السلام علیکم آغاجان۔۔۔۔! کمرے کی دہلیز پر پہنچتے ہی ضیاءالدین صاحب نے پکارا۔۔آغا جان اس وقت تک جاگ چکے تھے اور عشال کے ہی منتظر تھے۔۔۔جب یہ خوش گوار سا حیرت کا جھٹکا ان کی پوری کسلمندی دور کرگیا۔۔۔
ارے۔۔ ؟ ضیاءالدین۔۔۔۔؟ اچانک۔۔۔۔؟ اطلاع کردیتے ضیغم کو بھیج دیتے۔۔۔ ذرا سا نیم دراز ہو کر بیٹھنے کے بعد اب وہ مسکرا رہے تھے۔۔۔ اپنی کیفیات بیان کرنے کےلیے انھیں الفاظ کی ضرورت نہیں تھی۔۔مسرت کے آثار ان کے چہرے سے ہویدا تھے۔۔۔ ارے نہیں۔۔۔میں آپ لوگوں کو پریشان نہیں کرنا چاہ رہا تھا۔۔۔ویسے بھی میرا پروگرام تو بس اچانک ہی بن گیا، سوچا اس بہانے آپ لوگوں سے ملاقات ہوجاۓ گی۔۔۔آغا جان نے مسکرا کر کہا۔۔کیوں نہیں کیوں نہیں۔۔ تمھارا اپنا گھر ہے جب چاہے آؤ۔۔ مگر اتنا لمبا سفر کرکے آۓ ہو تو خیریت سے ہی آۓ ہوگے۔۔۔۔؟ بظاہر وہ خوش دلی سے پوچھ رہے تھے لیکن اندر اندر دل کو کچھ کھٹکا سا لاحق ہوا تھا۔۔۔نہ جانے کیا بات انھیں یہاں تک کھینچ لائی تھی۔۔۔
عشال! بیٹا ناشتہ یہیں لگا دو میں آغاجان کے پاس ہی بیٹھنا چاہتا ہوں کچھ دیر۔۔۔۔
وہ اچانک ہی اس سے مخاطب ہوۓ تھے۔۔۔
جی بہتر۔۔۔ماموں جان۔!
وہ محسوس کر چکی تھی کہ ضیاءالدین صاحب یہ موضوع فی الحال اس کے سامنے نہیں چھیڑنا چاہتے تھے۔ سو خاموشی سے کچن میں چلی آئی۔ رات انھوں نے سفر میں گزاری تھی اور فلائٹ کا کھانا انھیں پسند نہیں تھا۔۔۔اتنی تھکن کے باوجود وہ آرام کے بجاۓ بات کرنے کوترجیح دے رہے تھے تو بات یقینا اہم ہوگی۔۔
جی آغا جان سب خیریت ہی ہے۔۔
وہ اطمینان سے ان کی طرف متوجہ ہوۓ۔۔۔ابھی تو آرام سے ناشتہ کیجیے پھر سکون سے بات کریں گے۔۔۔آپ سنائیں اب کیسی طبیعت ہے آپ کی؟
طبیعت کو چھوڑو ضیاءالدین! جسم میں جان ہے تو سمجھو سب خیریت ہی ہے۔۔ تم وہ بات کرو جس کے لیےاتنا تردد کیا ہے۔۔۔
آغا جان کا اطمینان رخصت ہوچکا تھا۔۔۔اور اصل موضوع سے ہٹنا نہیں چاہتے تھے۔۔
میں عشال کو لینےآیا ہوں اور آپ کو بھی۔۔۔ بالآخر بھاری سینے کو سل سے آزاد کیا۔۔۔ کمرے کی دہلیز پر کھڑی عشال کے ہاتھ میں لرزا پیدا ہوا تھا۔۔
تو کیا دنیا کا حافظہ اتنا ہی تھا۔۔۔؟
کیا اس کی ذات سے جڑے حادثات فراموش کردیے گۓ تھے۔۔۔؟ کیا اس کے دامن سے چمٹی آگ کے شعلےسرد پڑگۓ۔۔۔؟
کیا اس کی داغ داغ ذات اتنی معتبر ہوگئی کہ اسے بھی سانس لینے کا حق دیا جا سکتا ہے؟
ان گنت سوال تھے جو اس کا سینہ پھاڑ کر نوک زباں تک آیا چاہتے تھے۔۔۔مگر سماعت آغا جان کے لفظوں میں الجھ کر رہ گئی۔۔۔
ہاہ۔۔۔۔اک سرد آہ ان کی سانسوں کے زیروبم میں لہرائی۔
ہماری کیا کہتے ہو۔۔ ضیاءالدین! چراغ سحری کی بھی منزلیں ہوتی ہیں بھلا۔۔۔؟ ہاں عشال کی ہی فکر تھی سمجھ نہیں آتا تھا کیا کریں۔۔۔؟ عجب ضد باندھ لی ہے اپنے آپ سے اس نے۔۔۔
لمحے بھر کو خاموشی ان پر طاری ہوئی۔۔۔اس دوران ضیاءالدین صاحب نے بھی مداخلت نہیں کی۔
سات سال ہوگئے اسے قید تنہائی کاٹتے ہوۓ۔۔۔!
اب عشال نے مداخلت ضروری سمجھتے ہوۓ ٹرے سمیت کمرے میں قدم رکھا۔۔۔ دیکھا ماموں جان؟ یہ ایسی ہی باتیں کرتے رہتے ہیں حالانکہ ڈاکٹر نے منع کیا ہے انھیں بلاوجہ سوچنے سے۔۔
اس کے لہجے میں دھیمی سی ناراضگی کی آنچ تھی۔۔ضیاءالدین صاحب خاموشی سے بس اسے دیکھے گئے۔۔۔سر پر سفید کاٹن کا دوپٹہ جماۓ وہ ٹیبل درمیان میں سیٹ کرکے اس پر ناشتہ لگا رہی تھی۔۔
آغا جان پھر مسکراۓ۔
بلاوجہ کہاں۔۔۔؟ ہمارے پاس سوچنے کے لیے کئی معقول وجوہات ہیں۔۔۔
اور نظریں ضیاءالدین صاحب سے جا ملیں ان کے چہرے پر بھی معنی خیز سی مسکراہٹ رقصاں تھی۔۔۔
جی جی میں اچھی طرح جانتی ہوں کہ آپ کے سینے کا سب سے بڑا بوجھ میں ہی ہوں۔۔۔۔ لیکن آسانی سے آپ کی جان نہیں چھوٹنے والی۔۔۔آخر میں وہ بھی بافہم سا مسکرائی تھی۔۔۔جیسے اپنے ارادوں سے دونوں حضرات کو باخبر کر رہی ہو۔۔۔
وقتی طور پر دونوں ہی خاموش ہوگئے تھے۔۔۔مگر تینوں ہی اپنی ہٹ کے پکے تھے۔۔
پھر جبری خوش گوار ماحول میں ناشتہ کیا گیا اور جیسے پرانے دن لوٹ آۓ تھے۔۔۔۔۔
*********
زبیر عثمانی کی پیشانی سے ٹھنڈے پسینے پھوٹ پڑے تھے۔ وہ کاغذ نہیں موت کا پروانہ تھا۔ زبیر عثمانی کی بربادی۔۔۔ وہ زبیر عثمانی کا سسپینشن لیٹر تھا، جو محکماتی انکوائری کی وجہ سے ان کے خلاف جاری کیا گیا تھا۔۔۔اور زبیر عثمانی کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا یہ خبر ان سے مخفی کیسے رہ گئی تھی۔۔۔۔؟
لیٹر کو ٹیبل پر پٹختے ہوۓ زبیر عثمانی نے اضطراری انداز میں ایک خیر خواہ کا نمبر تیزی سے ملایا تھا۔۔۔۔اسے جلد از جلد جاننا تھا یہاں تک نوبت آئی کیسے۔۔۔۔۔؟
*********
نینسی پھرتیلے انداز میں ایپرن باندھے گاہکوں کو نمٹانے میں مصروف تھی۔ یہ چھوٹا سا کافی ہاؤس مارگریٹ اور اسکی شبانہ روز محنت کانتیجہ تھا۔۔۔ٹین ایج سے ہی وہ مارگریٹ کے ساتھ یہاں کام کر رہی تھی اس وقت مارگریٹ نے بینک لون سے آغاز کیا تھا اور دوسال پہلے مارگریٹ lung cancer کی طویل بیماری کے بعد اسے داغ مفارقت دے گئی تھی۔۔۔ مارگریٹ کے بعد اس کی زندگی کے دن بہت قنوطی سے ہو گئے تھے۔۔۔ ایک عجیب طرح کی بیزاری اور سستی سی اس پر طاری رہتی تھی۔۔۔ بوڑھا پارکر جو مارگریٹ کا ہیلپر تھا، نینسی کو سمجھاتا رہتا کہ کسی بھی رشتے کے دنیا سے چلے جانے سے پیٹ کی آگ ٹھنڈی نہیں پڑتی اگر اس نے جلد ہی خود کو نہ سنبھالا تو کئی گاہک جو ہمدردی اور مروت میں ادھر کا دخ کرلیتے ہیں مایوس ہوگئے تو نقصان صرف اس کا ہوگا۔۔۔۔مگر نینسی پر بوڑھے پارکر کی نصیحتوں کا اثر ہوکے نہیں دیتا تھا۔۔۔۔ نینسی کو ہوش اس دن آیا جب پارکر نے اس کی سماعت پر بم پھوڑا۔۔۔
کیا کہہ رہے ہو؟ پارکر۔۔۔۔! تم جاب کیوں چھوڑنا چاہتے ہو۔۔؟ اس لیے مائی چائلڈ کہ زندگی بے شک مختصر ہے لیکن ضرورتوں سے عبارت ہے۔۔۔ میں بوڑھا ہو چکا ہوں لیکن پیٹ کی بھوک ابھی زندہ ہے۔ اس کے علاوہ مجھے اپنے ایک کمرے کے اپارٹمنٹ کا کرایہ بھی دینا ہوتا ہے۔۔۔سردی کا موسم میرے لیے بہت سخت ہوتا ہے تو اس کے اخراجات بھی برداشت کرنے ہوتے ہیں۔۔۔ اس لیے بہت ضروری ہے کہ میں کوئی اور ملازمت تلاش کرلوں۔۔۔ تمھارے لیے میں اتنا کرسکتا ہوں کہ اپنی سیلری معاف کردوں۔۔۔۔اس کی آواز میں واضح افسوس تھا شاید نینسی کے لیے ہی۔۔۔، یکایک نینسی کو زندگی کی حقیقتوں اور سفاکیت کا احساس ہوا تھا۔۔۔ مارگریٹ کو گذرے آج تیسرا مہینہ اسٹارٹ ہورہا تھا۔۔اور اتنے دن سے وہ بینک میں موجود رقم پر گذارہ کررہی تھی۔ اگر یہی صورتحال برقرار رہتی تو نوبت کہاں تک آسکتی تھی اسے اچھی طرح اندازہ ہورہا تھا۔۔۔۔
کتنے ڈیوز ہیں تمھارے۔۔۔۔؟ نینسی نے یوں پوچھا گویا دریاۓ سوان تیر کر آئی ہو۔۔۔ دو سو ڈالر ( آسٹریلین) کے حساب سے دیکھ لو خود ہی۔۔۔۔،
ایکسکیوزمی۔۔۔۔؟
نینسی اسی جوڑ توڑ میں مصروف تھی جب ایک اجنبی کی مداخلت نے سارا حساب کتاب ڈسٹرب کردیا۔۔۔
یس۔۔۔۔؟
وہ دونوں ہی چونک کر اجنبی کی جانب متوجہ ہوۓ تھے۔۔۔
کافی مل سکتی ہے۔۔۔ ؟
بھورے رنگے بال اور چیکدار شرٹ کے ساتھ براق سفید پینٹ پہنے نقوش کے اعتبار سے ایشیائی لگتا تھا۔۔ کنفیوز سا پوچھ رہا تھا۔۔۔دراصل وہ ان دونوں کے عجیب ردعمل کی وجہ سے متذبذب ہوا تھا۔۔۔۔
شیور۔۔۔۔
پارکر سے پہلے نینسی نے کہا تھا۔۔۔۔
اور اس لمحے نینسی نے زندگی کو ایک بار پھر مہمیز دی تھی۔۔۔۔
اس نے فیصلہ کر لیا تھا زندگی کو جینے کا۔۔۔۔
*********
قرمزی شام نیلے افق پر اتر رہی تھی۔ پرتھ کی سڑکوں پر زندگی پام کے درختوں کی طرح جھوم رہی تھی اس وقت یونیورسٹی کا آڈیٹوریم لوگوں سے بھر چکا تھا۔ رنگین روشنیاں دن کے اجالے کو مات دیتی شام کو بھرپور بنا رہی تھیں۔۔ تب ہی اے۔زی۔۔۔کے نام کی گونج فضا مین بکھری۔۔ اور ایک خوبرو اور شاندار جوان اسٹیج کی طرف بڑھتا دکھائی دیا۔۔۔ پروفیشنل فوٹوگرافرز نے جوشیلے انداز میں اس کا خیر مقدم کیا۔۔۔وہ ابھرتا ہوا نوجوان آرٹسٹ تھا۔۔۔ مشرقی نقوش میں شاہانہ تمکنت تھی اور انگلیوں میں مصورانہ جادوگری۔۔۔!
حقیقتا وہ گاڈ گفٹڈ تھا۔۔۔
دوسالوں میں یہ پانچواں ایوارڈ تھا جو اس کی شیلف میں سجنے والا تھا۔۔ لیکن اس کے لیے یہ پہلا ایوارڈ تھا اور اس لحاظ سے اہم کہ اس کی اپنی جامعہ کی طرف سے اس کے کام کو سراہا گیا تھا۔۔۔ اگرچہ وہ یہاں سے گولڈ میڈل کی شکل میں اپنی محنت کا صلہ وصول کرچکا تھا۔۔۔ لیکن ملکی سطح پر اسے پہلی بار سراہا گیا تھا۔۔۔اور یہ تو ابھی شروعات تھی۔۔۔کئی بین الاقوامی اداروں کی نظر میں وہ آچکا تھا۔۔۔۔۔۔
*********
احمریں لب۔۔۔ گہری براؤن بڑی بڑی آنکھیں اپنے اندر سمندروں سی وسعت رکھتی تھیں صبح کی پھوٹتی شفق سی رنگت گلابوں کومات دے رہی تھی۔۔۔
وہ چہرہ نہیں اک بھنور تھا جسے وہ جب جب دیکھتا تھا ڈوب ڈوب جاتا تھا۔۔۔ داستان حاتم طائی کی طرح وہ بھی اک اسرار تھا۔۔ جسے ایک بار دیکھنے کے بعد دوسری بار دیکھنے کی حسرت یا ہوس، جو بھی تھا۔۔۔۔وہ دل میں لیے نہ جی رہا تھا نہ مر رہا تھا۔۔۔۔
مہین سا وہ پردہ اس کی آتش شوق کو مزید بھڑکا دیتا تھا۔۔۔۔یہ جانتے ہوۓ کہ وہ اس کا نصیب نہیں، وہ ایک بار پھر زندگی داؤ پر لگادینا چاہتا تھا۔۔ شراب کے نشے میں دھت۔۔۔وہ ایزل کے سامنے گھٹنوں کے بل جھکتا چلا جا رہا تھا۔۔۔۔۔
ایک بار۔۔۔۔اللہ صرف ایک بار۔۔۔مجھے اس کا دیدار کرادے اسے میرا نصیب بنا دے۔۔۔۔صرف ایک چانس۔۔۔۔میں اسے دیکھنا چاہتا ہوں۔۔۔اسے میرا بنادے۔۔۔۔۔اللہ۔۔۔۔
کیا تو صرف عبادت گذاروں کا خدا ہے۔۔۔۔؟
اگر تو میرا بھی خدا ہے تو مجھے ایک چانس اور دیدے۔۔۔۔۔
وہ نجس حالت میں نجس لباس اور نجس وجود کے ساتھ خدا کی بارگاہ میں جھکا ہوا تھا۔۔۔
اور خدا صرف پاکبازوں کا ہے کیا۔۔۔؟
*********
گہرے سیاہی مائل براؤن بال اسکی پشت پر آبشار کی مانند بکھرے ہوئے تھے اور جب وہ ان میں کنگھا چلاتی تھی تو سمندری لہر کی طرح اس کی پشت پر بل کھا کر رہ جاتے تھے بالوں کی ہم رنگ آنکھوں میں نہ شوخی تھی نہ شرارت۔۔ کچھ تھا تو صرف ایک سوچ کی لہر۔۔ ماموں جان کیوں چاہتے ہیں میں ان کے ساتھ جاؤں؟ میرے وہاں جانے سے ان کی زندگی کے پرسکوت سمندر میں تلاطم نہ برپا ہو جاۓگا؟ پھر کیوں وہ دوبارہ اپنی اور اپنے سے وابستہ لوگوں کی زندگی امتحان میں ڈالنا چاہتے ہیں۔۔ ؟
کنگھا بالوں میں گھماتے، آئینے کے سامنے کھڑے جب ان سوالوں کا کوئی جواب ذہن رسا سے حاصل نہ ہوا تو براہ راست ضیاءالدین صاحب سے ہی بات کرنے کا فیصلہ کرتی وہ چٹیا گوندھنے لگی۔۔۔۔
*******
قسمت نے اس سے سوال کا موقع ہی چھین لیا۔۔۔ یہ ضیاءالدین صاحب کی آمد کا تیسرا دن تھا۔۔ جب وہ نماز فجر ادا کر رہی تھی ضیغم حسب معمول اپنی روزمرہ کی تیاری میں مصروف تھا۔ ضیاءالدین صاحب نے نماز کے بعد آغا جان کے کمرے کا رخ کیا۔۔۔ وہ ابھی نماز میں ہی مشغول تھے کچھ عرصے سے وہ باجماعت نماز کی ادائیگی سے قاصر تھے تو اپنے کمرے میں ہی بستر پر بیٹھ کر ادا کرلیتے تھے۔ البتہ وہ اس میں کافی وقت صرف کرتے تھے۔ نماز کے بعد نیم دراز حالت میں دھیمے دھیمے قرآن کی تلاوت ان کا معمول تھا۔۔۔۔ وہ ابھی حالت رکوع میں تھے جب ضیاءالدین صاحب آہستگی سے کرسی پر بیٹھ گئے اور ان کی فراغت کا انتظار کرنے لگے۔۔
آغا جان نے دعا و اذکار کے بعد چہرے پر ہاتھ پھیرا۔۔ اور ان کی جانب متوجہ ہوۓ۔
السلام وعلیکم! کچھ کہنا چاہتے ہو۔۔۔ ضیاءلدین؟
آغاجان نے انھیں مخاطب کیا۔۔۔
جی۔۔۔ آغا جان بہت ضروری بات جو ادھوری رہ گئی تھی میں اسے مکمل کرنا چاہتا ہوں تاکہ آپ جلد کسی نتیجے پر پہنچ سکیں۔۔۔
ان کا انداز فیصلہ کن تھا۔۔گویا اپنے تیئں ایک مرحلہ طے کرچکے ہوں اور اگلے مرحلے میں قدم رکھنے کو تیار ہوں۔۔
ٹھیک ہے کہو، ہم ہمہ تن گوش ہیں۔۔۔
ضیاءالدین صاحب نے بلا تمہید کہنا شروع کیا۔۔۔
میں آپ کو اپنے ساتھ لے جانا چاہتا ہوں اور عشال کو بھی۔۔
یہ تو ہم جانتے ہیں۔۔۔ مزید کیا کہنا چاہتے ہو۔۔۔؟
آغاجان نے انھیں پورا موقع فراہم کیا تا کہ وہ کھل کر بات کر سکیں۔۔۔۔
میں نے بہت انتظار کرلیا آغا جان۔۔۔ سات سال کم نہیں ہوتے کسی بھی صدمے کو دینے کے لیے۔۔۔۔
لڑکی ذات ہے۔۔۔ ہم کب تک اسے اس حال میں چھوڑ سکتے ہیں۔۔۔؟
آخر کو اس کے مستقبل کا بھی کچھ سوچنا ہے یا نہیں۔۔۔۔؟
ہم تمہاری بات اچھی طرح سمجھ رہے ہیں۔۔۔ لیکن تم ہی بتاؤ کیا ہو سکتا ہے اس کا مستقبل۔۔۔۔؟ جب کے اس کا "حال" بھی تمہارے سامنے ہے۔۔۔۔ بتاؤ ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
یہی تو، آغاجان! ساری بات یہیں آ کر رک جاتی ہے۔۔۔
میں سمجھتا ہوں عشال کی اب شادی کردینی چاہیے۔۔۔ اس سے زیادہ وقت اسے دینا۔۔۔ اپنے ہاتھوں اسے بربادی کے راستے پر ڈالنے کے مترادف ہوگا۔۔
آغا جان نے کرب سے آنکھیں موند لیں۔۔۔ ایک میٹھی سی ٹیس سینے میں گہرائی کے اندر سلگی تھی۔۔۔
اور دروازے کے پار دواؤں کی ٹرے تھامے عشال کا وجود زلزلے کی زد میں آیا تھا۔۔۔
آغا جان نے کیا جواب دیا اور ضیاءالدین صاحب نے کیا دلائل دیے، اسے کچھ خبر نہ ہوسکی وہ بمشکل اپنا وجود گھسیٹتی واپس کمرے میں چلی آئی تھی۔۔۔
ناشتہ تیار ہے۔۔؟ ضیعم دستک دیتا ہوا عین اس کی دہلیز پر آن کھڑا ہوا تھا۔۔۔۔ مگر اسے چونک جانا پڑا۔۔
عشال کے ماتھے پر ننھی پسینے کی بوندیں واضح چمک رہی تھیں۔۔۔ ضیغم کی اچانک آمد نے اسے گڑبڑا دیا تھا،
عشال آپ ٹھیک ہیں۔۔۔؟
ضیغم کو پوچھنا پڑا۔ مگر جواب کی نوبت نہیں آسکی۔
آغا جان میں جانتا ہوں یہ موضوع آپ کے لیے تکلیف دہ ہے۔۔۔ لیکن حقیقت سے کب تک منہ چرایا جاسکتا ہے۔۔۔
اور سچ تو یہ ہے کہ لڑکیوں کے گھر جتنی جلدی بس جائیں ان کے حق میں اتنا ہی اچھا ہوتا ہے۔۔۔۔
آہ۔۔۔ آغا سمیع الدین فیروز کی پوتی۔۔۔ کی ذات پر لگے سوالیہ نشان۔۔۔۔؟
کیا تمہارے پاس دنیا کے سوالوں کے جواب ہیں۔۔۔۔ ضیاءالدین؟
آغا جان بدقت کہہ پاۓ۔۔ ٹیسیں اب پورے سینے کو جکڑنے لگی تھیں۔۔۔
آغا جان۔۔۔ آپ ٹھیک تو ہیں۔۔۔؟
ضیاءالدین صاحب سب کچھ بھول کر ان کا متغیر ہوتا چہرہ ہی دیکھ رہے تھے۔۔۔
آغا جان نے سر اثبات میں ہلاکر اپنی خیریت سے مطلع کرنا چاہا مگر آواز کے ساتھ ہر چیز درد کی تہہ میں گھٹنے لگی۔۔۔ ضیغم۔۔۔۔ صیغم۔۔۔
عشال۔۔۔۔۔۔!!
ضیاءالدین صاحب کی پکار نے لمحوں میں منظر ہی بدل کر رکھ دیا تھا۔۔۔۔
*********
وہ ایک عرصے سے کارڈیک پرابلمز کا شکار تھے۔ مگر آرام کی کمی، کام کی زیادتی اور ذہنی دباؤ نے مرض کی شدت یہاں تک پہنچادی تھی کہ ڈاکٹرز کے مطابق بائی پاس آپریشن اب ناگزیر ہو چکا تھا۔۔۔!
عشال کے لیے وہ قیامت کی گھڑی تھی۔۔۔ ضیاءالدین صاحب کے شانے سے ماتھا ٹیکے وہ حشر کے سارے مرحلوں سے گذر چکی تھی۔۔۔
لیکن اس کی کوئی دعا، کوئی آہ، التجا۔۔۔ کچھ بھی آغا سمیع الدین کو جانے سے نہ روک پائی۔۔
اور نہ ہی وہ اپنی تقدیر پر قادر ہوسکی۔۔۔۔
" کسی چشم وعدہ کی لہر ہے،
بڑا دل گرفتہ ___ یہ شہر ہے
ہواۓ محرم دوستاں، تیرے
سلسلوں کا پتہ رہے
یہ سراۓ صبح کے ساتھ ہی
مجھے چھوڑنی ہے غزال شب
تیری چشم رمزوکنایہ میں کوئی
خواب ہے، سجارہے۔۔۔۔۔۔"
"""""""""'""""""""""""