’’عریشہ کہیں نہیں جائے گی۔‘‘ نانا جان نے قطعیت بھرے انداز میں دو ٹوک بات کرنے کے بعد گویا بحث ہی سمیٹ دی تھی اور اٹھ کر اپنے بیڈ روم میں چلے گئے۔
’’یہ اچھی زبردستی ہے اب کیا میں اپنی بیوی کو ساتھ نہ لے کر جاؤں۔‘‘ راحل وہاں بیٹھا دیر تک بڑبڑاتا رہا، اس کا ٹرانسفر لندن والی برانچ میں ہو گیا تھا اور وہ چاہتا تھا کہ عریشہ اس کے ساتھ جائے مگر نانا جان نے سنتے ہی واضح انکار کر دیا تھا۔
’’تو بیٹا تمہیں ضرورت کیا ہے اپنا گھر اپنا وطن چھوڑ کر دیار غیر میں بسنے کی، اپنی فیکٹری ہے وہ سنبھالو۔‘‘ فاروق صاحب تو ویسے بھی اس کی جاب کے خلاف تھے وہ خفگی سے اٹھ کر اندر چلا گیا، عریشہ اس کے سوٹ ہینگ کر رہی تھی۔
’’کتنی بار کہا ہے تم سے یہ چوڑیاں نہ پہنا کرو ہر وقت کی چھن چھن۔‘‘ وہ آتے ہی اس پر الٹ پڑا ساتھ ہی اس کی کلائی تھام کر زور سے مروڑی ساری چوڑیاں ٹوٹ کر فرش پہ بکھر گئیں کچھ اس کی کلائی میں بھی چبھ گئی تھیں اب وہاں سے قطرہ قطرہ خون رسنے لگا تھا، اسے بھی کوئی شوق نہیں تھا مگر پھپھو کو اس کی سونی کلائیاں اچھی نہیں لگتی تھیں اس کے نہ نہ کرنے کے باوجود بھی زبردستی پہنا دیتیں۔
’’ایم سوری۔‘‘ اسے ہمیشہ چوٹ دے کر درد کا احساس ہوتا تھا وہ خاموشی سے وارڈ روب کی جانب بڑھ گئی، راحل اس سے پہلے ہی دراز سے سنی پلاسٹ نکال کر اس کے وارڈروب کے عین وسط میں آ کھڑا ہوا پھر ٹشو سے زخم صاف کرتے ہوئے بینڈیج کر دی۔
’’یار تم اتنی خاموش گم صم سی کیوں رہتی ہو، شادی سے پہلے تو ہر وقت اچھلتی پھرتی تھی مہرو تو کہا کرتی تھی کہ اتنا بولتی ہو کہ مقابل کا ناک میں دم کر دیتی ہو، اب تو تمہارے لالہ جانی بھی تم سے دور نہیں پھر کیا مسئلہ ہے؟‘‘ راحل نے اس کے گلے میں بازو ڈال کر اس کا چہرہ اوپر اٹھایا تو اس کی پلکیں بے ساختہ لرز کر عارضوں پر جھک گئیں۔
’’نانا جان نے چائے کا کہا تھا میں دے کر آتی ہوں۔‘‘ اس نے دانستہ بات بدل دی۔
’’اپنے نانا جان کو یہ بھی بتا کر آنا کہ تم میرے ساتھ جانا چاہتی ہو۔‘‘ وہ یاد آنے پر نئے سرے سے سلگ اٹھا تھا عریشہ نے اثبات میں سر ہلا دیا، وہ خود بھی اس شہر سے بہت دور چلی جانا چاہتی تھی، یہاں رہ کر وہ پرانی یادوں اور باتوں سے نہیں نکل سکتی تھی اور اسے سب کچھ بھلا کر ایک نئی زندگی کا آغاز کرنا تھا، نانا جان پہلے تو نہیں مانے تھے پھر یہ جان کر کہ یہ عریشہ کی بھی خواہش ہے بخوشی اجازت دے دی، اگلے ایک ہفتے کے اندر اندر وہ سب سے ملنے کے بعد لندن چلے گئے تھے۔
٭٭٭
علی الصبح نماز پڑھنے کے بعد اس نے کرٹین ہٹا کر گلاس ونڈو اوپن کی تو نم ٹھنڈی ہوا کے جھونکے اس کے وجود سے ٹکرائے سردی کی شدید لہر اسے ٹھٹھرا کر اندر ہی اندر کہیں منجمد ہو گئی تھی، لمحہ بھر کے لئے وہاں کھڑے رہنا محال ہو گیا اس نے فوراً کھڑکی بند کر کے پردے برابر کر دئیے۔
لندن کی صبح بھی اس کے احساسات جیسی تھی غبار آلود اور دھواں دھواں سی۔
کچن میں گروسری کا سب سامان موجود تھا، فرنچ آملیٹ اور بریڈ سینکنے کے بعد وہ چائے بھی بنا چکی تھی اب مسئلہ راحل کو جگانے کا تھا گھر میں یہ کام پھپھو ہی کرتی تھیں دو بار بیڈ روم کا چکر لگانے کے بعد اب تیسری مرتبہ وہ اس کے سرہانے کھڑی تھی، وہ بیڈ پر اوندھا لیٹا خوب گہری نیند سو رہا تھا۔
’’راحل… راحل!‘‘ دو تین بار پکارنے پر بھی جب اس نے کوئی رسپانس نہ دیا تو وہ کچھ دیر کھڑی انگلیاں چٹخاتی رہی پھر ایک خیال آنے پر اس نے لینڈ لائن سے اس کے سیل پر مسڈ کالز کیں اگلے دس منٹ میں وہ فریش ہو کر ڈائیننگ ٹیبل پر آ چکا تھا۔
’’یہ کیا طریقہ ہے جگانے کا۔‘‘ اس نے آتے ہی اس کے بالوں کی لٹ کھینچی پھر چیئر گھسیٹ کر بیٹھ گیا۔
’’تم ناشتے پر میرے لئے آئندہ اتنا تکلف نہ کرنا میں صبح جسٹ ایک کپ کافی پیتا ہوں۔‘‘ تمام لوازمات پرے کھساتے ہوئے اس نے خود بھی کرسی کی پشت سے ٹیک لگا لی اور بڑی فرصت سے اسے دیکھنے لگا۔
’’میں کافی بنا لاتی ہوں۔‘‘ اگلے ہی پل وہ اٹھ کر کچن میں چلی گئی۔
’’کبھی کبھی تو مجھے لگتا ہے جیسے میں کسی روبوٹ کے ساتھ رہتا ہوں۔‘‘ وہ اس کے پیچھے ہی کچن میں آیا تھا۔
’’رہنے دو کافی میں وہ سب کھا لوں گا جو تم نے بنایا ہے۔‘‘ وہ اس کا ہاتھ تھام کر واپس لے آیا، غالباً وہ اسے تنگ کر رہا تھا۔
’’ویسے مجھے تمہاری یہ فرمانبرداریاں اچھی لگتی ہیں اور پھر مجھے اپنی کسی فرمائش پر انکار سننے کی عادت بھی نہیں، یہ بات یاد رکھنا۔‘‘ فرنچ آملیٹ اور بریڈ کے ساتھ مکمل انصاف کرتے ہوئے وہ مزے سے بولا۔
’’شام کو تیار رہنا میں تمہیں شاپنگ کرواؤں گا۔‘‘
مین ڈور بند کر کے وہ واپس بیڈ روم میں چلی آئی، اسے لالہ جانی، نوری اور اپنا وہ سندر سا کشمیر بہت یاد آ رہا تھا، زندگی میں در آنے والی اتنی بڑی تبدیلی کو وہ ابھی تک ایکسپٹ نہیں کر پا رہی تھی اسے کچھ وقت درکار تھا اس سارے سیٹ اپ میں خود کو مکس اپ کرنے کے لئے، پھر وہ دیر تک بیٹھی مانی کے متعلق سوچتی رہی نہ چاہتے ہوئے بھی وہ اس کی سوچوں کا محور تھا اگرچہ وہ خود کو اس سمجھوتے کے لئے بخوشی رضا مند کر چکی تھی، مگر دل کے معاملے میں وہ خود کو بے بس محسوس کرتی تھی۔
٭٭٭
بڑی سی الماری کھولے وہ اسی ادھیڑ بن میں کھڑی تھی کہ کون سا سوٹ پہنے، جب اس کی نگاہ ہینگر میں لٹکے اس بلیک سوٹ سے ٹکرائی ساتھ ہی اسے کچھ یاد بھی آیا تھا۔
’’اور کتنی لڑکیوں کو ایسی شاپنگ کروا چکے ہو؟‘‘
’’کسی کو بھی نہیں۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’کیونکہ اور لڑکیوں سے میرا چھوٹا موٹا فلرٹ رہا ہے۔‘‘
’’پھر مجھ پر یہ عنایت کس خوشی میں۔‘‘
’’کیونکہ تم سے لمبا فلرٹ کرنے کا ارادہ ہے۔‘‘
’’جلدی کرو عریشہ ہم لیٹ ہو رہے ہیں۔‘‘ راحل نے ادھ کھلے دروازے سے اندر جھانکا تو وہ اس سوٹ کو الماری کے نچلے خانے میں رکھ کر چینج کرنے کے بعد اپنے مخصوص انداز میں دوپٹہ اوڑھتی باہر نکل آئی۔
’’مائی گاڈ، تم ایسے چلو گی میرے ساتھ۔‘‘ راحل نے اسے دیکھتے ہی سر تھام لیا۔
’’کیوں کیا ہوا؟‘‘ اس نے کچھ الجھ کر دیوار گیر آئینے میں اپنا جائزہ لیا مگر اسے تو ایسی کوئی قابل اعتراض بات نظر نہیں آئی تھی۔
’’یہ لندن ہے یار! تم جب تک پاکستان میں تھی میں نے بھی کچھ نہیں کہا مگر یہاں ایسا گیٹ اپ نہیں چلے گا، اب یہ بڑی بی کی طرح دوپٹہ اوڑھنا چھوڑ دو۔‘‘ اس کے تمسخرانہ انداز پر عریشہ نے اپنے دوپٹے کو کچھ اور مضبوطی سے تھام لیا جیسے خدشہ ہو کہ کہیں وہ اتار کر پھینک نہ دے۔
’’ملک بدل جانے سے اسلامی تہذیب اس کی قدر اور روایات نہیں بدلا کرتی، میں دوپٹہ نہیں اتاروں گی آپ کو اگر لے کر جانا ہے تو ایسے ہی چلیں ورنہ میں گھر میں ہی ٹھیک ہوں۔‘‘ اگلے ہی پل اس کا ازلی اعتماد عود کر آیا تھا اس نے خود کو قربان کیا تھا اب اپنی حیا اور حرمت کو پامال نہیں کر سکتی تھی، راحل نے ایک لمحے کو رک کر اس کا دو ٹوک اور قطعی انداز ملاحظہ کیا اور پھر سر جھٹک کر باہر نکل گیا وہ اب اسے ساتھ لے جا کر شاپنگ سینٹر میں کوئی سین نہیں کری ایٹ کرنا چاہتا تھا۔
٭٭٭
وہ واش روم سے وضو کر کے باہر نکلی تو مغرب کی نماز کا وقت ہو چکا تھا، راحل بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے سیل فون پر کوئی گیم کھیلتا ساتھ ساتھ کچھ گنگنا رہا تھا۔
’’تم نے اپنی شاپنگ نہیں دیکھی۔‘‘ اسے سامنے پا کر وہ اس کی جانب متوجہ ہو گیا، عریشہ نے اس کی نظروں کے تعاقب میں ان بند شاپنگ بیگز کو دیکھا جو کل شام سے اسی پوزیشن میں پڑے تھے جیسے وہ رکھ کر گیا تھا۔
’’نماز پڑھ کر دیکھ لوں گی۔‘‘ اس نے دوپٹہ لپیٹ کر جائے نماز بچھا لی۔
’’یہ نماز بعد میں پڑھتی رہنا آؤ پہلے وہ سب دیکھو جو میں تمہارے لئے لایا ہوں۔‘‘ وہ اٹھا اور شاپنگ بیگز اٹھا کر بیڈ پر ڈھیر کر دئیے، اب اس کی منتظر نگاہیں عریشہ پہ ٹکی تھیں۔
’’نماز کا وقت کم ہے میں شاپنگ بعد میں دیکھ لوں گی۔‘‘ رسانیت سے کہتے ہوئے اس نے نیت باندھ لی، راحل کا موڈ بری طرح سے آف ہوا تھا وہ پھر سے اپنے سابقہ مشغلے میں گم ہو گیا۔
’’ہاں اب دکھاؤ کیا لائے ہو۔‘‘ نماز ادا کرنے کے بعد وہ اس کے سامنے آ بیٹھی مگر وہ ہنوز لا تعلقی کا مظاہرہ کیے موبائل میں گم رہا۔
’’خفا ہو؟‘‘ وہ اس کے گھٹنے پر ٹھوڑی ٹکاتے ہوئے دھیرے سے بولی راحل نے سیل سے نظریں ہٹا کر اسے دیکھا وہ کتنی معصوم اور پاکیزہ سی لگ رہی تھی۔
’’اب اتنے پیار سے مناؤ گی تو خفا کیسے رہ پاؤں گا۔‘‘ وہ مسکراتے ہوئے شاپنگ بیگز کھولنے لگا، اندر سے جینز، ٹاپ، منی اسکرٹ، سیلو لیس اور کیپری جیسے ملبوسات برآمد ہوئے تھے جنہیں دیکھ کر عریشہ کی آنکھیں حیرت کے باعث پھیل گئیں۔
’’میں یہ سب نہیں پہنتی۔‘‘
’’جانتا ہوں۔‘‘ وہ بے نیازی سے بولا۔
’’مگر اب یہ سب تم پہنو گی۔‘‘ راحل نے اس کے رخسار کو نرمی سے چھوا۔
’’مجھے ویسٹرن لڑکیاں اچھی لگتی ہیں اور میں تمہیں بھی اسی روپ میں دیکھنا چاہتا ہوں۔‘‘
’’مگر…‘‘ اس کے لب کچھ کہنے کو وا ہوئے تھے لیکن راحل نے اس کے لبوں پہ اپنی فنگر رکھ کر خاموش کروا دیا۔
’’کل ویک اینڈ ہے میرے کچھ دوست مدعو ہیں ارینجمنٹ بہت اچھا ہونا چاہیے۔‘‘
’’مینیو بتا دیں میں کل صبح سے تیاری شروع کر دوں گی۔‘‘ اس کے بات بدلنے پر عریشہ نے سکھ کا سانس لیا تھا مگر اگلے ہی پل وہ سکون لمحاتی ثابت ہوا۔
’’میں کھانے کی ارینجمنٹ کی نہیں تمہاری بات کر رہا ہوں، ان ڈریسز میں سے جو تمہیں پسند آئے پہن لینا، میرے دوست بہت ماڈرن ہیں اور میں ان کے سامنے کوئی ناٹک برداشت نہیں کروں گا۔‘‘ وہ وارننگ کے انداز میں کہتا اٹھ کھڑا ہوا۔
’’میں ان میں سے کوئی لباس نہیں پہنوں گی۔‘‘ اس نے بیڈ سے ساری چیزیں اٹھا کر پھینک دیں اور تاسف بھری نظروں سے راحل کو دیکھا یہ کیسا شوہر تھا جو دوستوں میں اس کی نمائش لگا رہا تھا اسے تحفظ اور مان دینے کی بجائے سب کے سامنے بے حجاب کرنا چاہتا تھا، وہ صرف اس کے لئے سجنا سنورنا چاہتی تھی اور وہ اس کی سجاوٹ کو زمانے بھر میں نیلام کروانا چاہتا تھا۔
’’تم وہی کرو گی جو میں کہوں گا اور چاہوں گا بھی۔‘‘ وہ سنگین لہجے میں کہتا راستے میں پڑی چیزوں کو ٹھوکروں سے اڑاتا تن فن کرتا باہر نکل گیا، اسے اپنی حماقت پر پچھتاوا ہو رہا تھا جو وہ اس سے شادی کی صورت کر چکا تھا۔
٭٭٭
’’جلدی تیار ہو کر نیچے آ جاؤ میرے فرینڈز آ چکے ہیں۔‘‘ نیم وا دروازے سے وہ آرڈر پاس کرتا واپس چلا گیا، عریشہ نے بے بسی سے خود کو آئینے میں دیکھا تین روز پہلے کا پہنا ہوا ملگجا لباس بے حد شکن آلود تھا، وہ اس حلیے میں نیچے نہیں جا سکتی تھی اور وارڈ روب سے اس کے ملبوسات غائب تھے وہاں اب ان کی جگہ جینز، سیلو لیس، میکسی، ٹاپ، کیپری اور منی اسکرٹ نے لے رکھی تھی۔
اچانک اس کے ذہن میں جھماکا سا ہوا وارڈ روب کے سب سے نچلے خانے کو اس نے کھولا تو بلیک سوٹ کو دیکھتے ہی اس کی آنکھوں میں چمک اتر آئی، ویلوٹ کا بلیک ٹراؤزر شرٹ جس کے شرٹ پر سلور رنگینوں کا انتہائی دیدہ زیب کام تھا ساتھ بڑا سا چائنا سلک کا بلیک اور سلور ڈائی اینڈ ڈائی دوپٹہ تھا۔
وہ اس سوٹ کو زندگی میں کبھی نہیں پہننے والی تھی مگر آج اسے پہن کر جیسے اسے کسی تحفظ کسی مضبوط پناہ گاہ کا احساس ہوا تھا، وہ سیڑھیاں اتر کر لاؤنج میں چلی آئی، لاؤنج کا منظر دیکھ کر اسے ایک جھٹکا سا لگا تھا۔
سامنے صوفوں پر بیٹھے اس کے دوست جو تین لڑکوں اور چار لڑکیوں پر مشتمل تھے ان میں سے لڑکے ڈرنک اور لڑکیاں اسموکنگ کرنے میں مصروف تھیں۔
بظاہر انتہائی مہذب نظر آنے والا یہ شخص کس قدر اخلاقی پستیوں میں گرا ہوا تھا وہ دیکھ کر بھی ناقابل یقین تھی۔
’’السلام وعلیکم!‘‘ وہ ان کے پاس جا کر آہستگی سے بولی جس پر اپنے اپنے شغل کو ترک کرتے ہوئے سب نے سر اٹھا کر خاصی جانچتی نظروں سے سرتاپا اسے دیکھا تھا البتہ سلام کا جواب کسی نے دینا گوارہ نہ کیا، اسے اپنی جانب اٹھی ان خمار آلود نگاہوں سے وحشت ہونے لگی تھی۔
’’اچھا تو یہ ہے تمہاری وائف۔‘‘ سنگل صوفے پر بیٹھی اس برٹش لڑکی نے کچھ اس قدر طنزیہ انداز میں کہا تھا کہ وہ بے ساختہ اسے دیکھنے پر مجبور ہو گئی۔
گہرے گریبان کے سیلو لیس شرٹ کے نیچے منی اسکرٹ پہنے خاصے بے باک انداز میں وہ صوفے پہ بیٹھی سگریٹ کے کش لینے میں مگن تھی۔
’’یار تم تو کہتے تھے کہ کسی مس ورلڈ ٹائپ لڑکی سے شادی کرو گے مگر یہ تو مجھے کچھ ’’بہن جی‘‘ ٹائپ کی لگ رہی ہیں۔‘‘ راحل کے ساتھ بیٹھے لڑکے نے بے تکلفی سے اس کے شانے پر ہاتھ مارتے ہوئے خاصا تمسخرانہ قہقہہ لگایا تھا۔
عریشہ کی نظریں بے ساختہ جھک گئیں وہ اس لمحے راحل کو دیکھنے کا رسک نہیں لے سکتی تھی۔
’’ویسے ہے بہت بیوٹی فل، ایسی نیچرل بیوٹی تو پورے یورپ میں نہیں ہو گی۔‘‘ دوسرے لڑکے نے والہانہ نظروں سے اسے دیکھتے دھیرے سے اس کا گال چھوا تو وہ جیسے کرنٹ کھا کر دو قدم پیچھے ہٹی اس کی اس حرکت پر یکبارگی سب کا مشترکہ قہقہہ لاؤنج میں گونجا۔
’’ارے بھابھی پلیز ڈونٹ مائینڈ، آئیے نا بیٹھیے۔‘‘ اب کی بار اس نے عریشہ کا ہاتھ پکڑ کر صوفے پر بٹھایا تھا، آنکھوں میں در آنے والی نمی کو پلکیں جھپک جھپک کر اس نے بمشکل باہر آنے سے روکا تھا، خالی پیمانے پھر سے بھرنے لگے تھے، ایک گلاس اس کی جانب بھی بڑھا دیا گیا۔
’’ارے بھابھی پیئیں نا۔‘‘ دوسرے لڑکے نے اس کے گلاس کے ساتھ اپنا گلاس ٹچ کرتے ہوئے پر زور فرمائش کی تھی، گلاس اس کے ہاتھوں میں کانپنے لگا، راحل نے اس لمحے خاصی خشمگیں نظروں سے اسے گھورا تھا، ہاتھ میں پکڑا جام لرزا، آنسوؤں کا گولا اس کے خلق میں اٹک گیا تھا۔
’’شراب نجس ہے حرام ہے اس کے قریب مت جاؤ۔‘‘ کوئی اس کے اندر سے چیخ کر بولا۔
’’کیا ہو جائے گا زیادہ سے زیادہ اور جو ہو گا میں اسے فیس کر لوں گی مگر حرام کو خود میں شامل نہیں کر سکتی۔‘‘ وہ گلاس ٹیبل پر رکھ کر اٹھ کھڑی ہوئی، اس کی ہتھیلیاں نم ہو چکی تھیں شدید سردی میں بھی اس کے مساموں سے پسینہ چھوٹ نکلا، یک لخت اس کا دل گھبرانے لگا تھا۔
’’وٹ ہیپنڈ؟‘‘ راحل نے آبرو اچکا کر استفسار کیا اس کے سر میں درد کی شدید لہر اٹھی تھی اگلے ہی پل وہ ہوش و حواس سے بیگانہ ہو کر صوفے پر گر گئی۔
٭٭٭
نیم بے ہوشی میں اسے محسوس ہوا جیسے کوئی اسے پکار رہا ہو، وہ اپنے چہرے پہ مردانہ ہاتھوں کا لمس محسوس کر سکتی تھی بدقت تمام اس نے آنکھیں کھولیں۔
’’تھینک گاڈ! تمہیں ہوش آ گیا۔‘‘ راحل اسے دیکھ کر مسکرایا جس پر عریشہ نے کچھ تعجب سے اسے دیکھا تھا۔
’’چلو اٹھو اور جلدی سے فریش ہو کر آ جاؤ میں ناشتہ بنا چکا ہوں۔‘‘ وہ اس کا گال تھپتھپا کر بیڈ روم سے باہر نکل گیا، وہ اس کے اس قدر التفات پر حیران ہوتی واش روم میں چلی آئی، کل رات جو ہوا تھا اس کے بعد وہ راحل سے کسی بھی قسم کی درشت رویے کی توقع کر سکتی تھی، مگر وہ تو بالکل نارمل ہی سلوک کر رہا تھا۔
’’اپنا خیال رکھنا شام کو بات ہو گی۔‘‘ وہ آفس جانے کو تیار کھڑا تھا، عریشہ نے اثبات میں سر ہلا دیا، اس کا انداز اسے کچھ عجیب پر اسرار سا لگا تھا، وہ کچھ دیر سوچتی رہی رہی پھر ناشتہ کرنے کے بعد بیڈ روم میں چلی آئی۔
اس نے ابھی تک کل شام والا بلیک سوٹ پہن رکھا تھا اپنے کپڑوں کی تلاش میں اس نے پورے اپارٹمنٹ کی تلاشی لے ڈالی، آخر وہ اسے بیڈ کے نیچے ایک سوٹ کیس میں پیک مل گئے تھے، باہر آسمان سے برف برس رہی تھی جس سے سردی کی شدت میں بے حد اضافہ ہوا تھا، وہ اپنے لئے بلو کلر کا پرنٹڈ سوٹ منتخب کر کے نہانے چلی گئی اسی دوران اطلاعی گھنٹی بجنا شروع ہو چکی تھی۔
آنے والا بھی شاید کافی فرصت میں آیا تھا جو دس بار کوئی رسپانس نہ ملنے پر بھی مسلسل بیل بجائے جا رہا تھا، گیلے بالوں کو تولیے میں لپیٹتے ہوئے شانوں پہ دوپٹہ پھیلا کر اس نے دروازہ کھولا تو سامنے راحل کا وہی دوست کھڑا تھا جس نے کل رات اسے ڈرنک آفر کرتے ہوئے کس قدر بے تکلفی سے اس کا گال چھوا تھا، عریشہ کو اپنے دائیں رخسار پر چیونٹیاں سی رینگتی محسوس ہوئیں۔
’’وہ میں آپ کی خیریت دریافت کرنے آیا تھا، کل شام آپ اچانک…‘‘
’’میں اب ٹھیک ہوں۔‘‘ عریشہ نے اس کی بات کاٹ کر قدرے رکھائی سے جواب دیا۔
’’اب کیا دروازے میں کھڑا رکھیں گی۔‘‘ اس کے صبیح چہرے کو نظروں میں سموتے ہوئے عادل نے اسے کچھ شرمندہ کرنا چاہا مگر وہ پورے اعتماد سے بولی۔
’’آپ کا دوست گھر نہیں ہے بہتر ہے آپ ان کی موجودگی میں تشریف لائیں۔‘‘ اس کے کہتے ہی زور سے دروازہ بند کیا اور اندر چلی آئی اس کی عجیب بے ہودہ نظروں پر دیر تک اس کا خون کھولتا رہا تھا۔
’’تمہیں اتنی بھی تمیز نہیں کہ مہمانوں سے کیسے بی ہیو کیا جاتا ہے تمہاری جرأت کیسے ہوئی کہ تم میرے گھر آئے دوست کی انسلٹ کرو۔‘‘ وہ کچن میں کھانا بنا رہی تھی جب وہ اس کے سر پہ آ کر چلایا۔
’’میں نے کسی کی کوئی انسلٹ نہیں کی اسے صرف یہ سمجھایا ہے کہ وہ تمہاری موجودگی میں آئے۔‘‘ سرد سپاٹ انداز میں کہنے کے بعد وہ بنا اس کی جانب دیکھے ہنوز اپنے کام میں مصروف رہی۔
’’کس قدر دقیانوس ہو تم۔‘‘ اس کے جھلاہٹ بھرے الفاظ عریشہ کو اپنی جگہ منجمد کر گئے تھے، وہ برنر بند کرتے ہوئے وہیں چیئر گھسیٹ کر بیٹھ گئی اس کا سر آج پھر بھاری سا ہو رہا تھا کھانے کی خوشبو بھی اسے اچھی نہیں لگ رہی تھی۔
مگر اپنی حالت کے پیش نظر اس پر جو انکشاف ہوا وہ احساس ہی اتنا خوشگوار تھا کہ بے ساختہ اس کے لبوں پہ مسکراہٹ دوڑ گئی، اسے راحل کا آج صبح والا رویہ بھی سمجھ میں آنے لگا تھا، آج کتنے دنوں بعد وہ دل سے خوش ہوئی تھی، زندگی گزارنے کا کوئی مقصد کوئی مصرف اسے ملنے والا تھا۔
٭٭٭
’’تم جو کر رہے ہو وہ ٹھیک نہیں ہے، اللہ کا دیا سب کچھ تو ہے ہمارے پاس پھر تمہیں اس طرح سے مال کمانے کی کیا ضرورت ہے۔‘‘ ابھی کچھ دیر قبل اس نے اپنے آفس کے سیکرٹ مخالف پارٹی کے ایک شخص کو دے کر اس سے بھاری رقم وصول کی تھی، اس کی ذات کی برائیاں ایک جانب، مگر اس بات کا تعلق ڈائریکٹ اس سے جڑنے والا تھا اور وہ حرام ذرائع سے کمایا ہوا مال اپنی ذات پر خرچ نہیں کر سکتی تھی اس جیسا بے ایمان اور بے ضمیر شخص ہی اس کی قسمت میں رہ گیا تھا اس نے کڑھ کر سوچا۔
’’اب کوئی خود آ کر مجھے رقم دے جائے تو اس میں میرا کیا قصور، اتنی رقم دیکھ کر تو کسی کا بھی دل بے ایمان ہو سکتا ہے یہاں تک کہ تمہارا بھی۔‘‘ بے نیازی سے شانے اچکاتے ہوئے اس نے الٹا اس کے ایمان پر الزام دھرا تو وہ تڑپ اٹھی۔
’’لعنت بھیجتی ہوں میں ایسی دولت پر۔‘‘
’’ٹھیک ہے تم لعنت بھیجتی رہو ہم عیاشی کریں گے۔‘‘ ڈسکو اور لڑکیوں کے خیال سے ہی اس کی آنکھوں میں چمک اتر آئی تھی۔
’’دیکھو راحل پلیز اس وقت سے ڈرو جب حرام ذرائع سے کمایا مال ہی تمہاری آزمائش بن جائے گا، اللہ تم سے پوچھے گا مال کہاں سے کمایا؟ کیسے کمایا اور کہاں خرچ کیا؟ اگر آج تمہارے باس کو تمہاری اس بے ایمانی کا پتہ چل جائے تو تم ان کے سامنے سر اٹھا کر بات کرنے کے قابل نہیں رہو گے، تو سوچو راحل وہ تو بادشاہ ہے رب ہے حاکم ہے اس کے سامنے کیا جواب دو گے۔‘‘ وہ اس کا ہاتھ تھام کر نرمی سے بولی اس کے لہجے کا اثر تھا یا لفظوں کا سحر کہ ایک لمحے کو تو راحل کا وجود بھی اس تصور سے کانپ گیا تھا مگر اگلے ہی پل شیطان نے اسے پھر سے بہکا دیا۔
’’تم کوئی اسلامک سینٹر کیوں نہیں جوائن کر لیتی یہاں کے لوگوں کو آئی تھینک زیادہ ضرورت ہے تمہارے وعظ اور نصیحت کی دماغ خراب کر کے رکھ دیا ہے۔‘‘ طنزیہ وار اس پہ کرنے کے بعد اس نے ٹی وی کا والیوم فل بڑھا دیا اسکرین پر میڈونا کا کوئی بے ہودہ سا سونگ چل رہا تھا جسے وہ بڑی محویت سے دیکھنے لگا۔
٭٭٭
’’ہم کہاں جا رہے ہیں۔‘‘ وہ بہ عجلت ہی اسے اپنے ساتھ لے آیا تھا عریشہ نے گاڑی میں بیٹھتے ہی استفسار کیا۔
’’ڈاکٹر سے میں نے تمہارا اپائنٹمنٹ لے رکھا ہے۔‘‘
’’مگر میری طبیعت تو بالکل ٹھیک ہے۔‘‘ اسے عجیب سی بے چینی نے گھیرا۔
’’تمہاری طبیعت کے لئے نہیں تمہارے ابارشن کے لئے ڈاکٹر کے پاس لے جا رہا ہوں۔‘‘ اس کے اس قدر سنگین انکشاف پر عریشہ کو اپنے گرد دنیا گھومتی ہوئی محسوس ہوئی تھی، ایک خوشنما، دلفریب سا احساس تھا جسے وہ اپنے وجود میں محسوس کرتی آج کل کس قدر خوش رہنے لگی تھی اور وہ کتنا ظالم تھا کہ اس سے یہ احساس بھی چھین لینا چاہتا تھا، وہ احساس جو اب اس کے لئے زندگی تھا۔
’’نہیں راحل تم ایسا نہیں کرو گے۔‘‘ وہ اس بے حس شخص کے بازو کو جھنجھوڑتی تڑپ ہی تو اٹھی تھی۔
’’دیکھو یار ابھی تو ہمارے لائف انجوائے کرنے کے دن ہیں، ابھی سے میں ان بچوں کے جھنجھٹ میں نہیں پڑنا چاہتا اور پھر ابھی تو ہم میں انڈر اسٹینڈنگ بھی ڈویلپ نہیں ہوئی پہلے ہم ایک دوسرے کو اچھی طرح سمجھ لیں تم خود کو میرے قابل بنا لو پھر آٹھ دس سال بعد سوچ لیں گے اس ٹاپک پر بھی۔‘‘ وہ پر سکون لب و لہجے میں کہتا گاڑی ہیکنی لندن ہاسپٹل کے سامنے روک چکا تھا اور اس کی منتیں، آہ فریاد سب رائے گاں چلی گئی تھیں وہ اس احساس کو ہمیشہ کے لئے موت کی نیند سلا کر خالی دامن لئے واپس لوٹ آئی اسے لگا اس احساس کے ساتھ وہ بھی مر چکی ہے۔
٭٭٭