کوئی بات ہوئی ہے کیا؟
اسے ایکدم سے خاموش پاکر نورین نے سوال کیا تھا۔
عشال کی پیشانی پر تیوری سی چڑھ گئی تھی البتہ وہ
"nothing"
کہہ کر لب بھینچ گئی تھی۔۔ذہن کسی سوچ میں غلطاں تھا۔
تم سے کس نے کہا کہ اس کی سپلی ہے۔۔۔؟
اشعر نے عشال سے پوچھا تھا۔
چھوڑیں اس ٹاپک کو، مجھے غلط فہمی ہوگئی تھی۔
عشال کا انداز صاف ٹالنے والا تھا۔ مگر کسی نے بھی مزید کرید نہیں کی اور کلاس روم میں داخل ہوگئے۔
*********
وہ اوندھے منہ لیٹا آنکھیں موندے اسے ہی سوچ رہا تھا۔۔۔ بھانت بھانت کی لڑکیوں سے یونی بھری پڑی تھی۔۔۔ خود اس کے اپنے سرکل میں بھی لڑکیوں کی کمی نہیں تھی۔۔۔پھر وہ کیا چیز تھی جو خالص اس کی اپنی انفرادیت تھی۔ اسکارف لینے والی لڑکیوں کی بھی یونی میں کمی نہیں تھی۔۔۔ پھر؟
پھر اس کا دل کیوں اسے دغا دے گیا تھا۔۔۔وہ مسلسل اس کی سوچ کا محور تھی ان دنوں۔۔۔ ان دنوں وہ کچھ اور سوچ ہی نہیں پاتا تھا۔۔
اور لگتا ہے تمھارا جھوٹ سچ ہونے کو ہے۔۔۔مسٹر شامی۔۔۔
وہ ہولے سے مسکرا دیا تھا۔
*********
السلام علیکم ماما جان!
عشال اور نورین ایک ساتھ ہی اندر داخل ہوئی تھیں۔۔
سطوت آراء فورا ہی کچن سے برآمد ہوئی تھیں ان کے چہرے پر معمول کی مسکراہٹ تھی۔۔
وعلیکم السلام بچو۔۔
کیسا گذرا آج کا دن؟
یہ بھی ان کا معمول ہی تھا۔
بہت اچھا۔۔اور اب آپ کے ہاتھ کا اچھا سا کھانا کھانے کے بعد اور اچھا ہونے والا ہے۔۔۔
نورین نے لاؤنج کا صوفہ سنبھالا جبکہ عشال نے اوپر اپنے بیڈروم کا رخ کیا تھا۔
سطوت آراء نورین کی طرف چلی آئی تھیں۔ وہ اطمینان سے سینڈل کے اسٹرپ کھول رہی تھی۔ صبح جو سوئیٹر پہنا ہوا تھا اب صوفے پر بے پروائی سے ایک طرف پڑا ہوا تھا۔
مگر میں نے تو اروی بنائے ہیں؟
سطوت آراء نے اس پر بم پھوڑا۔۔۔
کیا؟ ۔۔۔ ہاۓ خالہ جان یہ کیا ظلم کیا آپ نے۔۔۔
خیر آپ کے ہاتھ کے اروی بھی چلیں گے۔۔۔
اس نے بھی گویا احسان کیا تھا ان پر۔
سطوت آراء مسکرا کر بولیں
خیر اب ایسا بھی اندھیر نہیں، تم تھوڑا ٹھہرو تو تمھارے لیے کباب تل لیتی ہوں یا کہو تو پاستا بنا دوں۔۔۔؟
سطوت آراء اٹھنے لگیں
رہنے دیں خالہ جان میں کھا لوں گی۔۔۔
نورین نے انھیں کچن میں جانے سے روکا۔۔ارے بس پانچ منٹ کی ہی تو بات ہے؟
سطوت آراء کی تسلی کہاں ہوسکتی تھی۔۔۔ سو وہ اٹھ گئیں۔
اتنی دیر میں عشال چینج کرکے فریش سی کھانے کی ٹیبل پر پہنچ چکی تھی۔۔۔
سطوت آراء کے کچن میں جاتے ہی نورین بھی فریش ہونے کے لیے اٹھ گئی تھی۔۔
دونوں ساتھ ہی یونیورسٹی جاتی تھیں اور چونکہ کمبائن اسٹڈی کا دور چل رہا تھا تو واپسی میں لنچ بھی کمبائن ہی ہوتا تھا۔
نورین کے گھر میں کھانا کک بناتا تھا تو اسے کھانا عشال کے ساتھ ہی کھانا پسند تھا۔
کھانے میں اروی کی کڑی دیکھ کر عشال کے چہرے پر مسکراہٹ رینگ گئی۔۔ نورین کو اروی سے اللہ واسطے کا بیر تھا۔
مگر کباب لکڑی کے برادے کے ہوں تو بھی وہ کھا سکتی تھی۔ یہ اس کا اپنا قول تھا۔
عشال نے نورین کو آتا دیکھ کر پلیٹ اور ڈونگا اس کی سائیڈ پر سیٹ کیا اور خود ہاٹ پاٹ سے روٹی نکالنے لگی۔۔
رہنے دو بس یہ میرا اپنا ہی گھر ہے، جو چاہیے ہوگا لے لوں گی۔۔۔
عشال سے کہہ کر اس نے اپنی پلیٹ میں چاول کے ساتھ کباب رکھ لیے تھے۔
ہاں بھئی سسرال بھی اپنا ہی گھر ہوتا ہے کیوں نورین۔۔۔؟
عشال نے مسکراتی نظروں کے ساتھ اس سے کہا تو۔۔ نورین کا تیزی سے چلتا ہوا ہاتھ لمحے بھر کو رکا تھا۔۔ ساتھ ہی اس کا پیر حرکت میں آیا اور عشال نے بمشکل اپنی چیخ روکی تھی۔۔۔کیونکہ ٹیبل کے نیچے عشال کے پیر کو نورین نے اپنے پاؤں سے دبوچ لیا تھا۔
یہ عرصہء دراز سے گھر کے بڑوں کی خواہش تھی، اگرچہ باقاعدہ کوئی رسم نہ ہونے کے باوجود شہیر اور نورین کا رشتہ جیسے طے شدہ تھا۔ اور اس وقت تک نورین کو بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں تھا تو راوی چین ہی چین لکھ رہا تھا۔
اور سطوت آراء کا پسندیدہ موضوع چھڑ چکا تھا۔۔
ہاں ہاں کیوں نہیں اللہ میرے بچوں کو خوشیاں دے۔۔
وہ دعا دیتی ہوئیں پانی کا جگ لیے اٹھ گئیں۔
یہ کیا بدتمیزی تھی؟
نورین نے موقع ملتے ہی اسے آڑے ہاتھوں لیا۔
کیا؟
عشال مزے سے کھانے میں مصروف تھی۔
کم از کم خالہ جان کا تو لحاظ کر لینا تھا۔۔۔
اور عشال کا سارا غصہ نوالے پر اتر گیا۔
عشال اس کے چہرے کو دیکھتے ہنسے گئی۔۔
ماما جان سے تم جتنا ڈرتی ہو میں جانتی ہوں۔۔۔
وہ اب بھی مسکرا رہی تھی۔
بڑے دانت نکل رہے ہیں میڈم کے۔۔۔ اپنی باری آنے دو چن چن کر بدلے لوں گی تم سے۔۔۔۔
نورین نے اسے دھمکایا تھا۔
عشال نے اثر لیے بنا اسے کھلا میدان دیا۔۔۔
دیکھا جاۓ گا۔۔
تم سے اور شہیر ضیاء سے اللہ ہی پوچھے۔۔
نورین نے اس پر اثر نہ ہوتے دیکھ کر کہا تھا۔
ایسے ہی چھیڑ چھاڑ کرتے وہ کھانا ختم کر کے اٹھ گئیں تھیں۔۔۔
*********
یونیورسٹی میں کیا ہوا تھا؟ نورین نے فائل پر جھکی عشال کو مخاطب کیا تھا۔
آج تو بہت کچھ ہوا تھا۔ تم کس متعلق بات کررہی ہو؟
عشال نے ہنوز مصروف انداز میں سوال برائے سوال کیا تھا۔
وہ لڑکا۔۔۔ ہاں شامی!
شامی تم سے کیا کہہ رہا تھا؟
نورین نے براہ راست پوچھا۔
عشال کا چلتا ہوا قلم ذرا کو رکا۔۔۔اور
کچھ خاص نہیں۔۔۔
دوبارہ قلم میں پہلے سے زیادہ روانی آچکی تھی۔۔۔
وہ دونوں اس وقت اپنے اپنے اسائمنٹ تیار کررہی تھیں، جب نورین نے یہ موضوع چھیڑدیا تھا۔
کچھ نہ کچھ تو خاص تھا اس بات میں۔۔۔ ورنہ تمھارے چہرے کے یہ زاویے نہ ہوتے۔۔۔
نورین نے ایک بار پھراسے بغور دیکھا تھا۔
جب میں نے کہہ دیا کہ کوئی بات نہیں تھی تو تمھیں سمجھ لینا چاہیے کہ کوئی بات نہیں ہے!
عشال نے قلم روک کر نورین کی آنکھوں میں جھانک کر کہا تو وہ خاموشی اختیار کرنے پر مجبور ہوگئی۔۔۔
قدرے تؤقف کے بعد بولی۔
ویسے یونی میں کافی مقبول ہے۔۔۔اور کبھی کسی فضول ایکٹیوٹی میں بھی نظر نہیں آیا۔۔۔؟
عشال نے بنا توجہ دیے کہا
تم یہ پوچھ رہی ہو یا مطلع کررہی ہو؟
نورین اس کے غصے سے خائف نہ ہوتی تو اب تک جو کچھ اس کے دل میں تھا برملا کہہ چکی ہوتی،لیکن مسئلہ یہ تھا کہ وہ عشال کو اپنے اور اس کے بچپن سے جانتی تھی۔۔۔سو محتاط سا بولی۔
میں تو generally ایک بات کررہی تھی۔۔
عشال نے ایک بار پھر اسے ٹوکنا ضروری سمجھا تھا۔
اپنی general knowledge خود تک ہی محدود رکھو تو اچھا ہے۔۔۔ تم جانتی ہو میں دوسروں کی معلومات پر ڈیپینڈ نہیں کرتی۔۔۔
اتنا کہہ کر وہ پوائینٹر کو بند کر کے اٹھ گئی۔۔۔
مغرب ہورہی ہے، ہمیں اب اٹھ جانا چاہیے۔۔۔
یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ وہ اس موضوع پر کوئی بات نہیں کرنا چاہتی۔۔۔ مگر وہ بھی نورین تھی۔۔۔ایک عدد ڈھیٹ قسم کی کزن۔۔۔ جو دوست بھی تھی۔
********
نورین کو تو اس نے ٹال دیا تھا لیکن حقیقتا وہ اس کے خیال سے پیچھا نہیں چھڑا پارہی تھی۔ یوں تو اپنے کام سے کام رکھنا اس کی عادت تھی، مگر کچھ عرصے سے وہ اپنے آس پاس انجان سا حصار محسوس کر رہی تھی۔۔۔ جیسے وہ مسلسل کسی نظر کے حصار میں ہو۔ اور اس لڑکے۔۔۔ جس کا نام اشعر نے شامی لیا تھا، سے ملتے ہی اسے لگا تھا۔۔۔۔جس آگ کی تپش وہ دور سے محسوس کر رہی تھی۔۔۔یکایک اس نے اسے لپیٹ میں لے لیا ہو۔۔۔۔ چونکہ بات صرف محسوسات تک تھی تو وہ کسی کو موردالزام بھی نہیں ٹھہرا سکتی تھی۔۔۔شکایت کرتی بھی تو کس سے اور کیا؟ اس کی ہزار کوشش پر بھی چور پکڑ میں نہیں آیا تھا۔۔۔بس ایک انجان سی ڈسٹربنس تھی۔۔۔اور اس احساس کامنبع وہ جان نہیں پائی تھی۔۔۔۔بس دل کے کسی کونے سے اک ہلکی سی آواز ابھری تھی،" دور رہو"۔۔۔۔! اس کے علاوہ کچھ نہیں۔۔۔
ہان اتنا ضرور تھا کہ اس کے جھوٹ نے عشال کی نظر میں اسے ہلکا کر دیا تھا۔
*********
کچھ بھی ہوجائے آج پہلے پیٹ پوجا پھر کام دوجا۔۔۔۔
فری ہوتے ہی اشعر کا واویلا شروع ہوچکا تھا۔۔۔
اشعر تم اتنا کھاتے ہو پھر بھی تمھارا پیٹ نہیں بھرتا،نہ ہی تمھاری صحت پر کچھ اثر پڑتا ہے۔۔۔ آخر تمھارا کھایا پیا جاتا کہاں ہے؟
نورین نے اس کے شور سے زچ ہوکر پوچھا تھا۔
تم کیوں جیلس ہورہی ہو موٹی۔۔۔؟
اشعر نے اس کی چبی جسامت پر چوٹ کی تھی۔
جب وہ ایک دوسرے پر چڑھائی کرتے تو اسی طرح پورے ہتھیاروں سے لیس ہوکر کرتے تھے۔۔
ایکسکیوز می۔۔۔۔ میں موٹی نہیں ہوں اوکے۔۔۔؟
نورین کمر پر ہاتھ دھرے لڑنے مرنے کو تیار نظر آرہی تھی۔
اٹس اوکے نورین تم بھی اسے چھچھوندر کہہ سکتی ہو۔۔۔
تنزیلہ نے حساب برابر کرنا چاہا تھا۔۔۔
بھئی بحث بعد میں کرلینا مجھے سخت بھوک لگ رہی ہے اب کیفے ٹیریا میں ہی کوئی بات ہوگی۔۔۔ میری تو سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں بھی جواب دے رہی ہیں۔۔۔
اشعر نے خود ہی سیزفائر کروا دیا تھا۔۔۔
میں تم لوگوں کو بعد میں جوائن کر لوں گی۔۔۔
اتنا کہہ کر عشال نے قدم لائیبریری کی طرف اٹھانے چاہے تھے کہ۔۔۔۔
آپ کہاں چلیں میڈم؟
تنزیلہ نے اسے آواز دے ڈالی تھی۔
کلاس کے علاوہ جس دوسری جگہ محترمہ عشال صاحبہ جہاں پائی جاسکتی ہیں وہ لائیبریری کے علاوہ کوئی نہیں ہوسکتی۔۔۔
اشعر نے دعوے کے ساتھ کہا تھا۔
اور اس کی بات سے کسی کو بھی اختلاف نہیں تھا۔
تم ٹھیک کہہ رہے ہو اشعر لیکن آج یہ تاریخ بدلنے والی ہے۔۔۔نورین نے کہا اور عشال سے مخاطب ہوئی۔
عشال چار دن سے تم یہی کر رہی ہو۔۔۔ آج تمھاری نہیں چلے گی۔۔تم ہمارے ساتھ کیفےٹیریا چل رہی ہو۔۔۔۔۔بس!
اور ایک طرف سے اس کا بازو جکڑلیا۔۔ مزید کچھ کہنے کا موقع تنزیلہ اور اشعر نے بھی نہیں دیا اور ہاتھ جوڑتے مسکین شکلیں بناتے ساتھ چلنے کی ریکوسٹ کررہے تھے۔۔۔ عشال بھی ان کے اس ڈرامے سے متاثر ہو کر مسکراتی ہوئی ان کے ساتھ چل پڑی تھی۔
*********
اگلی بار وہ اسے کیفے ٹیریا میں نظر آیا تھا۔۔۔۔ سر جھکائے اپنے کام میں منہمک۔۔۔۔چند لڑکیوں کے گھیرے میں!
اشعر آرڈر لینے گیا تھا اور تنزیلہ اس کی مدد کےلیے۔۔۔۔
ہینڈسم لڑکا ہے۔۔۔۔اور گڈلکنگ بھی!
نورین نے عشال کی نظروں کے تعاقب میں دیکھ کر کہا تھا مگر یوں جیسے اخبار کی پرانی خبر پر تبصرہ کررہی ہو۔۔۔
ایکسکیوز می۔۔۔؟
عشال نے ناگواری سے نورین کی طرف نگاہ موڑی تھی۔۔
او کم آن عشال!
میں دیکھ رہی ہوں جب سے وہ تم سے ملا ہے۔۔۔ تمھاری توجہ مسلسل کھینچ رہا ہے۔۔۔
یا تو تم ڈسٹرب ہو یا پھر اسے نظرانداز نہیں کرپارہیں۔۔۔
مجھے بتاؤ کیا مسئلہ ہے۔۔۔؟
عشال نے سرخ چہرے کے ساتھ نورین کی طرف دیکھا۔۔مگر اس کے کچھ بولنے سے پہلے ہی نورین کہہ اٹھی۔۔
پلیز یار اب یہ مت کہنا کوئی بات نہیں ہے۔۔۔اگر کوئی بات نہ ہوتی تو تم یوں ڈسٹرب نہ ہوتیں۔۔
بالآخر عشال کو قفل توڑنا ہی پڑا۔۔۔
میں تم سے کہہ چکی ہوں کہ کوئی بات نہیں ہے۔۔۔۔اور نہ ہی میں ڈسٹرب ہوں اس کی یہ حیثیت نہیں کہ مجھے ڈسٹرب کرسکے۔۔۔انڈراسٹینڈ۔۔۔؟
اور منہ پھیر کر بیٹھ گئی۔
نورین نے اس کے چہرے کو بغور دیکھا اور بولی۔
اس نے تم سے کیا کہا تھا؟
نورین کی دوستانہ حمیت جاگ اٹھی تھی۔
اس نے مجھ سے جھوٹ بولا تھا کہ اس کی فزکس میں سپلی ہے اور میں اس کی ہیلپ کردوں۔ بس اتنی سی بات تھی۔
عشال نے بیزاری سے بات مکمل کی تاکہ نورین کی تشفی ہوسکے اور اس کی گلوخلاصی۔
تو پھر۔۔؟
نورین کا اگلا سوال تیار تھا۔
پھر یہ کہ خوش قسمتی سے اللہ نے مجھے بھی تھوڑی بہت عقل سے نواز رکھا ہے۔
اور بات ختم کردی۔
نورین مزید کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن تنزیلہ اور اشعر ہاتھوں میں برگر اور کولڈرنکس لیے دکھائی دیے تو اس نےبھی خاموشی اختیار کرلی تھی۔
********
شامی کی نظریں اس کی تلاش میں بھٹک رہی تھیں۔ یہ ناممکن تھا کہ وہ ہو اور شامی کی نگاہوں کا حصار اسے نہ گھیرے وہ ہمہ وقت اس کی نظروں کے حصار میں رہتی تھی۔۔۔۔چاہے کلاس روم ہو یا لان، لائیبریری ہو یا کینٹین۔۔۔۔
اب تو اس نے کلاسز بھی بنک کرنا شروع کردی تھیں صرف اس کی ایک نگاہ کے لیے۔۔۔۔ مگر اب وہ اس چھپن چھپائی کے کھیل کو ختم کر کے سامنے آنا چاہتا تھا۔۔۔ اسے اب اپنے دل کی بات عشال تک پہنچانی تھی۔۔۔
ہیلو! حسب معمول وہ کتابوں میں جھکی کوئی سوال حل کرنے کی کوشش کررہی تھی جب ایک آواز اس کی سماعت میں اتری تھی۔۔۔
عشال نے چونک کر سر اٹھایا تو وہ پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ دیے سامنے کھڑا تھا۔ چہرے پر دلکش سی مسکراہٹ تھی۔
میں اپنا جواب دے چکی ہوں۔
عشال نے رکھائی سے کہا اور دوبارہ نمیریکل میں گم ہوگئی جو کسی طرح حل ہو کے نہیں دے رہا تھا۔
لیکن میں تو آپ سے ایکسکیوز کرنے کے لیے آیا ہوں۔۔
وہ کھڑے کھڑے گویا ہوا تھا۔
مجھے آپ کے ایکسکیوز کی ضرورت نہیں ہے۔
عشال نے اسی عدم توجہی کا مظاہرہ کیا تھا
اچھا پھر پوچھ ہی لیں میں کس چیز کے لیے ایکسکیوزکرنا چاہتا ہوں؟
عشال نے کہا مجھے اس کی بھی ضرورت نہیں ہے۔۔
اور اٹھنے کے لیے چیزیں سمیٹنے لگی۔
آپ کیا ہر کام ضرورتا کرتی ہیں؟
وہ اب بھی جما کھڑا رہا۔
ایکسیوز می۔۔۔۔؟
اتنا کہہ کر عشال نے آگے بڑھنا چاہا تھا۔۔مگر وہ آڑے آگیا۔
پلیز ایک منٹ میری بات سن لیں۔۔۔؟
وہ التجایا انداز میں گھگھیایا تھا۔
آپ مجھے ڈسٹرب کررہے ہیں مسٹر۔۔
عشال ٹھٹک کر رکی تھی۔اس وقت وہ لان میں تنہا تھی۔اس کا فری پیریڈ تھا نورین اور اشعر کا بوٹنی کا پریکٹیکل تھا اور تنزیلہ کینٹین میں تھی۔ رول نمبر کی وجہ سے کلاس میں ان کے گروپ الگ الگ تھے۔
ابشام زبیر!
اس نے تیزی سے تعارف کروایا تھا۔
آپ جو کوئی بھی ہیں اس طرح بار بار میرا راستہ روکنے کا مقصد کیا ہے؟
اس کے ماتھے پر تیوریاں چڑھ گئ تھیں۔
یہی تو بتا چاہتا ہوں۔۔۔ آپ کو ڈسٹرب نہیں کرناچاہتا بس آپ کی روٹین میں تھوڑی سی جگہ چاہتا ہوں!
(دل تو چاہا تھا صاف کہہ ڈالے کہ دل میں جگہ چاہتا ہوں۔۔۔ لیکن یہ سب فی الحال بہت جلدی تھا)
کیوں؟
عشال نے بے لچک انداز میں کہہ ڈالا۔۔۔حقیقتا اس سوال کا تجسس اسے پہلے دن سے تھا۔
اونسٹلی آپ کی توجہ کے لیے۔۔۔!
اس نے صاف گوئی سے کہا اور عشال حیرت زدہ سی اسے دیکھ کررہ گئی۔
اس کی حسین آنکھوں میں حیرت۔۔۔۔ شامی کے لیے ایک اور جاں گسل تجربہ تھا۔
کیا چیز ہیں آپ۔۔۔۔؟
وہ بے اختیار کہہ گئی۔
لیٹ می تھنک۔۔۔۔ سچ بولتے ہیں تو لگتا ہے۔۔صاف گوئی آپ پر ختم۔۔۔
عشال کی ادھوری بات پر لبوں کو مسکراہٹ چھو گئی۔
اور جھوٹ ایسا کہ سامنے والا دھوکا کھا کر رہ جاۓ۔۔۔
فورا ہی اس کی مسکراہٹ سمٹی تھی۔۔
آخر آپ کی اصل شناخت ہے کیا؟ سچ یا جھوٹ؟
آخری بات کہتے ہوئے عشال کا لہجہ سپاٹ تھا۔
سچ یہی ہے عشال میں آپ کی تھوڑی سی توجہ حا صل کرنا چاہتا تھا۔۔۔اور جھوٹ کا سہارا بھی اسی لیے لیا تھا۔
وہ صاف گوئی سے کہہ گیا تھا۔
سوری مسٹر!
جھوٹ کی میری زندگی میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔۔۔
اتنا کہہ کر وہ رکی نہیں تھی۔
اور وہ اس انکار کے ساتھ اپنی زندگی کو مشکل راہ پر ڈال گئی تھی۔
جبکہ شامی اسی مقام پر کھڑا رہ گیا تھا۔
*********