔ بے وقوف مت بنو۔ ‘‘وہ بولا۔
’’ تم خود بے وقوف مت بنو۔ میں یہ نہیں لوں گی۔ ‘‘ میں نے غصے میں کہا اور کمرے سے نکل گئی،لیکن بعد میں میں نے وہ رقم لے لی۔ کیوں کہ وہ میرے پیچھے پیچھے ہر جگہ گیااور مجھے رقم لینی ہی پڑی۔ اس نے مجھے اسے لینے پر مجبور کر دیا تھا۔ اور اگر تم سچائی جاننا چاہتی ہو ( کیوں کہ تمھارا دماغ ہمیشہ برے نتائج ہی اخذ کرتا ہے)تو… ہم نے ایک دوسرے کی قربت کا یہ کھیل پھر کھیلا۔ کئی بار کھیلا۔ میں تمھیں اس سے زیادہ نہیں بتا سکتی، بس اتنا یاد رکھنا کہ میں ایک اچھی لڑکی ہوںاور میں نے ان معاملات کے لیے کچھ حدود مقرر کر رکھے ہیںجن سے آگے کبھی نہیں بڑھتی۔
n
مادام کے واپس لوٹنے سے کچھ پہلے ہی کیلی کو آیمو صوبے میں اوویری نامی قصبے میں بھیج دیا گیا جہاں اس کے چچا ایک سیکنڈری اسکول میں ٹیچر ہیں۔ یہ آدمی کیلی کے باپ کا بھائی ہے،اور ڈسپلین کے معاملے میں اتنا سخت ہے کہ کیلی جیسے جوان لڑکوں پر بھی بید برسانے سے گریز نہیںکرتا۔ یہی وجہ ہے کیلی کے باپ نے اسے وہاںبھیجا ہے۔ اگر اس کا وہ چچا اسے کتابیں پڑھنے پر مجبور نہیں کر سکا، دنیا میں کوئی دوسرا نہیں کر پائے گا۔
n
مادام کے لوٹنے اور تحفوں کی تقسیم کے بعدسے (جن میں جیسا کہ میں بتا چکی ہوں ، میرے لیے کچھ نہیں تھا) چند دنوں قبل تک سب کچھ معمول کے مطابق رہا۔ اس دن میں کچن میں کھانا پکا رہی تھی اور سیلینا مادام کے کمرے میں ان کے ساتھ تھی۔ شاید وہ اپنے لباس کو ٹھیک کر رہی تھی تبھی کچھ رقم اس میں سے نکل کر زمین پر گر پڑی۔ بے وقوف لڑکی رقم وہاں رکھ کر بھول گئی تھی۔
’’ سیلینا ! یہ دس نائرا تمھیں کہاں سے ملے؟ ‘‘مادام نے سرد لہجے میں پوچھا۔
’’ یہ میرے دس نائرا ہیں۔ ‘‘ جب میں نے اس کی آواز سنی تو میں نے سوچا کہ شاید کمبخت میرے صندوق سے میری رقم لے اڑی ہے۔ میں ان کی باتیں سننے کے لیے اور قریب ہو گئی۔
’’ سیلینا ! میں پوچھ رہی ہوں تمھیں یہ دس نائرا کہاں سے ملے؟ کیا شیطان تمھاری زبان کاٹ لے گیا؟ اس سے پہلے کہ میں تھپڑ مار مار کر تمھیں بولنے پر مجبور کردوں… خود ہی بتا دو۔ ‘‘
’’ میں نے انھیں سڑک پر پایا تھا۔ ‘‘
’’جھوٹی(چٹاخ!)جھوٹی(چٹاخ!چٹاخ!)میںنے دیکھاہے کہ میری تجوری سے کچھ رقم غائب ہے۔ تم نے یہ وہیں سے حاصل کیے ہیں۔ بولوسچ ہے یا نہیں؟…بولو(چٹاخ!) بولو،… احسان فراموش لڑکی… میں نے تمھیں غریبی کے دلدل سے نکال کر یہاں سہارا دیا۔ کیا میں تمھاری ماں کو پابندی سے رقم نہیں بھیجتی ہوں؟ پھر تم نے میری رقم کیوں چرائی؟ ‘‘
’’ مادام مجھے معاف کر دیجیے… کیلی نے مجھے یہ رقم دی تھی… یہ مجھے کیلی نے دی تھی۔ ‘‘
’’ ہاں ہاں…ضرور… اب میرے بیٹے پر الزام لگائو۔ کیوں کہ وہ اپنی صفائی دینے کے لیے یہاں موجود نہیں ہے…کیلی تمھیں دس نائرا کیوں دے گا؟… تم بہت جھوٹی اور چور ہو… میں تمھیں قید کرنے جا رہی ہوں… کمرے میں جائو اور وہیں رہو…آج تمھیں کھانا نہیں ملے گا… اور کل میں تمھیں تمھارے گھر بھیج دوں گی۔ ‘‘
n
یہ سن کر میرا جسم ایسے کانپنے لگا جیسے مجھے ملیریا بخار ہو گیا ہو۔ پہلے میں نے سوچا، سیلینا نے میری رقم چرائی ہے اور اب خدا،ا سے اس کی سزا دے رہا ہے،لیکن بعد میں میں نے اپنے دماغ میں کچھ حساب کتاب کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکالا:اگر اس نے میرے صندوق سے رقم چرائی تھی تو پھر پکڑے جانے پر اس نے میرا نام کیوں نہیں لیا؟ میں با آسانی پھنس جاتی اور وہ بچ جاتی۔ اس لیے ممکن ہے وہ سچ بول رہی ہو،ممکن ہے کیلی نے ہی اسے یہ رقم دی ہو۔ مجھے فوراً جاکر دیکھنا چاہیے کہ میری رقم اب تک میرے صندوق میں ہے یا نہیں۔ اس اردے سے میں جیسے ہی کچن سے نکلی، مادام کی آواز سنائی دی، ’’ کمفرٹ!‘‘میرا دل جیسے دھڑکنا بھول گیا۔ ’’آئی مادام۔ ‘‘ میں بولی اور اس کے کمرے کی طرف دوڑ پڑی میرا دل بری طرح دھڑک رہا تھا۔
n
’’پکانے کا کام چھوڑ دو۔ ‘‘ وہ بولیں’’اور ماما موزز کے پاس جائواور اس کے پاس سے رتالولے آئو جو وہ میرے لیے اباکا لیکی سے لے کر آئی ہے۔ جلدی جائو تاکہ تم سُوپ تیار ہونے سے قبل واپس آ سکو۔ تب تک میں سُوپ کا خیال رکھوں گی۔ ‘‘
میں جس قدر تیزی سے ممکن ہوسکا، گھر سے نکلی۔ باہر آکر میں نے اطمینان کی ایک طویل سانس خارج کی،لیکن راستے میں میری پریشانی پھر عود کر آئی۔ کیا وہ میری رقم تھی ؟ اگر نہیں تھی تب بھی میں مشکل میں پڑ سکتی ہوں کیوں کہ اب یہ بات صاف ہوچکی ہے کہ کیلی نے وہ رقم مادام کی تجوری سے چراکرمجھے دی تھی۔ کیا مجھے اس بات کا اظہار کر کے سیلینا کو بچانا چاہیے؟حقیقتاً وہ کوئی بری لڑکی نہیں۔ یہ تو صرف حسد ہے جس نے ہم دونوں کو دشمن بنا رکھا ہے،لیکن اگر میں مادام کو بتا دوں کہ کیلی نے مجھے بھی رقم دی تھی، تو کیا وہ یقین کریں گی؟ وہ اس کے بارے میں کچھ بھی برا نہیں سننا چاہتی ہیں، اس لیے عین ممکن ہے کہ وہ یہ سمجھ بیٹھیں کہ میں نے سیلینا کے ساتھ مل کر یہ چوری کی ہے اور اب بچنے کے لیے ان کے بیٹے پر الزام لگا رہی ہوںکیوں کہ وہ گھر پر نہیں ہے۔ میں ان سے کہہ سکتی ہوں کہ وہ کیلی کو خط لکھ کر یہ اطمینان کر لیں اس نے ہمیں رقم دی ہے یا نہیں،لیکن میں جانتی ہوں کہ مادام اپنی خادمائوں کے لیے اتنا کبھی نہیں کریں گی۔ انھیں نئی خادمائیں آسانی سے دستیاب ہو جائیں گی۔ اور اس کے علاوہ مجھے یہ بھی پتا تھا کہ وہ پہلے ہی سے مجھے برخواست کرنے کے لیے کسی بہانے کی تلاش میں ہیں۔
n
جب میں ماما موزز کے پاس سے رتالو لے کر لوٹی تو یہ خیالات میرے دماغ میں بڑی بڑی گندی مکھیوں کی طرح بھنبھنا رہے تھے۔ جب میں کچن میں داخل ہوئی تو دیکھا کہ سیلینا سُوپ کی دیگچی کے پاس بیٹھی چمچے سے اسے چلا رہی تھی۔
’’تم باہر آگئیں ! ‘‘میں نے لمبی سانس چھوڑتے ہوئے کہا۔
’’ ہاں!آگئی۔ ‘‘ وہ بولی ’’ تم تو یہی سوچ رہی تھیں نا کہ آج میں گئی… کیوں… تمھاری اطلاع کے لیے عرض ہے کہ خدا مجھ جیسے بے گناہوں کو سزا سے بچا لیا کرتا ہے۔ ‘‘
بعد میں مجھے پتا چلا کہ اوبیا گیلی جب اسکول سے لوٹی تو اس نے سیلیناکو قید میں پایا۔ اس نے وجہ معلوم کی۔ جب مادام نے اسے بتایا تو وہ بہت ہنسی اور بولی کہ سیلینا شاید سچ ہی بول رہی ہے کیوں کہ مادام جب لاگوس میں تھیں تو اس نے کیلی کو مادام کی تجوری سے رقم نکالتے ہوئے پکڑا تھا۔ سیلینا کو ایک سخت تنبیہ کے بعد آزاد کر دیا گیا تھا کہ وہ آئندہ گھر کے کسی بھی فرد سے یہ جانے بغیر رقم قبول نہیں کرے گی کہ رقم کہاں سے آئی ہے۔ یہ سب سن کر شاید سب سے زیادہ اطمینان مجھے ہوا۔ میں نے دیکھا کہ میرے دس نائرا میرے صندوق میں بدستور موجود ہیں۔ اس دن میں نے آئندہ کے لیے یہ طے کر لیا کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے میںاس رقم کی کسی کو ہوا بھی نہیں لگنے دوں گی۔
n
اب سب کچھ معمول کے مطابق ہے ،سوائے سیلینا کے۔ وہ آج کل زیادہ تر روتی رہتی ہے؛ اس کا رنگ پہلے کے مقابلے نکھرتا جارہاہے اور اس کی چھاتیاں بڑی ہوتی جارہی ہیں۔
Original Story : The Housegirl
By : Okey Chigbo (Nigeria)