’’ویری گڈ۔‘‘ مانی نے تالی بجا کر اس کی شاندار ڈرائیونگ کو داد دی، پندرہ دن میں اس نے سب سیکھ لیا تھا۔
’’ہو جائے ایک لانگ ڈرائیو۔‘‘ اس کے پرجوش انداز پر وہ شانے اچکاتا فرنٹ سیٹ پہ بیٹھ چکا تھا وہ بے حد محتاط انداز میں ڈرائیونگ کر رہی تھی مگر اس کی گاڑی کا رخ مرالہ روڈ کی بجائے کسی اور سمت تھا۔
’’ہم لاہور جا رہے ہیں۔‘‘ مانی کے استفسار پہ وہ کمال اطمینان سے بولی۔
’’کیا؟‘‘ وہ بے ساختہ اپنی سیٹ پر اچھل کر رہ گیا۔
’’محترمہ لاہور یہاں سے دو گھنٹے کی ڈرائیو پہ ہے۔‘‘ مانی نے اسے روکنا چاہا۔
’’دو گھنٹے جانے اور دو آنے میں چھ گھنٹے وہاں، تو اس کا مطلب ہے ہم دس گھنٹوں میں واپس آ جائیں گے گڈ۔‘‘ اس کے اطمینان میں زرہ برابر فرق نہیں آیا تھا۔
’’میرے دادا جان خفا ہو نگے اور تمہارے نانا جان۔‘‘
’’ڈونٹ وری نانا جان سے میں نے پرمیشن لے لی تھی اور رہے دادا جان تو وہ اگر خفا بھی ہوئے تو تم پر ہوں گے میں تو مہمان ہوں۔‘‘ وہ اس کی بات اچک کر مزے سے مسکرائی۔
’’کم آن اب اپنی شکل کے زاویے تو درست کرو میں تمہیں کڈنیپ کر کے تو نہیں لے جا رہی، دس گھنٹے بعد واپس مابدولت آپ کو نہایت عزت و احترام کے ساتھ آپ کی رہائش گاہ تک پہنچا دے گی۔‘‘ اس کی کھلکھلاہٹ پر وہ محض اسے گھور کر رہ گیا۔
’’اب خاموش ہو کر کیوں بیٹھ گئے کوئی بات کرو تاکہ کچھ تو راستہ کٹے۔‘‘ اس کی مستقل خاموشی اب اسے کھٹکنے لگی تھی۔
’’جب لاہور آ جائے تو مجھے جگا دینا۔‘‘ اس نے سیٹ کے پشت سے سر ٹکا کر آنکھیں مون لیں، عریشہ کی تو جان ہی جل کر رہ گئی تھی۔
’’دیکھتی ہوں کیسے سوتے ہو۔‘‘ اس نے گڑھ کر سوچا اور نان اسٹاپ شروع ہو گئی۔
’’جانتے ہو میں فرسٹ ٹائم لاہور جا رہی ہوں مجھے بہت شوق تھا لاہور دیکھنے کا، مگر میں پہلے کبھی آ نہیں سکی، ایک بار ہمارے اسکول کی ٹرپ آئی تھی لیکن لالہ جانی نے مجھے پرمیشن نہیں دی نوری نے اس ٹرپ کے ساتھ لاہور دیکھا ہوا ہے واپس آ کر اتنی تعریفیں کیں کہ بس میں نے سوچ لیا اگر کبھی نانا جان کے گھر آئی تو لاہور ضرور دیکھوں گی اب یہ تو تم جانتے ہی ہو کہ نانا جان اور ماموں آفس میں بزی رہتے ہیں، مہرہ اپنی سٹڈی میں مصروف راحل آؤٹ آف کنٹری اور وہ ہوتا بھی تو میں اس کے ساتھ کبھی نہ جاتی، کوئی انڈر اسٹینڈنگ بھی تو ہو اس نے تو کبھی مجھ سے فون پر بات کرنا گوارہ نہ کیا جانے کن ہواؤں میں رہتا ہے، خیر چھوڑو تو میں کہہ رہی تھی باقی ممانی جان تو ان پہ گھریلو ذمہ داریاں، دادا جان کو ٹریولنگ سے چڑ ہے، ایسے میں بس ایک تم ہی فارغ تھے تو میں نے سوچا کیوں نہ تمہیں بھی تھوڑی سی سیر کروا دوں، گھر میں تم بے چارے بور ہو جاتے ہو گے نہ تمہارا کوئی دوست ہے نہ لوٹر لڑکوں جیسے کوئی مشاغل، ویسے آج جب تم مجھے سارا لاہور گھماؤ گے، تو بلیو می تمہیں بہت مزہ آئے گا آزمائش شرط ہے۔‘‘ اور پھر سارا؟؟؟ ہوئی نا تو ساری فلمیں بھول جاؤ گی۔‘‘ وہ لفظوں کو خوب چبا چبا کر غصے سے بولا۔
’’تم اتنے روڈ کیوں ہو رہے ہو۔‘‘ اس نے حیرت سے دریافت کیا۔
’’تو کیا گانا گاؤں۔‘‘ وہ جل کر رہ گیا۔
’’اور اگر ساتھ ڈانس بھی ہو تو مزہ آ جائے۔‘‘ وہ ہنوز غیر سنجیدہ تھی۔
’’دیکھو میرا دماغ نہ کھاؤ، مجھے کچھ سوچنے دو۔‘‘
’’تو ایک جگہ بیٹھ کر بھی تو سوچ سکتے ہو۔‘‘ وہ اس کی پریڈ سے عاجز آ کر بولی۔
’دبلکہ تم پہلے یہ چاکلیٹ کھا لو۔‘‘ ہاتھ میں پکڑی آدھی کھائی چاکلیٹ اس نے مانی کی جانب بڑھائی تو مانی نے رک کر اسے یوں دیکھا جیسے اس کا دماغ چل گیا ہو پھر نپے تلے قدم اٹھاتا اس کے قریب آ کر رک گیا۔
’’تم جانتی ہو ہم کس قدر مصیبت میں پھنس چکے ہیں اگر یہ گاڑی نہ چلی تو رات اسی سڑک کے کنارے گزارنی پڑ سکتی ہے۔‘‘ اسے اپنی فکر نہیں تھی اگر جو اس کے ساتھ عریشہ نہ ہوتی تو وہ ہرگز اس قدر ڈسٹرب نہ ہوتا مگر آج کل تو حالات چل رہے تھے کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا تھا، اس پر سے جنگل، ویرانہ اور رات کا وقت۔
’’تم اتنا نیگیٹو کیوں سوچ رہے ہو ابھی کوئی گاڑی یہاں سے گزرے گی تو لف لے لیں گے۔‘‘ اس کے کہتے ہی دور سے آتی ایک کرولا کی ہیڈ لائٹس دکھائی دی تھیں، عریشہ کی آنکھیں چمکنے لگیں وہ بونٹ سے اتر کر اس کے قریب آ کھڑی ہوئی۔
’’دیکھا۔‘‘ آنکھوں ہی آنکھوں میں اس نے مانی کو باور کروایا۔
لفٹ کے لیے دونوں نے سگنل دیا تھا مگر گاڑی بغیر رکے اپنی سابقہ رفتار کو برقرار رکھے گزرتی چلی گئی۔
’’ملی گئی لفٹ۔‘‘ وہ صاف مذاق اڑاتے لہجے میں بولا۔
’’تم جو ساتھ نہ ہوتے تو مل ہی جاتی۔‘‘ پھر وہ دیر تک اس نامعلوم افراد کو غائبانہ صلواتوں سے نوازتی رہی۔
مانی نے ایک بار پھر سے اسٹارٹ کرنے کی کوشش کی، مسلسل چلنے کی وجہ سے شاید انجن تپنے لگا تھا اب جو ذرا ریسٹ ملا تو وہ اپنی سانسیں ہموار کرتی پھر سے چل پڑی تھی۔
’’تھینک گاڈ۔‘‘ اس نے پورے دل سے خدا کا شکر ادا کیا تھا۔
’’لو آ گیا تمہارا گھر۔‘‘ مانی نے باہر نکل کر اس کی جانب کا دروازہ کھولا۔
’’تم بھی آؤ مجھے اندر تک چھوڑنے۔‘‘ وہ اس کے قریب ہی رک گئی۔
’’کیوں؟‘‘ مانی اس کے سہمے ہوئے انداز پر کچھ ٹھٹکا۔
’’میں نے نانا جان کو نہیں بتایا تھا کہ میں تمہارے ساتھ لاہور جا رہی ہوں۔‘‘ اس کے معصومیت بھرے انکشاف پہ مانی کا دماغ بھک سے اڑ گیا تھا اور اس کے چہرے پہ اڑتی ہوائیاں عریشہ کو مزہ دے گئیں، مگر پھر اس کی ہراساں شکل دیکھ کر وہ اپنی ہنسی ضبط نہیں کر سکی۔
’’بہت بد تمیز ہو۔‘‘ مانی نے اپنا کب کا رکا سانس بحال کیا، وہ اسے گڈبائے تھینک یو ویری مچ کہتی وائیٹ گیٹ کی جانب بڑھ گئی، مانی نے دور تک اسے جاتے دیکھا اور ’’پاگل‘‘ کہ کر زیر لب مسکرا دیا۔
٭٭٭
’’یہ لیجئے سب کی چائے۔‘‘ ممانی جان اور مہرو راحل کو گھیرے بیٹھی تھیں جو ابھی کل شام ہی واپس آیا تھا، عریشہ نے چائے کے کپ دیگر لوازمات کے ہمراہ تینوں کے عین درمیان میں رکھے اور پھر سب کو چائے سرو بھی کی۔
راحل بہت غور سے اسے دیکھ رہا تھا، اسکائی بلو آنچل میں اس کی سنہری رنگت سونے کی مانند دمک رہی تھی، راحل نے سوچا اگر یہ لمبے بال شولڈر کٹ میں تبدیل ہو جائیں اور یہ گز بھر کا دوپٹہ اتار کر سلیو لیس اور جینز پہنے تو اتنی بھی بری نہیں۔
٭٭٭
’’دادا جان ایک گیم اور پلیز۔‘‘ وہ دادا جان کے ساتھ لان میں ٹینس کھیل رہی تھی، دادا جان اب تھک کر بیٹھ چکے تھے اور وہ بضد اصرار تھی کہ ایک گیم اور کھیلی جائے۔
’’نہیں بیٹا اب اور نہیں۔‘‘ وہ پھولی ہوئی سانسوں کے درمیان بمشکل بولتے ہوئے آدھی بات اشارے سے سمجھا پائے تھے۔
مانی بظاہر اخبار میں گم مگر سارا دھیان ان دونوں کی تکرار کی جانب تھا، آخر جیت عریشہ کی ہوئی وہ کچھ دیر کھڑے اپنی بے ترتیب سانسیں ہموار کرتے رہے اور پھر اس کے ساتھ کھیلنے پر آمادہ ہو گئے، اسی وقت مہرہ تقریباً بھاگتی ہوئی آئی تھی۔
’’عریشہ تمہارے لالہ جانی آئے ہیں۔‘‘ اس نے دور سے ہی آواز دی۔
’’لالہ جانی اور یہاں۔‘‘ وہ خوشگوار حیرت سے دو چار ہوئی اس کے پیچھے لپکی۔
’’اس کا مطلب ہے یہ اب واپسسی چلی جائے گی۔‘‘ اس سوچ کے ساتھ ہی مانی کا دل ایک لمحے کو ڈوب کر ابھرا۔
’’بہت رونق تھی اس بچی کی وجہ سے ہمارے گھر میں، اب یہ واپس چلی جائے گی تو میرا دل نہیں لگے گا۔‘‘ دادا جان افسردہ ہوئے تھے۔
’’اور میرا بھی۔‘‘ مانی کے دل نے چپکے سے اس کیے کانوں میں سرگوشی کی۔
٭٭٭
’’لالہ جانی آپ یوں اچانک۔‘‘ لاؤنج میں قدم رکھتے ہی وہ لالہ جانی کی بانہوں میں جھول گئی تھی۔
’’کیسی ہے میری گڑیا۔‘‘
’’بالکل ٹھیک، مگر آپ مجھے کچھ فٹ نہیں لگ رہے اپنا خیال نہیں رکھتے تھے نا۔‘‘ اس نے ان کا شانہ چھوڑ کر شاکی نظروں سے انہیں دیکھا تو وہ مسکرا دیے۔
’’لالہ جانی آپ ڈنر میں کیا لیں گے۔‘‘ دونوں کے درمیان کھڑی مہرو نے ان سے استفسار کیا اس وقت زہرہ بیگم میڈیسن لینے فاروق صاحب کے ساتھ کلینک گئی تھیں کل رات سے انہیں ٹمپریچر ہو رہا تھا اور نانا جان بھی کچھ دیر پہلے باہر نکلے تھے مہرو کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔
’’ارے نہیں بیٹا تم کوئی تکلف نہ کرو ہم واپسی کے لیے نکلنے ہی والے ہیں۔‘‘ وہ مہرو کا گال تھپتھپا کر عریشہ کی جانب مڑے۔
’’بیٹا تم جلدی سے اپنا سامان پیک کر لو دو دن بعد نوری کا نکاح ہے اور اس نے آج صبح سے شور مچا رکھا ہے کہ اگر عریشہ نہیں آئے گی تو وہ نکاح ہی قبول نہیں کرے گی۔‘‘
’’نوری کا نکاح یوں اچانک۔‘‘ اس کی آنکھوں میں استعجاب اتر آیا۔
’’ہاں وہ عاذب سعودیہ جا رہا ہے تو ابھی بس نکاح کر رہے ہیں رخصتی دو سال بعد ہو گی تم ذرا جلدی کرو واپس بھی آج رات جانا ہے۔‘‘ اب کی بار وہ فوراً اٹھ گئی۔
’’ارے یہ کیا ہم آئے اور آپ چل دیے۔‘‘ راحل دروازے میں کھڑا دریافت کر رہا تھا یقیناً اسے مہرو سے اطلاع مل چکی تھی اور وہ لالہ جانی سے مل کر سیدھا اوپر ہی آیا تھا۔
’’تو قصور تو آپ کا ہوا نا آپ نے آنے میں دیر کر دی۔‘‘ وہ بیگ کی زپ بند کرتے ہوئے برجستہ بولی، اس کے نیچے آنے تک نانا جان آ چکے تھے وہ سب سے مل کر باہر نکل آئی گیٹ کے قریب ہی ٹیکسی کھڑی تھی۔
نانا جان اور مہرہ اس کے جانے پر بے حد افسردہ دکھائی دے رہے تھے اور اس نے آتے ہوئے نانا جان سے وعدہ لیا تھا کہ وہ مہرو اور ممانی جان کو لے کر ان کے گھر ضرور آئیں گے جبکہ زبیر لغاری اور شیراز حسن میں محض سلام کا تبادلہ ہوا تھا پھر دونوں نے دوبارہ ایک دوسرے سے کلام نہیں کیا تھا۔
زبیر لغاری کو دیکھ کر انہیں آنسو بہاتی زارا یاد آ جاتی تھی جو روز ان کے سینے سے لگ کر ایک ہی سوال کرتی۔
’’شیزی میں نے کوئی اتنا بڑا جرم تو نہیں کیا تھا نا جو ابا جان نے مجھے اپنی زندگی سے بے دخل کر دیا۔‘‘
وہ ٹیکسی میں سوار ہونے والے تھے جب عریشہ نے دروازے میں حائل ہو کر ان کو بیٹھنے سے روکا وہ سوالیہ نظروں سے اسے دیکھنے لگے۔
’’لالہ جانی پہلے دادا جان سے تو مل لیں ورنہ وہ بہت خفا ہوں گے کہ میں جو ہر وقت ان کے گھر میں گھسی رہتی تھی جاتے ہوئے خدا حافظ بھی نہیں کیا۔‘‘ وہ لالہ جانی کا بازو تھامے مسلسل بولتی زاہد پیلس میں داخل ہو چکی تھی۔
’’یہ کس کا گھر ہے۔‘‘ شیراز حسن کی آنکھوں میں ستائش کے رنگ چمکے۔
’’یہ مہرو کے نانا جان کا گھر ہے اور مہرو کے نانا جان کو میں دادا جان کہتی ہوں۔‘‘
’’اچھا۔‘‘ طویل روش کو عبور کرنے کے بعد سامنے بڑے لاؤنج میں دادا جان بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے انہیں اندر آتا دیکھ کر اپنی جگہ سے بے ساختہ اٹھ کھڑے ہوئے۔
’’دادا جان یہ میرے لالہ جانی ہیں۔‘‘ شیراز حسن کے لیے تو کائنات ایک نقطے میں سمیٹ آئی تھی وہ جہاں کھڑے تھے وہیں مجسم ہو گئے۔
دادا جان کے نورانی چہرے پہ دراڑیں سی پڑ گئیں کچھ کہنے کی کوشش میں ان کے لب مسلسل کانپ رہے تھے۔
جبکہ کچن سے برآمد ہوتا مانی بھی وہیں دہلیز پر رک کر ان کا جائزہ لینے لگا، انگوری رنگ کے کلف لگے شلوار سوٹ میں وہ بے حد وجیہہ لگ رہے تھے سیاہ سلکی بال اس کی فراخ پیشانی پہ لہرا رہے تھے رنگت میں گلابوں کا عکس جھلکتا تھا، گھنٹی سیاہ مونچھوں تلے عنابی لب سختی سے ایک دوسرے میں پیوست تھے سبز آنکھوں میں گھلے حزن و ملال کے رنگ انہیں مزید پر سوز بنا رہے تھے، اس نے آج تک مردانہ وجاہت سے اس قدر بھرپور شخصیت نہیں دیکھی تھی، وہ سوچ رہا تھا اگر زارا آنٹی نے ان کے لیے اتنا بڑا اسٹینڈ لیا تھا تو اس میں کوء خاص تعجب کی بات نہیں تھی، ان کی مقناطیسی پرکشش شخصیت مقابل کو مسمرائز کر دینے کی حد تک سحر انگیز تھی۔
دادا جان اور لالہ جانی کے تاثرات عریشہ کے لیے خاصے ناقابل فہم تھے، اس نے کچھ الجھ کر استفہامیہ نگاہوں سے مانی کو دیکھا تو اس نے لاعلمی سے شانے اچکا دیے۔
’’ا… ب… ابا… جی…ا … جان۔‘‘ لفظ ٹوٹ ٹوٹ کر شیراز حسن کے لبوں سے ادا ہوئے تھے اور اگلے ہی لمحے انہوں نے آگے بڑھ کر ابا جان کے کمزور نا تواں وجود کو اپنے بازوؤں میں بھینچ لیا، اب ششدر ہونے کی باری عریشہ اور مانی کی تھی۔
’’ابا جان!‘‘ لاؤنج میں چاروں طرف ایک ہی آواز کی گونج تھی۔
’’میں نے غصے میں آ کر چلے جانے کو کہا اور تم چلے گئے کبھی مڑ کر خبر نہ لی کہ تمہارا بوڑھا باپ زندہ بھی ہے یا مر چکا۔‘‘ دادا جان کے جھریوں بھرے چہرے پہ آنسو لکیریں بناتے گزر رہے تھے، وہ ان کا بیٹا تھا اور بیٹوں کا ہر قصور قابل معافی ہوتا ہے، شیراز حسن نے ان کے دونوں ہاتھوں پہ سر ٹکا دیا۔
’’میں کچھ دنوں بعد آپ کو منانے آیا تھا مگر آپ وہ گاؤں چھوڑ چکے تھے میں نے بہت ڈھونڈا مگر آپ نہیں ملے۔‘‘ ان کے لہجے میں صدیوں کی تھکن در آئی یہ الگ بات کہ ان کچھ دنوں میں تین سالوں کی مسافت تھی۔
مانی جا کر زہرہ بیگم اور نانا جان کو بلا لایا تھا اگلے ہی پل لاؤنج میں خوب رونق اور میلے کا سا سماں تھا۔
’’لالہ جانی کبھی میری یاد نہیں آئی۔‘‘ زہرہ بیگم ان کے ساتھ بیٹھی بچوں کی طرح شکوہ شکایات کر رہی تھی۔
’’بہت آئی تھی اس لئے تو عیشو سے کبھی خود کو بابا نہ کہلوایا وہ جب جب لالہ جانی کہہ کر بلاتی تھی مجھے تم یاد آتی تھیں۔‘‘ شیراز حسن نے محبت سے بہن کو اپنے ساتھ لگا لیا۔
زبیر لغاری خاموش بیٹھے اپنی جلد بازی پر پچھتا رہے تھے کیا تھا جو وہ زارا کی بات پر غور کر لیتے اس نے بلا شبہ اپنے لئے بہترین شخص کا انتخاب کیا تھا۔
’’پلیز لالہ جانی اب یہ ایموشنل سین بس بھی کریں۔ عریشہ نے چائے کی ٹرے سینٹرل ٹیبل پہ رکھتے ہوئے اکتا کر کہا تو سب ہنس دئیے راحل اور مہرو بھی وہیں تھے، البتہ مانی کہیں نظر نہیں آ رہا تھا وہ اپنا اور اس کا کپ اٹھا کر باہر نکل آئی۔
٭٭٭