"انسان کی بد بختی یہ ہے کہ وہ خود احتسابی کا عمل ترک کردے۔ غفلت یہ نہیں کہ انسان مبتلائے انبوہ معصیت رہے، بلکہ اصل ابتلا تو اس میں ہے کہ انسان اپنی ذات پر راضی ہو جائے۔ انسان کا انحطاط اسی خود فراموشی میں ہے۔۔۔اور کچھ عجب نہیں کہ ایک دن ایسا انسان معصیت میں ناصرف مبتلا ہو جائے بلکہ اس کو منسوب الی لله بھی قرار دے دے۔
پس احباب! یاد رکھیے، شیطان انسان کا کھلا ہوا دشمن ہے، اور اس کا اول ہتھیار ہی خوشنمائی ہے۔ ایک بے دین شخص سے تو شیطان بھی بیزار ہے، اس کا اصل ہدف بندہء مومن ہے۔ وہ خدا کے بندے کو اس کے اعمال خوشنما کرکے، عجب (خود پسندی) کو اس کے قلب میں داخل کرتا ہے۔۔۔ یہی اس کا ہتھیار ہے۔۔۔اور بہت کاری ہتھیار ہے۔
پس ہمیں اپنے قلب وجاں کو بے لگام نہیں چھوڑنا چاہیے۔ جس طرح اپنے گھروں کی سیکیورٹی ہمارا فرض ہے اسی طرح اپنے روح و دل کی سیکیورٹی کا انتظام بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ اپنے اور خدا کے درمیان ابلیس کو نہ آنے دیں۔"
اجلے کاغذ پر سیاہ حروف۔۔۔۔گواہی دے رہے تھے کہ یہ الفاظ، یہ لہجہ آغا سمیع الدین فیروز انصاری کے علاوہ کسی کا نہیں ہو سکتا۔۔
شہیر دستک دیتا ہوا کھلے دروازے سے اندر داخل ہوگیا تھا۔ بیڈ کے قریب ہی جاۓ نماز بچھاۓ عشال سے اس کی نظر ٹکرائی تھی۔ وہ چند قدم اٹھا کر اس کی اسٹڈی ٹیبل کے قریب آگیا جہاں اسے یہ کتاب کھلی ہوئی ملی تھی۔ اس جلد کو وہ اچھی طرح پہچانتا تھا۔۔۔ شہیر اور عشال انہی مجلد کتابوں کے سائے میں پروان چڑھے تھے۔۔۔آج ان کی غیر موجودگی میں ان کتابوں کو چھونا ایک عجیب تجربہ تھا۔۔۔جیسے وہ اپنا لمس ان کتابوں میں چھوڑ گئے تھے۔
تم کب آئے؟
عشال نے جائے نماز سمیٹتے ہوئے اس سے سوال کیا۔
وعلیکم السلام!
شہیر نے اس کی بات جیسے سنی ہی نہیں۔
تمہیں سلامتی چاہیے یا نہیں لیکن میرے حصے کی سلامتی تو بھیجو مجھ پر۔۔۔
شہیر نے گویا اسے شرمندہ کرنا چاہا۔
سلامتی ہو تم پر!
مجھے اب ان باتوں سے فرق نہیں پڑتا۔
عشال نے جائے نماز استری کے اسٹینڈ کے کیبنٹ میں رکھی اور بےتاثر سے لہجے میں اس کی بات لوٹائی۔
اب کوئی انقلاب آگیا ہے کیا؟
شہیر قطعا سنجیدہ نظر نہیں آرہا تھا۔
گفتگو برائے گفتگو کے بجائے بہتر تھا تم آرام کرلیتے۔
عشال نے دانستہ اس کی بات کا جواب نہیں دیا تھا۔
آرام موت ہے۔ اور میں فی الحال زندہ رہنا چاہتا ہوں کم ازکم اپنے مشن ایمپوسیبل کے مکمل ہونے تک!
شہیر کی تان وہیں اٹکی تھی۔
کس مشن کی بات کررہے ہو؟ میری معلومات کے مطابق تو تمھاری زندگی میں اب کئی مشنز کا آغاز ہوچکا ہے؟
عشال بھی کہاں اس سے کم تھی۔
آہ۔۔۔ یہ زندگی تو اب مسلسل مشن بن چکی ہے۔۔۔ تمھیں کیا کیا بتاؤں؟
شہیر بھی صاف ٹال گیا۔
ٹھیک ہے اگر برسوں کے اس فاصلے نے ہمارے درمیان کچھ حجاب ڈال دیے ہیں تو میں بھی اصرار نہیں کروں گی۔
اور بیڈ کی پائنتی ٹک گئی۔
یہ کس وقت کی نماز تھی جو تم ابھی پڑھ رہی تھیں؟
شہیر نے ایک غیر متعلقہ سوال پوچھا۔
کسی وقت کی نہیں کچھ نفل تھے جو پڑھنے تھے۔
عشال نے بھی جیسے بات سمیٹنا چاہی تھی۔
تم نے دعا کیوں نہیں کی؟
شہیر نے سرسری انداز میں پوچھا۔ وہ اسے نئے سرے سے جاننے کی کوشش کررہا تھا۔
میں نے ہاتھ اٹھانا چھوڑ دیا ہے۔
عشال نے سپاٹ انداز میں اسے جواب دیا۔
اوکے۔۔۔!
شہیر نے بس اتنا ہی کہا۔
عشال کو ایک لمبے لیکچر کی توقع تھی ، سو حیرت سے اس کی نظریں اٹھی رہ گئیں۔
اس طرح کیا دیکھ رہی ہو؟ ہر انسان اپنے ظرف کی روشنی میں خدا کو دیکھتا ہے۔ میں نہ ہی تمہیں قائل کرنے کی کوشش کروں گا اور نہ ہی لیکچر دوں گا۔۔کیونکہ تمہیں ان سب کی ضرورت نہیں۔۔
کچھ نہ کہہ کر بھی وہ بہت کچھ کہہ گیا اور عشال نے بس ایک تنفس پر اکتفا کیا۔۔۔ کہنے کو اس کے پاس بہت کچھ تھا لیکن شہیر پر گویا اس نے رحم کھایا تھا۔
خاموشی کے اس وقفے کو شہیر کی آواز نے توڑا۔
یہ میں تمھارے لیے لایا تھا۔
شہیر نے ایک نرم سا شاپر اس کی طرف بڑھایا۔
عشال نے اس کے ہاتھ سے شاپر لیا۔۔۔ کھولا تو پشمینہ کی خوبصورت سی آتشی گلابی شال دیکھ کر اس کی آنکھوں میں نمی سی اترنے لگی۔۔ جسے مسلسل پلکیں جھپکا کر اس نے بمشکل کناروں کی حدود پھلانگنے سے روکا تھا۔
تم ہمیشہ مجھے چادر شال دوپٹے اور اسٹول ہی کیوں گفٹ کرتے ہو؟
عشال نے بھیگتے لفظوں پر قابو پاکر پوچھا۔
یہ ایک دعا ہے میری طرف سے تمھارے لیے۔۔۔اور خواہش بھی!
شہیر نے مضبوط لہجے میں اسے جیسے باور کرایا۔
شہیر میں جانتی ہوں تم اس طرح میری ذات کے جن داغوں کو ڈھانپنا چاہتے ہو وہ کبھی مٹ نہیں سکتے۔۔۔نہ دنیا کی نظروں سے چھپ سکتے ہیں۔ اس نے بزبان خاموشی بہت کچھ کہہ ڈالا اور شہیر نے سن بھی لیا۔
پسند نہیں آئی کیا۔۔۔؟
شہیر نے اس کا ارتکاز توڑنے کی غرض سے کہا۔
تمہیں تو میری پسند نا پسند بتانے کی کبھی ضرورت نہیں پڑی؟ میں سوچ رہی تھی تم یہ کیوں لائے ہو؟
عشال نے سادگی سے اپنی الجھن بیان کردی
بہت جلد تمہیں اس کی ضرورت پڑنے والی ہے۔
شہیر نے مبہم سی بات کہی۔
کراچی میں تو سردی تکلفا ہی آتی ہے اور اتنے چبھتے رنگ لے آئے؟
وہ اب بھی الجھی کھڑی تھی۔
اب تمہیں رنگ چبھنے لگے ہیں؟ عشال!
شہیر نے محض ایک سوال کیا۔
میرے لیے چبھن ایک بے معنی سی چیز ہو کر رہ گئی ہے کیونکہ اب مجھے اس کی عادت ہوچکی ہے۔
عشال اپنی ہی رو میں کہہ گئی۔
گذرے وقت نے بے شک ہمارے درمیان حجاب ڈال دیے ہوں لیکن اپنی الجھنیں تم مجھے اب بھی دے سکتی ہو۔
شہیر نے اسے ایک آفر کی۔
شکریہ لیکن یہ الجھنیں بانٹ کر میں اپنا دامن خالی نہیں کرنا چاہتی بہتر ہے تم اپنی زندگی جیو اور مجھے میری جینے دو۔۔
عشال نے بےمروتی کی حد کردی تھی۔۔
As you wish۔۔
وہ ناگواری سے کہتا اس کی دہلیز پار کرگیا۔۔
تمہیں کیا کہوں شہیر۔۔۔۔۔ میرا ماضی میرے اندر رچ بس گیا ہے۔۔اس سوختہ جاں کو اب لفظوں سے فرق نہیں پڑتا۔۔ اور لفظ تو دریا کا دھارا ہیں اکثر بے موقع طغیانی پکڑ لیتے ہیں۔
عشال شکست خوردہ سی سانس خارج کر کے رہ گئی۔
*********
آپ مصروف تو نہیں؟ سطوت آراء نے بیڈ پر نیم دراز شوہر نامدار کو مخاطب کیا جو کسی کتاب کے مطالعے میں مشغول تھے۔۔
ضیاءالدین صاحب نے اچٹتی سی نظر بیگم کے چہرے پر ڈالی جہاں سوچ کی گہری لکیریں دکھائی دے رہی تھیں۔
آپ کہیے میں سن رہا ہوں۔ ضیاءالدین صاحب نے کتاب ہنوز چہرے کے سامنے پھیلائے رکھی۔
اس طرح نہیں آپ کی توجہ چاہیے، مجھے ضروری بات کرنی ہے۔
سطوت آراء کی تسلی نہیں ہوئی۔
ضیاءالدین صاحب نے کتاب سائیڈ ٹیبل پر رکھ دی اور گرین ٹی کا کپ ہاتھ میں لے لیا۔
اب کہیے کیا کہنا چاہتی ہیں؟
کسی حد تک انھیں اندازہ تھا وہ کیا کہنے والی ہیں۔۔ مگر انھوں نے خود سے آغاز نہیں کیا تھا۔
آپ نے عشال کے بارے میں کیا سوچا ہے؟
اتنے دن ہوگئے آپ کو آئے ہوئے؟
آپ جو کہنا چاہتی ہیں کھل کر کہیں۔
ضیاءالدین صاحب نے اصرار کیا۔
میں چاہتی ہوں آپ عشال کی شادی کردیں کوئی بھی مناسب سا رشتہ دیکھ کر۔۔۔
اگرچہ وہ "مناسب " کے لفظ کے بغیر اپنا جملہ کہنا چاہتی تھیں لیکن ضیاءالدین صاحب کے لحاظ میں انھیں اس لفظ کا اضافہ کرنا پڑا تھا۔
مناسب رشتہ؟ آپ کی نظر میں کوئی ہے؟ مناسب رشتہ تو بتائیں؟
یہ آپ نے خوب ہی کہی، یہاں سے تو آپ کچھ اور کہہ کر گئے تھے اور اب۔۔۔؟ خاموشی کی چادر اوڑھ کر بیٹھ گئے ہیں۔
سطوت آراء کچھ مضطرب سی نظر آرہی تھیں۔
اس معاملے سے میں ہرگز غافل نہیں ہوں خاموش ہوں تو کسی وجہ سے۔۔
انھوں نے بیوی کو سمجھانے کی کوشش کی۔
یہ مصلحتوں کی باڑھ لگانا اب چھوڑ دیں۔۔۔۔ میرا بیٹا ایک عرصے بعد لوٹا ہے، میں نہیں چاہتی پھر کوئی مسئلہ کھڑا ہو۔۔۔اور مجھے یہی حل سمجھ آتا ہے۔
عشال کی شادی ہوجائے گی تو اسے بھی قرار آجائے گا۔
آج نہیں تو کل اسے سب بھول ہی جائے گا۔
اور اس مقصد کے لیے آپ کسی بھی ایرے غیرے کے ساتھ رخصت کردیں گی اسے؟
ضیاءالدین صاحب کے لہجے میں واضح ناراضگی کی آمیزش تھی۔
نہیں۔۔۔؟ میرا ہرگز یہ مطلب نہیں تھا۔۔میں تو بس اپنے بچوں کی طرح اسے بھی خوش دیکھنا چاہتی ہوں۔
سطوت آراء کو وضاحت دینا پڑی۔
آپ بس اپنے بچوں کی فکر کریں۔۔، عشال کو دیکھنے کے لیے میں ہوں!
انھوں نے آنکھوں پر دوبارہ عینک چڑھا لی تھی۔
اب آپ زیادتی کررہے ہیں۔۔۔ میں نے کبھی اپنے بچوں اور عشال کے بیچ فرق نہیں کیا۔۔۔ڈیڑھ مہینے کی تھی جب میری گود میں آئی تھی اور آپ نے بس ایک لمحے میں میری مامتا، میری ریاضتوں کی نفی کردی۔۔
سطوت آراء خاصی جذباتی ہوچکی تھیں۔۔
ضیاءالدین صاحب نے ایک سانس خارج کی اور بولے۔
میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں۔۔۔آپ غلط طرف بات کو لے جارہی ہیں۔ میں تو صرف اتنا کہہ رہا ہوں عشال میری ذمہ داری ہے آپ اس کے لیے پریشان مت ہوں۔
رہی بات پہلے کی تو۔۔۔! آپ اچھی طرح جانتی ہیں میں عشال کو ساتھ لاؤں گا یہ طے تھا۔۔اگر آغاجان یوں اچانک دنیا سے رخصت نہ ہوتے تو اس وقت حالات کچھ اور ہوتے۔۔
میں بھی تو یہی کہہ رہی ہوں آپ اس معاملے کو مزید طول نہ دیں، لڑکیوں کی عمر کا کچھ پتہ نہیں چلتا۔۔۔دیکھتے ہی دیکھتے وقت ہاتھ سے پھسل جاتا ہے۔۔اور انسان خالی ہاتھ لیے مقدر سے جنگ لڑتا رہ جاتا ہے۔
سطوت آراء چھاچھ پھونک رہی تھیں۔
میں پھر یہی کہوں گا آپ فکرمند نہ ہوں عشال میری ذمہ داری ہے۔۔
اپنی بات کہہ کر ضیاءالدین صاحب نے گرین ٹی کے سپ لینا شرورع کر دیے تھے۔۔
سطوت آراء کی پرسوچ نظریں ماضی میں جھانک رہی تھیں۔
*********
سرمئی دن ڈھل کر کہری شام میں بدل گیا کہ صبح سے بادلوں نے آسمان کو ڈھانپ رکھا تھا اور اب ہلکی کن من کی صورت موسم نے کروٹ لے لی تھی۔ بلاشبہ باسیان کراچی کے لیے شام پررونق تھی۔
کہیے مسٹر زبیر عثمانی! بنکاک کے بنکوں میں سو کروڑکی یہ رقم کب اور کیسے ٹرانسفر ہوئی آپ کی مسز کے لاکر میں اربوں روپے مالیت کی جیولری کی سورس کیا ہے۔۔
آسٹریلیا کی اس پراپراٹی کے پاؤں کہاں ہیں؟
ہوا میں معلق آپ کی کمپنی کہاں ہے جس سے آپ کی سالانہ کروڑوں روپے آمدنی ہے؟
اس کے سامنے بیٹھے افراد کے تابڑ توڑ سوالوں کے جواب دینا زبیر عثمانی کے لیے شاید آسان ہوتا اگر گرے تھری پیس سوٹ میں ملبوس وہ قدرے فربہی جسامت رکھنے والا شخص گہری نظریں اس پر گاڑے نہ بیٹھا ہوتا۔۔۔
شیشے کی اس دیوار کے پار ان خاموش آنکھوں میں کیسا طوفان ہلکورے لے رہا تھا، زبیر عثمانی اندازہ لگا سکتے تھے۔۔۔اور اس طوفان کی تلاطم خیز موجوں کے بیچ وہ خود کو غوطے پر غوطہ کھاتے ہوئے محسوس کررہے تھے۔
جواب دیجیے مسٹر زبیر اس افسر کا لہجہ قدرے بلند ہوا تھا۔
سگریٹ۔۔۔!
زبیر عثمانی کے منہ سے نکلنے والا لفظ غیر متوقع تھا۔
لمحے بھر کو تفتیشی افسر اپنے سامنے بیٹھے ملزم کا چہرہ دیکھ کر رہ گیا۔
واجد۔۔۔۔!
فربہی شخص جو ساری کارروائی ملاحظہ کررہا تھا۔ افسر کے تنبیہی الفاظ روک کر اسے آنکھوں سے اٹھنے کا عندیہ دیا۔زبیر عثمانی سے سوال کرنے والا افسر خاموشی سے اٹھ کر ایک طرف ہوگیا۔
اگلے ہی پل وہ کرسی گھسیٹ کر اس کے مقابل بیٹھا تھا۔
سوری مسٹر زبیر سگریٹ آپ کے لیے یہاں allow نہیں ہے۔۔۔
اس نے بے لچک انداز میں کہا تھا۔
زہر تو مل سکتا ہے؟
زبیر عثمانی اس شخص کو اپنے روبرو نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔
واجد۔۔۔۔سر کے لیے کافی منگواؤ۔
وہ تفتیشی افسرسے مخاطب ہوا تھا۔
زبیر عثمانی نے ناگواری سے منہ پھیرا تھا۔ وہ جانتے تھے ان کی یہاں سننے والا کوئی نہیں تھا۔
اب کہو۔۔۔ کون تم سے ذاتی چپقلش نکال رہا ہے؟ اور کون سی؟
تم اچھی طرح جانتے ہو مرتضی غوری!
زبیر عثمانی بھول چکے تھے کہ وہ انٹروگیشن آفس میں بحیثیت ملزم بیٹھے تھے۔
اسی وقت واجد کافی لیے اندر داخل ہوا تھا۔
مرتضی سلیمان کے چہرے پر بافہم مسکراہٹ نمودار ہوگئی۔۔۔
کافی۔۔۔۔!
مرتضی سلیمان نے کپ آگے کھسکایا۔
زبیر عثمانی متاءمل ہوا۔
لے لو تمہیں اس کی ضرورت ہے۔
مقابل نے اسے پچکارا تھا۔
زبیر کو واقعی اس وقت کسی ایسی چیز کی طلب تھی لیکن فی الحال وہ پسپا نہیں ہونا چاہتے تھے۔
نو تھینکس۔
زبیر صاحب کا مخصوص تنتنا لوٹ آیا تھا
مرتضی سلیمان نے زبیر کو اس کے حال ہر چھوڑا اور اپنے سوال کی طرف لوٹے۔
ہاں تو مسٹر زبیر عثمانی اپنے بیان کی وضاحت کرو یا پھر اس سے دست برداد ہوجاؤ۔۔۔
مرتضی سلیمان نے مزے سے سگریٹ سلگایا اور آنکھیں زبیر عثمانی کی آنکھوں میں گاڑ دیں۔
زبیر عثمانی کو محسوس ہوا اس کا وجود مرتضی سلیمان کی انگلی میں دبے سگریٹ میں ڈھل گیا ہے۔۔۔ دھیرے دھیرے سلگتا ہوا۔
تم۔۔۔مرتضی سلیمان۔۔ تم! تم ہو وہ چپقلش۔۔۔جو میرے خاندان سے اپنی ذاتی دشمنی نکال رہا ہے۔
زبیر نے ایک ایک لفظ چبا کر ادا کیا
تمہارا خاندان پچھلے سات سالوں سے میرے خلاف سازشوں میں مصروف ہے لیکن ہر بار کی طرح اس بار بھی تمہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
زبیر عثمانی کا لہجہ عادی مجرم جیسا تھا۔۔۔ایک ڈھکی چھپی تنبیہہ کہ " تم میرا اب بھی کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔۔۔
مرتضی سلیمان نے ایک بار پھر کافی اس کی جانب بڑھائی۔۔پی لو مسٹر زبیر دوبارہ تمہیں ٹھنڈی کافی بھی نصیب نہیں ہوگی۔۔۔
اتنا کہہ کر وہ اٹھ گئے اور ایک استہزائیہ نگاہ ڈالتے کھڑے ہوگئے۔۔۔
اور ہاں یہ کریم کافی ہے تمہاری پسندیدہ۔۔۔
زبیر کی آنکھوں میں دور کہیں حیرت لہرائی تھی۔
واجد۔۔۔!
وہ مستعدی سے مرتضی سلیمان کے قریب آیا تھا۔
زبیر صاحب کی چارج شیٹ آج ہی آگے بھیج دو۔۔۔
اپنی بات کہہ کر وہ وہاں رکے نہیں تھے۔۔
اور زبیر عثمانی اپنے متعلق نئے احکامات سے انجان سوچ رہے تھے میرے بارے میں ایسی چھوٹی چھوٹی انفارمیشنز تک یہ لوگ پہنچ سکتے ہیں تو اور کیا کچھ نہ جانتے ہوں گے۔۔۔؟ اس تصور نے ہی ان کی نیند چین سب غارت کرکے رکھ دیا۔
*********
ڈسٹرب کر سکتا ہوں۔۔؟ وہ ہلکی سی دستک دے کر جھانکا تھا۔ فائلوں میں جھکا سر فورا ہی اٹھا تھا اور متین چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی تھی۔
تم مجھے ڈسٹرب کرچکے ہو۔۔۔ینگ مین!
وہ مسکراتا ہوا پورا اندر داخل ہوگیا۔۔
میری سیکریٹری تمہارے بارے میں بتا چکی ہے۔۔ کیا لوگے؟
انھوں نے اپنے مخصوص بردبار انداز میں پوچھا۔
کچھ نہیں آپ سنائیں کیسے ہیں؟
شہیر نے گفتگو کا آغاز کیا۔
آئی ایم فٹ۔۔
اور اب وہ بات کرو جس کے لیے تم آئے ہو۔۔
یہاں سے گذر رہا تھا، سوچا آپ سے ملتا چلوں۔۔
ہاہاہا۔۔۔اس کی بات پر بے اختیار قہقہہ پڑا تھا۔۔
تم نیب کے ایک ریجنل آفیسر کو بیوقوف بنارہے ہو؟
انسان سب سے زیادہ خونی رشتوں کے ہاتھوں ایکسپلائیٹ ہوتا ہے۔۔
اس نےبھی مسکراتے ہوئے گویا ان کے خیال کی تصدیق کی۔
کم آن یار میرے ساتھ یہ فلسفہ نہ بگھارا کرو، اس کے لیے تمہارا باپ ہی کافی ہے۔۔۔سیدھی طرح بتاؤ کیا کام ہے؟
ایک خبر مجھے یہاں کھینچ لائی ہے اور دوسری میں لینے آیا ہوں۔۔۔
اب وہ سنجیدہ تھا۔
میں جانتا ہوں تم جس خبر کی بات کررہے ہو۔۔۔یہ بتاؤ مجھ سے کیا چاہتے ہو؟
وہ بھی سنجیدہ ہوگئے۔۔۔
میں جاننا چاہتا ہوں ابشام زبیر کہاں ہے۔۔؟
شہیر کے منہ سے نکلنے والے الفاظ نہیں جوار بھاٹا تھا جو اردگرد کی ہرشئے پر اثرانداز ہوا تھا۔
پلیز خالو یہ مت کہیے گا کہ آپ نہیں جانتے۔۔۔،
اپنے تیئیں شہیر نے ان کی راہیں مسدود کی تھیں۔
نہیں میں یہ نہیں کہوں گا۔۔۔، ہاں میں جانتا ہوں وہ کہاں ہے۔۔لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ تمہیں اس معاملے میں آنے کی ضرورت نہیں، تم سے بڑے ابھی زندہ ہیں۔۔۔!
ان کے لہجے میں بزرگانہ تحکم تھا۔
آپ لوگ ہمیں بچہ سمجھ کر ہمارے جذبات اور صلاحیتوں کا مذاق اڑا رہے ہیں۔
بالآخر اس نے اپنے غصے کا اظہار کر ہی دیا تھا۔
تم بچوں کا المیہ یہی ہے کہ تم سمجھتے ہو تم سے پہلے دنیا میں آکر ہم نے صرف جھک مارا ہے۔۔۔ اینی وے میں بہت جلد ضیاء سے ملوں گا۔۔تم صبر سے کام لو، میں اس معاملے کو دیکھ رہا ہوں۔۔
اور میں نے تمہارے لیے اورنج جوس آرڈر کردیا ہے پیے بغیر مت جانا۔۔۔
اتنا کہہ کر وہ پھر مصروف نظر آئے۔۔ یعنی گفتگو تمام ہوئی۔
آپ نے یقین دلایا تھا اپنے تعاون کا۔۔وہ ان کی آفر نظرانداز کیے شکوہ کناں ہوا۔
ارے۔۔۔اچھا؟ لیکن تم سے کس نے کہا تھا میری بات پر اعتبار کرو؟
از حد معصومیت سے پوچھا۔
شہیر کی پوری آنکھیں کھل گیئیں۔۔
خالو۔۔۔؟
وہ ان کی کھلی دھاندلی پر حیرت زدہ رہ گیا۔۔
مجھے آپ سے اس کی امید نہیں تھی۔۔۔
وہ شکایت کیے بنا نہ رہ سکا۔۔
تو پھر آج سے مجھ سے وابستہ ہر اچھی توقع یا امید ختم کردو۔۔۔کیونکہ میں ایک بیوروکریٹ ہوں۔
ان کے چہرے پر بڑی دل جلاتی سی مسکراہٹ تھی۔۔
شہیر نامراد سا خفا خفا لوٹ گیا۔۔وہ اپنا پسندیدہ جوس بھی خاطر میں نہیں لایا تھا۔
سیاہ جیکٹ کی جیبوں میں ہاتھ دیے وہ انھی پیروں پر پلٹ گیا تھا۔
تم کیا جانو اس وقت کیلیے میں نے کتنی تیاری کی ہے۔۔۔
مرتضی سلیمان دل ہی دل میں اس سے مخاطب ہوئے تھے ان کے چہرے پر اب بھی خوبصورت سی مسکراہٹ تھی۔
*********