باب: چہارم
دوپہر ڈھل کر سہ پہر میں بدل رہی تھی، سرد ہواؤں میں نرم سی حدت آمد بہار کا اعلان کرہی تھیں۔ نورین اپنے بیڈروم میں بستر پر بیٹھی مسلسل عشال کا نمبر ٹرائی کررہی تھی، کچھ دیر پہلے ہی تنزیلہ نے اسے آج صبح یونیورسٹی میں ہونے والے حادثےکی اطلاع دی تھی، خود وہ بخار میں پھنک رہی تھی۔۔۔۔شاید موسم کے تغیر نے اپنا اثر دکھایاتھا۔ لیکن صحیح صورتحال اسے عشال سے جاننی تھی اور کچھ وہ عشال کے بارے میں فکرمند بھی تھی۔
کیا مصیبت ہے۔۔۔۔؟
یہ فون کیوں نہیں پک کررہی؟
اب وہ خاصی جھنجلاچکی تھی،
اف۔۔۔۔!
کچھ دیر اس نے فون کو ایک طرف چھوڑ کر سوچ بچار کی، اور پھر تنزیلہ کا نمبر ملایا، جو فورا ہی ریسیو کرلی گئی تھی۔
سنو! ابشام کس ہاسپٹل میں ہے؟
جوابا تنزیلہ نے اسے اسپتال کانام اور وارڈسے بھی آگاہ کردیا۔
آج کا ہاٹ ایشو یہی تھا، بہت سے یونیورسٹی فیلوز وہاں کا رخ کررہے تھے،
نورین نے کال کاٹتے ہی تیاری پکڑی تھی۔
***********
اوپن یور آئیز۔۔۔۔۔پلیز!
لیڈی ڈاکٹر نے چھوٹی سی ٹارچ ابشام کی آنکھوں پر گھماتے ہوئے کہا تھا۔
اس نے درد سے کراہتے ہوئے آہستگی سے آنکھیں کھول دی تھیں،
اور وہاں موجود کئی افراد کی سانسیں بحال ہوئی تھیں۔ان لوگوں میں مسز عائشہ عثمانی کے علاوہ شازمین اور اس کے والدین بھی تھے۔ اس وقت سے وہ سخت ٹینشن کا شکار تھے۔
ابشام نے نظریں گھماکر اطراف کا جائزہ لیا تھا۔ اس وقت تک اسے پرائیویٹ روم میں شفٹ کردیا گیا تھا، چنانچہ ڈاکٹر کے علاوہ جو چہرہ اسے نظر آیا تھا وہ مسزعائشہ عثمانی کا تھا۔
آہ۔۔۔۔اس نے اٹھنے کی کوشش کی تھی۔
لیٹے رہو۔۔۔سنی!
عائشہ نے پیار سے اس کا ہاتھ تھپتھپایا تھا۔
کیسے ہیں اب آپ۔۔۔؟
ڈاکٹر نے پیشہ ورانہ مسکراہٹ کے ساتھ اسے مخاطب کیا تھا۔
آئی۔ایم۔اوکے!
اس نے قدرے بیزاری سے جواب دیا تھا۔
مبارک ہو آپ کو۔۔۔۔، کوئی بڑی ٹریجڈی نہیں ہوئی۔۔۔
مسزعثمانی سے مسکرا کر کہا تھا۔
اور یہ فریکچر؟
مسز عثمانی کے چہرے پر ویسی ہی فکرمندی تھی جو کسی بھی اکلوتے بیٹے کی ماں کے چہرے پر اس صورتحال میں ہوسکتی تھی۔
اٹس ناٹ آ بگ تھنگ!
چھوٹا سا فریکچر ہے، دو چار ہفتوں میں ٹھیک ہوجائے گا۔ان شاءاللہ!
ڈاکٹر نے اپنے تیئں انھیں بھرپور تسلی دی اور کمرے سے نکل گئی تھی۔
میں اس لڑکی کو چھوڑوں گی نہیں، جس کی وجہ سے یہ سب ہوا، مجھے بتاؤ ، تمہارا اس کے ساتھ کوئی ایشو تو نہیں چل رہا تھا؟
اس کا مطلب تھا کہ عائشہ تک تفصیلات پہنچ چکی تھیں، مگر ابشام کو ان سب معاملات سے کوئی دلچسپی نہیں تھی، اس کا ذہہن اس آخری آواز میں اٹکا ہواتھا جو اس نے سنی تھی۔
***********
تم اب تک یہاں کیا کرہی ہو؟ پاگل لڑکی؟
نورین نے اسے دیکھتے ہی آڑے ہاتھوں لیا تھا۔
وہ بہت تکلیف میں تھا، اور تنہا بھی، میں کیا کرتی؟
عشال نے بے بسی سے جواب دیا تھا۔
ہاں تو اس کے پیرنٹس کو انفارم کردیاگیا تھا۔ کچھ دیر میں آہی جاتے، تمہیں کیا ضرورت تھی، پرائی آگ میں کودنے کی؟ اور اوپر سے محترمہ کا فون بھی آف تھا، تمہیں اندازہ ہے؟ عشال، کہ خالہ جان یا خالو کو پتہ چلا تو کیا ہوسکتا ہے؟ وہ اسے یاد دلارہی تھی،
میں کیا کرتی، نورین؟ وہ سخت تکلیف میں تھا،اس کی آواز باہر تک آرہی تھی، اور فون کا مجھے پتہ ہی نہیں چلا، اس کی بیٹری بہت لو تھی۔
اچھا چھوڑو یہ سب! اب کیا ارادہ ہے تمہارا؟ کیا اس کی اٹینڈنٹ بن کر رات یہیں گزاروگی؟
نورین کورہ رہ کر اس پر غصہ آرہا تھا۔ یونیورسٹی سے آئے ہوئے سبھی لوگ واپس جا چکے تھے، سوائے عشال کے۔
چلتے ہیں بس میں ذرا، ڈاکٹر سے ایک بار کنڈیشن معلوم کرلوں۔۔۔
ایکسکیوز می!
عشال ابھی اپنی جگہ سے اٹھی ہی تھی کہ وہ نرم سی آواز اس کی سماعتوں سے ٹکرائی تھی۔
وہ اور نورین اچھنبے سے مڑی تھیں،
شامی کو تم ہی لائی تھیں ہاسپٹل؟
شیفون کی ڈل گرین ساڑھی میں ملبوس دلکش سی وہ خاتون عشال سے مخاطب تھیں،
جی۔۔۔۔!
وہ فقط اتنا ہی کہہ پائی تھی۔
تم ابشام کی دوست ہو؟
ان کے لہجے مین اشتیاق تھا۔
نہیں۔۔۔ ہم ایکدوسرے کے لیے صرف اجنبی ہیں،
عشال کے جواب نے مسزعثمانی کو حیران کیا تھا۔
اینی ویز! مجھے تمہارا تھینکس کرنا تھا۔۔۔۔بیٹا!
بہرحال وہ اس کی ممنون تھیں۔
اس کی کوئی ضرورت نہیں میم! آپ کے بیٹے کی زندگی تھی۔۔۔۔چاہے بہانہ کچھ بھی سہی!
اتنا کہہ کر وہ نورین سے مخاطب ہوئی،
چلیں؟
یا۔۔۔۔شیور!
اور وہ دونوں اپنی راہ چل دیں۔ عشال سے عائشہ عثمانی کی یہ پہلی ملاقات تھی۔
***********
کہاں تم اس کا نام سننا گوارا نہیں کرتیں اور کہاں یہ سب۔۔۔۔! کچھ اندازہ ہے،تمہیں؟ تم چار گھنٹے تک اس کے پاس تھیں، اور یقینا کچھ کھایا پیا بھی نہیں،یعنی چار گھنٹے تک بھوک پیاس کی پرواہ کیے بغیر تم اس "اجنبی" کے لیے وہاں بیٹھی رہیں! کیا تھا یہ؟
عشال کار ڈرائیو کررہی تھی اور نورین مسلسل اس کے لتے لے رہی تھی۔
میری اس سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی، نورین! لیکن ہان اتنا ضرور ہے کہ اس کی جگہ کوئی بھی ہوتا تو میرا ری ایکشن یہی ہوتا۔۔۔،
عشال نے اپنامؤقف سمجھانے کی کوشش کی۔
ٹھیک کہہ رہی ہو،تم۔۔۔!
میری دوست ایسی ہی ہے، لیکن مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ تمہارے دل میں اس کے لیے کچھ سوفٹ سوفٹ سا ہورہا ہے؟
نورین نے اس کے چہرے کو کھوجنے کی کوشش کی۔
عشال نے گردن گھما کر اس کی طرف دیکھا اور بولی۔
مجھے تم سے ایسی ہی اوٹ پٹانگ سوچ کی توقع تھی۔
مجھ سے اس کی تکلیف نہیں دیکھی گئی بس! اب تم اسے سوفٹ کارنر سمجھو یا کچھ اور، مگر میرے لیے وہ اب بھی اجنبی کے علاوہ کچھ نہیں۔
عشال نے بات ختم کردی تھی۔
بہرحال یہ پولیس کیس تھا۔۔۔اور تم جانتی ہو،ایسے معاملات ہمارے جیسی فیملیز افورڈ نہیں کرسکتیں۔۔۔۔
نورین نے موضوع بدل دیا۔
اپنی اور اپنی فیملی کی عزت میرے لیے ہرچیز سے اوپر ہے، یہ تم جانتی ہو۔
عشال نے نظریں ملا کر کہا۔
تو جب پولیس بیان لینے آئی تو تم نے کیا کہا؟
نورین حقیقتا اس کے لیے پریشان تھی۔
وہی جو سچ تھا۔
میں نے کہہ دیا کہ میں نے ابشام کوصرف زخمی حالت میں دیکھا تھا۔ ایکسیڈنٹ کیسے ہوا؟ میں نہیں جانتی۔
اوکے۔۔۔! اچھا ہے، کم ازکم گواہی کے چکر سے توبچ ہی جاؤگی۔
نورین نے خیال آرائی کی تھی۔
اسی لمحے نورین کا سیل بج اٹھا تھا۔اس نے کال ریسیو کرکے دوسری طرف کی بات سنی اور چہرے پر خوشی کے تاثرات بکھر گئے۔
ٹھیک ہے۔۔۔ہم بس راستے میں ہی ہیں،
اتنا کہہ کر اس نے رابطہ منقطع کردیا تھا۔
کیا ہوا؟ کس کا فون تھا؟
عشال کو اس کے تاثرات سمجھ نہیں آئے تھے۔
ایک سرپرائز ہے۔۔۔آگے سے خالہ جان کی طرف ٹرن لے لو۔
نورین نے اسے ہدایت دی۔ چونکہ ان کارخ نورین کے گھرکی طرف تھا تواسے عشال کو کہنا پڑا تھا۔
کیسا سرپرائز؟
عشال نے پوچھا۔
گھر جائیں گے تو پتہ چل جائے گا۔
نورین اسے اشارہبھی دینے کے موڈ میں نہیں تھی۔
ٹھیک ہے، جیسے تمہاری مرضی!
عشال نے رخ سامنے کی طرف کرکے توجہ ڈرائیونگ کی جانب موڑ لی تھی۔
جہاں سے اس کی زندگی کے نئے باب کا آغاز ہونے کو تھا۔
***********
عجیب بات تھی۔۔۔۔ وہ اس باب سے آگے نہیں بڑھ پارہی تھی۔
جدہ میں اس نے قلم جہاں روکا تھا۔ وہ اب تک وہیں ٹھہری ہوئی تھی۔۔۔شاید اسے خود کو مہمیز دینے کے لیے، کسی تحریک( inspiration) کی ضرورت تھی۔۔۔۔ یا تازیانے کی۔
عشال آپا۔۔۔!
اس کے دروازے پر دستک ہوئی اور اس نے چونک کر سر اٹھایا اور زعیم کو سامنے پایا تھا۔
آجاؤ۔۔۔۔باہر کیوں کھڑے ہو؟
عشال نے اسے اجازت دی تھی، دوپٹہ تو اس کی شخصیت کا لازمہ تھا۔ اس لیے زعیم کی اچانک آمد پر اسے کسی تردد کی ضرورت نہیں پڑی تھی۔
زعیم چند قدم چل کر اس کے سامنے آٹکا۔
آج یہاں کا راستہ کیسے بھولے؟
عشال نے اسے کھڑکی کے رخ پر رکھی کرسی پر بیٹھنے کااشارہ کرتے ہوئے سوال بھی کرڈالا کہ اس کی آمد عشال کے لیے باعث حیرت تھی۔
بس قسمت کا ہیر پھیر بھی بڑا عجیب ہے، دیکھیے مجھے آپ کی برجستہ، مہذب اور شیریں گالیوں سے مستفید کروانے یہاں لے ہی آیا۔
اس کے بات کرنے کا اپنا ہی انداز تھا۔ جو عشال کو کبھی لطف دیا کرتا تھا۔۔۔۔ مگر اب اس کے پاس وقت کا سرمایہ محدود تھا۔
زعیم اگر تم کوئی کام کی بات کرسکتے ہو تو میں سن رہی ہوں،
عشال نے گویا وارن کیا۔
یعنی بصورت دیگر اپنی فضول گوئی سمیت درفٹے ہوجاؤں؟ دیکھا میں نے کہا تھا ناں؟
اپنے درست اندازے پر وہ کھلکھلایا۔
زعیم!
عشال نے تنبیہی لہجہ اختیار کیا۔
اٹس اوکے! اس نے ہاتھ اٹھا کر عافیت چاہی،
اور اپنے ہاتھ میں پکڑا کوریئر دیکھ کر بولا۔
میرے پاس آپ کے لیے کچھ ہے،
عشال نے کوئی ردعمل ظاہر نہ کیا تو۔۔۔لفافہ اس کے سامنے اسٹڈی ٹیبل پر رکھتے ہوئے بولا۔
یہ کوریئر دینا تھا آپ کو۔۔۔۔! اور کچھ عرض بھی کرنا تھا اگر ناگوار خاطر نہ ہوتو۔۔۔۔؟
اور مؤدبانہ کھڑاہوگیا۔
عشال نے لفافے پر اچٹتی سے نگاہ ڈالی۔۔۔۔
" فرام ضیغم!"
کے الفاظ نے اس کی سوئی دھڑکن کو پل بھر کے لیے دھڑکایاتھا۔
***********
ایکچولی میں آپ سے اس دن کی اپنی بدتمیزی کے لیے سوری کہنا چاہتا تھا۔
عشال کے ہاتھ میں لفافہ ذراسا کپکپایا تھا۔ وہ زعیم کو نہیں سن رہی تھی۔۔۔۔وہ تو کہیں اور ہی تھی!
دراصل مجھے پتہ نہیں تھا کہ آپ شادی کے نام تک سے الرجک ہیں۔۔۔۔، میں تو بس ایسے ہی۔۔۔۔
یہ کوریئر تمہارے پاس کیسے آیا؟
عشال نے اس کی بات اچانک قطع کی تھی۔
زعیم لمحے بھر کو رکا اور وضاحت دینے لگا۔
یہ۔۔۔؟ یہ تو خالہ جان کے پاس تھا۔ انھوں نے مجھے دیا تھا کہ آپ کو دے دوں وہ ذرا بزی تھیں۔ کیوں کوئی مسئلہ ہے؟
زعیم! مجھے کچھ کام ہے۔۔۔۔! ہم کسی اور وقت بات کرسکتے ہیں؟
عشال نے اس کا سوال نظرانداز کیا تھا۔
جی۔۔۔۔جی۔۔۔کیوں نہیں، مجھ جیسے فارغ بندے سے تو کبھی بھی بات کی جاسکتی ہے، اور آپ کے لیے تو ہمیشہ available ہوں۔
اس کھلی بےعزتی پر وہ کراہ بھی نہ سکا۔۔۔البتہ وہاں سے رفوچکرہونے میں عافیت جانی تھی۔
عشال نے خاموشی سے اس کے جانے کا انتظار کیا،اور پھر آہستگی سے لفافہ چاک کیا۔۔۔۔
"نہیں اب توکوئی ملال بھی،کسی واپسی کاخیال بھی
غم، بےکسی نےمٹادیا میرےدل میں تھا بھی اگر کوئی"
نیچے ضیغم کانام تحریر تھا۔ عشال نےچھوٹے سے اس کارڈ کو ہاتھ میں تھاما اور لفافے سے وہ سیاہ فاؤنٹین پین نکال کر سینے میں بھینچ لیا۔۔۔۔وہ آغاجان کا پین تھا، جس سے انھوں نے اپنی زندگی میں نہ جانے کتنے صفحات پر علم کے نقش چھوڑے تھے۔ عشال کے ہاتھ میں پین اور پلکوں پر سوختہ ماضی کپکپا کررہ گیا تھا۔
***********
ماما اگر نہیں مانیں گی تو میں بابا سے بات کروں گی۔ میں کوئی ناجائز مطالبہ تو نہیں کررہی۔۔۔۔! مجھے سمجھ نہیں آتا دنیا چاند سے بھی آگے نکل چکی ہے، اور ہم ابھی تک آرٹ کو ہی نہیں سمجھ پائے۔۔۔۔!
ماما کے حرام حلال کے چکر میں میرا ٹائم نکل رہا ہے۔۔۔، ایڈمیشن کی لاسٹ ڈیٹ میں صرف پانچ دن باقی ہیں، اور ماما میری بات سننے کو ہی تیار نہیں!
چہرے پر ناگواری،آنکھوں میں دبادباغصہ، لہجے میں محسوس کی جانے والی ترشی!
آبریش شہیر کے سامنے بیٹھی اپنا دکھڑا رورہی تھی۔۔۔۔ مگر شہیر بغوراس کے ہرہر انداز کو نوٹ کررہاتھا۔ اتنے دنوں سے وہ جس مسئلے کو بےضرر خیال کررہا تھا، وہ سنجیدگی کا متقاضی ہے، آج اسے محسوس ہوا تھا۔
نہ ماما سے اور نہ بابا سے! تمہیں کسی سے بھی بات کرنے کی ضرورت نہیں، جس سے جو بھی بات کرنی ہے، میں خود کرلوں گا،تم بے فکر ہوجاؤ۔ اجازت کاہی مسئلہ ہے ناں۔۔؟ میں دیکھ لوں گا۔
شہیر کو اس وقت یہی بہتر لگا،ویسے بھی اس کا ذہہن آجکل کئی معاملات میں بٹا ہوا تھا۔
تھینک یو۔۔۔بھائی! مجھے یقین تھا آپ ضرور میری بات انڈراسٹینڈکریں گے!
آبریش کا چہرہ ایکدم کھل اٹھا۔
ٹھیک ہے، اب میرے لیے اچھی سی چائے بناؤ! ورنہ میری آفر پینڈنگ بھی ہوسکتی ہے،
شہیر نے مصنوعی سنجیدگی سے کہا۔
ارے آپ بالکل فکر ہی نہ کریں، چائے کیا آپ میرا کام کردیں تو زبردست سی ہائی ٹی ملے گی آپ کو۔۔۔۔میری طرف سے۔۔۔!
آبریش چہک کربولی اور کمرے سے فورا ہی عائب ہوگئی تھی۔
اس کے جانے کے بعد شہیر نے فرصت سے اس مسئلے پر غور کیا، سطوت آراء کے خیال میں آرٹ کی تعلیم وقت اورپیسے کازیاں تھا، ویسے بھی عشال کے واقعے کے بعد سے وہ چھاچھ بھی پھونک کر پیتی تھیں۔
یوں تو وہ ماسٹر ان اسلامک اسٹڈیز تھیں، لیکن کچھ واقعات انسان کی زندگی کے ساتھ ساتھ سوچ اور نظریات پر بھی اثرانداز ہوجاتے ہیں۔
شہیر شدت سے یہ محسوس کررہاتھا۔
***********
السلام علیکم سر!
ضیاءالدین صاحب نے چونک کر سر اٹھایا تھا اور ہاتھ میں پکڑے موبائل کو آف کر کے ٹیبل پر چھوڑ دیا۔۔۔ انھیں اس وقت کا شدت سے انتظار تھا، مگر اپنے جذبات پر وہ پہلے ہی قابو پاچکے تھے۔
آئیے۔۔۔۔!
ان کے لہجے میں اجنبیت تھی مگر نووارد ہرگز بھی ان کے لیے اجنبی نہیں تھا۔
وہ چند قدم بڑھ کر ان کے سامنے آموجود ہوا۔
بیٹھیں!
وہ "شکریہ" کہہ کر ان کے سامنے نشست سنبھال کر بیٹھ گیا۔۔گہرے نیلے تھری پیس سوٹ میں اس کی شخصیت ماضی کی نسبت زیادہ نکھری نکھری سی لگ رہی تھی۔
کیا لوگے۔۔۔؟
انھوں نے آداب میزبانی نبھائے۔
کچھ نہیں، سر میں صرف آپ سے بات کرنا چاہوں گا۔
اس نے مہذبانہ طریقے سے معذرت چاہی۔
نہیں یہ کیسے ممکن ہے؟
انھوں نے انٹرکام پر چائے اور کچھ لوازمات آرڈر کردیے۔
اس مرتبہ معززمہمان نے مداخلت نہیں کی۔
کہیے میں سن رہا ہوں۔
ضیاءالدین صاحب ہمہ تن گوش تھے۔
میں عشال سے شادی کرنا چاہتاہوں!
اس نے براہ راست ان سے کہا۔۔۔۔وہ اور بھی کچھ کہہ رہا تھا۔
میں وقاربرہان درانی عشال سے ہی شادی کرنا چاہتا ہوں!
***********
"نہیں اب تو کوئی ملال بھی،
کسی واپسی کا خیال بھی
غم، بےکسی نے مٹادیا
میرے دل میں تھابھی کوئی"
عشال چونک کر مڑی، کارڈ نورین کے ہاتھ میں تھا۔!
وهوعليم بذات الصدور
(اوروہ سینوں کے اندر کی باتوں کوجاننے والا ہے)
وہ اس آیت کے مضمون میں اسقدرکھوئی ہوئی تھی کہ نورین کی آمد کی اسےخبرہی نہیں ہوئی۔ ہمیشہ سے نورین کو اس کمرے تک آنےکےلیے اجازت کی ضرورت ہی نہیں پڑی تھی۔ آج بھی وہ اسی طرح آئی تھی۔ اور عشال کی ٹیبل پر رکھے اس کارڈ نے سب سے پہلے اس کی توجہ کھینچی تھی اوراتنی ہی تیزی سےعشال مڑی تھی۔
تم کب آئیں؟
وہ بس اتناہی کہہ پائی۔
ابھی ہی۔۔۔لیکن اس طرح کیوں دیکھ رہی ہو؟ کیا میں نے تمہاری کوئی چوری پکڑلی؟
نورین نے مسکرا کر پوچھا۔
ایسی کوئی بات نہیں۔
عشال سپاٹ لہجے میں کہہ کر واپس مڑگئی۔۔۔۔لیکن یکسوئی مفقود ہوگئی اور وہ سلسلہ دوبارہ نہیں جوڑپائی۔
نورین نے چند لمحے اسے ملاحظہ فرمایا اور ایک بار پھر باآواز بلند اس شعر کو پڑھا اور عشال سے مخاطب ہوئی،
اس کاکیا مطلب ہے؟
عشال نے نگاہیں نوٹس پرجمائے رکھیں اور جواب نورین کومرحمت فرمایا۔
غور سے پڑھو سمجھ آجائے گا، سادہ ساشعر ہے۔
مجھے سمجھ نہیں آیا یہ "سادگی" مجھے سمجھ نہیں آرہی۔۔۔پلیزتم وضاحت کردو!
وہ ہرحال میں عشال کو متوجہ کرناچاہتی تھی۔
تم اگراسے اپنی مرضی کے معنی پہنانے کی کوشش کروگی توکیسے سمجھ آئےگا۔
اسے اس کی جگہ پر رکھ کردیکھو تو خودہی سمجھ جاؤگی۔
ہممم۔۔۔
یہ ضیغم صاحب کیسے ہیں؟
نورین نے ہنکارابھرا، اور پرتجسس انداز میں پوچھا۔
اچھے سادہ سے انسان ہیں اورسادہ سے اندازمیں اپنی خیریت سے مطلع کیا ہے، انھوں نے۔ بس۔۔۔؟ یامزیدتفتیش کرنی ہے؟
عشال نے بھی سادگی سے جواب دیا۔اس کے انداز میں کوئی گزرگاہ نہیں تھی۔
ارے تفتیش کیسی میں تو بس یونہی پوچھ رہی تھی۔۔۔۔پہلی بار کسی کی ایسی سادگی دیکھی ہے،جو میرے سر سے گذر گئی۔۔۔۔ویسے اور کیاکیا شوق ہیں موصوف کے؟
نورین نے برسبیل تذکرہ پوچھ لیاہوجیسے۔
میں نہیں جانتی۔
عشال نے جان چھڑائی۔
پتہ نہیں کیوں اسے اس گفتگوسے الجھن ہورہی تھی۔ اسے اندازہ تھا نورین موضوع کو کس طرف لیجاناچاہتی تھی۔
کیا۔۔۔۔؟ نورین کی آنکھیں پھیلیں۔ سات سال ایک ہی چھت کے نیچےرہتے ہوئے بھی تمہیں نہیں معلوم؟
نورین کی حیرت سواتھی۔
ہاں۔۔۔کیونکہ میں نے کبھی جاننے کی کوشش نہیں کی۔ ان کی اپنی زندگی تھی، جس میں میں نے یاآغاجان نے کبھی دخل دینے کی کوشش نہیں کی۔
اس کا لہجہ حددرجہ سپاٹ ہوگیا۔۔۔نورین نے اس موضوع کو کسی اور وقت کےلیے اٹھارکھا۔
اچھا بھئی ناراض کیوں ہورہی ہو؟ میں نے توبس ایسے ہی ہوچھ لیا تھا۔۔۔مگر تم جب سے واپس آئی ہو، پہلے سے زیادہ بےمروت ہوگئی ہو، یہ بھی نہیں پوچھا کہ میں اس وقت یہاں کیوں ہوں؟
عشال نے شکراداکیاکہ اس نے خودہی موضوع بدل دیا تھا۔
کہوکیسے آناہوا؟ زعیم نے توتمہارا ذکرہی نہیں کیا کہ تم بھی آئی ہو،
ہاں میں ابھی آئی ہوں وہ تو جب سے ہاسٹل سے آیا ہے، اس کازیادہ وقت یہیں گزرتا ہے، اور رہ گئی میری بات۔۔۔؟ تومیں تمہیں اپنے ساتھ شاپنگ کےلیے لیجانےآئی ہوں۔
نورین نے اسے مطلع کیا۔
سوری۔۔۔میں تو بہت مصروف ہوں۔۔۔تم آبریش کے ساتھ چلی جاؤ۔
عشال نے معذرت کی، جسے نورین نے رد کردیا۔
جی نہیں۔۔۔بالکل بھی نہیں میں نے تم سے مشورہ نہیں مانگا، خالہ جان سے میں نے اجازت لے لی ہے، اب تم میرے ساتھ چل رہی ہو۔۔۔۔میں نے تمہیں ایک سرپرائزبھی دینا ہے،
اپنے سیاہ بال انگلی پرلپیٹتے ہوئےمطلع کیا۔
عشال نے کہا، سوری نورین! میرے پاس اب پہلے جیسی فراغت نہیں رہی اور نہ ہی سرپرائزز کی اب دل میں تاب ہے۔
اور ہلکا سا مسکرادی۔
نو۔۔۔نیور! مجھے کچھ نہیں سننا آج تمہارا میرے ساتھ چلنا بہت ضروری ہے۔۔۔
اور اسے بازو سے کھینچنا شروع کردیا۔ عشال کے پاس اب انکار کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔
*************
ضیاءالدین صاحب کی زبان تالو سے چپک کر رہ گئی۔۔۔۔لمحہ بھر کو انھیں یاد آیا۔۔۔۔آغاجان کے دل نے اس صبح زندگی کاساتھ کیوں چھوڑدیا تھا۔ آج ان کے دل پر بھی کچھ ایسی ہی برق گری تھی۔
دیکھیے صاحبزادے! آپ نے مجھ سے ملنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔۔۔ میں نے وقت دےدیا۔۔۔اب میرے ضبط کومزیدآزمانے کے بجائے عزت سے یہاں سے تشریف لےجائیے۔۔۔۔ہمارے خاندان پر آپ کے بھائی صاحب نے جو کالک تھوپی تھی کیا وہ کافی نہین تھی کہ دوبارہ ہماراامتحان لینے اب آپ چلےآئے ہیں؟
ضیاءالدین صاحب کے لیے مزید اپنےدل اورجذبات کو روکنامحال ہورہاتھا۔
وقار متانت سے بیٹھا رہا اور انھیں پرسکون کرنے کی غرض سے بولا۔
پلیز سر! آپ کا غصہ کرنا جائز ہے، لیکن آپ میری پوری بات توسن لیں۔۔۔۔!
پلیز آپ بھائی کے کیے کی سزا مجھے مت دیں۔۔۔۔۔اور نہ خود کو!
ضیاءالدین صاحب جو اسے آفس سے نکالنے کی غرض سے کھڑے ہوئے تھے۔۔۔۔شکست خوردہ سے کرسی پر ڈھےگئے۔
***********
نورین نے کار پاکنگ ایریا کی طرف موڑی اور عشال کے ساتھ شاپنگ پلازہ کی جانب بڑھ گئی۔ موسم بدل رہا تھا، سرد موسم نے آہستگی سے اپنے پر سمیٹ لیے تھے مگر ابھی بھی فضا میں بارش کی نمی برقرار تھی۔۔۔اندر کا ماحول قطعی مختلف تھا، زرد اور سفید روشنیوں کے درمیان محسوس ہی نہیں ہوتا تھا کہ دن ہے یا رات!
نورین عشال کے ساتھ ریستوران کی طرف بڑھ گئی۔ جب دونوں نے نشست سنبھال لی تو عشال نے گفتگو کا آغاز کیا۔
ہاں اب کہو کیا کہنا چاہتی ہو؟
نورین ہلکا سا چونکی اور مسکرا کربولی۔
سرپرائز تو میں نے دینا تھا مگر تم نے تو مجھے سرپرائز کردیا۔۔ تمہیں کیسے خبر کہ میں نے کچھ کہنا ہی تھا؟
کیونکہ میں تمہیں اپنی پیدائش کے ساتویں ماہ سے جانتی ہوں،
عشال نے سنجیدگی سے جواب دیا اور اس کے بولنے کی منتظر رہی۔
یوآر امیزنگ!
نورین نے جیسے ہتھیار ڈالے۔
شاپنگ تو بس ایک بہانہ تھا۔ دراصل تو میں تم سے واقعی بات کرنا چاہتی تھی۔
تو پھر کہو! میں سن رہی ہوں!
عشال نے جوابا کہا۔
عائز آرہا ہے،
نورین نے انکشاف کیا۔
عائز۔۔۔؟
عشال کی آنکھوں میں الجھن تھی۔
ایکچولی میں نے تمہیں بتایا نہیں تھا، عائز پاپا کے دوست ہیں ناں؟ سیف انکل! ان کا۔۔۔۔بیٹاہے۔۔۔!
نورین نے رک رک کر کہا۔
ٹھیک ہے۔۔۔؟
عشال کا ردعمل کچھ خاص نہیں تھا۔ وہ بس ایک اچھے دوست کی طرح اسے سن رہی تھی۔
میں اور عائز شادی کرناچاہتے ہیں، لیکن پاپا نہیں مان رہے تھے۔
تھے؟ یعنی اب صورتحال مختلف ہے!
عشال نے انداذہ ظاہر کیا۔
یس۔۔۔ایبسولوٹلی رائٹ!
نورین نے کہا۔
اب وہ مان تو گئے ہیں لیکن خوش نہیں ہیں!
نورین نے مسئلے کی نوعیت بیان کی۔
تم انھیں خوش دیکھنا چاہتی ہو؟
عشال نے پوچھا۔
آف کورس! اور میں چاہتی ہوں تم اور شہیر خالہ خالو کو کہہ کر انھیں کنوینس کریں، وہ بہت خفا ہیں مجھ سے۔
نورین نے پریشانی سے کہا۔
ناممکن۔۔۔۔!
مرتضی انکل کا زندگی کودیکھنے کا انداز ذرا مختلف ہے، وہ اپنی سوچ میں آزاد انسان ہیں، انھیں قائل نہیں کیا جاسکتا۔
عشال نے اپنے مطابق تجزیہ کیا۔
یہی تو مسئلہ ہے، لیکن میں بھی یہاں سے خوش اور ہلکی پھلکی ہوکر جانا چاہتی ہوں۔
نورین عدم اطمینان کا شکار نظر آرہی تھی۔
اور شہیر؟
عشال نے پوچھا۔
میں اس سے بات کرچکی ہوں۔ انفیکٹ پاپا کواسی نے کنوینس کیا ہے، اور وہ مان بھی گئے ہیں۔۔ مگر۔۔۔دل سے وہ خوش نہیں ہیں۔
نورین نے اسے صورتحال سے آگاہ کیا۔
پریشان مت ہو، مرتضی انکل اگر مطمئن نہ ہوتے تو شہیر کیا کوئی بھی انھیں قائل نہیں کرسکتا تھا۔۔ یقینا انھوں نے کچھ اچھا سمجھا ہوگا تو ہی اس شادی کے لیے ہاں کی ہوگی!
عشال نے محض اسے تسلی دینے کی خاطر کہا تھا۔
یہ تو میں جانتی ہوں، مگر۔۔۔!
نورین نے بات ادھوری چھوڑ دی اور وہ خود بھی نہیں جانتی تھی، اس مگر کے آگے صرف سوال تھے۔۔ جن کے جواب یقینا عشال کے پاس بھی نہیں تھے۔ پھر بھی وہ دل اس کے سامنے رکھنے پر مجبور تھی۔
ویسے تم نے اس سے قبل کبھی عائز کا ذکر نہیں کیا؟
نہ چاہتے ہوئے بھی عشال کے لبوں پر شکوہ در آیا۔
نورین کے چہرے پر ایک دم ہی مسکراہٹ جگمگائی تھی۔۔اور چند لمحوں پہلے والی اداسی جیسے ہوا میں تحلیل ہوگئی تھی۔
اچھا لگا تمہارا یوں گلہ کرنا! پتہ ہے جب سے تم واپس آئی ہو، تم سے بات کرتے ہوئے بھی ڈر لگنے لگا ہے، ایک عجیب سی تکلف کی دیوار کھڑی کرلی ہے تم نے اپنے اور ہمارے درمیان!
عشال پلکیں جھپک کررہ گئی۔
مجھے اجنبی بھی تو میرے اپنوں نے ہی کیا ہے،
عشال کی دھڑکنیں کراہ کر رہ گیئیں۔
عشال کو خاموش پاکر نورین نے آرڈر دینے کیلیےاطراف میں نطریں گھمائیں تو دوخواتین کواسی جانب گھورتےہوئے پایا۔۔۔ اس نے نظر انداز کرنا چاہا اور توجہ ویٹر کی طرف موڑلی جوآرڈر لینے آرہا تھا۔
جوس اور اسنیکس کا آرڈر دینے کے بعد وہ دوبارہ عشال کی طرف متوجہ ہوگئی۔
تم نے جواب نہیں دیا؟
جواب تو تم نے نہیں دیا میرے سوال کا۔ اگر نہ دینا چاہو تو میں اصرار نہیں کروں گی۔
عشال نے اس کی بات صاف نظرانداز کردی تھی۔
بہت سی ایسی باتیں ہیں جوتم سے شیئر کرنا چاہتی تھی لیکن تم اس وقت یہاں نہیں تھیں، تمہارے بعد ہماری زندگیوں میں کافی کچھ ہوچکا ہے۔
نورین نے بھی جیسے شکوہ کیا تھا۔
کہنے کےلیے تو میرے پاس بھی بہت کچھ تھا لیکن کسی نے بھی سننے کی کوشش نہیں کی۔۔۔
عشال بس اس قدر ہی کہہ سکی۔ حادثات کی برف اب بھی اس کے لہجے میں سلگتی تھی۔
نورین نے کچھ کہنا ہی چاہا تھا کہ ایک بار پھر اس کی نظر ان خواتین پر ٹھہر گئی تھی جو مسلسل اسی طرف دیکھ رہی تھیں۔۔۔ نہیں۔۔۔!بلکہ وہ عشال کو دیکھ رہی تھیں۔ عشال کی توجہ کہیں اور تھی۔ مگر نورین کی الجھن زدہ نگاہوں نے اسے چونکادیا تھا۔
کیا دیکھ رہی ہو؟
عشال کو پوچھنا پڑا۔
یار پتہ نہیں ان آنٹیز کی کیا پرابلم ہے؟ میں بہت دیر سے نوٹس کررہی ہوں انھیں!
نورین نے کہا ہی تھا کہ وہ اٹھ کر ان کےپاس چلی آئیں،
آپ۔۔ آغا سمیع الدین صاحب کی پوتی ہیں ناں؟
انھوں نے براہ راست عشال کو مخاطب کیا تھا۔
جی۔۔۔؟ سوری ہم نے آپ کو نہیں پہچانا!
عشال سے پہلے نورین بول پڑی تھی۔
ہمیں چھوڑیں، ارے ہاں تم وہی ہو۔۔۔
ان خاتون نے اپنے ساتھ کھڑی خاتون کی طرف دیکھ کر جتایا۔
نورین اور عشال آنکھوں میں سوال لیے ناسمجھی سے ایک دوسرے کو دیکھ رہی تھیں۔
شافعہ بہن کے بیٹے کی دلہن!
اور عشال کو جیسے رگیدتا ہوا دور تک لے گیا تھا۔
عین بارات والے دن بھاگ گئی تھیں ناں تم؟
اور نورین کی برداشت یہاں جواب دے چکی تھی۔
ایکسکیوز می!
آپ کس حق سے یہ ساری بکواس کررہی ہیں؟
عشال نے اپنا یخ ہاتھ نورین کے بازو پر رکھ دیا تھا۔ دل تھا کہ ساتھ چھوڑے جارہا تھا۔
ارے؟ تمہیں تو تمیز ہی نہیں سکھائی کسی نے! ہم نے تو بس سنا تھا سوچا بات کرکے غلط فہمی دورنکرلیں۔۔۔ مگر تمہیں تو کوئی تمیز ہی نہیں۔۔۔۔
اور جانے کو مڑیں، مگر نورین آڑے آگئی۔
ایک منٹ! آپ یہان سے ایسے نہیں جاسکتیں، بدتمیزی آپ نے شروع کی ہے، ایکچوئلی آہ نہیں جانتیں اخلاق کس کو کہتے ہیں اور تمیز کیا ہوتی ہے؟ آپ انتہائی جاہل خواتین ہیں۔۔۔۔
نورین چلو!
نورین اور بھی بکت کچھ کہنا چاہتی تھی جب عشال بازو سے کھینچتی ہوئی بمشکل سے وہان سے ہٹانے میں کامیاب ہوئی۔
اچھا جاصا تماشا کھڑا ہوگیا تھا۔۔۔ اور لوگوں کے متوجہ ہونے پر اور نورین کی چیخ وپکار پر ان خواتین نے بھی نکلنے میں ہی عافیت جانی تھی۔
آئندہ کسی کو راہ چلتے بے عزت نہیں کریں گی!
نورین بڑبڑاتی ہوئی عشال کے ہمراہ ریستوران سےباہر آگئی تھی۔جبکہ عشال ابھی تک سن تھی۔
***********
اس نے جب سے عشال کی پاکستان واپسی کی خبر سنی تھی۔ بے چین سا تھا۔ یہ درست تھا کہ۔ماضی میں دونوں گھرانوں کے بیچ جو کچھ ہو چکا تھا، اس کی وجہ سے کچھ بعید نہیں تھا کہ ضیاءالدین صاحب وقار کو دھکے دے کر اپنے آفس سے نکال دیں۔ لیکن ساتھ ہی وہ ضیاءالدین صاحب کی خاندانی وضع داری کابھی قائل تھا۔ اور اسی بات نے اسے حوصلہ دیا تھا کہ وہ ان کے آفس جا پہنچا۔۔، عشال کے بارے میں اسے اشعر سے معلوم ہوا تھا۔
وہ اشعر سے ملنے اس کے گھر گیا تو پرانی یادوں اور باتوں کا جیسے دفتر کھل گیا، یونہی باتوں باتوں میں اشعر نے نورین اور عشال کاذکر چھیڑ دیا، عشال کے نام پر پہلی بار اس کا دل عجیب انداز میں دھڑکا تھا۔ اشعر ہمیشہ کی طرح بے فکرے انداز میں اپنی باتیں کرتا رہا تھا اور وقار درانی ماضی کے دھندلکوں میں خود کو تلاش کررہا تھا۔
کئی دن اس نے الجھے الجھے سے گزار دیے، اور پھر وہ اس نتیجے پر پہنچا تھا کہ اسے اب واہموں اور اندازوں کی ضرب تقسیم سے باہر آنا ہے، اور یہ حقیقت تھی کہ صارم نے ایک بے گناہ لڑکی کو ناکردہ جرم کی سزا دی تھی، اس شام وہ زندگی کا مشکل ترین فیصلہ کر چکا تھا۔ اب
اسے ضیاء الدین صاحب کے جواب کا انتظار تھا، اگلا مرحلہ اس سے بھی زیادہ مشکل تھا مگر۔۔ وقار برہان درانی! تمہیں یہ پل صراط پار کرنا ہی ہوگا۔
اس نے خود سے عہد کیا اور آنکھیں موند لیں۔
***************