سو مسٹر عثمانی! آپ کو مجھ سے کس قسم کا فیور چاہیے؟
مرتضی سلیمان نے مشفقانہ لہجے میں زبیر عثمانی کو مخاطب کیا۔ جو اس وقت بہت غیر آرام دہ حالت میں ان کے سامنے موجود تھے۔ سفید شرٹ شکن آلود ہوچکی تھی، آستینوں کے کف الٹے ہوئے تھے، بال بھی بے ترتیب اور الجھن زدہ تھے۔ جیسے کہ زبیر عثمانی خود!
میں اپنی مسز سے ملنا چاہتا ہوں۔
زبیر عثمانی کے لہجے میں محسوس کی جانے والی نخوت تھی۔
سوری مسٹر عثمانی! یہ اب مزید ممکن نہیں، تم وکیشنز پر نہیں ہو، تمہیں یہاں انتہائی سیریس ٹرائل کے لیے لایا گیا ہے۔
مرتضی سلیمان کا لہجہ ایکدم ہی بدلا تھا۔
اچھی طرح جانتا ہوں! مجھے یہاں کیوں لایا گیا ہے؟
زبیر عثمانی کے لفظوں میں گہرے طنز کی کاٹ تھی۔
اس انکوائری کے نام پر تم مجھ سے اپنا ذاتی بغض نکال رہے ہو، انتقام لے رہے ہو۔۔۔ مجھ سے، اور میرے خاندان سے!
تم جیسے لوگ اس سیٹ پر پہنچ کر ایسی ہی بھبکیاں چھوڑتے ہیں، جنھیں میں ایک کان سے بھی سننا گوارا نہیں کرتا۔
مرتضی صاحب کی صحت پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔
سنو مرتضی سلیمان!
انھیں جانے کے لیے مڑتا دیکھ کر زبیر عثمانی نے کہا۔
مرتضی صاحب کے اٹھتے قدم رک گئے، لیکن وہ پیچھے مڑے نہیں۔
میں تمہارے ساتھ ڈیل کرنے کے لیے تیار ہوں۔۔۔۔،
مرتضی سلیمان زبیر عثمانی کو سننے کے لیے خاموش رہے۔
میں تمہارے ساتھ ڈیل کرنے کے لیے تیار ہوں۔۔۔۔، میں اپنے بیٹے کی شادی تمہاری بھتیجی سے کردوں گا! اس طرح یہ معاملہ سیٹل ہوسکتا ہے۔۔۔۔ اگر تم۔۔۔۔۔
میرے گھر کی عورتوں کے بارے میں تم نے سوچا بھی کیسے؟
مرتضی سلیمان تیر کی طرح زبیر عثمانی تک پہنچے تھے، اور سیدھا اس کی گردن کو دبوچتے ہوئے کان میں سرگوشی کے انداز میں غرائے تھے۔
یہ تو بہت کم ہے! تم انتظار کرو، تمہارے ساتھ ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے۔
پھر وہ ایکدم ہی پیچھے ہٹے تھے۔ اس کا گریبان درست کیا، شانے پر تسلی آمیز ہاتھ رکھا اور مشفقانہ انداز میں بولے۔
کریم کافی، تمہاری صحت کے لیے ٹھیک نہیں،اور تمہاری صحت ہمارے لیے بہت اہم ہے۔ سو! بلیک کافی۔
اتنا کہہ کر وہ اپنے پیچھے زبیر عثمانی کا زرد چہرہ چھوڑ گئے۔
*************
نینسی نے شعاعیں پھینکتے آسمان کو ایک نظر دیکھا، جب أنکھیں چندھیا گیئیں تو نگاہ واپس موڑ لی۔ اس کے سامنے دوڑتا بھاگتا ٹریفک تھا اور پرتھ!
وہ گردن اکڑائے ٹیکسی اسٹینڈ کی طرف چل دی۔
کنگ ایڈورڈ اسٹریٹ!
کہہ کر وہ ٹیکسی میں بیٹھ گئی۔
"تمہیں میں دنیا کے کسی بھی کونے سے ڈھونڈ نکالوں گی! تم مجھ سے چھپ نہیں سکتے ایب!
وہ دل ہی دل میں شعلے چباتی ایسے راستے پر گامزن تھی، جہاں مایوسی کے سوا کچھ نہیں تھا۔
************
اپنی والدہ پر زبردستی مت کرو!
وہ ماں ہیں، اور ماں کا اولاد پر جانتے ہو، کیا حق ہے؟
اگر وہ بیوی کو طلاق دینے کا کہے تو، بیٹے کو انکار کا حکم نہیں ہے!
لیکن سر۔۔۔۔؟
قطع کلامی مت کرو،
ایک بار پھر وقار ضیاءالدین صاحب کے سامنے تھا۔
اور وہ اسے جو سمجھا رہے تھے، وہ ووقار کے حلق سے نہیں اتر رہا تھا۔
میں جانتا ہوں تم کیا کہنا چاہتے ہو؟ لیکن غور کرو تو تم جان جاؤ گے، یہ کسقدر باحکمت اور با مصلحت بات ہے۔
یہ ایک مثال ہے کہ ماں کا اولاد کی ذات پر کیا اور کتنا حق ہے؟
کہنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ ماں وہ ہستی ہے، جو اولاد کے لیے ساری زندگی تکلیف اٹھاتی ہے۔ تمہاری والدہ ایک بیوہ خاتون ہیں، انھوں نے عام عورتوں کی بہ نسبت زیادہ مشقت اٹھائی ہے، ان کے لیے دونوں اولادوں کو ایک پلڑے میں رکھنا مشکل ہوگا۔ اور میاں! میں تمہیں مشورہ دوں گا، اپنی والدہ کا دل مت دکھانا!
دوسرے لفظوں میں آپ مجھے انکار کررہے ہیں؟
ضیاءالدین صاحب خاموش ہوئے تو وقار نے فورا سوال جڑدیا۔ گویا اس پر ان کی باتوں کا کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔
زبردستی کے رشتے کبھی پائیدار نہیں ہوتے۔ اور بات یہ ہے کہ میں بھی تمہاری والدہ کا دل نہیں دکھانا چاہتا۔
ضیاءالدین صاحب نے بات ختم کردی تھی۔
میں انھیں منالوں گا!
وقار نے جیسے التجا کی۔
نہیں! تم انھیں مجبور کر کے یہ شادی کرتو لو گے، مگر۔۔۔ اس کے بعد جو کچھ ہوگا، تم اس کا تصور ہی کرسکتے ہو۔ اور حقیقت تصور سے کہیں زیادہ تلخیاں لیے ہوتی ہے۔
خواہ مخواہ اپنی زندگی کو الجھنوں میں مت ڈالو، اور جہاں تمہاری والدہ کی خوشی ہو، وہاں شادی کرلو!
ہماری طرف سے تم پر کوئی مورد نہیں!
آخر میں ضیاءالدین صاحب نے نرمی سے کہا۔
وقار شکست خوردہ سا اٹھ گیا۔
کیا آپ مجھے ایک موقع بھی نہیں دیں گے؟
تم بہت اچھے لڑکے ہو،میری نظر میں تمہارا قد ہمیشہ بلند رہے گا۔
ضیاءالدین صاحب نے گویا بات ختم کردی۔
کاش آپ نے میرے لفظوں کا مان بھی رکھا ہوتا۔۔۔
وہ تیزی سے ان کے آفس سے نکلا تھا۔
************
یعنی تم کہنا چاہتے ہو کہ وہ پاکستان آرہا ہے؟
نہیں! میں کہہ رہا ہوں، اسے پاکستان آنا پڑے گا۔ کیونکہ شہیر ضیاء۔۔۔۔۔! انسان کو اپنے کیے کا حساب کبھی تو دینا پڑتا ہے۔
شہیر اس وقت اشعر کے سامنے بیٹھا تھا۔ اور اشعر بھی اب اس چوہے بلی کے کھیل سے تنگ آچکا تھا۔ وہ جانتا تھا۔ اپنے سامنے بیٹھے شخص سے نجات کی ایک ہی صورت ہے کہ۔۔۔،اس کا مطالبہ مان لیا جائے۔
اشعر اس وقت اسلام آباد میں اپنے آفس میں تھا۔ جبکہ شہیر نے اسے جو تین دن کی ڈیڈلائن دی تھی، وہ آٹھ گھنٹے پہلے پوری ہوچکی تھی۔ مگر اشعر کو اندازہ نہیں تھا، شہیر اس کے پیچھے اسلام آباد تک چلا آئے گا۔
"کیا تم میرے ساتھ ہو؟"
شہیر نے اچھنبے سے اشعر کی طرف دیکھا۔
" میں صرف اپنے ساتھ ہوں۔" ہاں! لیکن مجھے تم سے اور تمہارے گھرانے سے ہمدردی ضرور ہے۔۔، میں ابشام کے ساتھ کبھی بھی نہیں تھا۔ لیکن یہ بات میں تم لوگوں کو بروقت سمجھا نہیں سکا۔ میں نورین کو پہلے ہی وارن کرچکا تھا، کیونکہ میرے سامنے دونوں فیملیز تھیں۔ جس چیز کا نام بھی تمہارے گھر لینا گناہ تھا۔ وہ ابشام کے گھر میں پانی کی طرح پی جاتی تھی۔ لیکن جب تک نورین میری بات سمجھتی، تب دیر ہوچکی تھی۔
پتہ نہیں وہ کیوں اس میں دلچسپی رکھتی تھی؟"
اشعر کے چہرے پر شہیر پہلی بار سنجیدگی دیکھ رہا تھا، البتہ اس کی بات نے شہیر کو بری طرح چونکایا تھا۔
"نورین، ابشام میں دلچسپی رکھتی تھی؟ کیا مطلب ہے اس بات سے؟"
ویسی دلچسپی نہیں، جو کسی کو خاص بناتی ہے، اشعر نے جلدی سے وضاحت دی، میں اپنی بات شاید سمجھا نہیں پارہا، لیکن نورین نے مجھے ابشام زبیر کے پیچھے لگایا تھا، وہ اس کے بارے میں جاننا چاہتی تھی۔ سپوز، اس کی ایکٹیوٹیز، کمپنی، سوشل انوائرمنٹ، اور اسی قسم کی باتیں۔ انفیکٹ اس نے ابشام کی تھوڑی سی جاسوسی بھی کروائی تھی۔۔۔
پھر؟
شہیر کو یہ سب بہت عجیب محسوس ہوا تھااور کہیں کچھ ناگوار بھی۔
پھر! میں جو کچھ اس کے بارے میں جانتا تھا، اسے بتادیا تھا۔"
اشعر نے کندھے اچکائے۔
تم نے مجھے اس وقت کیوں نہیں بتایا؟
شہیر کے ماتھے پر بل تھے۔
"تمہیں بتانا چاہیے تھا؟"
کیا ہم متعارف تھے؟ اس وقت تک یہ معاملہ اتنا گھمبیر بھی نہیں تھا۔"
گویا اشعر ہر طرح سے بری الذمہ تھا۔
Thanks for your contribution!
شہیر سپاٹ لہجے میں کہتا اٹھ گیا۔ جانتا تھا اس سے مزید کچھ پوچھنے کا فائدہ نہیں تھا۔لیکن جتنا کچھ بتا چکا تھا اس نے شہیر کو بری طرح الجھا دیا تھا۔اور ان الجھنوں کا جواب صرف نورین کے پاس تھا۔
************
شافعہ خاتون نے لاؤنج میں قدم رکھا تو ٹھٹک کر رکیں۔ وقار کاؤچ کی پشت سے سر ٹیکے چھت پر نظریں ٹکائے ہوئے تھا۔اس کی جامد نظریں گھومتے ہوئے پنکھے کے پروں پر جمی تھیں۔ شافعہ گھبرا کر اس تک پہنچیں،
"وقار! کیا ہوا ہے تمہیں؟"
"کچھ نہیں ماما!"
اس نے جنبش کیے بنا جواب دیا۔
" کچھ تو ہوا ہے، تمہارا چہرہ بتا رہا ہے۔"
شافعہ نے الجھ کر کہا۔
"گھبرائیں مت ماما! میں نے اپنے قدم کھینچ لیے ہیں، آپ کو اپنی جیت مبارک ہو، میں اب کبھی عشال کا نام بھی نہیں لوں گا۔
اتنا کہہ کر وہ اٹھ کھڑا ہوا تھا۔ گہرا نیلا کوٹ اس کے بازو پر تھا اور گرے ٹائی ڈھیلی سی گلے میں جھول رہی تھی۔ اس نے معتدل قدم بڑھائے اور اپنے کمرے کی طرف چل دیا۔
ایک عجیب سے ملال نے شافعہ کو گھیرلیا تھا۔ شاید اس کی پلکوں پر لرزتی نمی نے۔۔۔۔!
*************
سورج نارنجی گولہ کی صورت اختیار کیے اپنے رتھ پر سوار اختتام منزل کی جانب بڑھ رہا تھا۔ سبک ہوا کے جھونکے شہیر ولا کے پودوں سے ہمکنار ماحول کو رونق بخش رہے تھے۔
"مرتضی بھائی، پھر کب تک نورین کی رخصتی کررہے ہیں؟"
سطوت آراء نے برسبیل تذکرہ پوچھا کہ اس وقت موجود افراد کے درمیان گفتگو کا موضوع یہی تھا۔ البتہ ایک کسک سی سطوت آراء نے اندر کہیں محسوس کی تھی۔ ان کی کتنی خواہش تھی، نورین کو اپنی بہو بنانے کی۔ مگر۔۔۔! اور
اس مگر کے آگے وہ بے بس تھیں۔
"بس عائز کا انتظار ہے۔ ڈیٹ بھی فکس ہوہی جائے گی۔"
مرتضی صاحب نے اپنے مخصوص نپے تلے انداز میں جواب دیا۔ ان کے ہاتھ میں چائے کا کپ تھا، جس سے وہ گاہے گاہے چسکیاں لے رہے تھے۔
"ایک وقت تھا، جب شادی کی تاریخ خاندان کے بزرگ طے کیا کرتے تھے، اور آج کل یہ کام۔۔۔شادی ہال، ہوٹلوں کی انتظامیہ، ڈیزائنر اور جیولرز کرتے ہیں۔ اس طرف بھی دھیان رکھیے گا۔"
ضیاءالدین سمیت مرتضی صاحب بھی ہنس پڑے۔
بجا فرمایا، بھابھی! لیکن آپ کی بھانجی ضروت سے زیادہ اسمارٹ ہے۔ اس نے بہت کچھ پہلے ہی سنبھال لیا ہے، مجھے تو بس فارمیلیٹی پوری کرنی ہے۔"
مرتضی صاحب نے بات ہلکے پھلکے لہجے میں ہی کی تھی، لیکن سطوت آراء اور ضاءالدین دونوں ہی جانتے تھے، مرتضی صاحب کو اس رشتے میں خاص دلچسپی نہیں تھی۔ یہ خالصتا نورین کا فیصلہ تھا۔
"یہ ہی وقت کا تقاضہ ہے یار! اب ہمارا زمانہ تو رہا نہیں، یہ وقت ان بچوں کا ہے، فیصلے بھی انھیں ہی کرنے دو۔"
ضیاءالدین صاحب نے انھیں سمجھانا چاہا۔
"درست کہہ رہے ہو ضیاء! دراصل اپنی ٹف جاب کے درمیان، میں اپنے بچوں کو ٹھیک سے توجہ نہیں دے سکا۔ انھیں کھلی چھوٹ یہ سوچ کر دی کہ سوسائٹی میں موو کرتے ہوئے کسی کمتری کا شکار نہ ہوں۔ انھیں ایک پر اعتماد اور مکمل شخصیت بنانے کی کوشش میں، انھیں خود سے بہت دور لے گیا ہوں۔"
اب وہ میری کہاں سنیں گے۔"
مرتضی صاحب بنا کسی ملال کے بس ایک تجزیہ پیش کررہے تھے۔
"نورین سمجھدار بچی ہے، ماں کی اتنی بڑی کمی کے باوجود اس نے زندگی کا بہادری سے سامنا کیا۔ خود کو بھی سنبھالا اور زعیم کو بھی۔ تم دل سے سارے ملال نکال دو۔"
مرتضی صاحب نے خاموشی سے چائے کا کپ درمیان میں رکھی میز پر دھر دیا۔
"اس معاملے میں، میں بھابھی کا شکر گذار ہوں۔ انھوں نے ہمیشہ اپنے بچوں کے ساتھ میرے بچوں کا بھی خیال رکھا۔جہاں تک ملال کی بات ہے تو، میرے دل میں کوئی ملال ہوتا تو نوبت یہاں تک نہ پہنچتی، بہر حال! عائز کے آنے میں چند دن ہی باقی ہیں۔ نیکسٹ ویک میں کسی دن میں ڈیٹ فکسنگ رکھ لوں گا۔ آپ لوگوں نے ضرور آنا ہے۔"
مرتضی صاحب نے بات سمیٹتے ہوئے جواب دیا۔
ضیاءالدین صاحب مسکرادیے کہ انھیں اندازہ تھا۔ مرتضی صاحب نے عائز کی ٹھیک ٹھاک انکوائری کروائی ہوگی۔ ورنہ بقول ان کے، نوبت یہاں تک نہ آتی!
"درست! اس معاملے کو زیادہ طول مت دینا، بیٹیوں کے فرض سے جتنی جلدی ہوسکے سبکدوش ہوجانا چاہیے۔"
ضیاءالدین صاحب نے خوشی سے کہا۔ اور سطوت آراء جو مرتضی صاحب سے کچھ کہنے والی تھیں، خاموش ہوگیئیں۔
"تم کب سبکدوش ہورہے ہو، اس فرض سے؟ عشال کو رخصت کرنا ہے یا نہیں؟"
" ٹھیک کہہ رہے ہیں، مرتضی بھائی! نہ جانے یہ کس انتظار میں ہیں؟ اتنا بھی نہیں سمجھتے، ہماری پوزیشن اب پہلے سی نہیں۔"
ضیاء الدین صاحب سے پہلے سطوت آراء بول پڑیں۔
ضیاءالدین صاحب کی پیشانی پر ناگواری کی شکنیں ابھر آئیں۔
"عشال کا معاملہ میں نے اب اللہ پر چھوڑ دیا ہے، وہ بہترین کارساز ہے۔ اور جہاں تک " پوزیشن" کا سوال ہے؟ تو بیگم صاحبہ! عشال میرے لیے بوجھ نہ تھی!۔۔۔ نہ ہے۔۔۔۔۔! مجھے جب تک اس کے لیے مناسب رشتہ نہیں ملے گا، میں اسے رخصت نہیں کروں گا۔"
ضیاءالدین صاحب نے کئی بار کی کہی بات دہرا دی۔ جبکہ سطوت آراء جزبز ہوکر رہ گیئیں۔ ان کے سامنے اپنی بیٹی تھی۔ نہیں چاہتی تھیں، عشال کے قصوں کا اثر آبریش کے مستقبل پر پڑے لیکن شوہر کے سامنے مجبور تھیں۔ ماضی میں ایک بار اپنا مقدمہ وہ کامیابی سے لڑ چکی تھیں۔ لیکن اب ان کے مہرے کمزور تھے۔
مرتضی صاحب نے گرما گرمی کا ماحول دیکھا تو لفظوں کے چھینٹے مارنا ضروری سمجھا۔
پریشان کیوں ہوتی ہیں بھابھی؟ عشال کا بھی جلد کوئی سبب پیدا ہوجائے گا۔ ان شاءاللہ!
السلام علیکم خالوجان!
لان میں موجود افراد نے آواز کے منبع کی طرف دیکھا تھا۔
شہیر سلام جھاڑتا گھر کے اندر داخل ہورہا تھا۔
"وعلیکم السلام! کہاں ہو، میاں؟ تمہاری طرف کچھ خیر کی خبر بھی ہے؟"
مرتضی صاحب نے ہلکے پھلکے انداز میں شہیر کو مخاطب کیا۔
"خیر ہی سمجھیے! بس اپنا راستہ تلاش کرنے کی کوششوں میں ہوں۔"
شہیر نے ملگجے حلیے میں وہیں نشست سنبھال لی۔
"حماقتوں سے باز آجاؤ یار! تمہارے سامنے زندگی پڑی ہے اور نجانے کہاں پہاڑوں میدانوں میں خاک چھانتے پھر رہے ہو!"
اگر یہی کچھ کرنا تھا تو امریکہ سے ڈگری لینے کی کیا ضرورت تھی؟"
مرتضی صاحب نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔
"جی! میرے سامنے زندگی طشت میں سجی ہے، لیکن جن کو زندگی کوئی آپشن نہیں دیتی وہی لوگ میرا ٹارگٹ ہیں۔"
اس نے بھی جیسے "نہ سدھرنے" کی قسم کھا رکھی تھی۔
" یہ تم نے لڑکے کو کس راستے پر لگا دیا ضیاء؟
سوشل ورک اچھی چیز ہے، اگر توازن میں رہے تو، شہیر میاں نے تو اسی کو اوڑھنا بچھونا بنا لیا ہے، ہر چیز توازن میں رہے تو ہی زندگی کا حسن برقرار رہتا ہے۔"
مرتضی صاحب نے بیک وقت شہیر اور ضیاءالدین صاحب کی طرف دیکھ کر کہا تھا۔
"سوشل ورک ہی تو نہیں کررہا میں! "سویرا" کو آپ ٹرسٹ مت سمجھیں۔ وہ میرے جینے کا مقصد ہے۔
شہیر نے زور دے کر کہا۔
"کیا ساری زندگی یہی کچھ کرتے رہوگے؟ اپنی زندگی کے بارے میں کیا سوچا ہے تم نے؟ کیرئیر بنانے کا بھی ایک مناسب وقت ہوتا ہے۔۔۔۔، میں تمہاری زندگی بہت مشکل دیکھ رہا ہوں لڑکے!"
مرتضی صاحب نے ہتھیار نہیں ڈالے تھے۔
"میری زندگی بھی یہی ہے، میرا کیرئیر بھی یہی ہے۔ میں نے " سویرا" کو اپنا خون جگر دے کر اس کی بنیادوں پر کھڑا کیا ہے۔اور اس مرحلے پر میں اسے ہرگز نہیں چھوڑ سکتا۔"
شہیر اپنے مؤقف سے ہٹا نہیں تھا۔
"دیکھ رہے ہیں؟ مرتضی بھائی!"
مرتضی صاحب کے بولنے سے پہلے ہی سطوت آراء نے خفگی سے شہیر کو دیکھا تھا۔
"دونوں باپ بیٹا میری تو کچھ سنتے ہی نہیں! مجھے تو لگتا ہے، زندگی میں کبھی اکلوتے بیٹے کی خوشی دیکھنا میرا مقدر ہی نہیں ہے۔"
سطوت آراء نے شوہر کا غصہ بھی بیٹے پر اتارا۔
"اوہو! ماما؟ آپ کہاں کی بات کہاں لے گئیں؟ سویرا ہی آپ کے بیٹے کی خوشی ہے، اپنے بیٹے کی خوشی میں آپ خوش نہیں ہیں کیا؟"
شہیر نے شرارت سے انھیں دیکھا۔
مرتضی صاحب بولے،
"بھابھی کا شکوہ تو جائز ہے صاحبزادے!"
اگر تمہارے یہی لچھن رہے تو، کون احمق اپنی بیٹی تمہیں دے گا؟"
مرتضی صاحب نے ہلکے پھلکے انداز میں اب بھی اسے حقیقت باور کروانی چاہی تھی۔
"آہا۔۔۔؟ آج تو " قصر شہیر" بقعہءنور لگ رہا ہے۔ ایک ساتھ چار چار چاند؟"
اس سے پہلے کہ شہیر کوئی جواب دیتا، باقی سب بھی باہر چلے آئے۔ اور آتے ہی زعیم نے نعرہء مستانہ لگایا تھا۔
شہیر مسکراتے ہوئے اٹھ گیا۔ اس سے مصافحہ کیا، معانقہ کیا اور تمام افراد پر طائرانہ سی نگاہ ڈالتے ہوئے کہا۔
"مرتضی انکل، بابا اورمیں، یہ تو ہوگئے پورے تین، یہ چوتھے چاند سے تمہاری کیا مراد ہے؟"
شہیر نے جان بوجھ کر خود کو انجان ظاہر کیا تھا۔
"ارے۔۔۔؟ سب سے حسین چاند تو آپ کے سامنے ہے، آپ ادھر ادھر کیا دیکھ رہے ہیں؟
وہ حیران ہوا۔
شہیر مسکرا دیا۔
"تمہارے علاوہ بھی اس بیان پر کوئی یقین کرتا ہے؟"
شہیر نے مزید اسے چھیڑا۔
"کیوں نہیں؟ تمام باشعور اور باذوق شخصیات اس حقیقت پر ایمان رکھتی ہیں۔"
شہیر کے ساتھ سبھی اس کی بات سے محظوظ ہوئے تھے۔
" شہیر بھیا! آپ کو پتہ ہے، آج بڑا نحس دن ہے۔"
آبریش اس کی کرسی کی پشت پر کھڑی تھی اور تنک کر بولی تھی۔
"اچھا؟ کیوں بھئی چاند گرہن ہے کیا؟
شہیر اس کی بات کو نہیں پہنچا تھا۔ اگرچہ جانتا تھا۔ تھیلے سے بلی ہی برآمد ہو گی۔
" نہیں! آج شیطان کا یوم پیدائش ہے۔"
آبریش نے بڑے وثوق سے اعلان کیا۔ زعیم نے فورا سے پیشتر کیلکولیشن شروع کردی تھی۔ لیکن آج اس کا برتھ ڈے نہیں تھا۔ سو مطمئن ہوگیا۔اور تصدیق کے لیے بول پڑا۔
"کیوں آپ پر کوئی صحیفہ نازل ہوا ہے کیا؟"
وہ فورا چمک کر بولی۔
"ہر بات کے لیے صحیفے نازل ہونا ضروری نہیں۔۔۔! بڑی معتبر روایات سے یہ خبر مجھ تک پہنچی ہے۔"
اب تو اسے بھی تجسس نے بے چین کردیا تھا۔
"آج۔۔۔؟پانچ رجب ہے،حیرت ہے؟ مجھ ناچیز کے علم میں یہ " گراں قدر" معلومات نہیں!
"پانچ رجب۔۔۔؟ قمری تاریخوں کے حساب سے یہ زعیم کی تاریخ پیدائش ہے۔۔۔، ہیپی برتھ ڈے سن!"
"جی!
مرتضی صاحب کے اعلان نے اسے بری طرح چونکایا تھا۔ باقی سب کا زوردار قہقہہ نکلا تھا۔ جبکہ زعیم اب ہونقوں کی طرح سب کو دیکھ رہا تھا۔ عشال اور نورین بھی مسکرادی تھیں۔ وہ دونوں گھروں کی رونق تھا۔
" شہیر بھیا! میں آپ کے لیے چائے لاتی ہوں؟"
اتنا کہہ کر وہ بے نیازی دکھاتی واپس ہولی تھی۔
"میری طرف سے بھی مبارکباد قبول کرنا۔"
شہیر نے مسکراہٹ دباکر زعیم کی طرف دیکھا۔
"کوئی بات نہیں شہیر بھائی! ہم بڑے دل کے مالک ہیں۔ ایسے چھوٹے موٹے وار تو ہنستے ہنستے سہہ لیتے ہیں۔"
" یہ اس دن کا بدلہ لیا ہے، اس لڑکی نے، پتہ نہیں، کب عقل آئے گی، اس لڑکی کو؟"
سطوت آراء کو آبریش کی حرکت پسند نہیں آئی تھی۔
"کوئی بات نہیں، خالہ جان! نو بال پر ویسے بھی میں رن نہیں لیتا۔"
اپنے تیئیں اس نے سطوت آراء کو تسلی دی تھی۔
"ہم تو ڈائریکٹ چھکا لگاتے ہیں، سکسر ہیں ہم!"
اس نے خود کو خود ہی داد دی تھی۔
"خیال رکھنا صاحبزادے! چھکے شوق میں باؤنسر ہی نہ پڑجائے،"
مرتضی صاحب نے اسے متنبہ کیا۔
" خاطر جمع رکھیے،والد! چھکا ہو یا، فور رن،باؤنسر پڑے یا نو بال، میچ ہمیشہ ڈراء ہی ہوجانا ہے۔"
شہیر محض مسکرا دیا۔
"آپ دونوں نے کیا چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے؟"
زعیم نورین اور عشال سے مخاطب ہوا۔
" تمہاری ٹرین کہیں رکتی بھی ہے؟"
عشال سے رہا نہ گیا۔
جبکہ نورین کی مسکراہٹ شہیر کا چہرہ دیکھ کر سمٹی تھی۔ وہ بہت عجیب نظروں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ شہیر کی نظروں کو سمجھ نہیں پائی۔
**************