یکلخت عشال کی آنکھوں میں مرچی بھر گئی تھی، اسے لگتا تھا رسوا ہونے کی اسے عادت پڑچکی ہے، اب کوئی چیز اس پر اثرانداز نہیں ہوسکتی۔ لیکن سنگسار ہونا کسے کہتے ہیں؟ اس نے آج جانا تھا۔
وہ بھری آنکھیں لیے لب بھینچے بیٹھی رہی۔ جبکہ نورین ابھی تک ان خواتین کو کوس رہی تھی۔ عشال کے کان اسے نہیں سن رہے تھے، وہ سائیں سائیں کرتی سماعتوں کے ساتھ ان لفظوں کی بازگشت جھیل رہی تھی۔
" تم تو عین بارات والے دن بھاگ گئی تھیں ناں؟"
خود پر گزری داستان کہنے سے وہ قاصر تھی اور زمانہ اس کہانی میں اپنی مرضی کی رنگ آمیزی کرچکا تھا۔
***************
شام کے اجالے سرنگوں ہورہے تھے، عائشہ عثمانی اپنے میکے والی کوٹھی میں شفٹ ہوچکی تھیں۔ اور اس وقت اپنے بیڈروم میں اضطراری کیفیت میں ٹہل رہی تھیں ذہہن ودل زبیر عثمانی کی طرف تھا، آج صبح پھر زبیر عثمانی سے وہ مل کر آئی تھیں۔ زبیر صاحب کی وہی ایک رٹ تھی کہ کچھ بھی کرو مجھے اس جہنم سے نکالو! جب کہ وہ خود چاہ کر بھی انہیں امید کا کوئی جگنو نہیں تھما سکی تھیں۔ زبیر عثمانی کی غیرموجودگی میں عائشہ جتنا بھی اپنے دل کو نرم کرلیتیں مگر ان سے سامنا ہوتے ہی عائشہ کی زبان زہر اگلنے لگتی تھی۔ تیس سالہ ساتھ میں ان کی زندگی میں کئی نشیب وفراز آئے تھے اور کئی بار عائشہ نے زبیر عثمانی کو ڈولتے بھنور سے نکالا تھا۔ مگر اس بار۔۔۔؟ عائشہ بھی خود کو بےبس محسوس کررہی تھیں۔ انھوں نے چاہا کہ زبیرعثمانی کی بیوفائیاں معاف نہ سہی نظرانداز ہی کردیں لیکن زخمی انا پہلو میں پھڑپھڑا کررہ جاتی تھی۔ بس اب ایک آپشن بچاتھا کہ وہ مسز ملک کے پاس جائیں، مگر اندر کی عورت ان کے قدموں کو جکڑے ہوئے تھی۔
*************
"میں عشال سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔"
ضیاءالدین صاحب اسٹڈی روم میں کرسی پر نیم دراز وقار برہان کی باتیں سوچ رہےتھے، بلاشبہ وہ عشال کےلیے ایک اچھا انتخاب تھا اگر دو قباحتیں نہ ہوتیں، ایک تو وہ عشال سے ایک سال جونیئر تھا اور دوسری بڑی قباحت۔۔۔وہ صارم کا بھائی تھا۔
اور وہ کسی صورت عشال پر صارم کاسایہ بھی نہیں پڑنے دیناچاہتےتھے۔ پھریہ کیسے ممکن تھا کہ ایک ہی گھر میں ان دونوں کا آمناسامنا نہ ہو؟
بس یہاں آکر وہ رک جاتے تھے، اور ستم ظریفی یہ تھی کہ اس معاملے میں وہ سطوت آراء سے مشورہ نہیں کرنا چاہتے تھے۔ سطوت آراء تو جیسے تلی بیٹھی تھیں ادھر کوئی دست سوال دراز کرے اور ادھر وہ عشال کو رخصت کریں، پھر چاہے وہ کوئی چوڑاچمار ہی کیوں نہ ہو۔
سطوت آراء کا خیال تھا کہ عشال کے مسئلے کاواحد حل اس کی شادی ہے۔
ٹھک۔۔۔ٹھک۔۔۔!
دستک کی آواز نے انھیں چونکادیا، سامنے شہیر منتظر سا کھڑا تھا۔
آجاؤ!
شہیر نپے تلے قدم اٹھاتاان کے مقابل آن بیٹھا۔
میں نےآپ کو ڈسٹرب تونہیں کیا؟
نہیں، اچھا ہوا تم آگئے مجھے تم سے کچھ ضروری باتیں کرنی تھیں۔
ضیاءالدین صاحب آگے کوہوکربیٹھ گئے۔
تو بلالیتے مجھے؟ کہیں میں سن رہاہوں؟
شہیر نے اپنامسئلہ ایک طرف رکھ کر مکمل ان کی طرف متوجہ ہوگیا۔
میری بات ذرا لمبی ہے، تم بتاؤ کیسے آئے؟
شہیر نے کہا۔
دراصل مجھے آپ سے آبریش کے بارے میں بات کرنی تھی۔
ٹھیک ہے بولو!
ضیاءالدین پہلےاس کامسئلہ نمٹانا چاہتے تھے۔
ماما کا بی ہیوئیر آبریش کےساتھ دن بدن اسٹرک ہوتا جارہا ہے۔ اگر وہ آرٹ پڑھنا چاہتی ہے، تو میراخیال ہے اس میں کوئی حرج نہیں، آپ پلیز ماما کو سمجھائیں یہ ٹھیک نہیں ہے،
ضیاءالدین صاحب نے بغور اس کی بات سنی اور بولے، آخر آرٹ پڑھ کر وہ کرے گی کیا؟
شہیر نے گلہ آمیز نظر سے انھیں دیکھا۔
بابا آپ بھی؟
دیکھیں آرٹ صرف نیوڈز کا ہی نام نہیں، خطاطی بھی تو آرٹ ہی ہے، بلکہ میں سمجھتا ہوں انجینئیرنگ بھی ایک آرٹ ہے۔۔۔
تم مجھے لیکچر مت دو، تمہاری ماما اتنی غلط بھی نہیں ہیں آج وہ آرٹ پڑھنے کی ضد کررہی ہے کل کیریئر بنانے کی ضد کرے گی اور اگر ہم نےآج اسے چھوٹ دیدی تو اسے عادت پڑ جائےگی ہمیشہ اپنی منوانے کی۔
شہیر نے حیرت سے اپنے پیارے والد صاحب کو دیکھا جنھوں نے کبھی اتناشدید ردعمل نہیں دیا تھا۔
سطوت آراء پھر بھی سختی کرجاتی تھیں، لیکن ضیاءالدین صاحب۔۔۔۔؟
ایسے کیادیکھ رہے ہو؟ میں غلط نہیں کہہ رہا۔
لیکن آپ غلطی کرجائیں گے، آبریش بہت اموشنل ہورہی ہے، پلیز بابا اسے اس طرح ٹریٹ مت کریں؟
وہ جوسمجھانا چاہ رہاتھا ضیاءالدین صاحب سمجھنا نہیں چاہتے تھے۔
میں تم سے بہت ضروری بات کرناچاہتا تھا، لیکن لگتا ہے، ابھی اس کاوقت نہیں آیا۔
اتنا کہہ کر ضیاءالدین صاحب اٹھ گئے تھے۔ ان کے ہاتھ میں گاڑی کی چابیاں تھیں۔ گویا وہ نشست برخاست کرچکے تھے۔
شہیر ہکابکا انھیں جاتادیکھ کررہ گیا۔ اب اسے کچھ اور سوچنا تھا۔
*************
وہ پیپل کی اور نگاہیں جمائے درد کی آنچ سہے جارہی تھی۔ گرم سیال بہہ بہہ کر گال سرخ کررہا تھا۔ اوروہ سیاہ رات کے پردے میں اپنے رب سے ہمکلام ہوئی تھی۔
مجھ سے کیا گناہ ہوا تھا؟ پروردگار! یہ زندگی جو تیری امانت تھی، تیرے ہی لیے وقف کردی، ہر لمحہ جو میں نے جیا، تیری رضا کےلیے جیا! پھر یہ رسوائیاں میرا ہی مقدر کیوں؟ یہ سیاہ رات میرے دامن سے کیوں لپٹ گئی، میں نے تو تیرےسوا کچھ نہ چاہا تھا؟ پھر یہ تیرہ بختی میرا مقدر کیوں؟
وہ شکوہ کناں تھی۔
اور سیکڑوں میل دور افق کے سینے پر اس کے مقدر کا ستارہ ٹمٹمایا تھا۔۔۔کہ شاید وہ نادان شکوہ گو، خالق کی ان گنت نعمتوں پر بھی اک نگاہ کرے۔
*************
بھائی میں آجاؤں؟ شہیر رات ساڑھے بارہ بجے آبریش کو اپنے کمرے میں دیکھ کر چونک گیا تھا اور اس کی آمد کا مقصد بھی جان گیا تھا۔
ہاں آجاؤ، لیکن تم اس وقت کیا بلیوں کی طرح مٹرگشت کرتی پھررہی ہو؟
آبریش نے برا مناتے ہوئے کہا،
ایک تو آپ اپناوعدہ بھول گئے اوپر سے مجھے بلی بھی کہہ رہے ہیں؟
شہیر مسکرادیا۔
کون ساوعدہ؟
آبریش بری طرح بدمزہ ہوئی،
بھائی۔۔۔! صبح لاسٹ ڈیٹ ہے؟ اور آپ کو یاد تک نہیں؟
میں خودکشی کرلوں گی، سچ! اگر میرا ایڈمیشن نہ ہواتو!
آبریش نے اسے دھمکایا۔
شہیر نےلیپ ٹاپ بند کیا اور ہنستےہوئے بولا۔
ارے لڑکی؟ تمہیں کچھ خدا کاخوف ہے کہ نہیں؟ اتنی سی بات کےلیےکون خودکشی کرتا ہے؟
چھوڑیں ساری باتیں، مجھے بتائیں آپ نے ماما بابا سے بات کی یا نہیں؟ صبح ایڈمیشن کی لاسٹ ڈیٹ ہے؟
آبریش سخت تناؤ کاشکار لگ رہی تھی۔
شہیر نے ایک لمحہ سوچا، اپنی جگہ سے اٹھا اور سائیڈ ٹیبل کی دراز سے ایک کاغذ نکال کر اس کی طرف بڑھایا۔
اسی لیے میں پہلے ہی تمہارا فارم لے آیا تھا۔
**************
آبریش کا چہرہ کھل اٹھا تھا،
تھینک یو بھائی! تھینکس سومچ!
وہ ایکدم سے شہیر کے گلے لگ گئی تھی، شہیر نے ہولے سے اس کا سر تھپتھپایا اور مسکرا دیا۔
لیکن بھائی اس پر بابا کے سگنیچر تو نہیں ہیں؟
اچانک ہی اسے خیال آیا تھا۔
وہ بھی ہوجائیں گے۔ تم بس اسے فل کرلو، صبح سبمٹ کروانا ہے۔
آبریش بشاش سے لوٹ گئی تو شہیر بھی خیالات جھٹک کر اپنے کام میں مصروف ہوگیا تھا۔
وہ اسکائپ پر اشعر کے ساتھ مصروف تھا۔
***************
او۔۔۔۔۔؟ آئی ایم سرپرائزڈ!
مسز ملک نے عائشہ عثمانی کو اپنے ڈرائنگ روم میں دیکھ کرکہا۔ مقصد عائشہ کو جتانا تھا۔ ماضی میں زبیرعثمانی اور مسزملک میں خاصی شناسائی رہ چکی تھی، ایسی شناسائی! جس پر عائشہ کو اعتراض تھا۔
کیسے آنا ہوا؟ مسزعثمانی!
مسز ملک کا لہجہ عائشہ کو پسند نہیں آیاتھا لیکن اس وقت وہ عائشہ کی آخری رہ جانے والی امید تھی۔
ضرورت کھینچ لائی۔
عائشہ نے حتی الامکان لہجے کو شائستہ ہی رکھا تھا۔
کیسی ضرورت؟ پلیز ذراوضاحت کریں گی؟
مسزملک کاسوال عائشہ کی عزت نفس مجروح کردینے والا تھا۔ کم ازکم عائشہ کو یہی محسوس ہواتھا۔
عائشہ نے سامنے پڑا پانی کا گلاس ہاتھ میں لیا، چند لمحے ٹھہر کر چھوٹا سا گھونٹ لیا اور مسزملک سے مخاطب ہوئیں۔
میں زبیر کے کیس کے حوالے سے بات کرنا چاہ رہی تھی، اگر ملک صاحب اور آپ زبیر کو فیور دے دیں تو۔۔۔۔۔۔ پلیز؟
عائشہ نے ادھورے لفظوں میں مدعا پیش کیا، اور اندازہ تو مسز ملک کو بھی تھا۔ زبیرعثمانی کی گرفتاری اورکرپشن اسکینڈل سے کون واقف نہیں تھا۔ اور کراچی سے اسلام آباد تک کی یہ یاترا بلاوجہ تو نہیں تھی۔
دیکھیے مسز عثمانی! آج کل ہم خود بہت پریشان ہیں، ہر طرف عجیب ہاہاکار مچی ہوئی ہے، ہمیں تو خود اپنا دامن اس کیچڑ سے بچانا مشکل ہورہا ہے۔ میں کوشش کروں گی مگر۔۔۔۔وعدہ نہیں کرسکتی، یو نو؟ آج کل رسک کون لے سکتا ہے؟
مسزملک کے ہر انداز میں نخوت تھی۔ پھر بھی عائشہ نےعزت نفس ایک طرف رکھتےہوئے ایک طرح سے ان کی منت کرڈالی۔
پلیز مسز ملک! زبیر نے ہمیشہ مشکل سے مشکل وقت میں آپ لوگوں کا ساتھ دیا ہے!
اور قیمت بھی پوری پوری وصول کی ہے۔۔۔۔
مسز ملک ترنت بولی تھیں۔
لیکن عائشہ پر کوئی اثر نہیں ہوا، تیس سالہ ازدوجی سفر میں ان پر ایسےکئی مرحلے آچکے تھے۔ اس بار مختلف بس اتنا تھا کہ مقابل مرتضی سلیمان تھے۔
پلیز مسز ملک! ہم پرانے دوست ہیں، ہماری فیملیز نے کئی کرائسسز مل کر ہینڈل کیے ہیں، پلیز آپ۔۔۔۔
پلیز۔۔۔مسزعثمانی!
مسزملک نے عائشہ کی بات کاٹ دی تھی۔
وہ سب کچھ برابری کی سطح پر تھا، اگر آپ لوگ ہمارے کچھ کام آئے ہیں تو دام بھی پورے کھرے کیے ہیں، اب آپ کی خاطر ہم اپنی گردن تو نہیں پھنسا سکتے ناں؟۔۔۔۔ویسے بھی آج کل ہم خود پریشان ہیں۔ ایف۔ آئی۔ والے ملک صاحب کے پیچھے ویسے ہی پڑے ہوئے ہیں۔
اتنا کہہ کر ہاتھ میں پکڑے سیل فون پر نظر ڈالی،
ایکچولی میری ایک جگہ میٹنگ ہے۔۔
یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ پلیز تشریف لےجایے!
ناچار عائشہ خود کو کمپوز کرتی ہوئی اٹھ گیئیں۔
*************
یہ کیاہے؟
صبح نے ابھی اپنا چہرہ دکھایا تھا، ضیاءالدین صاحب معمول کے مطابق چہل قدمی کے بعد ڈائننگ ٹیبل پر ناشتے کا انتظار کررہے تھے، ان کے سامنے صبح کااخبار پھیلا تھا، آبریش اپنے کمرے میں بے چینی سے ٹہل رہی تھی۔ اسے باہر آنے سے شہیر نے ہی روکا تھا۔ اور آبریش کا ایڈمیشن فارم ضیاءالدین صاحب کے سامنے لا رکھا تھا۔ خود شہیر ان کے برابر ہی براجمان ہوگیا۔
ضیاءالدین صاحب نے ایک نظر فارم پر ڈالی اوردوسری شہیر پر ۔۔۔اور اپناسوال دہرایا۔
شہیر! یہ کیا ہے؟
شہیر نے دھیرے سے ان کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ دھر دیا۔
بابا! پلیز اس طرح نہ کریں! آج آپ نے انکار کیا تو اسے بدتمیزی اور بغاوت کے راستے پر دھکیل دیں گے۔ یقین کریں، اس کاغذ پر دستخط کرکے آپ کو پچھتانا نہیں پڑےگا۔ لیکن۔۔۔۔۔انکار آپ کو ضررو پچھتانے پرمجبور کردے گا۔
اتنا کہہ کروہ منتظر نظروں سے انھیں تکنے لگا۔
ضیاءالدین صاحب نے اخبارتہہ کرکے ایک طرف رکھ دیا، اور آہستگی سے فارم کھسکا کر اپنے سامنے کرلیا۔ شہیر نے فورا پین آگے کردیا۔ انھوں نے گارجین کے لفظ کو بغور دیکھا اور بولے۔
یہ میں صرف تمہاری ذمہ داری پر کررہا ہوں۔
اور سائن کرکے فارم شہیر کے حوالے کردیا۔
تھینک یو بابا!
اور فارم سمیت وہاں سے اٹھنے لگا۔
اس سے کہو اب ناشتہ کرلے!
اتنا کہہ کر وہ دوبارہ اخبار کے کالم میں گم ہوگئے۔ جبکہ کمرے کی اوٹ سے جھانکتی آبریش دوڑ کر شہیر سے لپٹ گئی تھی۔
اوہ بھیا! یوآرسو گریٹ!
شہیر نے مسکرا کر اسے دیکھا اور خاموشی سے اپنے ساتھ چلنےکا اشارہ کیاتھا۔
خوشی میں آبریش نے چند نوالے حلق سے اتارے اور شہیر کے ساتھ باہر آگئی تھی۔ اس کے ہاؤں زمین پر نہیں ٹک رہے تھے۔ پہلی بار اس نے محسوس کیا تھا۔ زندگی کے کسی بھی محاذ پر وہ لڑسکتی ہے، کیونکہ شہیر جیسا بھائی اس کی طاقت ہے۔
سطوت آراء نے معترض نظروں سے انھیں جاتا دیکھا تھا۔
گاڑی کو اپنے راستے پر ڈال کر شہیر نے آبریش کو مخاطب کیا۔
خوش ہو؟
بہت۔۔۔ بہت۔۔۔! آپ اندازہ نہیں کرسکتے، آرٹ میں میری جان ہے!
اور میرے اپنوں میں میری!
شہیر نے جوابا کہا۔
آبریش نے مسکرا کر اسے دیکھا تھا۔
آبریش!
شہیر نے اسے ایک بار پھر اسے مخاطب کیا۔
جی بھائی؟
آبریش نے توجہ باہر کے مناظر سے ہٹاکر شہیر کی جانب موڑی۔
جانتی ہو، بابا نے سائن کیوں کیے؟
شہیر کی نظریں تو راستے پر جمی تھیں لیکن سوچ کہیں اور پہنچی ہوئی تھی۔
کیونکہ آپ کو انھیں منانا آتا ہے۔
آبریش نے چہک کر جواب دیاتھا۔
نہیں!
شہیر نے ذرا سا تؤقف کیا۔
انھیں بہت مان ہے، اپنی اولاد پر۔۔۔! پلیز اس مان کو کبھی مت توڑنا، اور اسے بھی، جو مجھے تم پر ہے!
آبریش نے شہیر کے سنجیدہ چہرے کو دیکھا اور اس کے شانے پرہاتھ رکھ کر بولی۔
بھائی! آپ بےفکر رہیں، میں خود ٹوٹ سکتی ہوں آپ سب کا مان نہیں توڑسکتی، بلکہ کوئی بھی لڑکی جو گھر سے قدم نکالتی ہے، اپنے کندھوں پر اپنے خاندان کی عزت لے کر نکلتی ہے، ہم لڑکیاں کبھی جان بوجھ کر اندھیرے راستوں کا انتخاب نہیں کرتیں، اور نہ میں کچھ ایسا کروں گی!
آبریش کے الفاظ نے شہیر کو جیسے ہلکاپھلکا کردیا تھا۔
مگر خود آبریش کا چہکتا دل خاموش ہوگیا۔
پتہ نہیں یہ معاشرہ کب لڑکیوں پر اعتبار کرنا سیکھے گا؟
وہ دل میں خود سے مخاطب ہوئی تھی۔ شہیر کی بات نے اس کی سوچ کو پراگندہ کردیا تھا۔
آزمائش کی بھٹی سے گذرے بغیر انسان خود بھی خود کوجان نہیں پاتا۔
آبریش بھی خود سے انجان تھی۔
************
عشال نے ناشتہ کرلیا؟
ضیاءالدین صاحب نے چائے ختم کرنے کے بعد سطوت آراء سے پوچھا تھا۔
شاید کرہی لیا ہو؟
جوابا انھوں نے ناگواری کامظاہرہ کیاتھا۔
آپ کے غصے کی وجہ میں ہوں یا عشال؟
ضیاءالدین صاحب نے براہ راست ان کی طرف دیکھ کر پوچھا تھا۔
اگر آپ نے آبریش کی ضد ماننی ہی تھی تو مجھ سے کہا ہوتا، میں کیا آپ کو منع کردیتی؟
سطوت آراء نے ان کی بات کاجواب اپنی بھڑاس نکال کردیا تھا۔
یعنی مجھ پر غصہ ہے!
ضیاءالدین صاحب نتیجے تک پہنچتے ہوئے کہا۔
بچوں کی ضد مان کر آپ نے ثابت کردیا کہ میری کوئی حیثیت نہیں، میں نے منع کیا تھا آبریش کو! اور آپ نے اجازت دے کر مجھے دوکوڑی کا کردیا ہے۔
ضیاءالدین صاحب نے گلاسز کی اوٹ سے انھیں دیکھا اور بولے، ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ میں نے یہ فیصلہ اس کا رزلٹ دیکھ کر کیا ہے، میڈیکل میں اسے داخلہ ملنا مشکل تھا، دوسرے مضامین میں بھی اس نے اوسط رزلٹ ہی لانا تھا۔ پھر بہتر ہے، جو پڑھ سکتی ہے، وہ ہی پڑھنے دیا جائے۔
سطوت آراء کا موڈ تو ٹھیک نہ ہوا لیکن دل کی گرہ کھل گئی۔
میں نے آپ سے عشال کے بارے میں پوچھا تھا۔
انھیں خاموش پاکر ضیاءالدین صاحب نے مکرر کہا۔
شاید کرلیا ہو، صبح ہی کمرے میں لے گئی تھی، وہ بھی میرے ہزاربار بلانے پر! پتہ نہیں کن کاغذوں میں سر کھپائے رکھتی ہے یہ لڑکی؟ نہ دنیا کی خبر نہ اپنی پرواہ!
اب ان کی جھنجھلاہٹ کا رخ بدل چکا تھا۔
ٹھیک ہے، مجھے اس سے کچھ بات کرنی ہے، تھوڑی دیر بعد میرے لیے چائے وہیں بھجوادیجیےگا۔
سطوت آراء نے صرف سر ہلا کر انھیں جواب سے نوازا۔
************
السلام علیکم! کیایار؟ اتنی جلدبازی کس بات کی ہے؟ تم سے بات ہوتے ہی میں دوڑاچلا آیا! دیکھ لو آفس جانے کے بجائے تمہاری خدمت میں حاضر ہوگیا ہوں!
اشعر نے شہیر سے مصافحہ بعد میں کیا تھا، سوالات کی بوچھاڑ پہلے۔
شہیر بھی آبریش کو ڈراپ دے کر سیدھا ریستوران چلا آیا تھا جہاں اشعر سے اس کی ملاقات طے تھی۔
تھینکس! یار! ایک تم ہی ہو، جس پر اب میں بھروسہ کرسکتا ہوں۔۔۔۔ دراصل مجھے تم سے بہت ضروری کام تھا۔
شہیر نے پرامید نظروں سے اسے دیکھا۔
یہ سن سن کر تو میرے کان بھی فیڈاپ ہوچکےہیں، پلیز اب بتابھی دو، بٹ۔۔۔۔۔ ود آؤٹ تھینکس اینڈ سوری!
شہیر نے ممنون نظروں سے اسے دیکھا اور بولا۔
ایکچولی۔۔۔۔( وہ ذرارکا) مجھے ابشام زبیر کا پتہ چاہیے، اور میں جانتا ہوں صرف تم میری مدد کرسکتے ہو۔۔۔۔ اگر کرنا چاہو!
شہیر نے ٹھہر ٹھہر کر اپنا مدعا بیان کیا تھا۔ جبکہ اشعر کے حلق میں کافی کا گھونٹ تک پھنس کررہ گیا تھا۔
میں ایک نمبر کا الو، گدھا، احمق! کیوں نہیں سمجھ سکا کہ شہیر ضیاء کو مجھ سے کیا کام ہوسکتا ہے؟
اس نے دل ہی دل میں خود کو ان تمام القابات سے نوازا تھا، جن سے اس کے والد زمانہءطالب علمی میں اسے نوازا کرتے تھے۔
ویل۔۔۔۔ آج شام کی فلائٹ سے میں اسلام آباد جارہا ہوں، کل تک مجھے جوائننگ دینی ہے۔
اشعر نے بھونڈے انداز میں بات بدلنے کی کوشش کی تھی۔
شہیر اسے گھور کر رہ گیا۔
اچھا۔۔۔؟ ایسے تو مت دیکھو!
وہ شہیر کی نظروں کی تاب نہ لاسکا۔
میری معلومات کے مطابق۔۔۔۔ آخری بار وہ آسٹریلیا میں تھا، اب کہاں ہے؟ میں نہیں کہہ سکتا!
اس نے کندھے اچکائے تھے۔
شہیر کی سوچ کی لہریں لفظ آسٹریلیا پر ٹھاٹھیں مار کر رہ گیئیں۔
*************************
ضیاءالدین صاحب قدم قدم سیڑھی آگے بڑھ رہے تھے کہ عشال ہاتھ میں برتنوں کی ٹرے لیے چلی آرہی تھی۔ انھیں دیکھتے ہی آگے بڑھ آئی۔
السلام علیکم ماموں جان!
وعلیکم السلام! تم آؤ میرے ساتھ کچھ بات کرنی ہے۔
انھوں نے بازو کے گھیرے میں اسے لیتے ہوئے جواب دیا۔
خیریت ماموں جان؟
عشال کے قدم رک گئے۔
ہاں خیریت ہی ہے، تم یہ رکھ آؤ پھر بات کرتے ہیں۔
اور آگے بڑھ گئے۔
عشال ٹرے لیے سوچتے قدموں سے کچن کی طرف بڑھ گئی تھی۔
"تم نے بہت اچھا کیا جو عشال کو اپنے ساتھ لے آئے! مزید اچھاہوگا، اگر تم اس معاملے میں دیر نہ کرو۔ وہ لڑکا۔۔۔۔وقار! اگر وہ سنجیدہ ہے، تو اس کے بھائی والے مسئلے کا بھی حل ہے۔ تم بس ایک بار دیکھ لو وہ کس حد تک سنجیدہ ہے۔
اور خدا کےلیے اب اس لڑکی کو پڑھائی کے چکر میں نہ ڈال دینا۔ وہ پہلے ہی ضرورت سے زیادہ باعلم ہوچکی ہے۔ اب شادی کےلیے اس کا ذہن بناؤ۔"
شہیر کی باتوں سے بددل ہوکر ضیاءالدین صاحب سیدھے مرتضی صاحب کے پاس بغرض مشورہ پہنچے تھے۔ اور انھوں نے جو بات کہی تھی، وہ ضیاءالدین صاحب کے دل کو لگی تھی۔ چنانچہ وہ وقار درانی سے حتمی بات کرنے سے پہلے عشال سے بات کرلیناچاہتے تھے۔
***********
آسٹریلیا؟ آسٹریلیا میں کہاں؟
شہیر نے اشعر کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھا تھا۔
میں کیا کہہ سکتا ہوں؟ میں نے تو بس ایک ایگزیبیشن کی تصویروں میں اسے دیکھا تھا۔ تب مجھے پتہ چلا تھا کہ وہ بھی آسٹریلیا میں ہی ہے۔
اشعر کو شہیر سے ملاقات پر اب پچھتاوا ہورہا تھا۔ پتہ نہیں یہ الٹی کھوپڑی کا شخص کیا ارادے رکھتا تھا؟
تو ٹھیک ہے، تمہارے پاس تین دن ہیں۔ اس کا مکمل اتاپتا کرکے مجھے بتاؤ۔ یہ تمہارے لیے قطعا مشکل نہیں ہے۔
اشعر نے خود کو مزید مشکل میں پایا۔
دیکھو بھائی! بے شک میں منسٹری انٹیلی جنس میں جاب کررہاہوں، لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ میں مشن ایمپوسیبل ٹائپ کوئی شعبدہ باز ہوں۔ میں سیدھا سادا سا آفس ورکر ہوں اس سے زیادہ کچھ نہیں۔
اشعر اب گلوخلاصی چاہتا تھا۔
شہیر نے ایک خاموش نظر اس پر ڈالی۔
اشعر نے بے بسی سے اسے دیکھا اور ہتھیار ڈال دیے۔
اوکے۔۔۔! میں کوشش کروں گا۔
شہیر نے کہا۔
تین دن بعد میں تم سے ملوں گا۔ جہاں بھی تم ہوئے۔
اور گاڑی کی چابیاں اٹھا کر رخصت ہوگیا۔
اشعر نے پریشانی سے اسے جاتے دیکھا۔
اوکے۔۔۔۔! تمہیں اپنی جوانی برباد کرنے کا شوق چڑھا ہے تو میں کیا کرسکتا ہوں؟
اشعر چڑ کر بڑبڑا کے رہ گیا۔
***********
ہاں تو صاحبزادے آپ کاکہنا ہے کہ آپ عشال سے شادی کرنا چاہتے ہیں؟
ایک بار پھر ضیاءالدین صاحب اور وقار درانی آمنے سامنے تھے۔
یہ صرف ایک بات نہیں ہے، سر! میں واقعی سنجیدہ ہوں۔
اس کے ارادے کی پختگی اس کے لہجے سے عیاں تھی۔
کس حد تک سنجیدہ ہو؟
ضیاءالدین صاحب نے متاثر ہوئے بغیر اس سے پوچھا۔
میں کیسے ثابت کروں؟
وقار نے سوال انھی پر پلٹا دیا۔
ضیاءالدین صاحب نے لحظہ بھر اس کی آنکھوں میں جھانکا اور بولے۔
اپنے رشتوں کی قربانی دے سکوگے؟
وقار نے چونک کر انھیں دیکھا، گویا ان کے لفظ سمجھنے کی کوشش کررہاہو!
پھر سنبھل کر گویاہوا۔
سر میں اپنی ماں کو تنہا نہیں چھوڑ سکوں گا۔
ضیاءالدین صاحب نے اس کے متذبذب چہرے کو بغور دیکھا اور بولے۔
تم تو پہلے مرحلے پر ہی چت ہوگئے۔ بہرحال تمہاری والدہ سے ہمیں کوئی عذر نہیں۔ لیکن عشال کو تمہیں علیحدہ رہائش دینی ہوگی۔ کرسکو گے یہ؟
وقار پوری طرح ان کی بات سمجھ چکا تھا۔ ایک گہری سانس خارج کرنے کے بعد اس نے کہا۔
اگر آپ یہ بات صارم بھائی کی وجہ سے کہہ رہے ہیں تو، پریشان مت ہوں۔ میری جاب کوریا میں ہے۔ شادی کے بعد ویسے بھی مجھے یہاں سے جانا ہوگا۔ لیکن ہاں امی میرے ساتھ رہیں گی۔ جہاں بھی میں رہوں۔
وقار نے سب کچھ ان پر واضح کردیا تھا۔ اب فیصلہ کا اختیار ان کے پاس تھا۔
چائے پیو!
انھوں نے ریفرشمنٹس کی پلیٹ اس کی طرف کھسکا دی تھی۔
**********
بھائی کے کیے کی سزا آپ مجھے دیں گی؟ بولیں ماما؟
وقار شافعہ خاتون کے قریب بیٹھا، ان کا امتحان بنا ہوا تھا۔
اس نے مہینوں لگادیے تھے خود کو اس مرحلے کےلیے تیار کرنے کےلیے۔ اور بالآخر آج وہ وقت آگیا تھا جب اسے اپنا مقدمہ دنیا کی بساط پر لڑنا تھا۔
میں کسی کو کیا سزا دوں گی؟ سزا تو تم دونوں بھائی مجھے دےرہے ہو، ماں ہونے کی!
تم خود سوچو کیاوہ ممکن ہے؟ جو تم کہہ رہے ہو؟
شافعہ خاتون کی تو سمجھ میں ہی نہیں آرہا تھا کہ وہ وقار کے اس عجیب مطالبے پر کس طرح کا ردعمل دیں؟
میں اس لڑکی کو تمہاری دلہن کیسے بناسکتی ہوں؟ وقار!
انھوں نے شدت حیرت اور ناگواری لیے پوچھا۔
کیوں ماما؟ آپ عشال کو میری بیوی کے طور پر کیوں قبول نہیں کرسکتیں؟ کیا اس لیے کہ وہ مجھ سے ایک سال بڑی ہے؟ یا پھر آپ کی ہچکچاہٹ کی وجہ صارم بھائی ہیں؟
وقار کا لہجہ شافعہ خاتون کو خوفزدہ کررہا تھا۔
یہ دونوں وجوہات اپنی جگہ،۔۔۔۔اس کے علاوہ بھی ایک وجہ ہے۔ میں نےہمیشہ دنیا کے سامنے تن کر زندگی گذاری تھی، آج تک کسی کی ہم پر انگلی اٹھانے کی ہمت نہیں ہوئی تھی۔ مگر۔۔۔۔۔ہمارے حصے میں آنے والی ساری ذلت کی وجہ وہ لڑکی بنی! وقار! تم اندازہ نہیں کرسکتے جو تکلیف میں نے صارم کی آنکھوں میں اس کی خالی بارات کےوقت دیکھی تھی۔
تم ہی بتاؤ میں اتنی خودغرض کیسےہوسکتی ہوں؟ کہ ایک بیٹے کی آنکھوں کے خواب نوچ کر دوسرے کے سر پرسجادوں؟
بولتے بولتے شافعہ خاتون کی آواز بھیگنے لگی تھی۔ لمحہ بھر کووقارکے سارے لفظ دم توڑ گئے تھے۔ کچھ بھی تھا ماں کے آنسو بڑی قوت رکھتے ہیں۔
وقار نے ہولے سے انھیں شانوں سے تھاما اور نرمی سے پکارا۔
ماما! مجھے بھائی کے جذبات کا پورا پورااحساس ہے۔ لیکن آپ یقین کریں، جوکچھ ہوا، اس میں عشال قصوروار نہیں تھی۔
مگر بھائی کسی نہ کسی حد تک قصوروار ضرورتھے۔ آج ہمارے گھر پر جس ویرانی کاراج ہے، وہ کسی کی آہ کا نتیجہ بھی ہوسکتا ہے! پلیز مجھے اس غلطی کاازالہ کرلینے دیں، جو جانے انجانے بھائی سے سرزد ہوگئی۔ پلیز ماما!
اس نے ماں کو شانوں سے تھام کر ہولے سے دبایا۔
میں اپنے بیٹوں کی زندگی کسی "ازالے" کی نذر نہیں ہونے دے سکتی! آج کے بعد دوبارہ اس موضوع پر کوئی بات نہیں ہوگی!
شافعہ خاتون وقار کے ہاتھ کندھے سے جھٹک کر چلی گئی تھیں۔ اوروقار کی ساری دلیلیں پہلے ہی مرحلےپر مات کھا گئی تھیں۔
***********
ہوا میں روزبروز حبس بڑھ رہاتھا۔ سبک خرام بہارکے جھونکوں نے کڑی دھوپ کاروپ لےلیا تھا۔ سورج ابھی رتھ پر سوار ہواہی تھامگر تپش نے درودیوار پھلانگنی شروع کردی تھی۔ چڑیاں پیڑوں کی شاخوں سے اڑ کر جاچکی تھیں۔ کچھ اکادکا گھونسلوں میں رہ جانےوالے ان کے بچوں کی ننھی چہکاریں سکوت میں دراڑیں پیدا کررہی تھیں۔
آپ نے یاد کیا ماموں جان؟
عشال کی آواز پر ضیاءالدین صاحب نے کھڑکی سے نظر آنے والے منظر سے نگاہ ہٹاتےہوئے کہا۔
ہاں! یہاں آؤ میرے پاس!
وہ دھیرے سے ان کے پاس جا بیٹھی۔
عشال کا خیال تھاضیاءالدین صاحب اس کی جاب کے حوالے سے کچھ کہناچاہتے ہیں، لیکن ان کا چہرہ دیکھ کراسے اپنے خیال کے غلط ہونے کااندازہ ہوگیا۔
تم چند دن کی تھیں، جب بھائی صاحب کا ائیرکریش میں انتقال ہوگیا تھا۔
ضیاءالدین صاحب نے اس کا سر اپنے سینے سے لگا لیا تھا۔ اوروہ خاموشی سے انھیں سننے لگی۔
صدف میری ایک ہی بہن تھی۔ اس سے یہ صدمہ برداشت نہ ہوسکا۔ دس پندرہ دنوں میں وہ بھی شوہر کے پیچھے پیچھے چل دی۔ یہ سوچے بناء اس ننھی سی جان کا پرسان حال کون ہوگا؟
عشال کی آنکھیں بہنے کو بیتاب ہونے لگیں۔
نایاب! تمہاری چھوٹی پھپھو، نورین کی والدہ خود اس وقت امید سے تھیں۔۔۔آغاجان اتنی سی بچی کی دیکھ بھال کرنے سے قاصر تھے۔ پھر ان کے روز روز کے دورے!
صدف میری بہت پیاری بہت لاڈلی بہن تھی۔ ہم دونوں بہن بھائی نے یتیمی دیکھ رکھی تھی۔ آغاجان ہمارے چچا بھی تھے۔
عشال کا دل پگھل پگھل رہا تھا۔ وہ بمشکل سسکیاں روکے ہوئے تھی۔ والدین کے بعد صدف ہی میرا قریب ترین رشتہ تھی۔ لیکن۔۔۔۔۔! قضائے قدرت کے سامنے مجھے گھٹنےٹیکنے پڑے۔ اس وقت بھی میں جدہ صدف کی تدفین کےلیے گیا تھا۔ مگر قدرت نے تمہیں میری جھولی میں ڈال دیا۔ اور مجھے ایسا لگا۔ اماں جان اور اباجان کے بعد، ایک بارپھر صدف میری آغوش میں آگئی ہو۔ آغاجان سے بہت منت کرکے میں تمہیں یہاں لےآیاتھا۔ شہیر اس وقت ایک سال کا تھا۔۔۔۔۔
اور آپ کی گود میں مجھے دیکھتے ہی ماماجان نے شہیر کے ساتھ مجھے بھی اس خوراک کا شریک بنالیا، جو وہ اپنے وجود میں شہیر کےلیے سینت رہی تھیں۔ عشال نے بھیگی آنکھوں کے ساتھ داستان مکمل کردی تھی۔ شہیر سے اس کادوستی، ہمدردی، محبت اور رضاعت کا رشتہ تھا۔
ہاہ!
ایک گہری سانس ضیاءالدین صاحب کے سینے سے خارج ہوئی تھی۔
آپ کیا کہنا چاہتے ہیں، ماموں جان؟ اور کچھ مانگنا چاہتے ہیں تو اس کےلیے یہ سب یاد کروانے کی ضرورت نہیں تھی آپ کو۔ مجھ پر آپ سب کی محبتوں کا قرض ہے، جان بھی مانگنے کا حق رکھتے ہیں آپ! میری ذات پر مجھ سے زیادہ آپ سب کا حق ہے۔ کہیے کیا چاہیے آپ کو؟
عشال ان کے سینے سے چپکی ہولے ہولے بھیگی آنکھوں کے ساتھ کہہ رہی تھی۔
تمہاری زندگی! میری جان!
عشال نے چونک کر سر اٹھایا تھا۔ اور نم آنکھوں سے ان کی طرف دیکھا۔
اپنے ماموں جان پر اعتبارہے تو ہاں کردو!
میں نے وقار کا رشتہ قبول کرلیا ہے۔۔۔۔ تمہارےلیے!
عشال کو لگا اس کے سینے میں برفیلاخنجر اتار دیاگیا ہے۔
***********