ڈنر کے بعد سب اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے تھے وہ اور مہرو کچھ دیر چھت پر چہل قدمی کرتی رہیں پھر مہرو کو بھی اپنے ٹیسٹ کی تیاری کرنا تھی وہ اپنی بکس لے کر بیٹھی تو عریشہ اٹھ کر اپنے بیڈروم میں چلی آئی جو کچھ گھنٹے پہلے ہی اس کی ملکیت بنا تھا، وہ آتے ہی سب سے ملنے کے بعد کچھ دیر آرام کی غرض سے لیٹی تھی تو اسے پتہ ہی نہ چلا کہ کب اس کی آنکھ لگ گئی اور اب دن بھر میں چار گھنٹے سونے کے بعد نیند کا آنا محال تھا، اس نے کرٹین کھسکا کر گلا ونڈو اوپن کی آسمان کا سیاہ آنچل ستاروں سے جگمگا رہا تھا ٹھنڈی سبک خوشگوار ہوا چل رہی تھی۔
’’نہ جانے لالہ جانی کیا کر رہے ہوں گے۔‘‘ کھڑکی کے پٹ سے ٹیک لگاتے ہوئے اسے لالہ جان کی بہت یاد آئی تھی اٹھارہ سالوں میں پہ پہلی رات تھی جو وہ اس کے ساتھ نہیں تھے۔
’’ٹن … ٹن… ٹن۔‘‘ دیوار گیر کھڑی کی ٹن ٹن پر اس نے چونک کر وال کلاک کی جانب دیکھا جو پورے بارہ کا الٹی میٹم دے رہا تھا۔
’’مریان حیدر کا پروگرام۔‘‘ اچانک یاد آنے پر اس نے ریڈیو کی تلاش میں اپنے پورے بیگ کی تلاشی لے ڈالی تھی مگر ریڈیو نہ ملا۔
’’نوری کی بچی اگر تو اس وقت میرے سامنے ہوتی تو میں تمہیں کچا چبا جاتی۔‘‘ اسے ایک بار پھر نوری پر بے تحاشا غصہ آیا تھا۔
مریان حیدر کا پروگرام سنے بغیر نیند آ جائے یہ بھلا کیسے ممکن تھا کمرے میں پریڈ کرتے ہوئے اس کا دماغ مسلسل الجھن کا شکار تھا دل میں بے چینی تھی اس نے گھڑی کی سمت دیکھا سوئیوں کی تیزی سے آگے بڑھتے قدم اس کے اضطراب کو مزید بڑھاوا دے رہے تھے، رات دو بجے تک وہ یونہی مہکتی رہی دو بجے کے بعد جب اسے یقین ہو گیا کہ اب پروگرام ختم ہو چکا ہو گا تو وہ خاموشی سے بیڈ پر آ کر لیٹ گئی۔
مریان حیدر ایف ایم کے لیٹ نائٹ غزل پروگرام کا کیمپیئر تھا اور وہ اس کی آواز کی اس کی شاعری کی اس کی غزلوں کی دیوانی تھی، وہ ہفتے میں ایک دن پروگرام کرتا تھا مگر عریشہ اس کے پروگرام کی ریکارڈنگ کر لیا کرتی تھی اور پھر پورا ہفتہ اسی پر گزارہ کرتی، اس کی آواز میں ایک عجیب سا سحر تھا رات کے پر فسوں لمحوں میں جامد خاموشی اور سکوت زدہ فضا کو چیرتا ہوا اس کا آنچ دیتا بھیگا لہجہ جب سماعتوں سے ٹکراتا تو ایسا لگتا تھا جیسے ایک قطار میں بندھی گھنٹیاں ایک ساتھ کھنک اٹھی ہو ہر سو نغمے بکھر جاتے تھے، جلترنگ سے بجنے لگتے تھے، جس طرح لوگوں کو شراب لگ جاتی ہے اریشہ کو اس کی آواز لگ چکی تھی، اس کی آواز کا امرت جب تک سماعتوں میں نہیں گھلتا نیند نہیں آتی تھی۔
٭٭٭
صبح آنکھ کھلنے پر اس نے آنکھیں مسلتے ہوئے وال کلاک کی جانب دیکھا جس پر صبح کے پانچ بج رہے تھے رات دیر سے سونے کی وجہ سے اس کی آنکھوں میں ابھی تک نیند کا خمار تھا اس کا دل چاہا سوئی رہے لیکن پھر نماز کے خیال سے اٹھ گئی، وضو کر کے باہر آئی تو وہیں لاؤنج میں ایک جانب بچھے تخت پر ممانی جان نماز پڑھ رہی تھیں، انہوں نے اٹھ کر عریشہ کو جائے نماز دیا اور خود قرآن پاک کی تلاوت کرنے لگیں، نماز ادا کرنے کے بعد اس نے لاؤنج کی ونڈوز کھول دی تھیں اور سامنے جو نظارہ تھا اسے دیکھ کر وہ دم بخود رہ گئی، اسے پھولوں سے محبت نہیں عشق تھا، اس نے اپنے گھر میں گلاب، موتیا، چنبیلی اور بہت سے پودے لگا رکھے تھے، مگر سامنے والوں کے گھر میں پھول نہیں پورا گلستان مہک رہا تھا، سورج کی چمکتی کرنوں سے پھولوں پہ گرے کے آنسو ہیروں کی مانند دمک رہے تھے۔
بہار کے موسم کی آمد تھی گل لالہ کا حسن اپنے جوبن پر تھا بے ساختہ اس کا دل چاہا کہ ننگے پاؤں نرم نرم گھاس پر چلے، ہوا کے دوش پر اپنا آنچل اڑا دے پھولوں سے اٹکھیلیاں کرے۔
’’نانا جان نے اتنا پیار گھر بنا لیا کیا تھا جو ایک باغیچہ بھی بنا لیتے تو میں اس وقت پورے گھر کو پھولوں سے سجا دیتیں۔‘‘ دل میں ایک معصوم سی خواہش نے چٹکی لی۔
کھٹرپٹر کی آواز پر اس نے مڑ کر دیکھا ممانی جان ناشتہ کے ابتدائی تیاریاں شروع کر رہی تھیں، وہ بھی ان کے پاس کچن میں چلی آئی۔
’’میرے لائق کوئی خدمت۔‘‘ اس نے دروازے کے ایک پٹ کو تھام کر استفسار کیا۔
’’ارے نہیں بیٹا میں کر لوں گی۔‘‘ وہ اسے دیکھ کر مسکرائیں۔
’’آپ اتنا تکلف کیوں برت رہی ہیں، مجھے بتائیں نا کیا مینو ہے ناشتے کا، میں آپ کی ہیلپ کرواؤں گی۔‘‘ وہ زہرہ بیگم کے منع کرنے کے باوجود زبردستی کچن میں گھس آئی تھی اور پھر اس نے سب کے لیے آلو کے پراٹھے بنائے تھے، ناشتے کی میز پر نانا جان اور ماموں اس کی تعریف میں رطب اللسان تھا اور مہرو کا منہ پھول رہا تھا۔
٭٭٭
’’نہ جانے لوگوں کو دوپہر کے وقت کیسے نیند آ جاتی ہے۔‘‘ وہ اکیلی ہی پورے گھر میں بولائی بولائی سی پھر رہی تھی نانا جان اور ماموں آفس تھے مہرو کالج اور ممانی جان کچھ دیر اس سے ادھر اُدھر کی باتیں کرنے کے بعد اب اپنے بیڈ روم میں ریسٹ کر رہی تھی، اور وہ حد درجہ بوریت کا شکار۔
دو، تین میگزین کی ورق گردانی کرنے کے بعد وہ بالکنی میں آ کھڑی ہوئی کہ آتے جاتے لوگوں کو دیکھنے کا شغل ہی سہی، مگر دس منٹ میں ہی عاجز آ گئی یہ کالونی کی سڑک تھی میں روڈ تو نہیں جہاں لوگوں کا ہجوم ہوتا۔
اسے نوری اور ریشماں یاد آئیں، بھری دوپہر میں دونوں اپنے گھر کی اندرونی دیوار پھلانگ کر ان کے گھر آ جاتی تھیں اور پھر آم کے پیڑ کی چھاؤں میں کھٹی میٹھی کیریوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے زمانے بھر کی باتیں ہوئیں، ریڈیو بھی ساتھ ساتھ بجتا تھا۔
’’ہائے میرا ریڈیو۔‘‘ دل سے ایک ہوک اٹھی تھی، وہ پھر سے بے چین ہو گئی، گھر کی یاد بہت ستانے لگی تھی جی میں ایا ابھی واپس چلی جائے مگر لالہ جانی کی آواز پاؤں کی زنجیر بن جاتی تھی جو انہوں نے آتے ہوئے کتنے مزے سے کہا تھا۔
’’دیکھنا دو ہی دن میں واپس آؤں گی۔‘‘ اور وہ اتنے ہی دھڑ لے سے بول آئی تھی۔
’’دو مہینوں سے پہلے واپس آنے والی نہیں۔‘‘ اور اب دو ہی دن میں دل واپسی کے لیے ہمکنے لگا تھا۔
’’نہ جانے کیا سوچ کر اس اجنبی شہر میں چلی آئی۔‘‘
’’ٹھاہ۔‘‘ وہ اپنی ہی سوچ میں غلطاں خود سے الجھ رہی تھی جب اچانک مہرو اس کے کان میں آ کر چلائی، وہ اس اچانک افتاد پر اچھل کر پیچھے ہٹی تھی اور اس کی ڈری سہمی صورت دیکھ کر مہرو سے اپنی ہنسی ضبط کرنا مشکل ہو گیا تھا۔
’’سوری یار مجھے نہیں پتہ تھا تم سچ میں ڈر جاؤ گی۔‘‘ وہ ابھی بھی ہنس رہی تھی عریشہ نے اسے گھورتے ہوئے ایک لمبا سانس خارج کیا مگر اس کا دل ابھی تک بہت تیز دھڑک رہا تھا۔
شام البتہ دن کی نسبت خاصی خوشگوار تھی مہرہ نے اسے خوب گھمایا تھا اور دونوں ڈھیر ساری شاپنگ بھی کی تھی اور اب دونوں بیڈ پہ اپنی چیزیں بکھیرے دادا جان کو اپنی شاپنگ دکھا رہی تھیں۔
٭٭٭
’’واؤ بیوٹی فل۔‘‘ اس نے کھڑکی کے پردے کھسکا کر دونوں پٹ وا کیے تو بے ساختہ اس کے لبوں سے یہ الفاظ پھسلے باہر کا موسم ہی کچھ ایسا تھا تمام رات برستی بارش نے ہر چیز کو اک دلفریب سا حسن عطا کیا تھا سامنے والوں کا گلستان دھل دھلا کر نکھر سا گیا تھا، اب بھی کچھ آوارہ بادل آسمان کی بانہوں میں جھوم رہے تھے سرد ہوا کے جھونکوں اور سرد کے لمبے درختوں میں جیسے کوئی مقابلہ بازی ہو رہی تھی پرندوں کے میٹھے نغموں پر دونوں سرمستی کے عالم میں جھوم رہے تھے، آسمان پہ بھی اتنے دنوں سے چھایا گرد کا غبار دھل گیا تھا اس نے ہاتھ بڑھا کر ہلکی سی پھوار کو اپنی ہتھیلی پہ محسوس کیا تو اس کا دل ہمک ہمک کر اس گلستان میں جھومنے کو مچلے لگا وہ زیادہ دیر خود کو روک نہ پائی بیڈ پڑا دھڑا دوپٹہ شانو پہ پھیلا اور بھاگتی ہوئی سامنے والوں کے گیٹ پر جا پہنچتی، گیٹ کھلا تھا وہ ایک لمحے کے لیے تذبذب کا شکار ہوئی۔
’’جانے کس کا گھر ہے جاؤں یا نہیں۔‘‘ اس نے رک کر ایک پل کو سوچا لیکن اگلے ہی لمحے گیٹ سے جھانکتی کیلے کے پیڑ سے لپٹی بوگن ویلیا نے اسے مسکرا کر ویلکم کہا تو وہ کچھ سوچے سمجھے بغیر اندر چلی آئی۔
’’اتنے خوبصورت پھول۔‘‘ اس نے ننھے گلاب کی ایک کلی کو چھو کر اس کی ملائمت کو محسوس کیا، اس کی خوشبو سے اپنی سانسوں کو مہکایا اور پھر چپل اتار کر پورے لان کا ایک چکر لگا وہ تو جیسے کسی جنت میں آ گئی تھی، پرندوں سے چہچہاہٹ میں اس کے قہقہوں نے کھل کر فضا میں اک ترنم سا بکھیر دیا تھا، ایک لچکیلی شاخ کے سرے کو پکڑ کر اس نے خوب اچھی طرح سے جھنجھوڑا، اس پر ٹھہرے بارش کے قطرے ایک سرعت سے برسنے لگ، کتنے ہی قطرے اس نے اپنی ہتھیلی پر جمع کیے اور ہوا میں اڑا دیے۔
’’موتیے کے پھول، میں ان کا گجرا بناؤں گی۔‘‘ وہ بڑے چاؤں سے اپنے آنچل کو پھولوں سے بھرنے لگی۔
’’کون ہو تم اور اندر کیسے آئی؟‘‘ کوئی اس کے کانوں کے قریب اتنی زور سے دھاڑا تھا کہ وہ بے ساختہ اچھل کر رہ گئی اسی اثناء میں اس کا آنچل اس کی گرفت سے چھوڑ کر ہوا کے دوش پر لہرایا اور سارے پھول سامنے والے پہ جا گرے۔
’’اور تم نے اتنے سارے پھول توڑے۔‘‘ مقابل کا صدمے کے مارے برا حال تھا۔
’’تمہاری ہمت کیسے ہوئی میرے لان سے پھول چرانے کی۔‘‘ ایک الزام بھی عائد ہو چکا تھا، وہ خاموشی سے کھڑی لب کاٹتی رہی، مارے توہین اور احساس شرمندگی کے آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب امڈ آیا تھا، وہ بھلا کہاں عادی تھی ایسے ہجوم کی ایسے رویوں کی، وہ اپنا دھونس ہر کسی پر جما لیتی تھی مگر ایسا سخت اور اکھڑ لہجہ اس کے ساتھ کبھی کسی نے روانہ رکھا تھا۔
اس کا سر جھکا ہوا تھا اور آنسو اب پلکوں کے باڑ پھلانگ کر رخساروں پہ لڑھک آئے تھے، مقابل کھڑے شخص کا دل شاید اس کے آنسوؤں سے پسیجا تھا۔
’’اچھا پلیز اب رونا تو بند کرو۔‘‘ وہ ملتجی لہجے میں کہتا تھوڑا سا آگے بڑھا اور وہ بنا اس کی جانب دیکھے پلکیں جھپک جھپک کر آنسو روکتی بھاگتی ہوئی گھر چلی آئی وہ دیر تک کھڑا اس عجیب و غریب لڑکی کے بارے میں سوچتا رہا۔
’’آج ناشتہ مل جائے گا۔‘‘ دادا جان نے اندر سے آواز دی تھی جس پر وہ کچھ الجھتا ہوا اندر چلا آیا۔
٭٭٭
’’نانا جان کہاں جا رہے ہیں آپ؟‘‘ اس نے اخبار ٹیبل پر پٹختے ہوئے درشت لہجے میں استفسار کیا۔
’’ایک میٹنگ ہے۔‘‘ نانا جان عجلت میں کہہ کر نکل جانا چاہتے تھے مگر وہ ٹیبل کے گرد سے گھومتی ہوئی ان کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔
’’یہ اچھا طریقہ ہے مجھے یہاں بلا کر خود سارا سارا دن غائب رہتے ہیں‘‘ اس کی آنکھوں میں لہجے میں لفظوں میں خفگی ہی خفگی تھی۔
’’سوری بیٹا، لیکن کل کا سارا دن تمہارا۔‘‘ انہوں نے لمبی بحث سے بچنے کے لیے شارٹ کٹ میں پیار سے اس کا گال تھپتھپاتے ہوئے کہا مگر وہ اس لالی پاپ سے بہکنے والی نہیں تھی۔
’’مجھے کل کا نہیں آج کا دن چاہیے۔‘‘
’’بیٹا آج فارن سے کچھ کلائینٹ آئے ہیں ان کے ساتھ ایک بہت ضروری بزنس ڈیل فائنل کرنی ہے۔‘‘ وہ بے بسی سے بولے۔
’’تو وہ ڈیل ماموں فائنل کر لیں گے۔‘‘ وہ لاپروائی سے بولی۔
’’تمہارے ماموں تو آج چیمبر کے آفس جا رہے ہیں وہاں شہر کے سب بزنس میں کی بہت امپورٹڈ میٹنگ ہے۔‘‘ نانا جان کے اس وضاحت بھرے بیان پر اس نے ناراضگی سے منہ پھلا لیا۔
’’السلام و علیکم دادا جان!‘‘ نووارد کی آواز پر اس نے پلٹ کر دیکھا تو ماتھے پر سلوٹیں پڑ گئیں، ابرو تن گئے۔
’’ارے جیتے رہو مانی بیٹا بڑے اچھے وقت پر آئے ہو۔‘‘ نانا جان اسے دیکھتے ہی خوشگواریت سے بولے۔
’’یہ میری نواسی ہے عریشہ یہ مہرو کے ماموں کا بیٹا ہے ابھی حال ہی میں ایم بی اے کے ایگزیم دیے ہیں آج کل رزلٹ کا ویٹ کر رہا ہے، اب تم لوگ آپس میں گپ شپ لگاؤ میں چلتا ہوں۔‘‘ وہ ابتدائی تعارف کی رسم نبھاتے قہقہے بکھیرتے چلے گئے اور مانی اسے دیکھتے ہی مجسمہ کی مانند ساکت رہ گیا تھا، کل صبح اس نے جس لڑکی کو ڈانٹا تھا، وہ بلا شک و شبہ یہی لڑکی تھی وہ من ہی من میں جی بھر کر شرمندہ ہوا مہمان کے ساتھ ایسا سلوک، وہ اسے مکمل نظر انداز کرتی صوفے پر بیٹھ گئی اور اپنے سامنے اخبار پھیلا لیا۔
’’ایم سوری۔‘‘ وہ بھی اس کے سامنے ون سیٹڈ صوفہ پر براجمان ہو چکا تھا۔
’’جی آپ نے مجھ سے کچھ کہا؟‘‘ وہ اخبار تھوڑا سا نیچے سرکا کر اجنبی سرد لہجے میں بولی۔
’’میں اپنے کل صبح کے رویے پہ بے حد شرمندہ ہوں، اصل میں مجھے پھولوں سے بہت محبت ہے اور کوئی انہیں بے دردی سے توڑے تو مجھے غصہ آ جاتا ہے۔‘‘ وہ وضاحت بھرے انداز میں نرمی سے بولا۔
آواز میں اب غصے کی جگہ عاجزی تھی لہجہ انتہائی ہموار اور سادہ تھا لفظوں کو نہایت خوبصورتی سے ٹھہر ٹھہر کر قدرے رداں انداز میں ادا کیا گیا تھا۔
’’جائیں معاف کیا۔‘‘ اس نے اخبار ہٹا کر اسے دیکھا۔
’’او رئیلی۔‘‘ وہ خوشگوار حیرت میں گھر کر بولا شاید اسے اتنی جلدی اتنے مثبت ردعمل میں توقع نہیں تھی، وہ حقیقتاً امپریسڈ ہوا تھا۔
’’اچھا عریشہ کچھ اپنی ہابیز کے بارے میں بتاؤ نا؟‘‘ آج وہ نانا جان کے ساتھ زاہد پیلس آئی تھی، مانی کے دادا جان اسے بہت اچھے لگے تھے اور اس نے موقع غنیمت جان کر مانی کی شکایت بھی لگائی تھی، جس پر مانی کو اچھی خاصی ڈانٹ اور عریشہ کو مکمل طور پر عندیہ ملا تھا کہ وہ جب چاہے جتنے چاہے، باغیچے سے پھول توڑ سکتی ہے۔
پھر مانی نے اس کی فرمائش پہ اسے پورا گھر بھی دکھایا تھا اور اب وہ حسب عادت اپنے آنچل کے پلو میں موتیا کے پھول چن رہی تھی اور مانی نے یہ سوال اس کی پھولوں پر سے توجہ ہٹانے کے لیے کیا تھا، کیونکہ اس کا سارا دامن پھولوں سے سجا ہوا تھا اور مانی کی قوت برداشت جواب دے رہی تھی۔
’’میرا شوق یہ ہے۔‘‘ کہہ کر اس نے اپنا پلو ہوا میں اڑا دیا، سارے پھول ان دونوں پر برستے ہوئے سرسبز شاداب گھاس پہ بچھ گئے تھے اور ایسا پہلی بار ہوا تھا کہ وہ بجائے خفا ہونے کے اس کے چہرے کے دھنک رنگوں میں جیسے کھو سا گیا تھا، اس کی ڈارک براؤن آنکھیں شفاف نازک کانچ کی مانند چمکتی تھیں شنگر فی لب بغیر کسی لپ اسٹک کے بیھ نوخیز گلابی کلیوں جیسے تھے بھرے بھرے گندمی رخساروں میں لالیاں سی گھلی تھیں چھوٹی سی ناک میں چمکتی ہیرے کی لونگ اس کا واحد زیور تھی اور اس کا سلیقے سے دوپٹہ اوڑھنے کا انداز کتنا پرکشش تھا۔
’’اونہوں مانی اب گھورنا تو بند کرو، رئیلی میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا مگر جب تم نے میری ہابیز پوچھیں تو بتانا پڑا۔‘‘
’’تو پریکٹیکل کرنے کی کیا ضرورت تھی۔‘‘ وہ بگڑ کر بولا۔
’’ویسے میرا ایک اور بھی شوق ہے وہ بھی کر کے دکھاؤں۔‘‘ دونوں ساتھ چلتے چلتے برڈز کیج کے قریب رک گئے تھے مانی اس کی شرارت اور ارادہ بھانپ کر پنجرے کے سامنے جا کھڑا ہوا۔
’’مہربانی جناب یہ برڈز بہت مہنگے ہیں۔‘‘
’’ویسے تمہارا لان بہت خوبصورت ہے تم کبھی ہمارے گاؤں آنا پھر میں تمہیں اپنا کشمیر دکھاؤں گی، بہت سندر جگہ ہے بلند و بالا پہاڑ اونچے اونچے گھنے درخت، بہتے جھرنے، وادیاں، لیکن اتنے خوشنما خوش رنگ پھول تو میں نے وہاں بھی نہیں دیکھے جب میں یہاں سے واپس جاؤں گی تو تم مجھے آرانیہ، للی سوئٹ، پیزا، ویلج اور ایسٹر کا ایک ایک پودا گٹ کرو گے، ویسے تو میرا دل چاہتا ہے تم مجھے یہ پورا لان گٹ کر دو۔‘‘ مانی اس کی بے تکی فرمائش پر زیرلب مسکرا دیا تھا۔
’’ویسے یاد آیا مجھے تو ڈرائیونگ کا بھی بہت شوق ہے تم مجھے ڈرائیونگ سکھاؤ گے؟‘‘ اگلے مطالبے پہ وہ ایک لمحے کو سوچ میں پڑ گیا۔
’’دیکھو میں تمہاری مہمان ہوں تم مجھے انکار نہیں کر سکتے۔‘‘ اور اس کے پاس انکار کی گنجائش ہی کہاں تھی، مجبوری میں ہی سہی اسے اثبات میں سر ہلانا ہی پڑا ورنہ وہ پھر دادا جان سے شکایت کرتی اور دادا جان کی کی کوئی بات وہ ٹالتا نہیں تھا۔
٭٭٭