"زعیم!"
مرتضی صاحب نے اسے پشت سے آواز دی۔
آہا؟ تو آپ آج گھر پر ہیں؟ ویسے کس طرف سے طلوع ہوئے ہیں؟ میری تو نظر ہی نہیں پڑی؟"
وہ جو باہر جانے کے لیے پر تول رہا تھا، ان کی آواز پر ایکدم چہکا تھا۔
"کام کی بات سنو!"
مرتضی صاحب نے اس کی ساری شوخی ایک طرف جھونک دی تھی۔
"جی! بولیےسر! میں بالکل باادب باملاحظہ ہوں۔"
اب وہ واقعی ہمہ تن گوش نظر آتا تھا۔
"تیاری کرلو! تمہیں پنڈی جانا ہے، تم نے ٹیسٹ پاس کرلیا ہے۔"
جی۔۔۔۔؟"
انھوں نے یہ روح فرسا خبر زعیم کو نہایت اطمینان سے سنائی!"
یہ کیسے ممکن ہے؟ اتنا برا ٹیسٹ بھی کلیئر ہوسکتا ہے؟ یہ پی اے ایف کو کیا ہوگیا ہے؟"
زعیم کی آنکھیں حیرت سے کھلی رہ گئی تھیں۔
تم جیسے جعلی فیلئرز کو وہ ایک سیکنڈ میں پکڑ لیتے ہیں، تم نے پاکستان ائیر فورس کو سمجھ کیا رکھا ہے؟"
مرتضی صاحب نے اسے مطلع کیا۔
"ان کے پاس ایسا کون سا ٹانک ہے؟ ذرا میری معلومات میں اضافہ ہی کردیں؟"
زعیم نے صدماتی کیفیت کے زیر اثر کہا۔
تمہارے جوابات!
تم نے ہر سوال کے باکل اپازٹ(متضاد) جواب پر ٹک کیا ہے۔اور تمہارا اکیڈمک ریکارڈ، جو کہ آرمی کے ہی ایک اسکول کا ہے۔! انھوں نے بہت اچھی طرح آپ کی ویریفکیشن کی ہے۔"
وش یو گڈ لک سن!"
اتنا کہہ کر مرتضی صاحب اس پر بم پھوڑ چکے تھے۔ اور ساتھ ہی شانے پر تھپکی بھی دے دی۔
زعیم کی سمجھ میں نہ آیا اسے رونا چاہیے یا ہنسنا۔
"ڈیڈ! کچھ ترس کھائیں میرے لڑکپن پر، ابھی تو میرے کھانے پینے، کھیلنے کودنے کے دن ہیں۔ ابھی سے مجھ غریب کو غم روزگار میں مت جھونکیں۔"
وہ انتہائی مسکین نظر آرہا تھا۔
"اوکے۔۔۔فائن! دوسرا آپشن پھر تمہارے پاس سول سروسز کا ہے۔ میری سیٹ ریڈی ہے۔ بولو کیا کہتے ہو؟"
مرتضی صاحب کا اطمینان قابل رشک تھا۔
"شکریہ! کنویں سے کھائی ہی بہتر ہے، کم از کم مرتے ہوئے ٹانگیں تو نہیں سمیٹنی پڑیں گی۔"
اور ان کے ہاتھ سے لفافہ لے کر باہر کے بجائے اپنے کمرے میں پلٹ گیا۔
**************
شہیر ایک بار پھر لان میں تھا۔ اگرچہ سارا دن خوش گپیوں میں گذرا تھا۔ لیکن اس کے دل و دماغ ابھی تک أندھیوں کی زد میں تھے۔ عشال کا لفظ لفظ کنجر بن کر اس کے دل میں اتر گیا تھا۔
عشال نے یہ ابشام زبیر کانام کیوں لیا؟ وہ نہ سمجھتا تو کون سمجھتا؟
اس کی زندگی کا لمحہ لمحہ شہیر کے سامنے شبنم کی طرح بکھرا ہوا تھا۔
"آہم۔۔آہم۔۔!"
شہیر کو اپنے پیچھے باوقارسی کھنکھار سنائی دی۔وہ ہلکا سا چونک گیا۔
"کیا میں تمہارے کسی کام آسکتا ہوں؟"
ضیغم نے اسے مضطرب دیکھ کر سنبھلے ہوئے لہجے میں پوچھا۔
"آپ کیا کر سکتے ہیں، ضیغم بھائی!"
شہیر نے یونہی گہری سانس خارج کی۔
"اور کچھ نہیں تو مشورہ دے سکتا ہوں، تم مجھ پر بھروسہ کرسکتے ہو۔"
شہیر اپنی ہی گتھیوں میں گم تھا۔
"چھوڑئیے ضیغم بھائی! کن الجھنوں میں پڑ رہے ہیں، آپ لمبا سفر طے کرکے آئے ہیں، آرام کیجیے۔"
اور پشت پھیر گیا۔ شہیر کے ہاتھ میں چنبیلی کی مرجھائی شاخ تھی۔
"اور یہ لمبا سفر میں نے بلاوجہ اختیار نہیں کیا۔"
ضیغم کی بات نے شہیر کو واپس مڑنے پر مجبور کر دیا۔
"جی۔۔۔؟"
"میں پھر کہہ رہا ہوں، تم مجھ پر بھروسہ کرسکتے ہو!"
ضیغم نے اس بار شہیر کے کاندھے پر تسلی آمیز ہاتھ رکھ دیا تھا۔
"سوچ لیں! آپ کے بازوؤں میں کتنی قوت پرواز ہے؟"
شہیر اب بھی متأمل تھا۔
"تم آزما کر دیکھ لو، منزل سے پہلے مڑ کر نہیں دیکھوں گا۔"
ضیغم نے مسکرا کر اسے تسلی دی۔
"آپ بہت بااعتماد ہیں!"
شہیر نے جیسے اسے جانچا۔
اور سنجیدہ بھی۔"
ضیغم نے جملہ مکمل کیا۔
شہیر مسکرا دیا۔
پتہ نہیں کیوں؟ آپ پر بھروسہ کرنے کو جی چاہتا ہے۔"
ضیغم کے چہرے پر فاتحانہ چمک تھی۔
****************
چمکیلی تیز دھوپ پختہ میدان میں کھڑے پیپل کے پتوں پر چمک رہی تھی۔
خوش گپیوں میں مصروف کچھ طلبہ زندگی کی رونق بڑھارہے تھے۔
آبریش تیزی سے اپنا سامان اٹھائے ہال کی طرف بڑھ رہی تھی۔ جہاں اوپن ایگزیبیشن جاری تھا۔ جس میں تمام اسٹوڈنٹس اپنی مرضی کے مطابق شرکت کرسکتے تھے۔ یہ انسٹیٹوٹ کی جانب سے عام طلباء کی صلاحیتیں جانچنے کے لیے ایک چھوٹا سا کمپیٹیشن تھا۔ لیکن آبریش کی ایکسائمنٹ کی وجہ وہ سیلیبریٹی تھا جس کی رائے اس کے لیے کسی سند سے کم نہیں تھی۔ اور جسے قریب سے دیکھنے کے لیے اس نے چار سال دعائیں کی تھیں، انتظار کیا تھا، خواب سجائے تھے۔ نیندوں کی قربانی دی تھی، اور سوشل میڈیا پر ہر جگہ اسے فولو کیا تھا۔ اور آج وہ اس انسٹیٹیوٹ میں تھی تو اسی سے انسپریشن کی وجہ سے۔۔
"کم آن یار! وہ انسان ہی ہوگا، ہم جیسا! تم تو اس طرح ایکسائیٹڈ ہورہی ہو، جیسے وہ کوئی ایلین ہو۔"
وریشہ بھوکی تھی اور آبریش اسے زبردستی اپنے ساتھ گھسیٹ لائی تھی۔
"تم نہیں سمجھو گی۔ میرے لیے وہ شخص کیا ہے؟ میں نے مسلسل چار سال اس کا انتظار کیا ہے، ہر ےفورم پر اسے فولو کیا ہے، اس کی ایک جھلک میری پوری زندگی کا حاصل ہے۔ اگر وہ واقعی ایلین ہوتا، تب بھی میں اس کا پیچھا دوسری دنیا تک کرتی۔"
آبریش نے اپنے خیالات کا پندار کھول کر وریشہ کو حیرت کے کئی غوطے دے ڈالے۔
"امیزنگ! لڑکی تمہیں اس سے محبت تو نہیں ہوگئی؟"
وریشہ نے خدشہ ظاہر کیا۔
"محبت؟ شاید عشق! جو مجھے اس کے کام سے ہے، اس کی صلاحیت سے ہے، اور میں اس کی عزت کرتی ہوں۔ اس وجہ سے۔
اتنا کہہ کر وہ ہال میں داخل ہوگئی اور اپنا کارنر سیٹ کرنے لگی۔ ابھی ہال قدرے خالی خالی سا تھا۔ اسٹوڈنٹس کے فن پارے تو آویزاں تھے لیکن شائقین نظر نہیں آرہے تھے۔ ابھی بہت لوگوں نے آنا تھا۔
کچھ ہی دیر میں وہاں لوگوں کی آمدورفت شروع ہوگئی۔ آبریش کا کارنر اینٹرنس کے بائیں جانب تھا۔ سفید دیوار پر اس کی پینٹگز آنے والوں کی توجہ کھینچ رہی تھیں۔ لیکن اسے اس سب سے غرض نہیں تھی۔ اس کی آنکھیں جس کی منتظر تھیں وہ کہیں نظر نہیں آرہا تھا۔
" چلو یار! کیفے سے ہوآتے ہیں، ابھی تو بہت وقت ہے، تمہارے ظل سبحانی پتہ نہیں کب نازل ہوتے ہیں؟"
وریشہ نے ایک بار پھر آبریش سے کہا، لیکن وہ آبریش ہی کیا؟ جو کسی کی سن لے؟"
"تم چلی جاؤ، میں فی الحال یہاں سے ہٹ نہیں سکتی۔"
آبریش نے صاف ہری جھنڈی دکھائی۔
"اوکے! تم مرو یہیں مجھ سے اب اور برداشت نہیں ہوتا۔"
وریشہ اس پر تف بھیج کر اکیی ہی چلی گئی تھی۔
آبریش کو پروا ہی کب تھی۔ وہ اہنے کارنر پر تنہا کھڑی رہ گئی۔
اور اسی لمحے ہال میں ہلچل مچی تھی۔
ہلکے نیلے پس منظر پر سیاہ چھوٹے چھوٹے ستاروں والی ٹی شرٹ اور جینز میں ملبوس وہ گلاسز اتار رہا تھا۔ اور آبریش کی سانس جیسے سینے میں اٹک کر رہ گئی۔
اس نے گردن ترچھی کرکے بس ایک نگاہ آبریش کی طرف ڈالی تھی۔
میڈیا کے کیمروں نے اسے اپنی زد میں لے لیا۔ آبریش دھڑکتے دل کے ساتھ اس کی توجہ کی منتظر رہی، لیکن اس نے داہنی طرف سے أغاز کیا تھا۔ وہ ہر آرٹسٹ کے پاس جاتا چند منٹ بات کرتا، اور آگے بڑھتا رہا، ساتھ ہی لوگوں نے اسے گھیر رکھا تھا۔ آبریش کی نظریں اس کے ساتھ ساتھ حرکت کر رہی تھیں۔ پھر وہ آبریش کے پاس آیا ٹھہرا، اور أبریش کے کام پر نظر جمادی۔ أبریش کو محسوس ہوا اس کے ہاتھ پیر ٹھنڈے پڑ رہے ہیں، لیکن اس کے بولنے کی منتظر رہی۔
"آبریش۔۔؟"
اس نے سوالیہ نظروں سے آبریش کی طرف دیکھا۔
"یس سر!"
وہ تابعداری سے آگے بڑھی۔
"آپ میں کافی پوٹینشل ہے، لیکن خود کو پابندیوں میں مت جکڑیں، کام کو یہاں(اپنی کنپٹی پر انگلی بجائی) سے نہیں، یہاں(پھر دل کے مقام پر رکھا) سے کریں۔
آپ بہت شائے ہیں، تھوڑا سا اور کانفیڈینس لائیں آپ کے اندر۔"
"رھینک یو سر!"
آبریش کو اس کے آخری کمنٹ نے اداس کردیا۔ اس لیے مزید کچھ نہیں بولی۔
"آبریش! آپ میرے ساتھ کام کریں گی؟"
اس نے آبریش کو نگاہ جما کر دیمھا۔
"جی؟"
آبریش اس آفر کا تصور بھی نہیں کرسکتی تھی۔
آپ سر۔۔۔؟"
"کیوں؟ آپ نے مائنڈ کیا ہے تو سوری!"
"نو سر۔۔۔۔! مجھے کوئی ایشو نہیں!
"ابشام زبیر! تم مجھے ابشام کہہ سکتی ہو۔"
اس نے فورا ہی اپنا کارڈ آبریش کو تھمایا اور آنکھوں پر گاگلز چڑھاتا ہال سے نکلتا چلا گیا تھا۔
جبکہ آبریش اس کا کارڈ ہاتھ میں دبوچے جیسے خواب کی کیفیت میں تھی۔ اسے سمجھ ہی نہیں آیا کہ پل بھر میں یہ کیا ہوا تھا؟ قسمت ایسے بھی مہربان ہوتی ہے؟
وہ کھڑے کھڑے فیصلہ کرچکی تھی کہ وہ ابشام زبیر کو انکار نہیں کرے گی۔ چاہے گھر والوں سے جھوٹ ہی کیوں نہ بولنا پڑے۔
*****************
شاپنگ پلازہ روشنیوں میں نہایا زندگی کا ایک نیا ہی رخ دکھارہا تھا۔ روشن چہرے، سجاوٹی اشیاء اور جگمگاتے چہرے۔ ایسے میں فوڈ کارنر میں شاپنگ بیگز ایک سائیڈ پر دھرے نورین لیمن جوس سے نبرد آزما تھی۔ جبکہ سامنے کی کرسی پر عائز براجمان تھا اور آنکھیں سلش کے گلاس پر تھیں۔
وہ عائز کے ساتھ شادی کی شاپنگ کرنے نکلی تھی۔ چند دن ہوئے ان کی شادی کی تاریخ طے ہوچکی تھی۔
"تمہاری کزن کافی روڈ ہیں، نہیں؟"
عائز کی بات پر وہ چونکی تھی۔
"عشال کی بات کررہے ہو؟"
نہیں! بالکل نہیں! بس ذرا ریزرورڈ ہے۔"
نورین نے وضاحت پیش کی۔
"وجدان کافی انٹرسٹ لے رہا تھا لیکن رسپانس نہیں ملا تو پیچھے ہٹ گیا۔ کوئی پرابلم تو نہیں ان کے ساتھ؟"
پتہ نہیں عائز کیا پوچھنا چاہتا تھا لیکن نورین نے دل ہی دل میں عشال کو بے نقط سنائی تھیں۔
"ایسا کچھ نہیں ہے، ایکچولی آغا جان کے ساتھ وہ کافی عرصہ اکیلے رہی ہے، تو تھوڑی تنہائی پسند ہوگئی ہے۔ ویسے بھی آغاجان کی ڈیتھ نے توڑ کر رکھ دیا ہے اسے۔"
"اوکے۔۔۔! لیکن ہماری فیملی کافی انٹرسٹڈ تھی ان کے لیے، لیکن وجدان بددل ہوگیا ہے، کہتا ہے اسے کوئی لائیولی لڑکی چاہیے۔ ورنہ اچھا ہوجاتا کزنز کی جوڑی ہوجاتی۔۔۔!"
اتنا کہہ کر ہنس دیا لیکن نورین مسکرا بھی نہ سکی۔ اب کیا کہتی عشال ہمیشہ سے ایسی نہیں تھی۔ وہ تو ایک حادثے نے اس کے اعتبار کے کانچ کو ریزہ ریزہ کر ڈالا تھا۔
اور اگر اسے نورین کے بارے میں پتہ چل جاتا تو؟ اس سے آگے وہ سوچ نہیں سکی۔
"تم کس منہ سے عشال کا سامنا کرتی ہو، نورین؟"
شہیر کے الفاظ نورین کے کانوں میں ہتھوڑے بن کر گونجے تھے۔
زندگی کا نیا سفر وہ دل اور ضمیر پر کسی بوجھ کے بغیر شروع کرنا چاہتی تھی۔ لیکن کیا یہ اتنا آسان تھا؟
***************
زرد و کاسنی رنگ اور روشنیاں بکھیرتی فضا، دھیمی دھیمی گنگناہٹوں اور خوش گپیوں سے مزین تھی۔
نورین لان کے وسط میں گیندے کے پھولوں سے سجی مایوں کی روایتی دلہن نظر آتی تھی۔ زعیم کے چہرے پر بارہ بج رہے تھے۔ جب سے اسے سلیکشن کی خبر ملی تھی وہ صدماتی کیفیت میں ہی تھا۔
عشال تہہ در تہہ اسٹول سر پر جمائے ہلکے گرے فل سلیوس سوٹ میں ملبوس مہمان نوازی میں مصروف دکھائی دے رہی تھی۔ نورین کی نظریں اسی پر جمی تھیں۔ کہ ہاتھ میں پکڑا نورین کا سیل فون بول اٹھا۔ وہ بغیر دیکھے بھی جانتی تھی۔ عائز کی کال ہوگی۔ جو کافی دیر سے اسے ایک عدد سیلفی کی ریکسویٹ پر ریکویسٹ بھیج رہا تھا۔
مگر نورین کا موڈ کچھ اور ہی تھا۔
"ہیلو!"
نورین نے سیل کان سے لگایا۔
"تم کب سے اتنی کنزرویٹو ہوگئی ہو یار! پلیز ایک سیلفی۔۔۔؟
وہ چھوٹتے ہی بولا تھا۔
" میں تم سے بعد میں بات کرتی ہوں۔ ابھی موقع نہیں ہے۔"
نورین نے لہجہ دبا کر اسے ٹالا۔
اونہہ!"
وہ بد مزہ ہوا۔ لیکن کوئی چارہ بھی تو نہیں تھا۔
عشال نے دور سے نورین کا سنجیدہ چہرہ دیکھا تو ساتھ کھڑی (نورین کی نند) فہمیدہ آپا سے معذرت کرتی نورین کے قریب آبیٹھی۔
"کیا بات ہے؟ اتنی سیریس کیوں ہو؟"
عشال نے مہمانوں پر سرسری نگاہ ڈالتے سوال نورین سے کیا۔
"کچھ نہیں، بس۔۔۔ ایسے ہی!"
نورین ڈھنگ سے اسے ٹال بھی نہ سکی۔
"تو پھر تھوڑا مسکرا ہی دو، ورنہ لوگ سمجھیں گی۔ دلہن راضی نہیں۔"
عشال نے سنجیدگی سے اسے مشورہ دیا۔
"عشال! کیا تم آج رات یہاں رک سکتی ہو؟ میرے ساتھ؟"
"عشال نے نظر گھما کر نورین کی طرف دیکھا۔ اس نے پہلی بار ایسی فرمائش کی تھی۔
"رکنے میں کوئی حرج نہیں، لیکن تم مجھے حیران کررہی ہو۔۔۔، تم تو بالکل روایتی دلہنوں کی طرح بی ہیو کررہی ہو۔۔۔"
عشال مسکرائی۔
"روایتی اور غیر روایتی دلہن میں کیا فرق ہے بھلا؟"
نورین پوچھے بغیر نہیں رہ سکی۔
"میرا مطلب تھا کہ ہم سب کے خیال میں رخصتی کے وقت قہقہے لگانے والی تم پہلی دلہن ہوتیں۔ تمہیں دیکھ کر لگتا نہیں تھا کہ تم اتنی جذباتی بھی ہوسکتی ہو؟"
عشال کا لہجہ ہلکا پھلکا تھا۔ لیکن نورین کے دل کو چوٹ سی لگی۔
"کیوں عشال؟" تمہارے خیال میں میرا دل پتھر کا ہے؟ یا پھر میں جذباتی نہیں ہوسکتی؟"
عشال نےاسے حیرت سے دیکھا۔
"کیا کہہ رہی ہو نورین! میرا یہ مطلب تو نہیں تھا؟"
تم پریشان لگ رہی ہو مجھے۔"
عشال نے اس کا چہرہ کھوجتے کہا۔
اور نورین کو فوری طور پر خود کو سنبھالنا پڑا۔ سامنے لوگوں کا اژدہام تھا اور وہ مرکز نگاہ۔ اس کی آواز بلند نہیں ہونی چاہیے تھی۔
"آئی ایم سوری! مجھے نہیں پتہ عشال! میں کیوں اس طرح بی ہیو کررہی ہوں؟ بس تم آج رات میرے ساتھ میرے کمرے میں رک جاؤ،"
"ٹھیک ہے میں ماما جان سے کہہ دیتی ہوں، کہ ہماری دلہن آج رات برائڈ شاور انجوائے کرنا چاہتی ہیں۔"
اور دھیما سا مسکرا کر اٹھ گئی۔
دور سے ضیغم کی اس لمحے نگاہ بھٹکی تھی۔
وہ عشال کی مسکراہٹ نظر انداز نہیں کر پایا تھا۔
نورین پھیکا سا مسکرائی اب اسے کیا بتاتی آج کی رات اس کے اور عشال کے تعلق کی شاید آخری رات ثابت ہونے والی تھی۔
انجانےمیں ہی سہی عشال کو وہ ناقابل تلافی نقصان پہچا چکی تھی۔مگر یہ رسک تو اسے لینا ہی تھا۔
نورین اپنی ادھیڑبن میں تھی کہ خواتین میں رسم کے آغاز کا غوغا اٹھا۔ چنانچہ خواتین نورین کو گھیر کر بیٹھ گیئیں۔
جبکہ زعیم کی آنکھیں موبائل سے تصویریں لیتی آبریش کو دیکھ کر جگمگا اٹھیں۔
لیمن کلر کی شوخ رنگ قمیض کے ساتھ شاکنگ پنک پلازو اور سر پر ہمیشہ کی طرح گلابی اسکارف لپیٹے چہرے پر بے نیازی سی بے نیازی تھی۔
زعیم ساری محفل پر تف بھیجتا اس کے سر پر جا پہنچا۔
"جان محفل تو ادھر ہے آپ کس کی تلاش میں سرگرداں ہیں؟"
زعیم کا واضح اشارہ اپنی جانب تھا۔
"آج تم جو چاہو ہانک لو، میں کان نہیں دھروں گی، کیونکہ آج میں بہت خوش ہوں۔"
آبریش کی اس دریا دلی پر اس نے حیرت جھاڑی۔
"نورین آپی کی شادی کے علاوہ کیا خاص ہے آج؟ کہ غرباء پر یہ عنایت خاص کی جارہی ہے؟"
زعیم واقعی اس کی خوشی کی وجہ نہیں سمجھا تھا۔ جبکہ وہ سر شام سے اس کے چہرے پر رقم جوش اور خوشی کو فنکشن کا شاخسانہ ہی سمجھ رہا تھا۔
"تمہیں بتاؤں؟ تاکہ اس خوشی کو بھی غارت کردو!"
آبریش نے جل کر کہا۔
اور کیمرے کو اپنے چہرے پر فوکس کرنے لگی۔
"یہ کھلا الزام ہے مجھ پر! میں نے تو آج تک تمہارا بھلا ہی سوچا ہے۔"
زعیم نے احتجاج کیا۔
"سنو! تم وہ آخری شخص بھی نہیں ہوسکتے جسے میں اپنی خوشیوں میں شریک کرنا پسند کروں گی۔"
اور
"ایکسکیوز می!"
کہہ کر آگے بڑھ گئی۔
ع
"آج ہجوم دوستاں پر ہو نازاں بہت
جب کبھی ٹوٹ کر بکھرو گے تو یاد آؤں گا"
زعیم خود سے کہہ کر رہ گیا۔
مگر اس کی یہ خود کلامی کم از کم اتنی بلند ضرور تھی کہ شہیر نے بآسانی نہ صرف سنی تھی۔ بلکہ اس منظر کو گہری نظروں سے ملاحظہ بھی کیا تھا۔
*****************
"میں جانتی ہوں میرے اعتراف کے بعد تم میری صورت سے بھی نفرت کرو گی۔ لیکن عشال! اس نفرت کا بوجھ ضمیر کے اس بوجھ سے بہت کم ہوگا، جو میں اتنے سالوں سے اپنی ذات پر برداشت کرتی چلی آرہی ہوں۔"
نورین نے سب دوستوں اور رشتہ دار خواتین سے طبیعت کی خرابی کا بہانہ کرکے جلد ہی کمرے کا رخ کیا تھا۔ سیل اس نے آف کردیا تھا۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس اعترافی بیان کے دوران کوئی اس کے اور عشال کے درمیان آئے۔ نجانے وہ کیسے اپنے اندر وہ سب کہنے کی ہمت پیدا کر پائی تھی۔ اور عشال حیرت سے اسے دیکھ رہی تھی۔ اسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کس طرح کا ردعمل دے۔
"شہیر ٹھیک کہتا ہے، مجھے معاف کرنے کا اختیار اگر کسی کے پاس ہے تو وہ تم ہو، اور عشال! میں جانتی ہوں، جو کچھ میں کہنے والی ہوں، اس کے بعد تم کبھی مجھے معاف نہیں کر سکو گی۔
اس رات تمہارے نکاح کے بعد مجھے اشعر کی کال آئی تھی۔
"واٹ! تم کیا کہہ رہے ہو اشعر؟"
اپنا واٹس ایپ چیک کرو، تمہیں سب کچھ سمجھ آجائے گا۔"
اشعر نے تأسف میں گھر کر کہا تھا اور پھر اس کی کال بند ہوگئی تھی۔
لیکن اس سے پہلے کہ نورین اپنا موبائل چیک کرتی، صارم کے نمبر پر کالز کا تانتا بندھ چکا تھا۔
*****************
"کیا ہوا؟ نورین؟"
عشال اس کے ہوائیاں اڑے چہرے کو دیکھتے پوچھ رہی تھی۔جبکہ نورین کے سامنے اس کا واٹس ایپ کھلا تھا۔ وہ کسی بت کی طرح عشال کے قریب بیٹھ کر رہ گئی۔ اور دھیرے سے موبائل عشال کی طرف بڑھا دیا۔
عشال نے الجھی نظروں سے موبائل پر نگاہ ڈالی۔ جہاں اسکرین پر عشال شامی کے ساتھ ہاتھ میں ہاتھ ڈالے کھڑی تھی۔ یہ صرف ایک تصویر نہیں تھی۔
وہ کپکپاتی انگلیوں کے ساتھ اسکرول کرتی جارہی تھی۔ لیکن وہ گندگی اتنی زیادہ تھی کہ عشال کے ہاتھ سے موبائل چھوٹ کر بیڈ پر گرا تھا۔
یہ۔۔۔یہ؟
الفاظ اس کے حلق میں پھنس کر رہ گئے تھے۔
اور نورین تشویش سے اس کا زرد پڑتا چہرہ دیکھ رہی تھی۔
*************
"واٹ دا ہیل از دس۔۔۔؟
صارم سیل کان سے لگائے فورا ہی لاؤنج سے نکلتا چلا گیا تھا۔
" کیا ہوا ہے؟ ضیاءالدین؟"
آغاجان نے فکرمندی سے ضیاءالدین صاحب کو دیکھا تھا۔ اور صرف انھوں نے ہی نہیں، لاؤنج میں موجود سب ہی لوگوں نے صارم کا اس طرح باہر جانا محسوس کیا تھا۔
وقار فکرمند انداز میں صارم کو دیکھ رہا تھا۔ لیکن قبل اس کے کہ وہ صارم کے پیچھے جاتا، ضیاءالدین صاحب وقار تک چلے آئے تھے۔
"کوئی پریشانی کی بات ہے، بیٹا؟"
وقار انھیں مطمئن کرنے کے لیے لفظ تول رہا تھا کہ اس کے موبائل کی رنگ ٹون بج اٹھی تھی۔
"جی سب خیریت ہی ہے، انکل لگتا ہے مبارکباد کا فون ہے۔"
کہتے ہوئے وقار کو خود اپنا لہجہ کھوکھلا محسوس ہوا تھا۔
"تم بات کرو،"
اور اسے تھپکی دیتے ہوئے واپس آغا جان کی طرف چل دیے۔
وقار کو ان کی بات قطع کر کے کال ریسیو کرنا اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ اور پھر کال بھی اس کے ایک کلاس فیلو کی تھی۔ جس سے وقار کی صرف ہیلو ہائے تک دوستی تھی۔
"ہیلو! تمہیں پتہ ہے، شامی نے سوسائیڈ اٹیمپ کیا ہے، وہ بھی عشال زبر جرد کی وجہ سے۔۔۔۔!"
"واٹ۔۔۔؟"
وقار کے منہ سے بے اختیار نکلا تھا۔
"ہے ناں دھماکے دار نیوز۔۔۔؟"
میں بھی ایسے ہی شاکڈ ہوگیا تھا۔ یعنی کہ کہاں عشال زبرجرد اور کہاں شامی؟ لیکن سب کہہ رہے ہیں، ان کا افیئر چل رہا تھا۔ ابھی کچھ دیر پہلے کسی نے ان کی پکس بھی اپ لوڈ کی ہیں، فیس بک پر، مجھے تو یہ حرکت شامی کی ہی لگتی ہے، خاصی بولڈ پکس ہیں دونوں کی۔۔۔ میں عشال کو ایسا نہیں سمجھتا تھا لیکن یہ لڑکیاں بھی ناں۔۔۔۔۔۔؟ سب ایک جیسی۔۔۔۔،
وقار نے کھٹ سے فون بند کیا تھا۔ اور فورا سے آن لائن ہوا تھا۔ 39 تصویروں کے اسکرین شاٹس تھے۔ عشال کی طرف سے میسیجز کے اسکرین شاٹس بھی موجود تھے۔ اور جینز اور ٹی شرٹ میں شامی سے بےحد نزدیک اخلاقی حدود کا ملیا میٹ کرتی وہ مخرب تصویریں عشال کے نصیب پر سیاہ لکیر پھیر گئی تھیں۔
وقار کو صارم کا عجلت میں لاؤنج سے نکلنا اب سمجھ آیا تھا۔
*****************
اب تک آغا جان اور ضیاءالدین صاحب پر بھی صورتحال آشکار ہوچکی تھی۔
"یہ سب کیا ہے؟ عشال! "
کون ہے یہ شخص۔۔۔؟
سطوت آراء سب سے پہلے اسے ہوش میں لائی تھیں۔
وہ نہیں کہہ سکتی تھی کہ میں اسے نہیں جانتی۔
بولو عشال!
"آپ کو مجھ پر یقین نہیں ہے ماما؟"
وہ ابھی تک نکاح والی پوزیشن میں ہی بیٹھی تھی۔ جب سطوت آراء نے اسے بری طرح جھنجوڑا تھا۔ نورین کے موبائل میں وہ بھی ساری خرافات دیکھ چکی تھیں۔
عشال نے دھیرے سے سر اٹھایا تھا اور ان سے فقط سوال کیا تھا۔
"ہمارے یقین کرنے نہ کرنے سے کیا ہوگا عشال؟ تمہاری ساری سسرال باہر آئی بیٹھی ہے، ہم انھیں کیا جواب دیں؟
تمہیں بتانا چاہیے تھا، اگر کوئی بات تھی تو۔۔۔۔! تم سے اتنی بڑی دشمنی کون کرسکتا ہے؟"
اور کیوں!"
سطوت آراء اسے بازو سے جھنجوڑے پوچھ رہی تھیں۔
"تو تم نے اپنی اوقات دکھا دی، ابشام زبیر۔۔۔!"
عشال نے ماؤف ہوتے دماغ کے ساتھ سوچا تھا۔
"تم بولتی کیوں نہیں۔؟ کب تک چپ رہو گی۔۔۔؟ پانی سر سے گذر چکا عشال۔۔۔!"
سطوت آراء کا بس نہیں چل رہا تھا اسے پیٹ ڈالیں۔
وہ کس کس کو جواب دیتیں ابھی تو انھیں شافعہ بیگم سے ہی سامنا کرنا ہولا رہا تھا۔
"آغا جان!"
صارم کی آواز نے لاؤنج میں گونجتی چہ مہ گوئیوں کو نگل لیا۔
آغاجان نے سر اٹھایا اور خالی نظروں سے صارم کی طرف دیکھا۔
"میں عشال سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ اگر آپ اجازت دیں تو!"
وہ دھیمے لہجے میں ان سے بات کررہا تھا اور اپنا موبائل آف کرکے ان تک آیا تھا۔ وقار تشویش اور منتظر نظروں سے صارم کو دیکھ رہا تھا۔ اپنے بھائی کا وہ اتنا تو مزاج آشنا تھا کہ اب اس کا فیصلہ کم از کم عشال کے حق میں نہیں ہوسکتا تھا۔
"دیکھو، میاں۔۔۔!"
گفتگو کے لیے ضیاءالدین صاحب آگے بڑھے تھے لیکن آغا جان نے ہاتھ اٹھا کر انھیں روک دیا تھا۔
"عورت پر سب سے زیادہ حق اس کے شوہر کا ہوتا ہے، ضیاءالدین!
پھر گردن ان کی جانب موڑی اور سمجھانے والے انداز میں بولے۔
"ہر رشتے سے زیادہ!
تمہیں پورا حق ہے، صارم میاں! تم بات کرسکتے ہو عشال سے۔"
"شکریہ آغاجان!"
اور ایک طرف منتظر سا کھڑا ہوگیا۔
مرتضی صاحب اس سارے معاملے سے انجان اسلام آباد میں اپنے فرائض منصبی نبھارہے تھے۔
"صارم! یہ تم کیا کررہے ہو؟"
شافعہ خاتون تیزی سے اس تک آئی تھیں اور دھیمی سی سرگوشی کی تھی۔
"ماما! فی الحال تو میں نے کچھ نہیں کیا۔سو آپ پلیز اس وقت کچھ مت کہیں، ایک بار تو مجھے اس سے بات کرنی ہی ہے۔"
شافعہ مجبور سا چہرہ لیے ایک طرف ہوگیئیں، بات اتنی بگڑ چکی تھی کہ خود شافعہ کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔
"میں یہ نہیں جاننا چاہتا یہ سب کیا ہے؟
یہ کیوں ہے؟ میرا سوال تم سے یہ ہے۔
مجھے صرف تمہارا سچ سننا ہے عشال!"
چند ہی لمحوں بعد وہ عشال کے سامنے کھڑا تھا۔ کچھ دیر تک تو ان کے درمیان فقط خاموشی حائل رہی تھی۔ مگر جب عشال نے کچھ نہیں کہا تو صارم نے سوال کرنے میں پہل کی تھی۔
"آپ میرا یقین کریں گے؟"
عشال نے کہا۔
"کیونکہ اگر آپ کو مجھ پر یقین نہیں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ سچ کیا ہے؟"
عشال نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا۔
"مجھے فرق پڑتا ہے، عشال! میں جاننا چاہتا ہوں، کیونکہ مجھے ہر چیز کو اس کی جگہ پر رکھنا ہے، اور اس کے لیے تم مجھے بتاؤ گی، وہ وجہ! جو اس شخص( موبائل کو ہاتھ میں اٹھا کر دکھایا) کو یہاں تک لے کر آئی۔"
صارم نے قدرے تند لہجے میں اس سے پوچھا تھا۔
"وہ وجہ میرا انکار ہے، میں نے اس شخص کی حاصل شدہ چیز بننے سے انکار کیا تھا۔ اور میرا انکار اسے یہاں تک لے آیا۔
یہ ہے میرا سچ!"
عشال ایک جھٹکے سے کھڑی ہوئی تھی اور صارم کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی تھی۔ یہ اور بات کہ ان آنکھوں میں نمی چھلک رہی تھی۔
صارم چند لمحے اس کی گہری براؤن آنکھوں میں جھانکتا رہا پھر ایک قدم پیچھے کھینچ کر بولا۔
"تھینک یو! مجھے تم سے صرف یہی سننا تھا۔ رہا یہ سب۔۔؟ تو صارم برہان کو یہ فوٹو شاپ جیسی چیزیں نہیں توڑ سکتیں۔"
اور عشال کے کمرے سے الٹے قدموں نکلتا چلا گیا تھا۔
****************
"آپ لوگ رخصتی کی تیاری کر لیجیے، رخصتی آج ہی ہوگی۔
کیا آپ اس کی اجازت دیتے ہیں؟"
صارم نے کمرے سے نکلتے ہی ضیاءالدین صاحب کے سامنے ایک اور شوشہ چھوڑا تھا۔
لیکن وہ کچھ اور سوچ رہے تھے۔
"صارم میاں! ہم تمہاری سوچ کی قدر کرتے ہیں، لیکن معاف کرنا بیٹا! اپنی بچی کو ہم اس طرح رخصت نہیں کر سکتے، خدا نخواستہ اس میں کوئی عیب نہیں، یہ ہماری عزت کا سوال ہے، بہتر ہے آپ اس بارے میں آغا جان کی رائے لے لیں۔"
ضیاءالدین صاحب نے مناسب انداز سے اسے سمجھانے کی کوشش کی تھی۔
اور ہوسکے تو اپنی والدہ سے بھی مشورہ کر لیجیے۔"
"ماما سے میں بات کر لیتا ہوں آپ آغا جان سے کرلیجیے۔"
صارم اپنے فیصلے میں اٹل نظر آتا تھا۔
"ٹھیک ہے، میں ان سے بات کر لیتا ہوں۔"
ضیاءالدین صاحب نے اس کی بات رکھ لی تھی۔
*****************
کمرے میں خاموشی چھائی تھی اور آغا جان بجھے چہرے کے ساتھ سر نیہوڑائے صوفہ پر بیٹھے تھے۔
"کیا کہا صارم نے؟
عشال؟ جو سچ ہے بتادو، وہ لوگ تو بس ایسے خاموشی سے چلے دیےے، جیسے منہ میں گھنگنیاں ہوں۔ تم نے پہلے کیوں نہیں بتایا اس لڑکے کے بارے میں؟
دیکھو! تمہاری حماقت نے کیا دن دکھائے ہیں؟"
سطوت آراء کے سوال ختم نہیں ہورہے تھے۔ لیکن وہ کافی دیر سے چپ ہی بیٹھی تھی۔ پھر اس نے آغا جان کی طرف دیکھا۔ کامدار لہنگا ہاتھوں سے ذرا سا اونچا کیا اور اٹھ کر آغا جان کے قدموں میں بیٹھ گئی تھی۔
"آغا جان! آپ کو بھی لگتا ہے، میں قصور وار ہوں؟"
وہ بھیگی آنکھوں سے آغا جان کا گھٹنا تھامے پوچھ رہی تھی۔
آغاجان نے دھیرے سے نگاہ اٹھائی اور اس کے سر پر ہاتھ رکھ دیا۔
وہ سسک پڑی اور ان کے زانو پر سر رکھ کر رو دی تھی۔
میرا یقین کریں آغا جان میں آغا سمیع اکدین کا فخر ہوں، کل بھی تھی اور آج بھی ہوں، آپ کے اعتبار کو ٹھیس پہنچانے کا میں نے تصور بھی نہیں کیا کبھی!
عشال بولتی جارہی تھی، اور آغا جان کا ہاتھ اس کے سر پر تھا۔
"آغا جان! آپ آئیں ،آپ سے ضروری بات کرنی ہے۔"
ضیاءالدین صاحب نے کمرے میں داخل ہوکر آغا جان کو پکارا تھا۔
آغا جان خاموشی سے اٹھ کر ان کی پیچھے چل دیے تھے۔
"صارم میاں چاہتے ہیں رخصتی ابھی کردی جائے، آپ کی کیا رائے ہے؟"
"ہونم۔۔!
میں بات کرتا ہوں صارم میاں سے۔"
اتنا کہہ کر وہ لان میں چلے آئے تھے۔ جہاں مہمان تو جا چکے تھے، صرف متعلقہ افراد ہی موجود تھے۔
***************
"صارم تم یہ کیا کرتے پھر رہے ہو؟ اتنی جلدی رخصتی؟ جذبات میں فیصلہ نہیں کرنا چاہیے، اور میں بھی تمہیں فی الحال اتنا بڑا فیصلہ تنہا کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی!"
شافعہ کے ہاتھ پیر پھول گئے تھے۔ صارم کا فوری رخصتی کا مطالبہ سن کر۔
"ماما پلیز! اس وقت بہترین فیصلہ یہی ہے، اس میں دونوں فیملیز کی عزت ہے۔"
"آہممم!
میں آپ سے بعد میں بات کرتا ہوں۔"
صارم انھیں وقار کے پاس چھوڑ کر آغا جان کی طرف بڑھا تھا، جو دور سے ہی دانستہ کھنکھارتے ہوئے چلے آئے تھے۔
"بات یہ ہے صارم میاں! اس طرح اچانک رخصتی کے حق میں تو ہم بھی نہیں ہیں، بہتر یہی ہے کہ یہ مسئلہ حل ہو جانے تک تم بھی اچھی طرح سوچ بچار کر لو، شادی بیاہ کوئی ایک دن کا سودا نہیں ہے بیٹا! یہ زندگی بھر کا ساتھ ہے، اور یہ رشتہ جتنا اٹوٹ ہے، اتنا ہی نازک بھی، کچے گھروندے کی طرح اس کی بنیاد عارضی بھی ہے اور اسی میں اس کی مضبوطی بھی۔ اسے سینت سینت کر رکھنا پڑتا ہے، ہر آن!
ایک بار پھر سوچ لو!
ہم تمہیں ایک اور موقع دیتے ہیں۔"
أغا جان کا لہجہ مضبوط تھا۔
"میں سوچ سمجھ چکا آغا جان! جہاں تک اس معاملے کی بات ہے تو، اس کی فکر آپ مت کریں، سائبر کرائم ڈیپارٹمنٹ میں میرا ایک دوست ہے، وہ یہ معاملہ اچھے سے ہینڈل کر لے گا۔
آپ بس رخصتی کی تیاری کریں۔"
صارم نے انھیں اچھی طرح تسلی دیتے ہوئے کہا۔
"ٹھیک ہے، پھر تم ہمیں کم ازکم ایک ہفتے کا وقت دو، کچھ معاملات میں جلدی ٹھیک نہیں ہوتی۔"
آغا جان نے دیکھا وہ بضد ہے تو انھوں نے وقت لینے کے بہانے اسے وقت دینا ضروری خیال کیا تھا۔
"ٹھیک ہے، آغا جان! مجھے کوئی اعتراض نہیں۔"
آغا جان نے اسے گلے سے لگا لیا تھا اور پھر وہ شافعہ کی طرف مڑگیا تھا۔ جہاں وقار فکرمندی سے ساری صورتحال کا مشاہدہ کررہا تھا۔
*******************
"مجھے تم سے اسی حماقت کی توقع تھی صارم! کیا ضرورت تھی انھیں امید دلانے کی؟"
شافعہ کا غصہ سوا نیزے پر تھا۔
"میں نے بہت سوچ سمجھ کر فیصلہ کیا ہے مام! آپ کو کیا لگتا ہے؟ عشال ایسی لڑکی ہوسکتی ہے، جیسی ان تصویروں میں نظر آرہی ہے؟"
صارم نے موبائل فرش پر پٹخا تھا۔
"ہر گز نہیں! تم سے پہلے میں اس فیملی کو جانتی ہوں، ورنہ کبھی ان لوگوں کا سایہ بھی وقار پر نہ پڑنے دیتی، لیکن جانتے ہو، اس سارے معاملے سے کیا ثابت ہوتا ہے؟"
صارم نے سوال نہیں کیا، مگر شافعہ نے جواب دینا ضروری سمجھا۔
"یہی کہ وہ ایک انتہائی بے وقوف لڑکی ہے، جو اپنی عزت کو سنبھالنا نہیں جانتی!"
اور ایسی لڑکی کو کم ازکم میں اپنی بہو نہیں بنا سکتی۔"
شافعہ نے برہمی سے صارم کو دیکھ کر کہا تھا، جو سر جھکائے انھیں سن رہا تھا، مگر ماں کی باتوں کا اس نے کیا ردعمل دینا تھا، شافعہ کو اچھی طرح اندازہ ہورہا تھا۔
"مام! میں صرف اتنا جانتا ہوں، عشال بے قصور ہے، اور سچ جاننے کے بعد بھی میں پیچھے ہٹ جاؤں، تو یہ میری کم ظرفی ہوگی۔
آپ کیا چاہتی ہیں، بلاوجہ لوگوں کو تہمتیں دھرنے کا موقع دوں؟ صرف عشال کی زندگی تباہ نہیں ہوگی، میں بھی ادھورا رہ جاؤں گا مام!"
صارم نے بالآخر التجائیہ لہجے میں ماں سے کہا تھا۔
شافعہ نے چونک کر بیٹے کا چہرہ دیکھا، جس پر برسوں کی تھکن محسوس ہوتی تھی۔ آج ہی اس کا نکاح ہوا تھا اور آج ہی اس کی خوشیوں کو کسی دشمن کی نظر کھاگئی تھی۔
"صارم! میری جان ہے تم میں، میں تمہاری خوشیوں کی دشمن نہیں ہوں، میری جان! لیکن ابھی اس لڑکی نے تمہاری زندگی میں قدم نہیں رکھا تو اتنا سب کچھ ہوگیا، آگے نجانے کیا کچھ دیکھنا پڑے، بیٹا ہم شریف لوگ ہیں، اس طرح کی دشمنیاں نہیں پال سکتے،
یہ دیکھو! میں ہاتھ جوڑتی ہوں تمہارے سامنے، اس بات کو یہیں ختم کردو۔"
"نکاح کا مطلب سمجھتی ہیں آپ۔۔۔؟ شریک زندگی!
اور عشال کو میں اپنی زندگی میں شامل کرچکا ہوں، اب اس کی ساری دوستیاں، رشتے، محبتیں میری ہیں، اور نفرتیں بھی!!
آئی ایم سوری ماما! اب میں اسے نہیں چھوڑ سکتا۔فیصلے کے سارے اختیار میرے ہاتھ سے نکل چکے ہیں۔
وہ تو اٹھ کر چلا گیا تھا، لیکن شافعہ پیچھے کلستی رہ گئی تھیں۔
*******************