تمہارا مسئلہ کیا ہے؟ مسٹر!
عشال پیر پٹختی آفس سے نکلی تھی اورچند قدم آگے چلتے شامی کو جھاڑاتھا۔ شامی کا رویہ اسے مزید تپاگیا تھا۔
میرا مسئلہ آپ ہیں۔
وہ دوقدم میں فاصلہ پاٹتا ہوا اس تک پہنچا تھا۔
مجھے خود پر اختیار نہیں رہتا۔ یہ جو کچھ بھی ہوا وہ بھی unconsciously ہوا۔ سچ عشال! آپ میرے دل میں، دماغ میں، تصور میں، بلکہ مجھ میں، بس چکی ہیں۔ میں اب آپ کو خود سے الگ نہیں کر سکتا! چاہوں بھی تو۔۔۔۔
وہ نجانے کیا کچھ کہہ رہا تھا۔ عشال ساکت دھڑکنوں کے ساتھ یک ٹک اسے دیکھ رہی تھی۔ صحیح معنوں میں وہ اپنے سوال پر پچھتائی تھی۔
اب آپ ہی بتائیے میں ان کاغذوں کا کیا کروں گا۔ جبکہ آپ کا وجود تو۔۔۔۔میری سانسوں کے ساتھ ساتھ۔۔۔۔
اسٹاپ اٹ!
عشال گھبرا کر چلائی تھی۔
بکواس بند کرو اپنی۔ تمہیں اپنے دل دماغ اور تصور تک سے مجھے نکالنا ہوگا۔ سمجھتے کیا ہو تم مجھے؟ میں اپنا وجود تمہاری آنکھوں تک سے نوچ پھینکوں گی۔ میں۔۔۔عشال زبرجرد۔۔۔۔ہوں!
تمہارے دل سے، دماغ سے، تصور سے، اپنا نام تک کھرچ ڈالوں گی۔
وہ کہہ کر مڑی تھی کہ شامی کی آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی۔
گریٹ! میں بھی ابشام زبیر ہوں۔ میری روح سے خود کو کھینچ نکالو تو جانوں۔
اور دلکش سی مسکراہٹ کے ساتھ ہاتھ ماتھے تک لیجاتے ہوئے اسے سلام پیش کیا تھا۔
عشال جل کر رہ گئی۔
***********
صارم آئینے کے سامنے کھڑا اپنا جائزہ لے رہا تھا۔ اس نے ہلکے رنگ کی ڈریسڈ پینٹ شرٹ پہن رکھی تھی۔ پرفیوم کی معمولی سی دھار خود پر اسپرے کررہا تھا کہ۔۔۔۔
ہنم۔۔م۔۔م۔۔۔م ہا!
وقار نے پرفیوم کی مسحورکن خوشبو اندر تک کھینچی تھی۔
یہ آپ پرپوزل لے کر جارہے ہیں یا بارات؟ ابھی سے جناب کا یہ حال ہے تو آگے کیا ہوگا؟
وقار نے اسے چھیڑا تھا۔
صارم نے پرفیوم کی شیشی ڈریسنگ پر رکھی اور وقار کی طرف مڑا۔
یہ صرف پرپوزل نہیں ہے، میری زندگی کا اہم ترین مشن ہے، جسے میں پوری توانائیوں کے ساتھ جیتنا چاہتا ہوں۔
صارم نے مسکرا کر وقار کو دیکھا اور ایک آنکھ دبا کر دوبارہ آئینے کی طرف متوجہ ہوچکا تھا۔
واٹ۔۔۔؟
وقار کی تو تقریبا چیخ ہی نکل گئی تھی۔
خدا کا خوف کریں یار!
آپ نے تو اتنے خوبصورت ایونٹ کو بھی "مشن" بنا ڈالا ہے! کچھ رحم کرلیں لوگوں پر۔
صارم نے بالوں میں جیل لگایا اور تیزی سے بال سیٹ کرتے ہوئے بولا۔
بالکل! یہ میرے لیے مشن ہی ہے، "مشن زندگی"!
لیکن مائی ڈیئیر برادر! اس مشن کے لیے یہ ساری تیاری شیاری کسی کام کی نہیں،
آپ کو ایک اچھے خاصے ٹرائل کے لیے خود کو تیار کرنا چاہیے۔
وقار نے سنجیدہ اور کچھ کچھ رنجیدہ شکل بنا کر صارم کو گویا خبردار کرنا چاہاتھا۔
تم فکر مت کرو، اگر میں ماما کے سارے ٹرائل پاس کرسکتا ہوں تو دنیا کا کوئی بھی ٹیسٹ پاس کرسکتا ہوں۔
اور مسکرا دیا۔
وقار چند لمحے یونہی اسے دیکھتا رہا اور پھر بولا۔
دیکھ لیں، زندگی کوئی ایسا ٹیسٹ نہ لے لے، جس کی تیاری آپ نے کی ہی نہ ہو؟
پھر میں نقل سے کام چلا لوں گا۔ ہیپی؟
صارم نے غیر سنجیدگی سے جواب دیا اور کمرے سے باہر چلا گیا۔
بہتر ہوگا، نقل کے بجائے عقل سے کام چلائیں۔
وقار نے پیچھے سے ہانک لگائی تھی اور ایک دو جست میں صارم تک پہنچنے کی کوشش کی تھی۔ صارم گاڑی کے پاس اس کا منتظر تھا۔
*************
عشال گھر پہنچی تو اس کا دماغ بری طرح سلگ رہا تھا۔ شامی کے چیلنج نے اسے روح تک جلا ڈالا تھا۔ وہ کون ہوتا تھا۔۔۔ اسے سوچنے والا؟
اس پر اس کا انداز!
عشال کو نہیں لگ رہا تھا کہ وہ چند سخت سست سن کر باز آجانے والوں میں سے تھا۔ ایک عجیب سی بے خوفی تھی، اس کی آنکھوں میں!
اس کے لفظوں سے زیادہ چنگاریاں اس کی آنکھوں میں تھیں۔ ایسی چنگاریاں جو مخالف کے گرد حصار باندھ دیتی تھیں۔ سچ تو یہ تھا۔۔ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے تنبیہہ کرتے ہوئے عشال کو خود کو سنبھالنا پڑا تھا۔ درحقیقت اس کی سیاہ آنکھوں میں بڑی گہرائی تھی۔ دلدل جیسی گہرائی!
ایک لمحے کے لیے تو عشال نے خود کو اس دلدل میں پھسلتے ہوئے محسوس کیا تھا۔ لیکن اس نے بروقت خود کو اس ٹرانس سے نکالا تھا۔
بہت بچپن میں ایک بار اس نے آغا جان سے سنا تھا کہ درندے کی آنکھوں میں کبھی نہیں دیکھنا چاہیے۔۔۔، درندوں کی آنکھوں میں ایک ایسا ٹرانس ہوتا ہے کہ انسان اپنی دفاعی قوت استعمال سے پہلے ہی کھو دیتا ہے۔
بہت تجربہ کار شکاری ہی درندے کی آنکھوں کی اس قوت پر قابو پاسکتے ہیں۔
عام انسان کو کبھی یہ حماقت نہیں کرنی چاہیے۔۔۔ چاہے عام بلا(cat) ہی کیوں نہ ہو۔
اور عشال نے آج وہ قوت ابشام زبیر کی آنکھوں میں دیکھی اور محسوس کی تھی۔
عشال!
وہ اپنی سوچوں میں کھوئی ہوئی تھی، جب سطوت آراء اس کے پاس آئی تھیں۔
جی ماما جان؟
وہ ہلکا سا چونک کر ان کی طرف متوجہ ہوئی تھی۔
کیا بات ہے؟ تم ٹھیک تو ہو؟ ابھی تک یونہی کیوں کھڑی ہو؟ چینج بھی نہیں کیا تم نے؟
عشال کے چہرے پر الجھن رقم دیکھ کر وہ اپنی بات بھول گیئیں۔
کچھ خاص نہیں ماما! بس ایسے ہی۔۔۔
عشال نے ٹالنے کی کوشش کی۔
آپ کہیں؟ کچھ کہہ رہی تھیں؟
ارے ہاں!
سطوت آراء کو اپنی ضروری بات یاد آگئی تھی۔
آج ڈنر پر وقار کے گھر والے آرہے ہیں، تم تیار رہنا۔ ان سے ملنا ہے۔
کیوں؟
بے اختیار عشال کے منہ سے برآمد ہوا تھا۔
تمہارا پرپوزل لارہی ہیں، وقار کی والدہ اپنے بڑے بیٹے کے لیے۔
انھوں نے مسکراتے ہوئے اسے مطلع کیا تھا۔
اب پتہ چل گیا ناں؟
بس تم نے تیاررہنا ہے،
لیکن ماما؟
لیکن وویکن کچھ نہیں، یہ میرا نہیں آغا جان کا فیصلہ ہے!
اور جانے کے لیے مڑگیئیں۔
عشال پر جی بھر کر تھکن سوار ہوئی۔ ابھی ایک مجنوں کو بھگت کر آرہی تھی کہ یہ نئی مصیبت!
بے فکر رہو۔۔۔۔ تمہاری مرضی پوچھی جائے گی۔
سطوت آراء جاتے جاتے مڑی تھیں اور اسے پریشان دیکھ کر اس کے گال پر ہاتھ رکھتے ہوئے عشال کوتسلی دینا ضروی خیال کیا تھا۔
ان کے جانے کے بعد عشال نے کمرے کی چٹخنی چڑھائی اور گرنے کے انداز میں بیڈ پر خود کو ڈھیلا چھوڑدیا تھا۔
کچھ بھی تھا وہ آغاجان کو نہیں ٹال سکتی تھی۔
************
اچھا تو میاں!
آپ کے خیال میں ایک آئیڈیل رشتے میں کیا خوبیاں ہونی چاہیئیں؟
شہیر ولا میں ان کا پر تپاک استقبال ہوا تھا۔ ایک اچھے ماحول میں گفتگو کا آغاز ہوچکا تھا۔ ضیاءالدین صاحب نے صارم سے اس کی جاب دلچسپیوں اور مستقبل کے حوالے سے ارادے جاننا چاہا تھا۔ اس کا اعتماد،شخصیت اور گفتگو متاثر کن تھی۔ ضیاءالدین صاحب اور سطوت آراء مطمئن نظر آرہے تھے۔ کہ، آغا جان نے ہلکے پھلکے انداز میں صارم سے سوال کیا تھا۔
اب سب کو صارم کے جواب کا انتظار تھا۔
وفا!
بےاختیار صارم کے منہ سے برآمد ہوا۔
وفا! میں سمجھتا ہوں، سچائی ایمانداری کسی بھی تعلق کی root ہے، اگر آپ اپنے لائف پارٹنر سے سنسیئر نہیں تو وہ رشتہ ،رشتہ کہلانے کے لائق نہیں۔
شافعہ کے چہرے پر خوشگوار حیرت تھی۔ جیسے اپنے بیٹے کی ذہانت کی ایک بار پھر قائل ہوگئی ہوں۔
اور محبت۔۔۔۔؟
آغا جان کے دوسرے سوال نے وقار کی دلچسپی بڑھا دی تھی۔ وہ سوال جواب کا یہ سیشن خاصا انجوائے کررہا تھا۔ لیکن بظاہر پپو بچہ نظر آرہا تھا۔
محبت۔۔۔ تو میگنٹ کی طرح ہے، ایک نہ ایک دن دوسرے کو اپنی طرف کھینچ ہی لیتی ہے۔
صارم نے سچائی سے کہہ دیا تھا۔
لیکن برخوردار ہر محبوب لوہا نہیں ہوتا۔ اگر کوئی جست نکل آئے تو؟
ایسی صورت میں میگنٹ کی کیا حیثیت رہ جاتی ہے؟
تب، محبت پالش بن کر اسے اپنی چمک تو بخش ہی جاتی ہے۔ محبت، کسی روپ میں ڈھل جائے، وہ اثر انداز ضرور ہوتی ہے۔
صارم جواب دے کر منتظر نظروں سے انھیں دیکھنے لگا۔
یہ تمہارا تجربہ ہے؟ یا مشاہدہ؟
وقار الرٹ ہوگیا۔
سیشن کا سب سے خطرناک سوال تو اب سامنے آیا تھا۔
احساس! یہ میرا وہ احساس ہے، جو میں نے پچھلے چند دنوں میں خود پر اترتا محسوس کیا ہے۔
صارم کی پیشانی پر عجب سی چمک تھی۔ وہ کلین شیو تھا، چہرے سے تروتازگی جھلکتی تھی۔۔۔ لیکن کسی قسم کا تصنوع اس کی شخصیت سے عاری تھا۔
آغا جان نے بس ایک ثانیے اسے بغور دیکھا۔۔۔۔ اور!
سطوت بیٹا! عشال کو لے آئیے!
تمام افراد نے خوش دلی سے ایک دوسرے کودیکھا۔
آغاجان کی طرف سے یہ مثبت اشارہ تھا۔
*************************
لان کے پرسکون پودے بہار کی ہوا میں مست جھول رہے تھے۔ پول کا نیلا پانی بھی خاموش تھا۔ مگر رنگ برنگی تیز روشنیوں کا عکس اس پرسکون ماحول میں ارتعاش پیدا کررہا تھا۔ آسمان کو چھوتی اسٹائلش سی عمارت کا اندرونی حصہ تیزی سے گھومتی ڈسکولائٹس اور بے ہنگم موسیقی سے گونج رہا تھا۔ ایلیٹ کلاس کی نوجوان نسل جھومتے ہوئے ایکدوسرے پر اپنی اپنی دھاک بٹھانے میں مصروف تھی۔
اسی فلور پر جہاں رقص و سرور اپنے عروج پر تھا۔ شامی ایک کاؤچ پر اسٹک ٹکائے، ٹانگ لمبی کیے سافٹ ڈرنک پی رہا تھا۔
ہائے بڈی!
اس کے کسی واقف کار نے شامی کی مٹھی سے مٹھی ٹکرا کر پھر ہاتھ ملایا تھا۔
شامی نے جواب دینے کے بجائے فقط سر اثبات میں ہلایا۔ سنا ہے؟
Somebody slaped you؟
Is it true؟
اس سوال پر کچھ سماعتیں اور اس طرف متوجہ ہوئی تھیں۔ سب کو ہی یہ معاملہ جاننے میں دلچسپی تھی۔
جس نے تمہیں اتنی انفارمیشن دے ہے، اس نے مکمل انفارمیشن نہیں دی تمہیں؟
شامی نے ڈرنک کا گھونٹ حلق سے اتارتے ہوئے اس کی بات بھی حلق سے اتاری تھی۔
کیسی انفارمیشن؟
پوچھنے والے نے کچھ اور جوش دکھایا تھا۔
یہی کہ تمہاری ممی کا افیئر تمہارے ڈیڈ کے باس کے ساتھ چل رہا ہے آج کل؟
ڈونٹ یو نو؟
شامی نے اطمینان کی حد کرتے ہوئے براہ راست اسے نوازا تھا۔
شامی۔۔۔!!
حسب توقع وہ ایکدم بھڑک اٹھا تھا۔
تم بات کرنے کے قابل نہیں ہو!
وہ اپنا سامنہ لے کر فورا ہی غائب ہوا تھا۔
پیچھے زبردست قہقہے پڑے تھے۔
تم نے اچھا نہیں کیا اس کے ساتھ؟
ایک مترنم آواز شامی کے پاس ابھری۔ لیکن اس نے سر اٹھانا ضروری نہیں سمجھا۔ وہ اب بھی اپنے شغل میں مصروف تھا۔ یہ شیما تھی۔ شامی نزدیک ترین لوگوں میں سے ایک نام۔
تم نے اسے برداشت کیسے کرلیا؟ میں تمہاری جگہ ہوتی تو۔۔۔
تم میری جگہ کبھی نہیں ہوسکتیں! میری جگہ آنے کے لیے تمہیں سو بار مرنا پڑے گا۔
شامی نے تندی سے اس کی بات کاٹی تھی۔
اوکے۔۔۔ ایسا ہی ہوگا۔۔۔۔
وہ کاؤچ پر شامی کے ساتھ ہی بیٹھ گئی۔
تم نے اسے جانے کیوں دیا؟ آخر تھی کون وہ بچ؟
اے۔۔۔ای۔۔۔ی۔۔ی۔۔!
شامی نے چیخ کر اسے تنبیہہ کی تھی۔ اورشیما ایکدم خاموش ہوئی تھی۔اس نے اطراف میں ایک نظر ڈالی، مگر ان کی طرف کوئی متوجہ نہیں ہوا تھا۔ میوزک اور ڈانس کے شور میں کسی کو کسی کا ہوش ہی کب تھا۔
وہ جو بھی تھی۔ اس نے میری جان بچائی تھی۔ میں اسے معاف کرچکا ہوں۔ اوکے؟
وہ دھاڑا تھا لیکن شیما پر اس کی دھاڑ کا اثر نہیں ہوا تھا۔
اوکے۔۔۔۔! میں تو اس لیے کہہ رہی تھی۔ لوگ گوسپس کررہے ہیں۔ تم اس وقت ہاٹ ایشو ہو ان کے لیے۔۔۔
آئی ڈونٹ کیئر! دیز بلڈی پیپلز۔۔۔۔
وہ شروع ہوچکا تھا۔ شیما نے موضوع بدلنے میں ہی عافیت سمجھی۔
تم ایبروڈ جارہے ہو؟
نہیں!
شامی نے ایک لفظی جواب دے کر اسے بہت کچھ باور کرادیا تھا۔۔
شیما اس سے بہت خاص بات کرنا چاہتی تھی لیکن شامی کے اس دماغ کے ساتھ وہ خاموشی اختیار کرنے پر مجبور تھی۔
شامی نے کمرے میں داخل ہوتے ہی خود کو بیڈ پر گرایا اور اسی حلیے میں بے سدھ پڑگیا۔ حسب معمول عائشہ اس کے پیچھے آئی تھیں، لیکن وہ لیٹتے ہی سوچکا تھا۔ مجبورا وہ واپس پلٹنا چاہتی تھیں کہ کسی چیز نے عائشہ کو روک لیا تھا۔
وہ کاغذ کا ایک سرا تھا، جو شامی کی اسٹڈی ٹیبل پر کسی فائل سے جھانک رہا تھا۔
*********
میں نے تم سے کہا تھا، اپنے لاڈلے کی خبر لو! مگر تمہیں تو میری جاسوسی سے ہی فرصت نہیں۔
زبیر عثمانی نے تند لہجے میں عائشہ کو مخاطب کیا تھا۔ گذشتہ ہفتے کی عزت افزائی انھیں بھولی نہیں تھی۔ بھولی تو عائشہ بھی کچھ نہیں تھی۔ لیکن فی الوقت شامی کی وجہ سے سب کچھ پس پشت ڈالنے کا فیصلہ وہ کرچکی تھیں۔
اسی لیے صبر کا نہایت کڑوا گھونٹ لیتے ہوئے زبیر عثمانی کو جواب دیا۔
تمہاری جاسوسی کی مجھے ضرورت نہیں زبیر عثمانی! تمہارے کرتوت سارا شہر جانتا ہے۔ اس لیے مجھ سے اپنی نہیں اپنے بیٹے کی بات کرو۔۔۔۔ وہ کسی لڑکی میں انوالو ہے شاید! اور آج کل اس کے اس موڈ کی وجہ بھی وہ لڑکی ہی ہے۔۔۔۔!
ترشی عائشہ کے لہجے میں بھی کم نہیں تھی۔ لیکن دونوں کے درمیان ایک ہی مشترکہ پوائنٹ تھا جہاں چاہتے ناں چاہتے دونوں کو یکجا ہونا پڑتا تھا۔ اور وہ تھا۔ شامی!
عائشہ کی بات سن کر چند لمحوں کے لیے زبیر عثمانی نے چپ سادھ لی تھی۔
عائشہ نے زبیر کو سوچتے پاکر سوالیہ نظروں سے پوچھا۔
سوچ کیا رہے ہو تم؟
اس سے کہو، اگر سیریس ہے تو، پرپوزل دے دیتے ہیں، لیکن اس کے بعد میں اسے مجنوں بنا نہ دیکھوں، اسے ہر حال میں ایبروڈ جانا ہوگا۔ کیونکہ اس میں کتنے گڈز ہیں؟ میں اچھی طرح دیکھ چکا ہوں۔
اتنا کہہ کر مسٹر عثمانی نے گاڑی پورچ میں روک دی تھی۔ وہ دونوں ایک پارٹی نمٹا کر لوٹے تھے۔ اور لوگوں میں شامی کے متعلق گردش کرتی افواہوں نے دونوں کا موڈ خراب کرڈالا تھا۔
کار روکتے ہی زبیر صاحب ترش قدمی سے بیڈروم کی جانب بڑھ گئے تھے۔۔۔۔ جبکہ عائشہ زبیر کی کہی بات کو دل ودماغ میں کہیں ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کرنے لگیں۔
**********
صبح اپنی اجلی رنگت کے ساتھ بیدار ہوئی تھی۔ چڑیاں اپنے آشیانوں کو چھوڑ چکی تھیں۔ اور نورین عشال کے سر پر کھڑی اسے بیدار کرنے کی کوشش میں تھی۔
اب اٹھ بھی جاؤ! دوپہر سر پر آگئی ہے،
نورین نے تکیہ اسے کھینچ مارا تھا۔ مگر عشال کےوجود میں کوئی جنبش نہیں ہوئی تھی۔
دیکھو! میں جانتی ہوں تم جاگ رہی ہو، اس لیے مجھے تو تم یہ نخرے مت دکھاؤ!
عشال!
نورین نے سر تک تانی اس کی چادر کھینچی تھی۔
تو پھر میرا پیچھا چھوڑ کیوں نہیں دیتیں؟ معاف کردو مجھے!
عشال نے چادر کو بے ترتیبی سے منہ پر لپیٹتے ہوئے جواب دیا تھا۔
جب سے صارم کا پرپوزل اوکے ہوا تھا۔ وہ احتجاجا سو رہی تھی۔
ٹھیک ہے، میں بھی دیکھتی ہوں کب تک تم یہ بیڈ توڑتی ہو۔
یوں تو پھر یوں ہی سہی!
نورین اس کے پاس ہی بیڈ پر اچھل کر بیٹھی تھی۔
کیا مسئلہ ہے؟ کیوں میری جان کو آرہی ہو؟
عشال جھنجلاتی ہوئی اٹھ بیٹھی۔
یہ! یہ ہوئی ناں بات؟
اب شرافت سے بتادو، یہ ساری بلیک میلنگ کس لیے؟ تم نے کیوں خالہ جان کو اور سب کو پریشان کررکھا ہے؟
نورین نے سرزنش کے انداز میں اس سے دریافت کیا۔
میں نے کسی کو پریشان نہیں کررکھا۔الٹا سب نے مجھے پریشان کردیا ہے۔
اچھا؟ کیا پریشانی لاحق ہوگئی محترمہ کو؟ رات ورات!
نورین نے اسے مزید تپایا تھا۔
عشال نے جھٹ چادر منہ سے ہٹائی۔
ماما جان نے کہا تھا۔ میری مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہوگا!
اور اب۔۔۔۔۔؟
وہ انھیں ہاں کرنے والی ہیں۔
عشال نے سخت برے موڈ کے ساتھ نورین کے گوش گذار کیا تھا۔
تو پھر۔۔۔۔؟ کیا مرضی ہے محترمہ کی؟
نورین کا انداز بدلا نہیں تھا۔
ہاں ہاں! بتاؤ ہم بھی جاننا چاہتے ہیں تمہیں اعتراض کس بات پر ہے؟
کیا وہ تعلیم یافتہ نہیں؟ یا بہت بدصورت ہے؟
سطوت آراء اچانک ہی کمرے میں داخل ہوئی تھیں۔ اور نورین کی بات اچک لی تھی۔
میں نے ایسا کب کہا؟
بے اختیار عشال کے منہ سے نکلا تھا۔ اور سطوت آراء سمیت نورین کے چہرے پر بھی مسکراہٹ کھیل گئی تھی۔
ہنس کیوں رہے ہیں آپ لوگ؟
عشال جھنجھلائی تھی۔
اب ہم مسکرائیں بھی ناں؟
نورین نے شکایتی انداز میں پوچھا۔
تم تو اپنی بولتی بند ہی رکھو۔
عشال اب اٹھ کر بیٹھ چکی تھی۔اور نورین کو خطرناک تیوروں سے گھور رہی تھی۔
اوکے۔۔۔ میں چپ! بس۔۔۔؟
نورین نےاچھے بچوں کی طرح منہ پر انگلی رکھی تھی۔
عشال سطوت آراء کی طرف متوجہ ہوئی جو اس نوک جھونک سے محظوظ ہورہی تھیں۔
ماما جان! میرا آنرز بھی ابھی کمپلیٹ نہیں ہوا، اور مجھے ماسٹر کے ساتھ ساتھ ایم فل کرنا ہے، اپنی فیلڈ میں!
میرا خواب ہے، لیکچررشپ حاصل کرنے کا۔ پلیز ماما۔۔۔؟
اور اس کے بعد؟
نورین سے رہا نہ گیا اس کے ارادے جان کر۔
اس کے بعد، پروفیسر۔۔۔۔؟
عشال نے جھٹ جواب دیا۔
سطوت آراء اس کی شکل دیکھ کر رہ گیئیں۔
اور شادی۔۔۔؟
وہ کہاں فٹ ہوتی ہے، تمہارے پروگرام میں؟
وہ بے اختیار بولی تھیں۔
وہ بھی ہو جائے گی۔۔۔،
یہی کوئی پچاس ساٹھ سال کی عمر میں۔ اگر دوتین دانت بچ گئے تو۔۔۔۔!
عشال کی بات پوری نہیں ہوئی تھی کہ نورین نے درمیان میں لقمہ دے ڈالا۔
بس۔۔۔۔!
حسب توقع سطوت آراء کی چیخ نکل گئ۔
تمہارے فضول خوابوں کے پیچھے ہم اتنا اچھا رشتہ نہیں ٹھکرا سکتے۔۔۔۔! اور پھر کوئی وجہ بھی تو ہو، منع کرنے کی؟
تم ذہن بنالو! ہم ہاں کرنے لگے ہیں۔ باقی سارے خواب اپنے گھر جاکر پورے کرلینا۔
سطوت آراء نے فیصلہ صادر کیا اور لوٹ گیئیں۔
عشال ہکا بکا نورین کو دیکھتی رہ گئی۔ جس کی یہ کاررستانی تھی۔
کچھ دیر تک اس نے مسکراہٹ دبانے کی کوشش کی مگر پھر قہقہہ فوارے کی طرح اس کے منہ سے پھوٹ پڑا۔
عشال نے قریب پڑا پولیسٹر کا تکیہ کھینچ کر اسے دے مارا تھا۔
***********
یہ ہیں، ہماری بیٹی عشال!
سطوت آراء نے اس کی طرف اشارہ کیا تھا۔
السلام علیکم!
صارم نے بے اختیار جھکی نگاہ اٹھائی تھی، اور پھر ہٹانا بھول ہی گیا۔
اس وقت بھی اس کا چہرہ سفید رنگ کے ہالے میں تھا۔ اور چاند اس کا استعارہ بن گیا تھا۔
ماشاءاللہ!
شافعہ بیگم نے ستائشی نگاہ اس پر ڈالی تھی۔ یہاں تک کہ اس نے نشست سنبھال لی تھی۔
آپ بھی بیٹھ جائیں بیٹا!
صارم چونک سا گیا۔ اسے احساس ہی نہ ہوا تھا اور وہ عشال کےلیے کھڑا ہوگیا تھا۔
شافعہ کے احساس دلانے پر اس کی نظروں نے سب کی دبی دبی مسکان دیکھی تھی۔
وہ گھبرا کر فورا بیٹھ تو گیا تھا۔ لیکن وقار کے ساتھ نورین کی شریر مسکراہٹ بھی وہ دیکھ چکا تھا۔
کیا ہورہا ہے؟ برادر؟
وقار نے اچانک اس کے کان کے پاس زور سے کہا تھا۔ اور وہ بری طرح خیالوں سے چونکا تھا۔
تم! بدتمیز انسان! کسی کی پرائیویسی میں اس طرح انٹرفیئر کرتے ہیں؟
پتہ نہیں صارم کو غصہ کس بات پر آیا تھا۔
وقار نے ذرا سا ترچھا ہوکر بھائی کا چہرہ دیکھا۔ جیسے کوئی انہونی ہوگئی ہو۔
تو پھر کیسے انٹر فیئر کرتے ہیں؟
میرے خیال سے تو پرائیویسی ڈسٹرب کرنے کے اصول فی الحال وضع نہیں ہوئے۔ اگر ہوبھی گئے ہیں تو میں ان سے ابھی تک نابلد ہوں۔ مجھے تو ایسے ہی پرائیویسی ڈسٹرب کرنا آتی ہے۔ آپ بتائیں، آپ کے مطابق پرائیویسی کیسے ڈسٹرب کی جاتی ہے؟
وقار نے اس کی بات کا یہ اثر لیا تھا۔
میں تمہاری اول فول سننے کے موڈ میں ہرگز نہیں ہوں۔ چلو نکلو یہاں سے۔۔۔۔۔!
صارم نے چٹکی بجاتے ہوئے اسے باہر کا راستہ دکھایا۔
کمال ہے۔۔۔! میں تو یہاں نیکی کے ارادے سے آیا تھا۔ مگر۔۔۔۔!
وقار نے ڈرامائی انداز میں گردن ڈھلکائی۔
بہت نیکی کرلی تم نے میرے ساتھ۔ اب بھاگو یہاں سے۔
صارم نے اسے دھکیلنے کی کوشش کی۔
اوہو؟ آپ تو دھکے دینے پر اتر آئے ہیں۔
اس نے خود کو مزید ڈھیلا چھوڑا تھا۔ جس کی وجہ سے اس کا وزن صارم پر آگیا تھا۔
ویسے۔۔۔۔ آپ جن کے خیالوں میں کھوئے ہوئے تھے ناں؟ انھی کی خبر لایا تھا۔۔۔ خیر! کوئی بات نہیں۔ میں دل کی بات دل میں ہی دبا کر رکھ لوں گا۔
اور جانے کے لیے ایک قدم اٹھایا تھا کہ صارم نے کلائی سے اسے تھام لیا۔
کیسی خبر۔۔۔؟
چھوڑیں بھی! آپ کی پرائیویسی ڈسٹرب ہوگی۔
وقار ہٹیلے انداز میں پلٹنے لگا۔
وقار! سیدھی طرح بتاؤ گے؟ یا کسی اور طریقے سے سمجھو گے؟
صارم نے اسے دھمکانا چاہا۔
میں آپ کی دھمکیوں میں آنے والا نہیں۔۔۔ اوکے؟ ہاں! تھوڑا پیار دلار دکھائیں تو شاید۔۔۔۔ مجھے رحم آجائے۔۔۔!
وقارٹس سے مس نہ ہوا تھا۔
وقار کے بچے۔۔۔!
صارم نے اس کی گردن دبوچی ہی تھی کہ شافعہ بیگم کمرے میں داخل ہوئیں۔
صارم بیٹا ان کی طرف سے ہاں ہوگئی ہے۔ لیکن آغا صاحب کچھ ڈسکس کرنا چاہ رہے ہیں۔
کل شام کو جانا ہے ان کے ہاں!
وقار کا منہ لٹک گیا۔
وہ جس خبر کو کیش کروانا چاہ رہا تھا۔ شافعہ بیگم نے ایک ہی سانس میں صارم کے گوش گذار کردی تھی۔
بے اختیار صارم کے چہرے پر مسکراہٹ کھیلی تھی۔
***********
آسمان تاروں سے ڈھکا تھا۔ شہر کے مشہور ریستوران کا اوپن ایریا، شوخ روشنیوں سے سجا زندگی میں ردھم کا احساس پیدا کررہا تھا۔ خوبصورتی سے سجی ان ٹیبلز سے سمندر کی جھلماہٹ کا نظارہ کیا جاسکتا تھا۔
یہیں ایک طرف شامی کافی کے گھونٹ پر گھونٹ لے رہا تھا۔ چہرے پر بے زاری کے تاثرات دکھائی دے رہے تھے۔
تم چپ کیوں ہو؟ کچھ تو جواب دو؟
شیما اس وقت بھی اس کے ساتھ تھی۔ اس نے سیاہ رنگ کا جھلملاتا لباس پہن رکھا تھا۔ اور خوبصورت گردن ہر قسم کے جیولری آئٹم سے بے نیاز تھی۔ البتہ کانوں میں ایئررنگ ضرور چھب دکھلا رہے تھے۔ اور اس کے قاتل حسن کو دوآتشہ بنانے کے لیے اتنا ہی کافی تھا۔
کیا جواب دوں، جبکہ تم اچھی طرح جانتی ہو، میرا جواب! لیکن تمہاری خوشی کے لیے میں پھر سے کہہ دیتا ہوں۔
I am۔۔۔not interested in you!
شامی نے چبا چبا کر اپنے الفاظ دہرائے تھے۔
شیما نے گہری سانس خارج کی۔
میں نے سوچا تھا، شاید تم اپنا فیصلہ بدل لو، لیکن تم اب بھی وہیں ہو۔۔۔اور۔۔۔ اور میں بھی!
شیما نے جوس کو انگلی سے ہلاتے ہوئے کہا۔
تمہاری یہ باتیں اب مجھے بور کرنے لگی ہیں۔ آخر تم اتنی ڈھیٹ کیوں ہو؟ حالانکہ تم جانتی ہو، میں تم جیسوں کو منہ لگانا بھی گوارا نہیں کرتا۔
شامی کے الفاظ کی بہ نسبت لہجہ نارمل تھا۔ وہ ایسے بات کررہا تھا، جیسے گروپ ڈسکشن کررہا ہو۔
محبت! محبت بڑی ڈھیٹ ہوتی ہے، شامی! اسے جتنی زور سے دھتکارو گے، یہ اتنے ہی پریشر سے پلٹ آتی ہے۔ اور یہ انسان کو ڈھیٹ کے ساتھ ساتھ ضدی بھی بناڈالتی ہے۔ اگر قدم اکھڑنے لگیں،سمجھ جاؤ، تمہیں محبت ہوئی ہی نہیں۔
اینی ویز! میں محبت پر تمہارا لیکچر نہیں سننا چاہتا۔ لیکن ایک بات اپنے اس چھوٹے سے دماغ میں پھنسالو۔
شامی نے اس کے سر کو ٹہوکا دیا۔
مجھے پکے ہوئے پھل کی طرح گر جانے والی لڑکی سے کم از کم محبت نہیں ہوسکتی۔
آئندہ ملو تو، محبت کے علاوہ کوئی اور بات کرنا۔
اتنا کہہ کر وہ اٹھ گیا تھا۔
شیما کا رنگ زرد چاند میں ڈھل گیا۔ وہ بے بس اپنی جگہ بیٹھی رہی۔ ہوش اس وقت آیا جب شامی کو پارکنگ میں جاتے دیکھا۔
وہ تیزی سے کلچ اٹھا کر اس کے پیچھے لپکی تھی۔
شامی نے ابھی کار کا لاک ہی کھولا تھا کہ شیما پہنچ گئی۔
پلیز شامی! اس طرح تو مت جاؤ! تم نے کھانا بھی نہیں کھایا۔
وہ ملتجی سی اس سے کہہ رہی تھی۔
تمہارے فلیٹ پر بلانے کے یہ گھٹیا آئیڈیاز اب پرانے ہوچکے ہیں۔ آئی تھنک تمہیں خود کو اپ گیڈ کرلینا چاہیے۔
اتنا کہہ کر شامی اسے دھکا دیتا ہوا وہاں سے چلاگیا تھا۔
شیما نامراد سی کسی بھکاری کی طرح خالی ہاتھ رہ گئی تھی۔
ریستوران کے گراؤنڈ فلور سے پارکنگ کا یہ منظر صاف دکھائی دے رہا تھا۔
اور کارنر کی ایک ٹیبل سے نورین سمیت عشال نے بھی یہ منظر دیکھا تھا۔
وہ لوگ یہاں زعیم کا رزلٹ سیلیبریٹ کرنے آئے تھے۔ ضیاءالدین صاحب کی اس طرف پشت تھی۔ البتہ عشال یہ منظر صاف دیکھ چکی تھی۔
**********