پاکستان کال کرنے کے بعد اس نے اپنا کچھ ضروری سامان پیک کر لیا تھا دو دن ہو گئے تھے راحل پلٹ کر واپس نہیں آیا تھا آج لالہ جانی پہنچ رہے تھے وہ بڑی سی چادر اوڑھتی لاؤنج میں بیٹھی لالہ جانی کا انتظار کرنے لگی وہ اسے لینے آ رہے تھے اور جب تک وہ آ نہ جاتے اسے یہیں ان کا ویٹ کرنا تھا، اس کی آنکھیں بالکل خشک اور خالی تھیں۔
بد کردار، اخلاقیات سے عاری، جہالت اور گمراہی کی پستیوں میں گرا ہوا شوہر گلے میں پہنے ایک طوق کے سوا کچھ نہیں ہوتا اور ایسا طوق جب گلے سے اترتا ہے تو وہ کوئی تکلیف کوئی اذیت نہیں دیتا بلکہ ایک گہرے سکون کا احساس دلاتا ہے اس لمحے ویسا ہی سکون اور اطمینان وہ اپنے اندر اترتا محسوس کر رہی تھی۔
وہ یقیناً اس کی زندگی میں ایک کڑی آزمائش بن کر آیا تھا جس کو اس نے انتہائی صبر اور ثابت قدمی کے ساتھ جھیلا تھا اور اب اس سے پہلے کہ اس کے ضبط کی طنابیں ہاتھ سے چھوٹتیں اور اس کا صبر جواب دیتا اللہ نے اس کی آزمائش ختم کر دی تھی۔
اطلاعی گھنٹی پر لالہ جانی کا تصور کرتے ہوئے اس نے بھاگ کر دروازہ کھولا تھا مگر سامنے کھڑے راحل کو دیکھ کر اسے اپنی جلد بازی پر جی بھر کے کوفت ہوئی، وہ کی رنگ گھماتا سیٹی پہ کوئی دھن گنگناتا خاصے فریش موڈ میں یوں اندر آیا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
’’تم کہاں جا رہی ہو؟‘‘ صوفے کے پاس رکھا بیگ اور اسے بڑی سی چادر میں پیک دیکھ کر اس کا ماتھا ٹھنکا تھا۔
’’واپس پاکستان جا رہی ہوں۔‘‘ وہ رخ موڑے بغیر ناگواری سے بولی۔
’’کیوں؟‘‘ وہ حواس باختہ سا گھوم کر اس کے سامنے آ کھڑا ہوا۔
’’تم نہیں جانتے۔‘‘ اس کا انداز استہزائیہ تھا۔
’’دیکھو ایم سوری وہ مجھے غصہ آ گیا تھا اور غصے میں، میں نہ جانے تم سے کیا کچھ بول گیا، میاں بیوی میں سو جھگڑے ہو جاتے ہیں اس کا مطلب یہ تو نہیں نا کہ تم اتنی سی بات پر گھر چھوڑ کر چلی جاؤ اور پھر تمہیں بتانا چاہیے تھا کہ تم رات عادل کے گھر میں تھی۔‘‘
’’اتنی سی بات؟‘‘ اس کی سوئی اسی نقطے پر اٹک گئی تھی۔
’’تم مجھے طلاق دے چکے ہو سمجھے۔‘‘ اگلے ہی پل وہ ہوش میں آ کر چلائی۔
’’کیا بچوں جیسی بات ہے ایسے غصے میں بول دینے سے طلاق تھوڑی ہو جاتی ہے کوئی طلاق ولاق نہیں دی میں نے تمہیں اور آج شام ایم ڈی صاحب کو میں نے ڈنر پہ انوائیٹ کیا ہے تم پلیز ذرا اچھے انداز سے بات کرنا ان سے پہلے ہی بڑی مشکل سے ان کا غصہ ٹھنڈا ہوا ہے بھری محفل میں اتنی بڑی شخصیت پر ہاتھ اٹھانا کوئی معمولی بات نہیں ہوتی اور…‘‘
اس لمحے دروازہ کھلنے پر سامنے لالہ جانی کا چہرہ نمودار ہوا تھا وہ بھاگ کر ان کے گلے سے لگی پھوٹ پھوٹ کر رو دی، راحل اپنی جگہ بے چینی سے پہلو بدل کر رہ گیا۔
’’ماموں جان! آپ یوں اچانک، کوئی اطلاع دے کر آتے تو میں خود ائیر پورٹ ریسیو کرنے آ جاتا۔‘‘ اس کے اس قدر اپنائیت کے مظاہرے پر شیراز حسن نے محض ایک اچٹتی سی نگاہ اس پر ڈالی تھی پھر عریشہ سے مخاطب ہوئے۔
’’چلو بیٹا میں نے واپسی کی سیٹ بھی ریزرو کروا لی ہے۔‘‘
’’مگر کہاں، ماموں جان آپ میری بات تو سنیں میں نے اسے طلاق نہیں دی۔‘‘ راحل گھوم کر ان کے سامنے آ کھڑا ہوا انہوں نے کچھ ٹھٹک کر ایک بار عریشہ اور دوسری بار راحل کو دیکھا۔
’’آ… آپ میرا یقین کریں یہ جھوٹ بول رہی ہے۔‘‘ اس الزام پر عریشہ نے تڑپ کر سر اٹھایا تھا لالہ جانی کی استفہامیہ نگاہیں اس پر جم گئیں۔
’’لالہ جانی آج سے تین دن پہلے اس نے تین بار وا شگاف الفاظ میں کہا تھا کہ میں تمہیں طلاق دیتا ہوں۔‘‘
’’مگر میری نیت نہیں تھی۔‘‘ وہ جھنجھلا گیا۔
’’نیت کنایہ الفاظ میں شرط ہوتی ہے۔‘‘ اب کہ شیراز حسن کو بھی اس کی ڈھٹائی پر غصہ آ گیا تھا وہ بہن کی محبت میں اس کا لحاظ کر رہے تھے۔
’’ہاں مگر میں نے دو بار کہا تھا اور میں رجوع کرنے کے لئے تیار ہوں۔‘‘
’’نہیں لالہ جانی اس نے تین بار کہا تھا۔‘‘ وہ سراسیمہ ہو کر لالہ جانی کی جانب بڑھی اور پھر ان کے پیچھے چھپ گئی۔
’’ماموں جان یہ جھوٹ…‘‘
’’بس۔‘‘ انہوں نے ہاتھ اٹھا کر اسے مزید کچھ کہنے سے روک دیا۔
’’میری بیٹی جھوٹ نہیں بولتی۔‘‘ ان کے لہجے کے مان، اعتبار پر عریشہ نے بڑے تفاخر سے گردن اٹھا کر انہیں دیکھا تھا تبھی اسے بیرونی دروازے سے جولیا اندر آتی دکھائی دی۔
’’کہاں تھے تم آج! کب سے کال کر رہی ہوں تم نے اپنا سیل بھی آف کر رکھا ہے۔‘‘ وہ عریشہ اور لالہ جانی کو ’’ہیلو‘‘ بولنے کے بعد بے تابی سے راحل کی جانب بڑھی۔
’’ہو از شی۔‘‘ انہوں نے پلٹ کر عریشہ سے دریافت کیا۔
’’گرل فرینڈ یا اس سے بھی زیادہ سمجھ لیں۔‘‘ وہ چبھتے ہوئے لہجے میں بڑبڑائی۔
’’اچھا تو یہ شوق بھی رکھتے ہیں۔‘‘ ان کے طنزیہ لہجے پر راحل کی نظریں زمین میں گڑ گئیں۔
’’بس اتنا ہی نہیں اخلاقیات سے گرا ہر شوق رکھتے ہیں۔‘‘ وہ کہہ کر رکی نہیں لالہ جانی بھی ایک سرد سی نگاہ اس پہ ڈال کر عریشہ کے تعاقب میں نکلے۔
’’تم نے یہ سب مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا، کیوں اتنی اذیت میں زندگی گزارتی رہی، کس نے سکھایا تھا تمہیں ظلم برداشت کرنا میں نے ایسی تربیت تو نہیں کی تھی تمہاری۔‘‘ لالہ جانی نے شکایتی نظروں سے اسے دیکھا، انہیں اپنی لا علمی پہ افسوس ہو رہا تھا اور اکلوتی لاڈلی بیٹی کا گھر اجڑنے کا دکھ ایک الگ کہانی تھی۔
’’میں آپ کو دکھی نہیں کرنا چاہتی تھی۔‘‘ اس نے ایک گہرا سانس بھرتے ہوئے کہا اور سوچنے لگی۔
’’کہ میں آپ کو کیا بتاتی لالہ جانی کچھ آپ کو بتانے لائق تھا ہی نہیں، آپ سے یہ کہتی کہ وہ مجھے نیم برہنہ لباس پہننے اور شراب پینے پر مجبور کرتا ہے میرا نماز پڑھنا اسے پسند نہیں اس کی غیر موجودگی میں اس کے دوستوں کو گھر نہیں بلاتی تو میں دقیانوسی ہوں اس کے دوستوں کی بانہوں میں نہیں جھومتی تو اس کی انسلٹ ہو جاتی ہے، کیا بتاتی آپ کو زندگی بھر سکول کے اسٹیج پہ کھڑے ہو کر حلال و حرام کی تمیز پہ لیکچر دینے والے شخص کا داماد راشی ہے، زانی ہے، شرابی ہے، قاتل ہے۔‘‘ بے ساختہ اس کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے یقیناً وہ اس قابل نہیں تھا کہ اس جیسی پیاری لڑکی اس کی ہم سفر بنتی۔
٭٭٭
اس کے گھر آنے سے پہلے ہی یہ خبر لغاری ہاؤس تک پہنچ چکی تھی، شام میں زہرہ پھپھو، ماموں اور نانا جان آئے تھے، اس سے معذرت کرنے، بلکہ اس کے سامنے تو دادا جان، لالہ جانی سمیت سب ہی شرمندہ سے بیٹھے تھے جیسے جو ہوا وہ سب نے جان بوجھ کر کیا ہو۔
’’آپ سب اتنا گلٹی فیل کیوں کر رہے ہیں میرے ساتھ جو ہوا وہ میری قسمت میں لکھا تھا، پلیز نانا جان میں اس کے لئے کسی کو بھی مورد الزام نہیں ٹھہرا رہی، آپ بھی خود کو کوئی الزام نہ دیں اور اس میں راحل کا بھی قصور نہیں ہے، بس ہمارے مزاج ہی نہیں مل سکے، وہ کیا کہتے ہیں۔‘‘ وہ رسانیت سے کہتے ہوئے ایک پل کو رکی جیسے ذہن پہ زور دے کر کچھ یاد کرنے کی کوشش کر رہی ہو۔
’’ہاں یاد آیا انڈر اسٹینڈنگ اور یوں سمجھ لیں وہ زمین تھا اور میں آسمان، آپ نے کبھی زمین اور آسمان کو ملتے ہوئے دیکھا ہے ہاں اکثر دور سے ملتے ہوئے نظر آتے ہیں مگر یہ ہماری نظر کا دھوکہ ہے اور کچھ نہیں، قریب جا کر دیکھنے پروہ اتنے ہی فاصلے پر کھڑے نظر آتے ہیں اور ہم جتنا بھی سفر ساتھ کر لیتے یہ فاصلہ نہیں سمٹ سکتا تھا۔‘‘ وہ فلسفیانہ انداز میں کہتی مصنوعی بشاشت سے مسکرائی، کیونکہ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اب بیٹے کی جدائی زہرہ پھپھو کا مقدر بنتی وہ پہلے ہی اکیس برس اپنے بھائی سے جدا رہی تھیں، نانا جان کا کیا بھروسہ تھا کہ ابھی وہ راحل کو اپنی جائیداد سے عاق کرتے ہوئے اپنی زندگی سے ہمیشہ کے لئے بے دخل کر دیتے، کچھ معاملات میں وہ ایسے ہی سنگدلانہ فیصلے کر جاتے تھے بھلے ہی بعد میں عمر بھر اس فیصلے پہ پچھتاتے رہیں مگر خلاف مزاج بات برداشت نہیں کرتے تھے۔
’’وہ سب تو ٹھیک ہے مگر…‘‘
’’تو اگر مگر۔‘‘ عریشہ نے ٹوک دیا۔
پلیز نانا جان اور دادا جان آپ دوست تھے اور اب بھی دوست ہیں اس بات کو لے کر آپ کی دوستی میں کوئی رنجش یا خلش آئے، مجھے اچھا نہیں لگے گا، جب مجھے کوئی ٹینشن نہیں تو آپ سب بھی خود کو فضول میں ڈسٹرب نہ کریں۔‘‘ اس کا انداز ملتجیانہ تھا۔
’’ٹھیک ہے بیٹا جیسی تمہاری خوشی۔‘‘ زبیر لغاری اٹھ کر زاہد تابانی کے قریب آ بیٹھے تھے اور اب باتوں کا رخ پلٹ کر سیاست اور بزنس کی جانب مڑ چکا تھا، اس نے بے ساختہ دل میں شکر ادا کیا کہ اس سے بات سنبھل گئی تھی اور اس بات کو لے کر خاندان بھر میں فساد برپا ہو سکتا تھا، کہ بہرحال یہ کوئی چھوٹی اور معمولی بات نہیں تھی۔
’’پھپھو اور ماموں جان آپ سب ڈنر ہمارے ساتھ کریں گے۔‘‘ انہیں اٹھتا دیکھ کر عریشہ اور روشنی نے واپس بٹھایا، روشنی اور عمیر مانی کے بہن بھائی تھے، اپنی سویٹ سی تائی جان کو کچن سے باہر بھیجتے ہوئے وہ روشنی اور مہرو کچن میں گھسی ڈنر کا مینیو ترتیب دے رہی تھیں، روشنی اور عمیر نے اپنی باتوں سے اسے خوب ہنسایا تھا وہ دونوں بھی اس کے ہم مزاج نکلے تھے شوخ دل اور باتونی، مانی سے البتہ اس کا سامنا کم ہوا تھا جب اس کے گھر ہونے کے امکانات ہوتے وہ کمرے سے نہیں نکلتی تھی۔
٭٭٭
’’بہت بدل گئی ہو تم عریشہ۔‘‘ چھ ماہ میں یہ پہلی بات تھی جو مانی نے اس سے کی تھی، رات اپنے دوسرے پہر میں داخل ہو رہی تھی آسمان کا سیاہ آنچل ستاروں سے روشن تھا، اسے نیند نہیں آ رہی تھی جب وہ دادا جان کا وہی پرانا ریڈیو اٹھا کر باہر لان میں آ بیٹھی تھی نیم تاریکی میں اسے مانی کی وہاں موجودگی کا احساس نہیں ہوا تھا، وہ اس کی آواز پر چونکی اور پھر سپاٹ لہجے میں بڑبڑائی۔
’’جب کوئی بہت اپنا دل توڑ دے تو انسان بدل ہی جاتا ہے۔‘‘ وہ بے چین سا ہو کر اس کے قریب چلا آیا اور اس کی چیئر کے پاس گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔
’’میں تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’کیوں ترس آ رہا ہے مجھ پر۔‘‘ وہ استہزائیہ ہنسی، جیسے اپنی ہی بات کا حظ اٹھایا ہو۔
’’میں تم سے پیار…‘‘
’’پیار کا نام مت لو، اس سوال کا جواب تم بہت پہلے دے چکے ہو۔‘‘
’’میں شرمندہ ہوں مگر میں مجبور تھا۔‘‘ اس کی وضاحت پر وہ بغیر کوئی رد عمل ظاہر کیے ہنوز ریڈیو کے اسٹیشن بدلنے میں مگن رہی جیسے کچھ سنا ہی نہ ہو۔
’’تم اس پر جس آواز کو سننا چاہتی ہو وہ اب نہیں سن پاؤ گی۔‘‘ اس کا اشارہ ریڈیو کی جانب تھا۔
’’کیوں؟‘‘ عریشہ نے آبرو اچکائے۔
’’جب سے تم نے اسے سننا چھوڑ دیا ہے اس نے سمجھ لو بولنا چھوڑ دیا ہے۔‘‘ وہ اس کی بات میں چھپا مفہوم سمجھے بغیر ریڈیو وہیں رکھ کر اٹھ کھڑی ہوئی، دو قدم چل کر اسے اپنے پلو پہ کھنچاؤ سا محسوس ہوا تھا وہ رک گئی مگر پلٹی نہیں۔
میری ہر دعا کا محور
بس اک آرزو تمہاری
اس آرزو سے آگے
کوئی راستہ نہیں ہے
تمہیں کس قدر ہے چاہا
یہ تمہیں پتہ نہیں ہے۔
ٹھہرا ٹھہرا پر سوز گھمبیر لہجہ اس کی سماعتوں سے ٹکرایا۔
’’یہ غزل تو۔‘‘ وہ الٹے قدموں گھوم گئی۔
’’تم مریان حیدر کو سنایا کرتی تھی۔‘‘ وہ مسکرایا۔
’’میں ہی مریان حیدر ہوں۔‘‘
’’مانی تم۔‘‘ عریشہ نے بے یقینی سے اسے دیکھا۔
’’تم نے کبھی بتایا نہیں۔‘‘ اس کے اندر اک خوشگوار سا احساس انگڑائی لے کر بیدار ہوا تھا۔
’’تم نے کبھی پوچھا بھی تو نہیں۔‘‘ وہ الٹا خفا ہوا۔
’’آئی کانٹ بلیو۔‘‘ وہ ابھی تک شاک میں تھی۔
’’ول یو میری می میم۔‘‘ اب وہ اس کے سامنے گھٹنوں کے بل جھکا ہوا تھا۔
’’شٹ اپ، یہ کیا بے ہودگی ہے؟‘‘ وہ سٹپٹا کر رہ گئی۔
’’میں نے جسٹ اپنی فیلنگ کا اظہار کیا ہے۔‘‘ مانی نے اطمینان سے وضاحت دی جس پر عریشہ نے اسے مصنوعی خفگی سے گھورا وہ اسی کے الفاظ دوہرا رہا تھا۔
’’اٹھو بھی اگر کسی نے دیکھ لیا تو۔‘‘ اسے ٹس سے مس نہ ہوتے ہوئے دیکھ کر وہ جھنجھلا گئی۔
’’تو کیا؟ میرا کام اور آسان ہو جائے گا۔‘‘ وہ اس کی بات اچک کر بولا۔
’’کاش لالہ جانی یا پھر دادا جان میں سے کوئی دیکھ لے۔‘‘ اس نے بے ساختہ دونوں ہاتھ اٹھا کر فریاد کی۔
’’میرا دوپٹہ چھوڑو۔‘‘ اس نے ایک جھٹکے سے اپنا پلو کھینچا جو ابھی تک حفظ ما تقدم کے طور پر مانی نے اپنی مضبوط گرفت میں تھام رکھا تھا ورنہ محترمہ یہاں بھلا رکتی؟
’’تو تم تیار ہو، تھینک یو سو مچ۔‘‘ وہ فوراً اٹھ گیا اور پھر ایک گہرا سانس کھینچ کر عریشہ کے بگڑتے زاویوں کو دیکھا۔
’’دیکھو تم نے کہا تھا کہ جب تمہیں مریان حیدر ملے گا تو تم اسے آئی لو یو کہو گی، تو اب میں کھڑا ہوں تمہارے سامنے اپنا وعدہ پورا کرو۔‘‘
’’جی نہیں میں نے کہا تھا کہ میں یوکو یور بنا کر ساتھ وائس بھی لگاؤں گی۔‘‘ اس نے تصحیح کرنا ضروری سمجھا۔
’’یو کو یور بنا کر ساتھ وائس لگانا ضروری ہے کیا۔‘‘ وہ مسکین سی شکل بنا کر اس کی جانب جھکا تو حواس باختگی میں وہ فوراً بول گئی ’’اتنا بھی نہیں۔‘‘ جس پر مانی کا قہقہہ بے ساختہ تھا وہ اس سے اپنے مطلب کی بات اگلوا چکا تھا عریشہ نے جھینپ کر سر جھکا لیا۔
زندگی کے ٹیڑھے میڑھے دشوار گزار راستوں کا سفر وہ طے کر چکی تھی اب آگے کا راستہ بے حد شفاف اور نکھرا نکھرا سا تھا بالکل مریان حیدر کی کھنکتی ہوئی زندگی سے بھرپور ہنسی کی طرح، اس کا دل آج پھر گنگنانے کو چاہا تھا۔
میری ہر دعا کا محور
اک آرزو تمہاری
٭٭٭
ماخذ: ’ کتاب‘ اینڈرائیڈ ایپ
تدوین اور ای بک کی باز تشکیل: اعجاز عبید