’’آنٹی آپ سے ایک بات پوچھوں۔‘‘ وہ زہرہ بیگم کو آنٹی کہہ کر بلاتی تھی۔
’’ہاں پوچھو۔‘‘ انہوں نے شفقت سے اسے دیکھا وہ اس کے قریب بیٹھی ان کے پاؤں کی مالش کر رہی تھی دو روز پہلے واش روم میں سلپ ہونے سے ان کے پاؤں میں موچ آ گئی تھی اور عریشہ ان کے منع کرنے کے باوجود زبردستی ان کے پاؤں پر زیتون کا تیل مل رہی تھی۔
’’میری ماما کیسی تھیں؟‘‘ وہ تیل کی بوتل کا ڈھکن بند کرنے کے بعد اب بڑے اشتیاق سے ان کی جانب متوجہ تھی۔
’’میں کیا بتاؤں بیٹا میں نے تمہاری ماما کو نہیں دیکھا۔‘‘
’’وہ کیوں بھلا؟‘‘ عریشہ کو تعجب نے گھیرا۔
’’تمہاری ماما کی شادی میری شادی سے پہلے ہو چکی تھی۔‘‘
’’تصویروں میں بھی نہیں۔‘‘
’’نہیں میں نے ان کی کوئی تصویر اس گھر میں نہیں دیکھی۔‘‘ انہوں نے نفی میں گردن ہلائی۔
’’پھر تو آپ نے میرے لالہ جان کو بھی نہیں دیکھا ہو گا۔‘‘ وہ کچھ سوچتے ہوئے بولی، اب کے بارے پھر سے زہرہ بیگم کا سر انکار میں ہلا تھا۔
’’جب میری ماما کی ڈیتھ ہوئی تب بھی آپ نہیں آئی تھیں۔‘‘
’’تب میں اور تمہارے ماموں شارجہ میں تھے مہرو کی ڈیلیوری کا وقت قریب تھا اور ڈاکٹر نے سفر سے منہ کر رکھا تھا اس لیے ہم آ نہیں سکے۔‘‘
’’اچھا اور اس کے بعد جب آپ پاکستان واپس آئیں تب تو آ سکتی تھیں نا۔‘‘ عریشہ نے اب کی بار کچھ نروٹھے پن سے کہا۔
’’تمہارے نانا جان نے ابھی تک تمہارے لالہ جانی کو اپنے داماد کے طور پر تسلیم نہیں کیا، وہ یہی سمجھتے ہیں کہ اس نے ہی ان کی معصوم بھولی بھالی بیٹی کو ورغلایا تھا اور ان کے مقابل لا کھڑا کیا، ان کی برسوں کی کمائی عزت مٹی میں رول دی، وہ آ کر تمہارے گھر جاتے ہیں تو صرف تمہارے لیے وہ تم سے اپنی بیٹی کو ڈھونڈتے ہیں جبکہ تمہارے لالہ جانی کو آج اتنے برس گزر جانے کے بعد بھی وہ بالکل پسند نہیں کرتے میں نے اور تمہارے ماموں جان نے بہت بار چاہا کہ تم سے ملنے جائیں مگر ابا جن نے اجازت نہیں دی پھر ہم انہیں ناراض کر کے تو نہیں آ سکتے تھے نا۔‘‘
’’یہ انوکھی منطق ہے نانا جان کی خود تو جاتے ہیں مگر اور کسی کو جانے نہیں دیتے اور سارا قصور میرے لالہ جان کا تو نہیں ماما بھی انٹرسٹڈ تھیں ان میں۔‘‘ عریشہ کو نانا جان کی اس منافقت بھری سوچ پہ خوب غصہ آیا تھا، زہرہ بیگم نے کوئی جواب نہیں دیا۔
’’اور آپ کے ابا جان کیوں اکیلے رہتے ہیں آئی میں مانی کے پیرنٹس۔‘‘ یہ خیال کئی بار اس کے منہ میں آیا تھا مگر اس نے مالی سے پوچھنا مناسب نہیں سمجھا۔
’’بھائی جان نیویارک میں اپنی فیملی کے ساتھ سیٹل ہیں انہوں نے وہاں ایک انگریز لڑکی کو مسلمان کر کے اس سے نکاح کر رکھا ہے۔
’’اور مانی کی ماما۔‘‘
’’وہ اب اس دنیا میں نہیں رہی۔‘‘ زہرہ بیگم نے یاسیت سے کہا اور سوچا یہ محبت کا زہریلا ناگ جس کو ڈس لے پھر اسے کہیں کا نہیں رہنے دیتا، بڑا بھائی بھی اس گوری کی محبت کا اسیر ہو کر گھر کو بھول چکا تھا اس کی بیوی بے وفائی کے غم میں گھل گھل کر مر گئی اور مانی کو ابا جان کے پاس چھوڑ کر وہ گویا ان کا ہر حق ادا کر چکے تھے اور ابا جان کے لیے اتنا ہی کافی تھا کہ وہ دن میں ایک بار اپنی آواز تو سنا دیتا ہے۔
’’ایم سوری۔‘‘ وہ افسردگی سے بولی۔
’’اور کون ہے آپ کی فیملی میں؟‘‘ کچھ لمحوں کے توقف کے بعد اس نے ایسے ہی برائے بات پوچھا تھا۔
’’اور کوئی نہیں۔‘‘ یہ کہتے ہوئے ان کے چہرے پہ ایک تاریک سایہ سا لہرایا اور الفاظ اپنے مفہوم پر لرز گر رہ گئے وہ سست قدموں سے اٹھ کر اندر کمرے میں چلی گئی، عریشہ نے سوچا ان دکھوں اور غموں کے ساتھ ہنسنا مسکرانا اور جیے جانا ہی شاید زندگی ہے۔
٭٭٭
’’دادا جان اب کی بارے میں آپ کی ایک نہیں سنوں گا، بس اب اس گھر میں دادی دلہن آ کر رہے گی، میری نظر میں دو رشتے بھی ہیں، ایک تو ہمارے گھر والی سڑک کے کارنر میں رہتی ہیں گورا رنگ، سبز آنکھیں، میرون بال اور ہاں منہ میں دانت بھی ابھی باقی ہیں اور بغیر سٹک کے چلتی ہیں، دھیمے مزاج والی شائستہ سی خاتون ہیں اور دوسری گرلز سکول کے آگے والی واک گراؤنڈ کے سامنے والی گلی میں ہیں، ہائے دادا جان ان کے تو کیا کہنے کاش وہ مجھے جانی میں ملی ہوتیں تو میں چانس مس نہ کرتا، بس آپ کو جو فیصلہ کرنا ہے جلدی کریں میں یہ روز روز آپ کی فرمائشیں نہیں پوری کر سکتا، کبھی آپ کو گوبھی کے پراٹھے چاہئیں، کبھی سرسوں کا ساگ اور مکئی کی روٹی تو کبھی گاجر کا حلوہ۔‘‘ کچن میں مانی کی لائیو ٹرانسمیشن مسلسل بڑبڑاہٹ کے ساتھ جاری تھی جبکہ دادا جان اپنے سامنے اخبار پھیلائے خبروں میں محو تھے، شاید مانی کی یہ بکواس دادا جان کے لیے روز کا معمول بن تھی مگر دادی دلہن پر تو اس کی ہنسی نہیں تھم رہی تھی وہ ابھی ابھی آئی تھی اس لیے دونوں اس کی آمد سے خبر خبر تھے، مانی نے کچن کی کھڑکی سے باہر جھانکا اور یہیں پہ اس کی شامت آئی دادا جان کھڑکی کے پاس ہی بیٹھے تھے فوراً اپنی لاٹھی اٹھا کر اس کے بازو کو نشانہ بنایا۔
’’گدھے، لانائق اتنی بوڑھی خواتیں پہ نظر رکھتا ہے شرم نہیں آتی۔‘‘
’’ارے وہ تو میں آپ کے لیے …‘‘ وہ برا مانتے ہوئے بولا۔
’’اور جو تمہاری دادی مرحومہ کو پتہ چلے تو خود تو واپس آ نہیں سکتی مجھے وہاں بلا لے گی۔‘‘ دادا جان نے ڈرنے کی ناکام ایکٹنگ کرتے ہوئے کہا عریشہ سے ایک بار پھر اپنا قہقہہ ضبط کرنا مشکل ہو گیا تھا۔
’’دادا جان در اصل یہ در پردہ آپ سے اپنی شادی کی بات کرتا ہے مگر آپ سمجھتے نہیں۔‘‘ عریشہ نے دادا جان کے پاس بیٹھتے ہوئے مانی کو چھیڑا۔
’’ہاں اب تو واقعی سوچنا پڑے گا۔‘‘ وہ اخبار ایک جانب رکھ کر بالکل سنجیدہ ہو چکے تھے۔
’’دادا جان آپ بھی کس کی باتوں میں آ گئے۔‘‘ اس نے پھر کھڑکی سے جھانکتے ہوئے خاصی خونخوار نظروں سے عریشہ کو گھورا، جانتا جو تھا کہ دادا جن کے من میں ایک بار جو بات سما جائے پھر اسے عملی جامہ پہنا کر ہی انہیں چین آتا ہے۔
’’کیا بنا رہے ہو؟‘‘ وہ اٹھ کر کچن میں چلی آئی۔
’’گوبھی کے پراٹھے۔‘‘ وہ منہ پھیلا کے بولا۔
’’یہ گوبھی کے پراٹھے ہیں اتنے جلے سڑے۔‘‘ عریشہ نے ایک پراٹھا ہاتھ میں پکڑ کر ناک چڑھائی، وہ اطمینان سے پیچھے ہٹ گیا۔
’’آپ بنا کر دکھائیں ہم بھی تو دیکھیں کیا شاہکار تخلیق کرتی ہیں۔‘‘ سنک میں ہاتھ دھوتے ہوئے طنزیہ انداز میں کہتا وہیں کیبن سے ٹیک لگا کر کھڑا ہوا گیا، عریشہ کی اس کی جانب پشت تھی۔
’’کوئی ملازم کیوں نہیں رکھ لیتے۔‘‘
’’ملازمہ کی بیٹی کی ڈلیوری ہے وہ اس خوشی میں چھٹی لے کر اپنے گاؤں روانہ ہے اور کسی پہ دادا جان کو اعتبار نہیں آتا تین چار بار ملازمہ کا ارینج کیا ہے میں نے، دادا جان اس کا انٹرویو بھی ایسے لیتے ہیں جیسے اسے وزیر اعظم کے عہدے پر فائز کرنا ہو اور پھر…‘‘ وہ اپنی دھن میں بولے جا رہا تھا جبکہ عریشہ کا چہرہ اس کی پہلی اطلاع پر ہی خجالت سے سرخ ہو گیا تھا وہ تو پوچھ کر پچھتائی تھی۔
بے ساختہ مانی کی نگاہ اس کی سرمئی آنچل سے جھلکتی بھیگی سیاہ ریشمی زلفوں سے ٹکرائیں یوں لگتا تھا جیسے افق کے کنارے کالی گھٹا چپکے سے جھانک رہی ہو اور گالی گھٹاؤں میں سمٹا سا دن بوند بوند برس رہا تھا اس کا دل چاہا کاش کبھی ایسی بارش اسے بھی بھگوئے۔
’’شوگر کہاں ہے؟‘‘ وہ اچانک پلٹی مگر نہ جانے وہ کہا کھویا تھا اس نے تو اپنی بات بھی ادھوری چھوڑ دی تھی۔
’’مانی۔‘‘ عریشہ نے اس کا شانہ ہلایا۔
’’ہوں۔‘‘ وہ ہڑبڑا کر اس کی جانب متوجہ ہوا۔
’’شوگر؟‘‘ عریشہ نے ایک بار پھر اپنا سوال دہرایا اس نے آگے بڑھ کر کیبن سے شوگر اسے تھمائی اور خود باہر دادا جان کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔
’’دادا جان آپ یہ ریڈیو سنتے ہیں؟‘‘ گوبھی کے پراٹھے سے مکمل انصاف کرتی عریشہ کی نگاہ اچانک ہی سامنے الماری میں رکھے ریڈیو سے ٹکرائی تھی۔
’’نہیں بیٹا اب اس عمر میں کیا ریڈیو لوں گا یہ تو ایسے ہی بے کار پڑا ہے۔‘‘
’’اچھا تو پھر میں لے لوں۔‘‘ اس نے اٹھ کر پہلے اسے جھاڑن سے اچھی طرح صاف کیا پھر چلا کر دیکھا تو وہ خاموش ہی رہا شاید سیل ایکسپائر ہو چکے تھے۔
’’ہاں ہاں کیوں نہیں یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔‘‘ وہ خوشدلی سے بولے۔
’’مانی اب اٹھ جاؤ۔‘‘ ریڈیو واپس الماری میں رکھتے ہوئے وہ مانی کی جانب پلٹی۔
’’کہیں جانا ہے؟‘‘ دادا جان نے استفسار کیا۔
’’ارے میں تو آپ کو بتانا ہی بھول گئی یہ مانی مجھے ڈرائیونگ سکھانے والا ہے اور آج میری کلاس کا پہلا دن ہے اور یہ جناب ہیں کہ ناشتے سے ہی فارغ نہیں ہو رہے۔‘‘
’’اچھا بابا چلو۔‘‘ وہ چائے کا آخری گھونٹ بھرتا فوراً اٹھ گیا۔
’’ریڈیو پر زیادہ کسے سنتی ہو۔‘‘
’’میں تو جسٹ مریان حیدر کو سنتی ہوں کیا بتاؤں مانی اتنی پرکشش بھاری گمبھیر آواز سحر انگیز دلنشین لہجہ اس پر اس کا زبردست کلیکشن، واؤنڈر فل، کاش میں ایک بار ان صاحب سے مل لوں۔‘‘ مانی نے اپنی وائٹ ہنڈا اسوک میں بیٹھتے ہوئے ایسے ہی سرسری سا پوچھا تھا مگر اس کے قابل دید اشتیاق پہ کھٹک گیا۔
’’اور فرض کرو اگر وہ کبھی کہیں تمہیں مل جائے تو اسے کیا کہو گی۔‘‘
’’آئی لو…‘‘ مانی کا پاؤں بے اختیار بریک پر پڑا تھا جہاں گاڑی ایک جھٹکے سے رکی وہیں عریشہ کی زبان کو بھی یک دم بریک لگا۔
’’تم اسے آئی لو یو کہو گی۔‘‘ وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر بے یقینی سے بولا تو وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔
’’نہیں ’’یو‘‘ کو ’’یور‘‘ بنا کر اس کے ساتھ ڈانس بھی لگاؤں گی۔‘‘ وہ ابھی تک ہنس رہی تھی۔
’’ویسے اتنی بھی خاصی نہیں ہے اس کی وائس، سن چکا ہوں میں۔‘‘ وہ اپنی بھینپ مٹانے کو بولا۔
’’پلیز میں مریان حیدر پہ کوئی بھی نیگیٹو ورڈ نہیں سنوں گی۔‘‘ وہ برا مان گئی۔
’’اچھا دیکھو یہ اسٹیرنگ ہے یہ اسپیڈ بریکر اور یہ کلچ۔‘‘ وہ ایک ایک کر کے اسے سب کے نام بتا رہا تھا۔
’’اوکے فائن آج کے لیے اتنا ہی کافی ہے اب مجھے ونیلا آئس کریم کھلاؤ اگر تم میرا موڈ درست کرنا چاہتے ہو تو۔‘‘ عجیب زبردستی تھی وہ زیر لب مسکراتا ہوا گاڑی کا رخ ایٹ مور کی جانب موڑ چکا تھا۔
٭٭٭
’’یار قسم سے ابھی چائے کی شدید طلب ہو رہی تھی ویل تھینکس۔‘‘ میگزین ایک جانب رکھ کر چائے کا مگ تھامتے ہوئے مہرہ نے مشکور نظروں سے عریشہ کو دیکھا، تبھی ٹیلی فون کی بیل پر اسے اس جانب متوجہ ہونا پڑا۔
’’تمہارا ہی فون ہے۔‘‘ اگلے ہی پل اس نے ریسیور عریشہ کو تھما دیا، دوسری جانب نوری تھی۔
’’اب کیا تم وہاں جا کر جم ہی چکی ہو واپس کب آؤ گی۔‘‘ عریشہ کی آواز سنتے ہی وہ چیخ پڑی تھی، اس نے بے ساختہ ریسیور کار سے دور ہٹایا۔
’’اچھا یہ بتاؤ لالہ جانی کیسے ہقں؟‘‘
’’اچھے ہیں۔‘‘ ابھی تک اس کا لہجہ اکھڑا خفا خفا سا تھا۔
’’مجھے بہت یاد کرتے ہوں گے۔‘‘ وہ افسردہ ہوئی۔
’’شکر کرتے ہیں کہ تم گھر میں نہیں ہو ورنہ ہر وقت چیں چیں کر کے یسب کا سر کھاتی ہو جانتی ہو پچھلے کئی روز سے گاؤں میں کسی کو سر درد کی شکایت نہیں ہوئی۔‘‘
’’نوری کی بجی۔‘‘ عریشہ نے دانت پیسے دوسری جانب اس کا قہقہہ بے ساختہ تھا۔
’’اچھا لالہ جانی کا بہت خیال رکھنا۔‘‘
’تمہیں بتانے کی ضرورت نہیں وہ میرے بھی لالہ جانی ہیں۔‘‘ وہ پھر سے خفا ہوئی۔
نوری ان کے پڑوس میں رہتی تھی تین بھائیوں کے ہوتے ہوئے اسے اپنے گھر میں تو کوئی کام ہوتا نہیں تھا سو ہر وقت ان کے گھر میں پائی جاتی تھی۔
’’اچھا اب فٹافٹ بتاؤ، واپس کب آؤ گی؟‘‘
’’جب دل چاہے گا‘‘ نوری کو چڑاتے ہوئے اس نے ریسیور رکھ دیا، مہرو یقیناً اکیڈمی جا چکی تھی اس کی میڈیکل کی پڑھائی اتنی ٹف تھی کہ وہ بمشکل ہی عریشہ کو وقت دے پائی تھی، کچھ دیر ٹی وی دیکھنے کے بعد اچانک اسے خیال آیا کہ گل دادا جان نے اس سے حلوہ کھانے کی فرمائش کی تھی وہ حلوہ بنانے کے لیے اٹھ کر کچن میں چلی آئی۔
دو تین کیبنٹ کا جائزہ لینے کے بعد اسے اپنا مطلوبہ سامان مل گیا تھا۔
’’کیا ہو رہا ہے؟‘‘ وہ عین دروازے کے وسط میں کھڑا استفسار کر رہا تھا۔
’’حلوہ بنا رہی ہوں دادا جان کے لیے۔‘‘ سوجی بھونتے ہوئے اس نے بغیر پلٹے جواب دیا۔
’’خوشبو تو اچھی آ رہی ہے۔‘‘ اس نے آگے بڑھ کر کڑاہی میں جھانکا۔
’’واؤ بادام، کشمش، پستہ۔‘‘ مانی نے پلیٹ کی جانب ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ عریشہ نے اسے ٹوکنے کے لیے بے ساختہ اس کے ہاتھ پہ کف گیر دے مارا، وہ درد سے بلبلا اٹھا تھا اور اب پورے لاؤنج میں اس کی پریڈ جاری تھی۔
’’ایم سوری مانی، وہ میں نے نوری کے دھوکے میں …‘‘ وہ وضاحتیں کرتی اب پیچھے پیچھے تھی۔
’’ہائے اتنا گرم کف گیر میرا ہاتھ جلا دیا۔‘‘ وہ مسلسل دہائیاں دے رہا تھا۔
’’اچھا یہ لگا لو پھر جلن نہیں ہو گی۔‘‘ وہ بھاگ کر پیسٹ اٹھا لائی تھی مگر وہ اس کی سن کہاں رہا تھا اس وقت اس کا ٹانک عروج پر تھا۔
’’بیٹھو یہاں اتنا جلا نہیں جتنا شور مچا رکھا ہے۔‘‘ عریشہ نے اسے زبردستی صوفے پر بٹھایا اور خود اس کے زخم پر پیسٹ لگانے لگی، زخم واقعی گہرا تھا اسے دیکھ کر دکھ ہوا۔
’’بہت جلن ہو رہی ہے۔‘‘ اس نے ہمدردی سے پوچھا تو مانی نے کسی معصوم بچے کی طرح خاموشی سے اثبات میں سر ہلا دیا۔
’دایم سوری مانی، میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا۔‘‘ وہ پست لہجے میں شرمندگی سے معذرت کر رہی تھی اور مانی کو آج تک کبھی کسی آنکھوں میں کاجل اتنا اچھا نہیں لگا تھا سنہری آنکھوں کی لرزتی لمبی پلکیں اس کا دل دھڑکا گئی تھی۔
٭٭٭