شامی کاردوازہ مسلسل دستک کی زد میں تھا۔ وہ کنپٹیوں سے بالوں میں ہاتھ دیے جھنجھناتے اعصاب کو شانت کرنے کی کوشش کررہا تھا۔ لیکن دستک تھی کہ مسلسل جاری تھی۔ بالآخر اس کی برداشت جواب دی گئی وہ نینسی کو سبق سکھانے کی غرض سے ایک جھٹکے سے اٹھا تھا۔
اس نے زور سے دروازہ کھینچا سامنے آبریش کھڑی تھی۔
"دروازہ کھولنے میں اتنی دیر نہیں کرنی چاہیے کہ دستک دینے والا مایوس ہو کر لوٹ جائے۔"
آبریش خفگی سے کہتی دہلیز سے اندر داخل نہیں ہوئی تھی۔
"آئی ایم سو سوری! میں ذرا بزی تھا۔"
شامی نے پیشانی مسلتے ہوئے خفت سے کہا۔
"اب اجازت ہے یا لوٹ جاؤں؟"
آبریش نے شوخی سے پوچھا۔
"تم نے تو بلااجازت میری روح پر دل پر وجود پر قبضہ کرلیا ہے۔ تمہیں اجازت کی ضرورت نہیں۔"
شامی نے مسکرا کر آنکھیں اس کی آنکھوں میں گاڑ دیں۔ آبریش کی نظریں جھک گئیں۔ اس کی تقاضہ کرتی آنکھوں کا سامنا کرنا آسان نہیں تھا۔
"آؤ!"
شامی نے ذرا سا ہٹ کر آبریش کو راستہ دیا۔ لیکن اس کے قدم اٹھ نہیں سکے۔ شامی کی پیش قدمی کرتی نظروں کی وہ حوصلہ افزائی نہیں کرسکتی تھی۔ کچھ بھی تھا۔ آغا سمیع الدین انصاری کا خون اسے آگے بڑھنے سے روکے ہوئے تھا۔
"کہیں باہر چلیں؟"
آبریش نے جھجھک کر کہا۔
"شامی نے اس کے چہرے پر پھیلے رنگوں کو دلچسپی سے دیکھا اور ایک قدم بڑھا کر بولا۔
"شیور!"
اور آبریش کے ساتھ چل پڑا۔
___________________________________
"سر ابھی ابھی اطلاع ملی ہے۔ ایک آسٹریلوی خاتون نے ابشام زبیر کے خلاف کمپلین درج کروائی ہے۔"
مرتضی غوری کے ایک ماتحت نے عجلت میں انھیں مطلع کیا۔ مرتضی صاحب نے چونک کر سر اٹھایا اور بولے۔
"کس تھانے میں؟"
مرتضی غوری نے ہر قسم کے تاثر سے عاری چہرے کے ساتھ پوچھا۔
"سرڈیفنس تھانے میں۔"
ماتحت نے جواب دیا۔
"کمپلین ایمبیسی کے تھرو کروائی گئی ہے یا پرسنلی؟"
مرتضی صاحب نے اگلا سوال پوچھا۔
"پرسنلی۔"
ماتحت نے جواب دیا۔
"ٹھیک ہے۔ وہ جہاں بھی ٹھہری ہیں۔ اس جگہ کا پتا کرکے مجھے دو۔ اور کمپلن شیٹ کی کاپی بھی۔"
مرتضی صاحب نے ہدایات جاری کیں اور دوبارہ سے مصروف ہوگئیے۔جبکہ ماتحت سر ہلا کر واپس پلٹ گیا۔ اس کے جانے کے بعد مرتضی صاحب چند کچھ سوچتے رہے۔ اور پھر مطمئیں ہوکر سر جھٹک دیا۔ ابشام زبیر کے خلاف ان کے ہاتھ ایک سرا آچکا تھا۔ اور اس سرے سے اب جال بننا باقی تھا۔
__________________________________
"آبریش ضیاء دو بار انتظامیہ کے علم میں لائے بغیر کالج سے ہاف ڈے لیو کرچکی ہیں۔ اور دونوں مرتبہ انھون نے چوکیدار سے غلط بیانی کی ہے کہ پرنسیپل کی اجازت سے جارہی ہیں۔ آج تیسری بار بھی انھون نے یہ کوشش کی۔ چوکیدار کے منع کرنے پر بھی نہیں رکیں۔ مجبورا ہمیں آپ کو مطلع کرنا پڑا۔ کسی بھی ایکشن سے پہلے آپ کو انفارم کرنا ضروری تھا۔ فی الحال ہم نے ایکشن نہیں لیا۔ مگراب آپ ہی بتائیے اس سچویشن میں ہم کیا کریں؟ جبکہ انھیں وارننگ بھی دی چاچکی ہے۔"
لیڈی پرنسیپل اس وقت شہیر سے مخاطب تھی۔ اور اس کے چہرے کا سارا خون سمٹ کر کنپٹیوں میں دوڑنے لگا تھا۔ اس کے ذہن کے آخری کونے میں بھی یہ بات نہیں تھی کہ آبریش اسے اس بری طرح چیٹ کرے گی۔
پرنسیپل کی کال اس نے ہی ریسیو کی تھی۔ اور جب اسے کالج طلب کیا گیا تو وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ اسے یہ سننے کو ملے گا۔
شہیر ایک جھٹکے سے اٹھا اور کچھ بھی کہے بغیر پرنسیپل کے آفس سے نکلتا چلا گیا۔ پرنسیپل اس ردعمل کے لیے تیار نہیں تھی۔ حیرت سے اس کی خالی نشست کو دیکھتی رہ گئی۔
"نہ جانے کیسے لوگ ہیں؟ بیٹیوں کو آزادی دیتے ہوئے یہ تک بھول جاتے ہیں کہ وہ بیٹیاں ہیں۔ ان کی تربیت بھی کرنی ہوتی ہے۔"
پرنسیپل غصے سے بڑبڑا کر رہ گئی۔ بہرحال ان کا کام اطلاع دینا تھا۔ اب وہ بری الذمہ تھیں۔
____________________________________
خاموشی کے ماحول میں شامی کی آنکھیں سرگوشیاں کررہی تھیں۔ آبریش باربار اس کی نظروں کی تپش سے اپنے آپ میں سمٹ جاتی تھی۔ اور ایک دلفریب سی مسکراہٹ شامی کے ہونٹوں کو چھو جاتی۔
"یہ کیا ہے؟ اے۔زی! تم اتنی دیر سے مجھے اس طرح دیکھ رہے ہو۔ پلیز اب بس بھی کردو۔"
بالآخر آبریش نے کہہ ہی دیا۔
"کیوں تمہیں میری نگاہوں میں رہنا اچھا نہیں لگ رہا؟"
شامی کی گہری نظروں نے اس کے اندر تک جھانکا۔
"ایسی بات نہیں ہے۔ لیکن اب مجھے کچھ الجھن سی ہونے لگی ہے۔ ہم چپ رہنے کے لیے تو نہیں آئے ناں؟"
آبریش نے قدرے الجھ کر کہا۔ درحقیقت اس ساری صورتحال کو وہ ہضم نہیں کرپارہی تھی۔ اس سے پہلے کبھی چوری جو نہیں کی تھی۔
"کمال ہے؟ میں تو اس خاموشی کی سرگوشیوں کو بہت انجوائے کررہا ہوں۔ اور تمہیں الجھن ہورہی ہے۔ کیوں؟ کیا تمہیں میرا ساتھ اچھا نہیں لگ رہا؟"
شامی نے جوس کا گھونٹ حلق سے اتارا۔
"اچھا تو لگ رہا ہے۔ لیکن۔۔۔ایک عجیب سا گلٹ ہے۔ جو مجھے روز بےچین رکھتا ہے۔ سچ میں مجھے یہ سب اچھا نہیں لگتا۔"
آبریش نے سچائی سے اپنے دل کی کیفیت بیان کردی۔
"اس کا تو پھر ایک ہی حل ہے۔ لیکن ڈرتا ہوں تم پتہ نہیں اسے کیسے لو۔"
شامی نے اس کے تجسس کو ہوا دی۔ اور وہ کامیاب بھی ہوگیا۔
"کیا؟کھل کر کہو۔مجھے پہیلیاں بالکل نہیں پسند۔"
آبریش نے اسے لاتعلقی سے اطراف میں دیکھتےپاکر ناگواری کا اظہار کیا۔
"نکاح!" نکاح وہ واحد چیز ہے جو ہمارے ہر گلٹ کو ختم کرسکتا ہے۔"
شامی نے دھماکہ کیا۔
"کیا؟ یہ تم کیسی باتیں کررہے ہو؟ میرے گھر والے ہرگز نہیں مانیں گے۔"
آبریش کا بڑا سارا منہ کھل گیا تھا۔ جبکہ شامی اس کھیل کو اب زیادہ طول نہیں دینا چاہتا تھا۔
"ایگزیکٹلی! تمہارے گھر والے ہرگز نہیں مانیں گے۔ تو پھر تم کس چیز کے انتظار میں ہو؟ کوئی معجزہ نہیں ہوگا۔ آبریش! ہمیں خود ہی کوئی راستہ نکالنا پڑے گا۔"
شامی بہت سوچ سمجھ کر اپنے پتے کھیل رہا تھا۔
"تت۔۔۔۔تم کیا کہنا چاہ رہے ہو؟ کیسا راستہ؟"
آبریش اتنی بھی ناسمجھ نہیں تھی کہ شامی کے واضح اشارے نہ سمجھ سکتی۔ سوچ کر ہی اس کی سانس رکنے لگی تھی۔ ممکنہ نتائج کا وہ اندازہ کرسکتی تھی۔
"کورٹ میرج!" اگر تم ایگری ہو تو۔"
یہ شو ٹائم تھا۔
"نہیں اے۔زی! میں یہ حرکت نہیں کرسکتی۔ میرے پیرنٹس۔۔۔۔۔ان کا بہت بڑا نام ہے سوسائٹی میں۔۔۔۔ اگر میں نے یہ کیا تو سب برباد ہوجائے گا۔"
وہ ہتھے سے اکھڑ گئی تھی۔
شامی کے چہرے پر ایکدم تناوؤ پھیل گیا۔
ٹھیک ہے۔ پھر کرو کسی معجزےکا انتظار۔ کیونکہ تھرو پراپر چینل تو یہ کبھی نہیں ہوسکتا۔"
آبریش نے سر جھکا دیا۔ اس کی آنکھیں بھیگنے لگی تھیں۔
"سمجھنے کی کوشش کرو۔ اس کے بغیر یہ ممکن نہیں۔"
شامی نے اپنے لہجے میں شہد سمو کر کہا۔ اسے ہر حال میں یہ ٹاسک جیتنا تھا۔
"میں مجبور ہوں اے۔زی! کچھ بھی ہوجائے کورٹ میرج نہیں کرسکتی۔ ہماری فیملی کے لیے یہ بہت بڑا اسکینڈل ہوگا۔"
آبریش میں اتنا بڑا قدم اٹھانے کی جرأت نہیں تھی۔شامی بری طرح بدمزہ ہوا تھا۔ لیکن صبر کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں تھا۔ زبردستی سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں تھا۔ ورنہ وہ یہ بھی کرگزرتا۔
"اٹس اوکے! تم ٹینشن تو مت لو۔ ہم کوئی نہ کوئی حل ڈھونڈ ہی لیں گے۔ آخر یہ تو طے ہے ناں کہ زندگی ہم نے ساتھ گزارنی ہے۔ ہممم؟"
شامی نے اس کے آنسو پونچھتے اسے تسلی دی تھی۔ اور وہ ڈولتے ہوئے قدرے سنبھل گئی تھی۔
ریت میں منہ چھپائے کبوتر سے دنیا اوجھل ہوسکتی ہے۔ لیکن دنیا کی نظروں سے کبوتر اوجھل نہیں رہ سکتا۔ آبریش بھی شامی کے ساتھ بیٹھی سب کچھ فراموش کیے بیٹھی تھی۔ لیکن کسی نے بہت دکھ سے اس ناقابل فراموش منظر کو آنکھوں میں اتارا تھا۔
___________________________________
"السلام علیکم! میں عشال سے ملنا چاہتا ہوں۔"
وہ ضیاءالدین صاحب کے سامنے تن کر کھڑا تھا۔ ہمیشہ کی طرح جاذب نظر۔
"تم؟ آپ نے ہمیں کیا اتنا ہی بےحیا سمجھ لیا ہے برخوردار! کہ تمہاری یہ بےتکی فرمائش پوری کردی جائے گی؟ کیا سوچ کر قدم رکھا ہے تم نے یہاں؟ اور عشال کا تو نام بھی اپنی زبان کیسے لائے؟"
ضیاءالدین صاحب اپنے سامنے کھڑے شخص کی جرأت پر حیران تھے۔
"آپ کو پریشان کرنا میرا مقصد نہیں۔ آپ بس ایک بار عشال کو بلوا دیجیے۔ میں صرف ایک بار اس سے ملنا چاہتا ہوں۔ آپ کی اجازت سے۔"
اس کا سر جھکا ہوا تھا۔ لہجہ بجھا ہوا اورچہرے پر لمبی مسافت کے نشان تھے۔
"ہرگز نہیں! تم اب ایسا کوئی حق نہیں رکھتے۔ بہتر ہے واپس چلے جاؤ اس سے پہلے کہ میری ہمت جواب دے جائے۔"
ضیاءالدین صاحب نے سخت لہجے میں اسے باور کرایا۔
"ٹھہرئے ماموں جان! یہ آغا سمیع الدین کی دہلیز ہے۔ جنھوں نے اپنے دروازے سے دشمن کو بھی خالی ہاتھ نہیں لوٹایا۔ کہیے صارم برہان! ساڑھے سات سال بعد کون سی ضرورت آپ کو یہاں کھینچ لائی ہے؟"
عشال اپنے کمرے سے ضیاءالدین صاحب کی آواز سن کر آئی تھی۔ وہ ابھی ابھی ضیغم کو اس کے دروازے پر چھوڑ کر نیچے گئے تھے کہ عشال کو ضیغم کی بات ادھوری چھوڑ کر آنا پڑا۔
"تھینک یو عشال! زیادہ وقت نہیں لوں گا تمہارا۔ اپنے جرم کا اعتراف کرنا چاہتا ہوں۔ خود کو ایک بوجھ سے آزاد کرنا چاہتا ہوں۔ کہ اب اسے سہارنا مشکل ترین ہورہا ہے۔ تمہاری پاکیزگی پر شک کرکے کچھ نہیں بگاڑا سوائے اپنی ذات کے۔"
اتنا کہہ کر صارم نے سانس کھینچی جیسے بولنے کے لیے لفظ نہ بچے ہوں۔
"اور کچھ کہنا چاہتے ہیں آپ؟"
عشال نے بمشکل خود کو مضبوط کیے پوچھا۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے آہستہ سے گرل کو تھاما تھا۔ ایک بار پھر اس سرد رات کا لمحہ لمحہ اور بےکسی اسے یاد آئی تھی۔
"ہاں! میں بدنصیب تھا۔ جو تمہارا نصیب نہ بن سکا۔"
صارم نے بجھی آنکھوں کے ساتھ ایک حسرت بھری نگاہ اس پر ڈالی تھی۔ اور تیزی سے باہر نکلتا چلا گیا تھا۔
"میں تمہیں نہیں خود کو برباد کیا تھا عشال! میرے دل کا نگر تمہارے جانے سے ایسا اجڑا کہ پھر اسے چاہ کر بھی نہ بسا سکا۔"
وہ بھیگی آنکھوں کے ساتھ خود سے اعتراف کرتا ہوا جارہاتھا۔
"آپ کچھ کہہ رہے تھے شاید؟"
عشال نے ضیغم کی طرف دیکھ کر کہا۔ جو اپنی ادھوری عرض لیے اس کے پاس آیا تھا۔ اور عشال نے اسے کہنے سے پہلے ہی روک دیا تھا۔
ضیغم کے چہرے پر مسکراہٹ کھیل گئی۔
"صرف ایک لمحہ زیست چاہیے۔۔۔۔۔ عشال! تمہارے ساتھ! تم میری آخرشب کی دعا ہو۔"
عشال دم بخود اس شخص کو دیکھ کر رہ گئی۔
صرف ایک سجدے کی دیر تھی۔ اور اس کے رب نے اپنی عطا کے خزانے اس پر کھول دیے تھے۔
__________________________________
شہیر نے چٹاخ سے آبریش کے چہرے پر تھپڑ جڑ دیا۔ وہ اس کے پیچھے ہی گھر میں داخل ہوا تھا۔ اور اس کی اس حرکت پر لاؤنج میں موجود ہر شخص نے اسے پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھا۔
"شہیر!"
ضیاءالدین صاحب کے منہ سے بےاختیار نکلا تھا۔ آبریش لڑکھڑا کر ان کے بازوؤں میں گری تھی۔ اگر وہ بروقت نہ تھام لیتے تو وہ فرش پر ڈھیر ہوچکی تھی۔
"پوچھیں اس سے کہاں سے آرہی ہے؟ اور کس کے ساتھ ہماری عزت کا جنازہ نکال رہی ہے یہ آپ کی لاڈلی!"
غصے کے مارے شہیر کی آواز پھٹ رہی تھی اور تنفس بے لگام تھا۔
"ضیاءالدین صاحب نے حیرت سے آبریش کو دیکھا جو ان کے بازوؤں میں سسک رہی تھی۔ اور کچھ بولنے کے قابل نہیں تھی۔
"اس نے جو کچھ بھی کیا ہو۔ میں تمہیں اس حد تک جانے کی اجازت نہیں دیتا۔ تم نے ہاتھ کیوں اٹھایا؟"
ضیاءالدین صاحب کو حقیقتا تکلیف ہوئی تھی۔ ان کا دل مٹھی میں آگیا تھا۔ انھوں نے کبھی اپنی بیٹی سے سخت لہجے میں بات تک نہیں کی تھی۔
"آپ نہیں جانتے بابا! یہ آپ کی محبت کے قابل ہی نہیں ہے۔ ہم سب کے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے اس نے۔ دھوکہ دیا ہے مجھے۔ جھوٹ بولا ہم سب سے۔"
شہیر کے جملے بے ربط تھے۔ مگر آنکھوں میں آئے غیظ کے آنسو تواتر سے گر رہے تھے۔
"جو بھی ہے۔ تمہیں مجھ سے بات کرنی چاہیے تھے۔ ایکدم اس طرح سے ہاتھ اٹھانا؟ یہ تربیت کی ہے ہم نے تمہاری؟"
ضیاءالدین صاحب کی تیوریوں پر بل ہی بل تھے۔
"پھر پوچھیے اس سے۔۔۔ کہاں تھی یہ سارا دن؟"
شہیر کا بس نہیں چل رہا تھا۔ آگے بڑھ کر آبریش کو صفحہءہستی سے مٹادے۔
"آبریش۔۔۔۔؟ بھائی کچھ پوچھ رہا ہے۔ جواب دو!"
سوال کرتے ہوئے ضیاءالدین صاحب کے لہجے میں مان اور بھرپور اعتماد تھا۔ وہ کبھی نہیں سوچ سکتے تھے کہ ان کی بیٹی ان کا سر نیچا کر سکتی ہے۔
سطوت آراء پریشانی سے سارے منظر کو ملاحظہ کررہی تھیں۔ دکھ اور تکیف تو انھیں بھی ہوئی تھی لیکن شہیر کے الفاظ بدترین طوفان کا پیش خیمہ لگ رہے تھے۔
"میں۔۔۔ بابا! وہ!"
آبریش کے لفظ لڑکھڑائے۔ شہیر کے سامنے وہ جھوٹ بول نہیں سکتی تھی۔ اور سچ کہنے کی وہ خود میں ہمت نہیں پارہی تھی۔
"جھوٹ مت بولنا آبریش! کیونکہ اس سے تمہیں کچھ حاصل نہیں ہوگا۔"
شہیر نے کاٹ دار لہجے میں اسے متنبہہ کیا۔
آبریش نے جی کڑا کیا اور اپنی تمام تر ہمت جمع کر کے کہہ ڈالا۔
"ممم۔۔۔میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتی بابا!"
اور آنکھیں بھینچ لیں۔
"اس مکمل تعارف نہیں کرواؤ گی؟ بابا سے؟ اس کا نام بھی بتاؤ انھیں۔"
شہیر نے طنز میں بھجے لفظ آبریش پر الٹائے۔ ضیاءالدین صاحب کو ٹھیس پہنچی۔ لیکن وہ مکمل سچ سننا چاہتے تھے۔ اس لیے خاموش رہے۔
"آبریش۔۔۔۔!"
سطوت آرء ضبط نہ کرسکیں۔
"کوئی کچھ نہیں بولے گا۔ کہو آبریش! کون ہے وہ؟۔"
ضیاءالدین صاحب نے ہاتھ اٹھا کر سطوت آراء کو روک دیا تھا۔
آبریش کی زبان لڑکھڑائی۔
"ابشام زبیر!"
شہیر مزید ضبط نہیں کرسکا اور ضیاءالدین صاحب کو جواب دے دیا۔
ضیاءالدین صاحب نے آبریش کے چہرے پر نظریں گاڑ دیں۔ انھیں اپنی سماعتوں پر یقین نہیں آیا۔ مگر آبریش کے جھکے ہوئے سر نے شہیر کے کہے کی تصدیق کردی۔
آبریش کے گرد پھیلے ان کے ہاتھوں کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی۔ سطوت آراء صوفے کو تھام کر گر سی گئیں۔ انھیں سمجھ نہیں آیا۔ ان کی بیٹی کانٹوں کی یہ راہ کیسے منتخب کرسکتی ہے؟
"شہیر کیا کہہ رہا ہے؟ آبریش؟"
ضیاءالدین صاحب نے اسے جھنجھوڑ ڈالا۔
"بابا! وہ شرمندہ ہے۔۔۔۔آپ سے، عشال آپی سے معافی مانگنا چاہتا ہے۔۔۔۔۔۔۔وہ آپ سے بات کرنا چاہتا ہے بابا!۔۔۔۔۔پلیز ایک بار اس سے مل لیں۔۔۔۔پلیز بابا!"
آبریش ان کی منتیں کررہی تھی۔ اس کا چہرہ اپنے ہی آنسوؤں سے تر تھا۔
"سطوت! لے جائیں اس کو یہاں۔ میری نظروں سے دور کردیں اسے۔۔۔۔! میں اس کا چہرہ نہیں دیکھنا چاہتا۔"
وہ اتنی زور سے چلائے تھے کہ سطوت آراء لرز کر کھڑی ہوئی تھیں۔ وہ پہلی بار اس طرح گرجے تھے۔ سطوت آراء اپنا صدمہ بھول گئیں۔ اور تیزی سے آبریش کی طرف بڑھیں۔
"بابا پلیز!!!"
آبریش بضد تھی۔ مگر سطوت آراء اسے گھسیٹ کر اپنے ساتھ لے گئیں۔ شہیر تھک کر وہیں بیٹھ گیا۔ اور سر کو دونوں ہاتھوں پر گرادیا۔
ضیاءالدین صاحب اس کے روبرو بیٹھ گئے۔
"تمہارے علم میں کب سے تھا یہ سب؟"
ضیاءالدین صاحب کے لہجے میں دکھ کی چبھن تھی۔
"لکیر پیٹنے کے بجائے ہمیں آگے کے بارے میں سوچنا ہےبابا! اس سے پہلے کہ آبریش مزید آگے بڑھے۔ آپ اس کا نکاح کردیں۔ اس مسئلے کا یہی حل ہے۔"
"نکاح؟"
ضیاءالدین صاحب ٹھٹک گئے۔
"شہیر نے ایکدم ان کے چہرے کو دیکھا۔
"میرا مطلب ہے۔ ابھی پانی سر سے نہیں گزرا۔ لیکن اگر ہم نے جلد کچھ نہیں کیا تو، سر سے گزر بھی سکتا ہے۔"
شہیر نے اپنے خدشات بیان کیے۔
"نکاح بچوں کا کھیل نہیں ہے شہیر! یہ لڑکی ہماری عزت کو تماشہ بنانے پر تلی ہے۔ اور میں اپنی عزت پر کوئی رسک نہیں لے سکتا۔"
ضیاءالدین صاحب کی بات اپنی جگہ درست تھی۔ شہیر نے ایک لمحہ سوچا اور پھر بولا۔
"اگر آپ اجازت دیں تو زعیم کے لیے مرتضی انکل سے بات کرلیتے ہیں۔ گھر کی بات گھر میں رہ جائے گی۔"
شہیر نے ان کے سامنے ایک آپپشن رکھا۔
"کیا کہہ رہے ہو؟ زعیم؟ مجھے شرم آئے گی مرتضی سے۔ زندگی بھر آنکھ نہیں ملاسکوں گا میں مرتضی سے۔ اگر اس لڑکی نے کوئی ایسی ویسی حرکت کردی تو؟"
ضیاءالدین صاحب نے بےبسی سے شہیر کو دیکھا۔
"آپ اس کی فکر نہ کریں۔ حالات ٹھیک ہونے تک ہم رخصتی نہیں کریں گے۔ لیکن نکاح ہوگیا تو ابشام زبیر کچھ نہیں کرسکے گا۔"
شہیر نے انھیں تسلی دی۔
"مرتضی سے کیا کہیں گے؟ وہ یقینا ہم سے سوال کر گا۔"
ضیاءالدین صاحب کا داماغ ماؤف ہورہا تھا۔
"مرتضی انکل کو اعتماد میں لینا پڑے گا۔ ورنہ یہ ان کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ لیکن مجھے پوری امید ہے وہ انکار نہیں کریں گے۔"
شہیر نے باپ کی ہمت بندھائی۔
"اور زعیم؟ زعیم اگر نکاح کے لیے راضی نہ ہواتو؟ آج کل میں وہ پنڈی کے لیے نکل جائے گا۔"
ضیاءادین صاحب کا ذہہن کسی ایک نکتے پر ٹھہر نہیں رہا تھا۔
"زعیم انکار نہیں کرے گا۔ اس کی گارنٹی میں آپ کو دیتا ہوں۔"
شہیر نے ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر یقین دہانی کرائی۔
"جیسے تم مناسب سمجھو۔ مجھے اس لڑکی نے سوچنے سمجھنے کے قابل نہیں چھوڑا۔
ضیاءالدین صاحب سخت الجھے ہوئے تھے۔ شہیر نے ایک بار پھر اس کے ہاتھ تسلی آمیز انداز میں تھپتھپائے تھے۔
___________________________________
شام کے سائے سر اٹھا رہے تھے۔ مگر آبریش نے کمرے سے باہر جھانکا تک نہیں تھا۔ جس وقت سے سطوت آراء اسے کمرے میں چھوڑ کر گئی تھیں۔ وہ یونہیں بےسدھ پڑی آنسو بہارہی تھی۔ اس نے دن کا کھانا بھی نہیں کھایا تھا۔ لیکن غم وغصہ کی کیفیت نے بھوک پیاس سب اڑادی تھی۔ حالانکہ شامی نے اسے لنچ کے لیے اصرار بھی کیا تھا مگر وہ نہیں مانی تھی۔ شامی کے ساتھ اس نے صرف جوس کا ایک گلاس پیا تھا۔
"کھانا کھالو۔"
عشال کھانےکی ٹرے سجائے اس کے کمرے میں داخل ہوئی تھی۔ دوپہر میں ہونے والے ہنگامے سے وہ انجان نہیں تھی۔کسی سفلی منتر کی طرح ابشام زبیر کے نام نے ایک بار پھر اس گھر پر نحوست پھیلا دی تھی۔
"یہ سب آپ کی وجہ سے ہورہا ہے۔"
آبریش نے انتہائی بدتمیزی سے عشال کو مخاطب کیا اور اس کی بات پر کان نہیں دھرے۔
عشال کے دل میں ایک ٹیس سی اٹھی۔ اس کے چہرے پر شہیر کا ہاتھ نشان چھوڑ گیا تھا۔
"وہ اچھا انسان نہیں ہے آبریش!"
عشال نے اسے سمجھانا چاہا۔
"صرف اس لیے کہ اس نے محبت کی اور جائز طریقے سے اسے حاصل کرنا چاہا؟ آپ اسے سمجھ ہی نہیں سکیں!"
اتنا کہہ کر وہ رخ موڑ گئی۔
"یہ سچ نہیں ہے آبریش! وہ تمہیں تصویر کا غلط رخ دکھا رہا ہے۔ پلیز اپنا آپ ہلاکت میں مت ڈالو۔ وہ سچا نہیں ہے۔"
عشال نے اس کی منت کی۔
"میں سونا چاہتی ہوں۔"
آبریش نے چادر جھاڑی اور سر سے پیر تک تان لی۔ یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ وہ کچھ بھی سننے کو تیار نہیں ہے۔ عشال بےبسی سے اسے دیکھ کر رہ گئی۔ اور ناکام و نامراد واپس لوٹ آئی۔
عشال کے جاتے ہی اس نے دروازہ لاک کردیا اور واپس بیڈ پر چلی آئی۔ تکیے کے نیچے اس کا موبائل کپکپا رہا تھا۔
"کیاہوا؟ کال کیوں نہیں پک کررہی تھیں؟ تم ٹھیک تو ہو ناں؟"
شامی کے لہجے میں فکرمندی تھی۔ جبکہ ہاتھ میں شراب کا گلاس تھا۔
"میں بالکل بھی ٹھیک نہیں ہوں! بھائی کو سب پتہ چل گیا ہے۔"
آبریش نے رندھی ہوئی آواز میں کہا۔ ایک بار پھر اس کا گال سلگنے لگا تھا۔
"ڈیٹس گڈ!"
شامی نے تبصرہ کیا۔ ساتھ چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ بھی کھیل گئی۔
"بھائی نےمیرے ساتھ اتنا مس بی ہیو کیا ہے۔ گھر والے میری صورت دیکھنے کے روادار نہیں۔ اور تم اسے گڈ کہہ رہے ہو؟"
آبریش کو اس کی منطق سمجھ نہیں آئی تھی۔
سوری! میرا وہ مطلب نہیں تھا۔ میں تو صرف اس لیے کہہ رہاتھا کہ اب انھیں ایک ٹیبل پر لایا جاسکتا ہے۔ اب انھیں ہماری بات سننا پڑے گی۔ ویسے ایک بات کہوں؟ اتنا سب کچھ تو میں بھی ایکسیپٹ نہیں کررہا تھا۔ تھوڑے بہت ری ایکشن کی توقع تو مجھے تھی۔ لیکن ایسا غیر انسانی سلوک؟ آئی ایم سوری! تمہارے گھر والے بہت ہی وحشی ہیں۔"
آبریش کو شامی کا لہجہ پسند آیا تھا نہ لفظ۔ مگر اس کی بات درست لگی تھی۔
"شاید غیرت کے معاملے میں سب ایسے ہی انتہا پسند ہوجاتے ہیں۔"
آبریش کی دکھی آواز ابھری۔
"غیرت مائی فٹ؟ ایک انسان سے زیادہ کوئی چیز اہم نہیں۔ یہ محض ایک لفظ ہے۔ جسے اس ملک کے مردوں نے عورتوں پر اپنی نام نہاد حاکمیت تھوپنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ ورنہ ہر انسان کو اپنی مرضی سے زندگی جینے کا پورا حق ہے۔"
شامی نے خشک ہوتے حلق کو گلاس میں ہلکورے لیتے مشروب سے تر کیا۔ دوسری طرف اس کی جذباتی تقریر خاطرخواہ اثر دکھا چکی تھی۔
"مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا اے۔زی! ماما بابا مجھ سے سخت خفا ہیں۔"
آبریش نہ ایک ہاتھ سے ماتھے کو چھوا۔ اس کے سر میں ٹیسیں اٹھنے لگی تھیں۔ وہ سخت دباؤ کا شکار تھی۔
"کرنا بھی چاہیے۔ کوئی بھی پیرنٹس ہوں۔ انھیں کبھی اچھا نہیں لگے گا۔ ان کی اولاد کالج بنک کرکے دوستوں کے ساتھ پارٹی کرتے پھریں۔ ان کا ری ایکشن جائز ہے۔ ہاں تمہارے ساتھ تھوڑا زیادہ ہوگیا۔ مگر تم پریشان مت ہو۔ میں ان سے ملنے آرہا ہوں۔ آئی ہوپ وہ معاملے کو انڈراسٹینڈ کریں گے۔"
شامی نے ایک اور تلخ گھونٹ حلق سے اتارا۔
"نہیں اے۔زی! تم مت آنا! سب بہت غصے میں ہے۔ خدانخواستہ تمہارے ساتھ کچھ برا نہ ہوجائے؟"
آبریش ایکدم سے اس کے لیے فکرمند ہوئی تھی۔
"زیادہ سے زیادہ کیا ہوگا؟ مجھے بےعزت ہی کریں گے ناں؟ لیکن میں تمہیں اس وقت تنہا نہیں چھوڑ سکتا۔ ہم نے محبت کی ہے۔ اور محبت سب کچھ بانٹنے کا نام ہے۔ غم ہو یا خوشی! میں کل آرہا ہوں بس! اپنے پیرنٹس کو انفارم کردو۔"
شامی نے فیصلہ سنا کر رابطہ منقطع کردیا۔ آبریش کی پریشانی سوا ہوگئی۔ وہ پریشانی سے ناخن چبانے لگی۔
"پتہ نہیں کل کیا ہو؟ یہ اے۔زی بھی ناں؟ بہت ہی ضدی انسان ہے۔"
وہ سوچ کر رہ گئی۔ پہلے ہی پریشانی کیا کم تھی کہ اب یہ نئی مصیبت!
اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے، کیا نہ کرے؟ جب کچھ سمجھ نہ آیا تو اضطراری انداز میں ٹہلنے لگی۔
"اے۔زی ٹھیک کہتا ہے۔ میں یہ سب اکیلی کیوں فیس کروں؟ وہ خود ہی ہینڈل کرلے گا ماما بابا کو۔ لیکن ایک بار تو مجھے ماما سے بات کرنی ہی ہوگی۔ انھیں بتانا تو پڑے گا؟ کول آبریش کول! جو ہوگا دیکھا جائے گا۔"
وہ خود کو حوصلہ دیتی ہمت کرکے کمرے سے باہر نکل آئی۔ اس کا رخ ماں باپ کے بیڈروم کی طرف تھا۔
اگرچہ رات کا ابھی آغاز تھا۔ مگر گھر میں چہل پہل مفقود تھی۔ ضیاءالدین صاحب مغرب پڑھ کر آچکے تھے۔ سطوت آراء نماز پڑھ کر ابھی فارغ ہوئ تھیں اور رات کے کھانے کی تیاری کے لیے کچن کی طرف جارہی تھیں کہ ضیاءالدین صاحب راستے میں ہی انھیں روک لیا۔
"اچھا ہوا آپ یہیں مل گئیں۔ میں آپ کی طرف ہی آرہا تھا۔"
""چلیے!"
سطوت آراء واپس کمرے میں چلی آئیں۔
"میں شہیر کے ساتھ مرتضی کی طرف جارہا ہوں۔ شہیر نے اسے اطلاع کردی ہے۔ وہ ہمارا انتظار کررہا ہے۔ ہم بات طے کرکے ہی لوٹیں گے۔ آج یہ رشتہ ہر حال میں فائنل ہوجانا چاہیے۔ تم آبریش کا خیال رکھنا۔"
سطوت آراء نے ہولے سے سر اثبات میں ہلادیا لیکن صاف محسوس ہوتا تھا۔ وہ اس فیصلے سے خوش نہیں ہیں۔
"آپ کچھ کہنا چاہتی ہیں؟"
ضیاءالدین صاحب نے ان کا چہرہ کھوجتے ہوئے کہا۔
"زعیم اچھا لڑکا ہے۔ لیکن یہ سب بہت جلدی نہیں ہے؟ آپ ایک بار اپنے فیصلے پر نظرثانی تو کرلیں۔
"مجھ میں اب بدنامی سہنے کا حوصلہ نہیں ہے۔ بیگم! ہم اب پیچھے نہیں ہٹ سکتے۔"
اتنا کہہ کر ضیاءالدین صاحب اٹھ کھڑے ہوئے۔
"آبریش کی سانس حلق میں ہی اٹک گئی۔ وہ بات کرنے کی غرض سے آئی تھی۔ لیکن ضیاءالدین صاحب کے الفاظ نے دروازے پر ہی اس کے قدم جکڑ لیے تھے۔ وہ جیسے آئی تھی ویسے ہی دبے قدموں لوٹ گئی۔ اور کمرے میں آکر دم لیا۔
"زعیم۔۔۔۔۔؟ میرے لیے پوری دنیا میں ایک وہی الو ملا تھا انھیں؟ اتنا بڑا بوجھ بن گئی ہوں آپ سب کے لیے؟"
اس کی آنکھیں ایک بار پھر بہنے لگی تھیں۔ وہ تکیے میں منہ دیے اپنے حال پر خود ہی سسکتی رہی۔
"ہرگز نہیں! ماما بابا! میرے معاملے اگر آپ لوگ خودغرض ہوسکتے ہیں تو میں کیوں نہیں؟"
اس نے لپک کر فون اٹھایا تھا۔ اور جلدی سے میسیج ٹائپ کیا۔
"میں نکاح کےلیے ریڈی ہوں۔ جتنی جلدی ہوسکے مجھے آکر لے جاؤ!"
سینڈ کا آپشن کلک کرنے سے پہلے ایک بار اس کا انگوٹھا کپکپایا۔۔۔۔ مگر دوسرے ہی لمحہ وہ کلک کرچکی تھی۔
______________________________