کبھی کبھی حمید کو ایسامحسوس ہوتا جیسے وہ اس دکان میں ہمیشہ سے ہے اور ایک دن اس کی زندگی اسی دکان میں ختم ہو جائے گی۔ حالاں کہ اب اسے یہاں رہنے میں کسی قسم کی پریشانی محسوس نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی اسے رات کے آخری پہروں میں وہ پراسرار آوازیں سنائی دیتی تھیں جو کبھی اس کا دل دہلا دیا کرتی تھیں۔ وہ سمجھ چکا تھا کہ یہ آوازیں شہر کے آخری کنارے پر واقع دلدل سے آتی ہیں جس میں نہ جانے کون کون سے حشرات الارض بھرے پڑے تھے۔ اس کی دکان مضافات کی جانب سے آنے والی سڑک پر،بڑی ہی اچھی جگہ تھی۔ وہ اپنی دکان صبح تڑکے کھولتا جب مزدوراپنے کام پر جانا شروع کرتے اور رات کواس وقت تک بند نہیں کرتا جب تک کہ ان میں سے آخری شخص بھی لوٹ کر اپنے گھر نہ پہنچ جاتا۔ وہ اکثرکہا کرتا تھا کہ وہ اپنی دکان پر بیٹھا زندگی کے ہر رنگ کو اپنے قریب سے گزرتے ہوئے دیکھا کرتا ہے۔ مصروفیت کے اوقات میں و ہ مسلسل کھڑے رہ کر گاہکوں کو سمجھاتارہتا اوربہت مزے لے لے کر ان سے خوش گپیاں کیا کرتا۔ اور پھر آخر کار تھک کر اپنی سیٹ پر بیٹھ جا تا۔
ایک دن اندھیرا ہونے کے بعدوہ دکان بند کرنے ہی جا رہا تھا کہ وہ لڑکی اس کی دکان پر آئی۔ حمیدنے اس کی طرف دیکھ کر دو مرتبہ اپنا سر ہلایا۔ اتنی رات کو ایک جوان لڑکی کی جانب کوئی اشارہ کرنا خطرے سے خالی نہیں تھا۔ دوسری بار اشارہ کرنے کے بعد ہی خوف کی ایک سرد لہر اس کے جسم میں دوڑ گئی۔ اسے لگا جیسے ابھی کوئی بڑا ساہاتھ اس کی گردن دبوچ کر اسے اس کی جگہ سے گھسیٹ لے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ اس کے سامنے کھڑی اس کی توجہ کی منتظر تھی۔ اس کے چہرے سے تھوڑی ناگواری بھی جھلک رہی تھی۔
’’گھی‘ ‘آخر کافی دیر انتظار کر نے کے بعد وہ بولی’ ’ایک شیلنگ کا۔ ‘‘
بولتے وقت وہ دوسری طرف تھوڑا ساگھوم گئی جیسے حمیدکی قربت اسے گراں گزر رہی ہو۔ ایک کپڑا اس کی بغلوں سے ہوتا ہوا، اس کے جسم کے گرد لپٹا ہوا تھا۔ نرم سوتی کپڑا اس کے جسم سے چپک گیا تھا اور اس کے حسین بدن کے خدّ وخال نہایت واضح ہو رہے تھے۔ اس کے شانے عریاں تھے اور مدھم روشنی میں چمک رہے تھے۔ اس نے اس سے پیالہ لیا اور جھک کر گھی کے ڈبے سے گھی نکالنے لگا۔ لڑکی کو دیکھ کر اچانک اس کے اندر دبی ہوئی نہ جانے کتنی حسرتیں چیخ اٹھیں،اسے اپنے دل میں ایک ٹیس کا احساس ہوا۔ جب اس نے پیالہ اسے واپس کیا تو لڑکی نے اس کی طرف بے اعتنائی سے دیکھا۔ اس کی آنکھیں سپاٹ اور تکان بھری تھیں۔ حمید نے لڑکی کوبغوردیکھا۔۔۔۔ وہ جوان تھی۔۔۔۔ننھا ساگول چہرہ اور صراحی دار گردن۔ ایک لفظ بھی کہے بغیر وہ پیچھے مڑی اور فٹ پاتھ اور سڑک کے درمیان واقع گڈھے کو لمبی چھلانگ لگا کر پار کرتی ہوئی اندھیرے میں گم ہو گئی۔ حمید اس کے اندھیرے میں مدغم ہوتے سایے کو دیکھتا رہا۔ کہیں اندھیرے میں اسے کوئی حادثہ نہ پیش آجائے۔۔۔۔اس کے دل میں آیا کہ وہ اسے آواز دے کر اپنا خیال رکھنے کو کہے،لیکن اس کے گلے سے صرف ہلکی سے آواز نکل کر رہ گئی۔ لاشعوری طور پر وہ اس کی کسی چیخ کا منتظر رہا لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا۔ صرف اس کی چپلوں کی دورجاتی آواز سنائی دیتی رہی۔
لڑکی بڑی ہی دلکش تھی…وہ چپ چاپ کھڑا اندھیرے کے اس ٹکرے کو گھورتا رہا جس میں وہ غائب ہو گئی تھی۔ اسے خود سے نفرت محسوس ہونے لگی۔ وہ لڑکی اس کی طرف حقارت سے دیکھنے کے لیے حق بجانب تھی۔ اس کا جسم خستہ حال اور چہرہ بجھاہوا تھا جسے وہ ہر دوسرے دن دھویا کرتا تھا۔ بستر سے دکان تک کا سفر بہ مشکل ایک منٹ کا تھا۔ وہ کہیں اور جاتا بھی نہیں تھا۔ تو پھر روز دھونے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ صحیح طور پر استعمال نہ ہونے کی وجہ سے اس کے پیروں کی ساخت بگڑ کر ٹیڑھی ہو چکی تھی۔ وہ سارادن بس ایک ہی جگہ،گزار دیتا تھا اور نہ جانے کتنے مہینے ، کتنے سال ایسے ہی گزر گئے تھے…اس نے بہت بے دلی سے دکان بند کر دی۔
اگلی شام وہ لڑکی پھر اس کی دکان پر آئی۔ حمیداس وقت منصو ر نامی ایک گاہک سے باتیں کر رہا تھا،وہ عمر میں حمید سے تھوڑابڑا تھااور اس کی دکان کے قریب ہی رہتا تھا۔ وہ اکثر شام کو حمید کے پاس گپیں لڑانے کے لیے پہنچ جاتا تھا۔ موتیا بندسے وہ تقریباً نصف اندھا ہو چکا تھا اور لوگ اکثر اس کا مذاق اڑایا کرتے تھے۔ کبھی کبھی یہ مذاق خاصہ بے رحمانہ بھی ہو جایا کر تا تھا۔ لوگ اس سے کہتے کہ وہ اندھا ہو تا جارہا ہے کیوں کہ اس کی آنکھوں میں گندگی بھری ہے۔ وہ ہمیشہ لڑکوں کے چکرمیں رہا کرتاتھا۔ کبھی کبھی حمید بھی یہ سوچنے لگتا تھا کہ وہ اس کی دکان پر کہیں خوداس کے چکر میں تو نہیںآتا ؟ لیکن نہیں…شاید وہ محض ملاقات اور گپ شپ کے لیے ہی آیا کرتا تھا۔ لڑکی کے آتے ہی منصور چپ ہو گیا اور اپنی آنکھیں سکیڑ کر اسے بغور دیکھنے لگا جیسے وہ مدھم روشنی میں اسے پہچاننے کی کوشش کر رہا ہو۔
’’جوتے کا پالش ملے گا؟ کالا؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’ ہاں‘‘ حمید نے کہا۔ اسے اپنی آواز پھنستی ہوئی محسوس ہوئی۔ اس نے کھنکھار کر گلا صاف کیا اور اپنا جواب دہرایا۔ لڑکی مسکرائی۔
’’خوش آمدید جانِ من!کیسی ہو؟‘‘ منصور نے لڑکی سے پوچھا۔ منصور کی آوازاتنی صاف اور خوشگوار تھی کہ حمید کو حیرت ہوئی۔ ’’تمھاری خوشبو لاجواب ہے۔۔۔ تمھاری آواز کوئل جیسی اور جسم ہرنی جیساہے۔۔۔۔ یہ بتائو جانم! کیا آج رات تمھیں فرصت ہے؟ میں اپنی پیٹھ کی مالش کے لیے تمھاری مدد کی ضرورت محسوس کر رہا ہوں۔ ‘‘
لڑکی نے اسے کوئی جواب نہیں دیا۔ ان دونوں کی سمت اپنی پشت پھیرے حمید ابھی تک منصور کی بکواس سن رہا تھا جو لڑکی کی تعریف میں قصیدے پڑھ پڑھ کر اسے پٹانے کی بھر پورکوشش کر رہا تھا۔ بوکھلاہٹ میں حمید کو جوتے پالش کی ڈبیا بھی نہیں مل رہی تھی۔ آخر کارجب وہ ڈبیا تلاش کرکے واپس پلٹا تو اسے احساس ہوا کہ شاید اس دوران لڑکی مسلسل اسی کی طرف دیکھتی رہی تھی۔ اسے اپنی بوکھلاہٹ پر ہنسی آنے لگی۔ وہ لڑکی کی طرف دیکھ کر مسکرایا لیکن لڑکی کے چہرے پر غصے کے آثار تھے۔ اس نے خاموشی سے قیمت ادا کی۔ منصور اب بھی اس کے بازو میں کھڑا،اپنی جیکٹ کی جیب میں موجود سکوں کو کھنکا کر ، اس کی خوشامد کر کے، اسے پھسلانے کی کوشش کیے جا رہا تھا،لیکن وہ پیچھے مڑی اور بنا ایک لفظ کہے وہاں سے چلی گئی۔
’’اسے دیکھا تم نے… اتنی با وقار لگتی ہے کہ سورج کوبھی اس پر اپنی دھوپ کی کرنیں ڈالتے ہوئے جھجک محسوس ہو…لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ کمبخت بہت سستی چیز ہے۔ ‘‘ منصور نے کہا ، اس کا جسم اس کی دبی دبی ہنسی کی وجہ سے جھٹکے لے رہا تھا، ’’ میں ایک نہ ایک دن اسے حاصل کر لو ں گا… تمھیں کیا لگتا ہے… کتنا لے گی؟ …اس قسم کی عورتیں سب ایسی ہی ہوتی ہیں…ان کا یہ سب دکھاوے کا غصہ اور بیزاری …لیکن ایک بارجب تم انھیںاپنے بستر پر سلانے میں کامیاب ہو جاتے ہو تو پھر تمھیں پتا ہی ہے کہ کون غالب ہوتا ہے اور کون مغلوب‘‘
اس کی بات پر حمید نے قہقہہ لگایا۔ وہ اسے ایسی لڑکی نہیں سمجھتا تھا جسے خریدا جا سکتا ہو۔ وہ اپنے ہر انداز ،اپنے ہر عمل سے اتنی شریف لگتی تھی کہ وہ منصور کے ذریعہ لگائے گئے بیہودہ الزامات پر کبھی یقین نہیں کر سکتا تھا۔ اس کے ذہن میںبار بار لڑکی کا خیال آرہا تھا۔ جب وہ بالکل تنہاہوتا تو اس کا تصور حمید کے اتنے قریب آجاتا ،کہ وہ خیالوں ہی میں اس کے ساتھ ساری حدیں پارکرجاتا۔ رات میں دکان بند کرنے کے بعد وہ چند منٹ کے لیے دکان کے بوڑھے مالک’ فجر‘ کے پاس جابیٹھاجو دکان کے عقب میں ہی رہتا تھا۔ اسے کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا اور وہ اپنے بستر سے بہت کم ہی اٹھا کرتا تھا۔ دن میں توپڑوس کی ایک عورت آکر اس کی دیکھ بھال کر دیا کرتی تھی جس کے عوض اسے دکان سے مفت سامان مل جاتا تھا لیکن رات میں حمید کو کچھ دیر اس کے پاس بیٹھنا پڑتا تھا۔ وہ باتیں کرتے تھے اور کمرے میں لب گور بوڑھے کے جسم کی نا آسودہ سی مہک پھیلتی رہتی تھی۔ ان کی باتوں کا کوئی خاص موضوع نہیں ہوتا تھا۔۔۔۔ کاروبار کی مندی کا رونا یا پھر بوڑھے کی صحت مندی کے لیے دعائیں۔ کبھی کبھی جب فجر بہت مغموم ہوتا تو وہ آبدیدہ ہو کر اپنی موت اور آنے والی عاقبت کی زندگی کی باتیں کرتا۔ پھر حمید بوڑھے کو ٹوائلٹ لے جاتا، خیال رکھتا کہ اس کا کموڈ صاف ستھرا ہو۔ رات گئے فجر اکثر اونچی آواز میں خود کلامی کیا کرتا تھا جس میں اکثر وہ حمید کا نام لے کر پکارتا بھی تھا۔
حمید اندرونی آنگن میں سوتا تھا۔ بارش کے موسم میں وہ اسٹور میں تھوڑی جگہ خالی کر لیتا اور سو جاتا۔ وہ اپنی راتیں تنہا گزارتا اور کبھی باہر نہ جاتا۔ اسے اپنی دکان سے باہر نکلے تقریباً ایک سال ہو گیا تھا۔ ایک سال قبل وہ فجر کے ساتھ باہر گیا تھا۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب فجر بستر علالت پر نہیں پڑا تھا۔ فجر اسے ہر جمعہ کو مسجد لے جاتا تھا۔ حمید کو لوگوں کی بھیڑ اور بارش کے چھینٹوں کے درمیان بھاپ اگلتی فٹ پاتھ یاد آئی۔ آخری بار مسجد سے گھر لوٹتے ہوئے فجر اسے بازار لے گیا تھا اور بوڑھے نے بعض مزیدار پھلوں اور رنگین سبزیوں کے نام اسے بتائے تھے بلکہ کچھ کو تو حمیدنے چھوا اور سونگھا بھی تھا۔ اپنے بچپن ہی سے ، جب سے وہ اس شہر میں رہنے کے لیے آیا تھا، حمید فجر کے یہاں نوکری کر رہا تھا۔ فجر نے اپنی دکان کی پوری ذمہ داری حمید پر ڈال دی تھی۔ رات کے سناٹے میں حمید اکثر اپنے باپ، اپنی ماں اور اپنے آبائی قصبے کے بارے میں سوچا کرتا تھا۔ اب وہ بچہ نہیں رہا تھا پھر بھی یا دیں اکثر اسے رلا دیا کرتی تھیں۔ یہ یادیںکبھی اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی تھیں۔
لڑکی جب پھراس کی دو کان پر دال اور چینی لینے آئی تو حمید نے تولنے میں کافی فیاضی دکھائی۔ لڑکی نے اس بات کو محسوس کیا اور مسکرا دی۔ حمید بھی خوشدلی سے مسکرا دیا حالاں کہ اس نے محسوس کیا تھا کہ لڑکی کی مسکراہٹ میں تھوڑا بہت تمسخر بھی شامل تھا۔ اگلی بار اس نے حمید سے بات کی ،عام سی رسمی علیک سلیک،لیکن اس میں خلوص کی آمیزش تھی۔ بعد میں اس نے بتا یا کہ اس کا نام رقیہ ہے اور وہ اس علاقے میں اپنے رشتے داروں کے پاس رہنے آئی ہے۔
’’تمھارا آبائی مکان کہاں ہے؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’مویمبارینگو‘‘ اس نے اپنے ہاتھ سے دور ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا ’’ تمھیں کچی سڑکوں اور پہاڑیوں سے ہوکر گزرنا پڑے گا۔ ‘‘
اس کے نیلے لباس سے ،جو اس نے پہن رکھا تھا، حمید نے بخوبی اندازہ لگا لیا کہ وہ گھریلو نوکرانی کے طور پر کام کرتی ہے۔ جب اس نے پوچھا کہ وہ کہاں کام کرتی ہے تو اس نے پہلے اپنی ناک سکوڑی جیسے یہ سوال غیر ضروری تھا پھر بتایاکہ جب تک اسے کوئی بہتر کام نہیں مل جاتا،وہ شہر کے ایک نئے ہوٹل میں خادمہ کے بہ طور کام کر رہی ہے۔
ـ’’سب سے بہتر ہوٹل، دی ایکویٹر میں‘‘ اس نے بتایا ’’ اس میں ایک سوئمنگ پُول ہے اور ہر طرف قالینیں بچھی ہوئی ہیں۔ اس میں ٹھہرنے والے سفید فام ہیں …یوروپین… چند ہندوستانی بھی ہیں… لیکن ان میں ایک بھی دیسی نہیں جس کی وجہ سے ہوٹل کی چادروں میں بدبو پیدا ہو جائے۔ ‘‘
رات کو دکان بند کرنے کے بعد وہ ،دکان کے عقب میں واقع چھوٹی سی خواب گاہ کے دروازے پرکھڑا سوچوں میں گم تھا۔ رات کے اس پہر گلیاں ویران تھیں اور ہر طرف سناٹے کا راج تھا۔ وہ رقیہ کے بارے میں سوچ رہا تھا ۔۔۔۔ کئی بار اس کا نام اس کے ہونٹوں پر آیا۔۔۔ جتنا وہ اس کے بارے میں سوچتا اتنا ہی زیادہ اپنی تنہائی کا احساس اس کے دل میں کچوکے لگا تا۔ اسے یاد آیا کہ رقیہ نے پہلی ملاقات پر اسے کن نگاہوں سے دیکھا تھا۔ وہ اسے چھونا چاہتا تھا۔۔۔۔۔۔ برسوں کے اندھیروں نے اس کی حالت غیر کر دی تھی اور اب اس کی پُر امید نگاہیں ایک انجانے قصبے سے آئی ایک انجان لڑکی، کی منتظر تھیں کہ شاید وہ اسے چھو کر نئی زندگی بخش دے۔
ایک رات اس نے گلی میں قدم رکھا اور اپنے پیچھے دروازے کی کنڈی لگادی۔ وہ دھیرے دھیرے نزدیکی بجلی کے کھمبے کی جانب بڑھ رہا تھا اور پھر اس کے آگے والے کھمبے کی جانب۔ اسے حیرت ہوئی کہ اسے کسی قسم کا خوف محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ اپنے عقب میں اسے کوئی حرکت محسوس ہوئی لیکن اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ جب اسے پتا ہی نہیں تھا کہ وہ کہاں جا رہا ہے تو پھر ڈرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں تھی کیوں کہ ہونے کو تو کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ وہ بالکل مطمئن تھا۔
گلی میں دونوں جانب دورویہ دکانیں موجود تھیں جن میں سے دو ایک میں روشنی نظر آرہی تھی۔ وہ ایک موڑ مڑا ،پھر آگے جاکر دوسرا موڑ بھی مڑ گیا۔ اسے کوئی نظر نہیں آیا، نہ کوئی پولیس والا اور نہ ہی کوئی چوکیدار۔ ایک چوراہے کے درمیان بنے اسکوائر کی ایک لکڑی کی بنچ پر وہ بیٹھ گیا۔ اسے حیرت تھی کہ یہ سب کچھ اسے جانا پہچانالگ رہا تھا۔ ایک طرف ایک کلاک ٹاور تھا جس کی گھڑی کی ہلکی سی ٹِک ٹِک کی آواز رات کے سناٹے میں گونج رہی تھی۔ اسکوائر کے کنارے لگے دھات کے بنے کھمبے اسے بڑے اچھے لگ رہے تھے۔ ایک طرف بسیں ایک صف میں کھڑی تھیں اور تھوڑی ہی دوری پر واقع سمندر کی آوازیں اس کے کانوں تک پہنچ رہی تھیں۔
اس نے آواز کی طرف توجہ دی تو اسے لگا کہ وہ ساحل کے بالکل قریب ہے۔ پانی کی مانوس بُونے اچانک اسے اپنے آبائی مکان کی یاد دلا دی۔ اس کا قصبہ بھی سمندر کنارے واقع تھا جہاںوہ بھی دوسرے بچوں کی طرح ساحل پر اور اتھلے پانی میں کھیلا کرتا تھا۔ وہ تو بالکل بھول ہی گیا تھا کہ کبھی کہیں اس کا کو ئی مکان بھی تھا۔ پانی ہلکے ہلکے ساحل کی دیوار کے ساتھ ٹکرا رہا تھا۔ اس نے جھک کر دیکھا ،لہریں کنکریٹ کی دیوارسے ٹکرا کر سفید جھاگ میں بدل کر واپس لوٹ رہی تھیں۔ ایک جیٹی پر تیز روشنیاں چمک رہی تھیں اور مشینوں کے چلنے کی ہلکی سی گھڑ گھڑاہٹ سنائی دے رہی تھی، حالاں کہ یہ بات نا ممکن سی لگ رہی تھی کہ رات کے اس پہر کوئی شخص مشینوں پر کام کر رہا ہو۔
خلیج کے کنارے روشنیاں پھیلی ہوئی تھیں۔۔۔۔ روشنی کے ننھے ننھے نقطے جو تاریکی کی سیاہ چادر میں ستاروں کی طرح ٹنکے ہوئے تھے۔ وہاں کون رہتا ہوگا؟۔۔۔۔ اس نے حیرت سے سوچا۔ شہر کے اُن اندھیرے حصوں میں بسنے والے لوگوں کے تصور نے اس کے جسم میں خوف کی ایک سرد لہر دوڑا دی۔ اس کے ذہن میں بے رحم چہروں والے لمبے تڑنگے انسانوں کی تصویریں ابھریں جو اس کی طرف دیکھ کر قہقہے لگا رہے تھے۔ تصور کی آنکھوں سے اسے انسانی سایے دکھائی دئے جو اجنبیوں کے انتظار میں اندھیروں میں چھپے کھڑے تھے،پھراسے ایک لاش کے گرد مردوں اور عورتوں کی بھیڑ دکھائی دی۔ اس نے دیکھا کہ ان کے پائوںایک قدیم مذہبی دھن پر رقصاں ہیں اوروہ اپنے دشمن کا لہو زمین پر بہتے دیکھ کر خوشی کے نعرے لگا رہے ہیں۔
وہ دکان کی طرف پلٹ گیا۔ اس دن کے بعدوہ خود کو روک نہیں پاتا تھا۔ خوف اپنی جگہ، لیکن یہ احساس اس پر غالب تھا کہ اس نے ہمت کا کام کیا ہے۔ اب یہ اس کی عادت بن گئی تھی کہ روزانہ رات میں دکان بند کرنے کے بعد وہ فجر سے ملاقات کرتا اور پھر ساحل کی طرف نکل پڑتا۔ فجر اس بات کو نا پسند کرتا تھا۔ اسے شکایت تھی کہ حمید اسے روزانہ اکیلے چھوڑ کر چلا جا تا ہے لیکن حمید کو اس کی شکایتوں کی کوئی پروا نہیں تھی۔ راستے میں کبھی کبھار وہ دوسرے لوگوں کو دیکھتا تھا لیکن وہ لوگ اس کی طرف دیکھے بغیر گزر جاتے تھے۔ دن کے وقت اس کی نگاہیں اس لڑکی کے انتظار میں بچھی رہتی تھیں۔ رات میں وہ اسے اپنے ساتھ محسوس کرتا تھا۔ جب وہ خاموش سڑکوں سے گزرتا تو اسے ایسا لگتا، جیسے وہ اس کے ساتھ چل رہی ہے، اس سے باتیں کر رہی ہے، مسکرا رہی ہے اور کبھی کبھی وہ اپنا ہاتھ اس کی گردن پر رکھ دیتی ہے۔
وہ جب بھی دکان پر آتی وہ اسے کوئی نہ کوئی چیز مفت ضرور دے دیتااور پھر اس کی مسکراہٹ کا منتظر رہتا۔ وہ اکثر باتیں بھی کرلیاکرتے تھے،بس چند رسمی سے دوستانہ الفاظ۔ جب کبھی اس کی دکان میں سامان کی کمی ہوتی تو وہ اسے اپنے خفیہ ذخیرے سے سامان دیا کرتا تھا جو اس نے خاص گاہکوں کے لیے رکھ چھوڑا تھا۔ کبھی کبھی وہ ہمت کر کے اس کی خوبصورتی کی تعریف میں ایک آدھ جملہ کہہ دیتا تھا ،اس خوف کے ساتھ کہ کہیں وہ برا نہ مان جائے ،لیکن وہ برا نہیں مانتی تھی بلکہ اس کے لبوں پر جاںفزامسکراہٹ بکھر جاتی تھی۔ حمید کو لڑکی سے متعلق منصور کی بے سروپا باتیں جب بھی یاد آتیں وہ ہنس پڑتا۔ وہ ایسی لڑکی نہیں ہے جسے چند سکوں کے عوض خریدا جا سکے، بلکہ اسے محبت اور جرأت کے بل پر حاصل کیا جا سکتا ہے اور نیم اندھے منصور یا حمید دونوں میں یہ چیزیں نہیں تھیں۔
ایک شام رقیہ اس کی دکان پر شکر خریدنے آئی۔ وہ حسب معمول اپنے نیلے لباس میں تھی جو اس کی بغلوں میں پسینے کی وجہ سے بد رنگ ہوچکا تھا۔ دکان پر کوئی دوسرا گاہک موجود نہیں تھا اور وہ جلدی میں بھی لگ رہی تھی۔ وہ حمیدکو چھیڑنے لگی۔
’’تم یہاں جتنی محنت کرتے ہو اس لحاظ سے تمھارے پاس کافی دولت ہونی چاہیے۔ کیا تمھارے آنگن میں کوئی گڈھا ہے جس میں تم اپنی دولت چھپاتے ہو… یہ تو سبھی کومعلوم ہے کہ دکانداروں کے پاس خفیہ ذخیرے ہوتے ہیں… کیا تم اپنے گائوں واپس لوٹنے کے لیے رقم جمع کر رہے ہو؟‘‘
’’ میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ ‘‘ اس نے بتایا، ’’یہاں کچھ بھی میرا نہیں ہے۔ ‘‘
’’لیکن تم اتنی محنت کرتے ہو‘‘ اس کے لہجے میں بے اعتمادی تھی ’ ’ تم کسی قسم کی تفریح بھی نہیں کرتے…۔ ‘‘
وہ مسکرائی جب حمید نے اسے اچھی خاصی چینی زیادہ دے دی۔
’’شکریہ‘‘، وہ اپنا چینی کا پیکٹ لینے کے لیے آگے جھکتی ہوئی بولی۔ وہ ضرورت سے زیادہ دیر تک جھکی رہی اور پھر بہت دھیرے دھیرے سیدھی ہوتی ہوئی بولی’’ تم مجھے ہمیشہ کچھ نہ کچھ دیتے رہتے ہو۔ مجھے پتا ہے کہ تم اس کے عوض مجھ سے کچھ چاہوگے،لیکن یاد رکھنا۔ ان چھوٹے چھوٹے تحفوں سے بات نہیں بنے گی۔ اُس وقت تمھیں مجھے اور بھی بہت کچھ دینا ہوگا۔۔۔۔ سمجھ گئے۔ ‘‘
حمید نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ سخت شرمندگی محسوس کر رہا تھا۔ لڑکی نے ایک ہلکا سا قہقہ لگایا اور چلی گئی۔ اندھیرے میں گم ہونے سے قبل اس نے پلٹ کر حمید کی طرف دیکھا اور مسکرا دی۔
Original Story : Cages
By: Abdul Razak Gurnah (Zanzibar)