مومنہ کہاں چلی گئی۔
حمزہ کی جب آنکھ کھلی تو مومنہ کو کمرے میں نہ پا کر وہ باہر نکل آیا۔
تم یہاں کیا کر رہی ہو۔
مومنہ کو کچن میں کام کرتا دیکھ حمزہ نے پوچھا۔
ناشتہ بنا رہی ہوں۔
مومنہ نے مصروف سے انداز میں جواب دیا۔
یہ تمہارے کرنے کے کام نہیں ہیں ۔۔۔بوا کہاں ہیں۔
بوا۔۔۔۔
حمزہ نے غصے میں بوا کو آواز دی۔
کیا ہو گیا ہے اتنا غصہ کیوں کر رہے ہیں۔ ۔۔۔۔۔۔بوا کو میں نے ہی منع کیا تها ناشتہ بنانے سے۔ میں نے سوچا آج ناشتہ خود بنا لو۔
لیکن یہ تمهارا کام نہیں ہے۔
حمزہ نے کہا۔
کوئ فرق نہیں پڑتا۔آپ جا کر بیٹھیں میں میں تھوڑی دیر میں ناشتہ لے کر آتی ہوں۔
مومنہ نے پیاز کاٹتے ہوئے کہا۔
آآههه۔۔۔۔۔۔
حمزہ جو کچن سے جانے کے لیئے پلٹا تها مومنہ کی چیخ سن کر اسکی طرف بڑھا۔
چهری لگ جانے کی وجہ سے مومنہ کی انگلی سے خون نکل رہا تھا۔
یہ کیا کر لیا تم نے اسی وجہ سے منع کر رہا تھا میں۔ دیکھو کتنا خون نکل رہا ہے۔
حمزہ نے مومنہ کا ہاتھ پکڑ کر پریشانی سے کہا۔
حمزہ آپ اتنا کیوں پریشان ہو رہے ہیں۔ ۔۔۔۔صرف چھوٹا سا کٹ تو ہے۔
مومنہ نے اپنا ہاتھ حمزہ کے ہاتھ سے نکالنا چاہا۔
یہ تمهیں چهوٹا لگ رہا ہے۔ چلو میرے ساتھ پٹی کر دوں میں۔
مومنہ کے منع کرنے کے باوجود حمزہ نے اسکی ایک نا سنی۔
تھینک یو۔۔۔۔۔۔۔
حمزہ مومنہ کی انگلی پر بینڈج لگا رہا تها جب مومنہ نے کہا۔
کس لیئے۔
حمزہ نے پوچها۔
اس دن آپ نے میرب کی مدد کی اس لیئے۔
مومنہ تم میرے لیئے بهت اہم ہو اسی لیئے تم سے جڑا ہر رشتہ میرے لیئے اہمیت رکھتا ہے۔
حمزہ کی بات سن کر مسکراہٹ مومنہ کے لبوں پر بکهر گئ۔
میں نے آپ سے کچھ کہنا تھا۔
مومنہ نے کہا۔
ہاں کہو۔۔۔۔
وہ مجهے امی کے پاس جانا ہے۔
مومنہ نے تهوڑا ڈرتے ہوئے کہا۔
ٹهیک ہے شام میں تیار رہنا آفس سے آکر لے جائو گا۔
***********************************
جو کام بولا تها وہ ہو گیا؟
جی باس اس فائل میں ساری انفارمیشن ہے اسکی۔
ههم۔۔۔۔اور اسکی کوئ کمزورئ معلوم ہوئ۔
زیادہ کچھ نہیں لیکن اسکی ایک بیوی جسے وہ اپنی جان سے ذیادہ پیار کرتا ہے۔
ہاہاہا۔۔۔۔۔۔۔بچاری اپنے شوہر کا کیا اب اسے بھگتنا پڑے گا۔
اسے کیا لگا تها کے یہ کام چھوڑنا اتنا آسان ہے۔۔۔۔۔یہ تو ایک ایسا دلدل ہے جس سے نکلنا ناممکن ہے۔
************
آپ نہیں آ رہے۔
حمزہ نے گاڑی مومنہ کے گھر کے سامنے روکی تو بے اختیار مومنہ نے پوچھا۔
ابهی مجهے تهوڑا کام ہے۔
حمزہ نے کہا۔
جی ٹهیک ہے۔
مومنہ گاڑی سے اتر کر اندر کی جانب بڑھ گئ۔۔
مومنہ کے اندر جانے تک حمزہ کی نظروں نے اس کا پیچھا کیا۔
***********************
مومنہ میری بچی کیسی ہو تم۔
آرزو بیگم نے مومنہ کو سینے سے لگاتے ہوئے کہا۔
میں ٹھیک ہوں ۔۔۔۔آپ ابو اور وہ دونوں کیسی ہیں۔
ہم سب ٹھیک ہیں بس تمهارا دکھ کهائے جاتا ہے۔
آرزو بیگم نے آنسوں صاف کرتے ہوئےکہا۔
امی میں ابو سے مل کر آتی ہوں۔
وہ ابهی سو رہے ہیں۔ تم میرے پاس آ کر بیٹھو۔
آرزو بیگم مومنہ کو لے کر صوفے پر بیٹھ گئی۔
مومنہ تم ٹهیک تو ہو نہ میرا مطلب ہے حمزہ کا رویہ تمهارے ساتھ ٹهیک تو ہے۔
ان کا رویہ میرےساتھ بالکل ٹهیک ہے امی۔
مومنہ نے نظریں نیچے رکهتے ہوئے جواب دیا
تم نے اسےمعاف کر دیا ہے؟
پتہ نہیں امی۔مجهے کچھ سمجھ نہیں آرہا۔وہ میرا بہت خیال رکهتے ہیں۔ میری بہت فکر کرتے ہیں لیکن پھربهی دل میں ایک خلش سی ہے۔جس طرح انهوں نے مجھ سے نکاح کیا وہ بات مجھ سے بهولی نہیں جا رہی۔
مومنہ نے اپنے دل کی بات کہی۔
دیکهو مومنہ جو ہونا تها وہ ہو چکا۔تم اسے معاف کرو ۔کیونکہ۔
طلاق کوئ معمولی بات نہیں ہے۔بقول تمهارے وہ تمهارا بهت خیال رکهتا ہے تو۔۔۔۔۔
آپی آپ کب آئ۔
میرب کے آنے سے آرزو بیگم خاموش ہو گئی تھیں۔
بس ابهی آئ ہوں۔تم کیسی ہو۔
مومنہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
میں باکل ٹهیک ہو ۔اور آپ کو پتا ہے مجهے آپکی بهت یاد آ رهی تهی۔
میرب نے کہا۔
اچها کہی جا رہی تهی تم۔
مومنہ نے میرب کو تیار دیکھتے ہوئے پوچها۔
ہاں آپی میں وہ نائمہ کے گھرجا رہی تهی۔
بہت یاد کرتی ہے وہ آپ کو ۔کہتی ہے مومنہ جب بهی آئے اسے لازمی لے کر آنا۔
میرب نے اپنی اور مومنہ کی دوست کے بارے میں بتایا جو پچهلی گلی ہی میں رہتی تهی۔
ہاں بیٹا جب بهی وہ گهر آتی ہے تمهیں بهت یاد کرتی ہے۔ایک کام کرو جا کر مل آئو۔ پچهلی گلی میں تو گھر ہے اسکا جب تک تمهارے ابو بهی اٹھ جائے گے۔
چلیں ٹهیک هے هم تھوڑی دیر میں آتےہیں۔
آرزو بیگم کی بات سن کر دونوں چلی گئی۔
***********************
ہاں باس لڑکی گهر سے نکل گئ ہے۔
جی ٹهیک ہے آپ بے فکر رہیں آپ کا کام ہو جائے گا۔
چلو جلدی اسکا پیچها کرو۔
فون بندکرنے کے بعد اس آدمی نے ڈرائیور سے کہا۔
***********************
آپی آپ کو پتا آپ مجهے بہت یاد آتی ہو۔زویا آپی بهی اپنے گھر چلی گئی ہیں ۔پورے دن میں بور ہوتی رہتی ہوں۔
وہ دونوں نائمہ کے گهر کی طرف جا رہی تھیں۔ میرب کی باتوں پر مومنہ مسکرا رہی تھی۔
انکے قدم تب رکے جب ایک دم وین ان کے سامنے آکر رکی۔
اس سے پہلے وہ دونوں کچھ سمجهتیں وین میں سے کچھ لوگ نکلے اور زبردستی مومنہ کو لے گئے۔
آپیییی۔۔۔۔۔۔۔
میرب بهاگتی ہوئ وین کے پیچھے گئ لیکن وین جا چکی تهی۔
یا اللہ یہ کیا ہوگیا۔
میرب کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تها کہ وہ کیا کرے۔ آنسو مسلسل اسکی آنکھوں سے بہ رہے تھے۔
تقریباً بھاگتے ہوئے وہ گهر کی جانب بڑھی
***********************************
کیا ہوا میرب تم رو کیوں رہی ہو اور مومنہ کہا ہے۔
میرب جب روتے ہوئے گهر آ ئ تو آرزو بیگم نے پوچها۔
امی وہ آپی۔۔۔۔۔۔
کہاں ہے مومنہ تم کچھ بول کیوں نہیں رہی ہو۔
آرزو بیگم کو پریشانی ہو رہی تھی۔
امی وہ ہم دونوں جا رہی تھیں تو ایک دم وین آکر رکی اور آپی کو کچھ لوگ وین میں ڈال کر لے گئے۔
میرب نے روتے ہوئے بتایا۔
یا اللہ میری بچی کی حفاظت کرنا ۔۔۔۔۔تم ایک کام کرو جلدی سے حمزہ کو فون کرو۔
جی امی۔۔۔
آرزو بیگم کی بات سن کر میرب حمزہ کو کال کرنے لگی۔
***********************************
یہ میرب کیوں کال کر رہی ہے۔
حمزہ ابهی میٹنگ روم سے باہر نکلا تها جب میرب کی کال دیکھکر چونکا۔
ہاں میرب کیا ہوا۔
حمزہ نے کال اٹینڈ کرتے ہوئے کہا۔
اچها تم پریشان مت ہو میں آرہا ہوں۔
حمزہ نے کال بند کرکے ایک گہری سانس لی۔
اسکی آنکهیں حد سے ذیادہ لال ہو رهی تهیں۔
غصہ کی وجہ سے اس پورا چہرہ سرخ ہو رہا تها۔
جس نے بهی میری مومنہ کے ساتھ یہ حرکت کی ہے خدا کی قسم میں اسے جان سے مار دو گا۔
*********************************
کون ہو تم لوگ اور کیوں مجھے یہاں لائے ہو۔پلیز مجهے جانے دو ۔
وہ مسلسل دروازہ بچا رهی تهی ۔رو رو کر اسکا پورا چهرا بهیگ گیا تھا۔
حمزہ پلیز آجائو۔مجهے بہت ڈر لگ رہا ہے۔
وہ گھٹنوں میں سر دیئے رو رہی تهی ۔
دروازہ کهلنے کی آواز پر اسنے سر اٹها کر سامنے دیکها۔
چچچ ۔۔۔۔بلبل تو رو رہی ہے۔
وہ اسکے قریب آتا ہوا بولا۔
دور رہو مجھ سے دیکهنا میرا شوہر تمهارا کیا حشر کرتا ہے۔۔
چٹاخ اگلے لمحے پڑنے والے تهپڑ سے مومنہ زمیں پر گری تھی۔
آئندہ میرے سامنے زبان سنبهال کر بات کرنا ورنہ وہ حشر کروں گا تمهارا کے بولنے کے قابل نہیں رہو گی۔
اس شخص نے بے رحمی سے مومنہ کا منہ دبوچتے هوئے کہا
پلیز مجھے جانے دو۔
مومنہ کے آنسوں روانی سے بہ رہےتھے۔
ایسے کیسے جانے دوں تمهیں۔جب تمهارا شوہر تمهیں اس حال میں دیکهے گا تو تب اسے پتا چلے گا کے کس سے اسنے پنگا لیا تها۔
یہ کہہ کر وہ کمرے سے باہر نکل گیا۔
مومنہ نے ہونٹوں پر سے خون صاف کیا جو تهپڑ کی وجہ سے بے رہا تھا۔
حمزہ پلیز آجائو۔مجهے بہت ڈر لگ رہا ہے۔
مومنہ دونوں ہاتھوں سے چہرہ چهپا کر پہوٹ پهوٹ کر رونے لگی
***********************
کون تهے وہ لوگ۔
حمزہ نے غصہ ضبط کرتے ہوئے کہا۔
پتا نهیں بهائ انهوں نے رومال سے چهرہ چهپایا ہوا تها۔
میرب نے بتایا۔
حمزہ میری بچی کو بچا لو ورنہ میں مر جاؤں گی۔
آرزو بیگم نے روتے ہوئے کہا۔
فکر نهیں کریں آپ لوگ ۔میں بہت جلد مومنہ کو ڈهونڈ لو گا۔
یہ کہہ کر حمزہ چلا گیا۔
***********************
کہاں چلی گئ ہو مومنہ۔پلیز واپس آجائو۔تمهارے بغیر میں ادهورا ہوں۔
ایک آنسوں حمزہ کی آنکھ سے گرا
ہیلو آصم مجھ سے ملو آکر۔
حمزہ نے اپنے دوست کو فون کیا جو پولیس میں اعلیٰ عہدے پر فائز تها۔
***********************