حمزہ نے گاڑی ہسپتال کے سامنے روکی۔
اسنے اپنے ایک بندے سے معلوم کروالیا تها کے حماد صاحب اس وقت ہسپتال میں داخل ہیں۔
گاڑی کے رکنے پر مومنہ نے سامنے دیکها تو ہسپتال کو دیکھ کر اس کی آنکھوں میں نمی آگئ۔
دھڑکتے دل کے ساتھ وہ گاڑی سے اتری۔
جب وہ لوگ ہسپتال میں داخل ہونے لگے تو حمزہ نے مومنہ کا ہاتھ پکڑ کر روکا۔
مومنہ نے ناسمجھی سے اسے دیکھا۔
دیکھو مومنہ میں تمهیں یہاں لے آیا ہوں صرف اس شرط پر کہ تم چپ چاپ واپس میرے ساتھ چلو گی۔
اگر تم نے زرا سی بهی ہوشیاری دکهائ تو یاد رکهنا کے میں جب حماد صاحب کو ہسپتال پہنچایا سکتا ہوں تو مجھے ان کو اوپر پہنچانے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔
حمزہ نے کہتے ہوئے اپنی جیب میں رکھی ہوئی گن کی طرف اشارہ کیا۔
حمزہ کی بات سن کر مومنہ کانپ اٹھی۔
اور بہت مشکل سے ہاں میں سر ہلایا۔
گڈ گرل۔۔۔۔
حمزہ نے مسکراتے ہوئے کہا اور اسے لے کر اندر کی جانب بڑھ گیا۔
********************¬***************
مومنہ نے جب سامنے آرزو بیگم کو دیکھا تو بھاگ کر انکے گلے لگ گئی۔
مومنہ کو دیکهہ کر آرزو بیگم کے آنسوؤں میں روانی آ گئی۔
امی۔۔۔۔ابو کیسے ہیں۔
مومنہ نے روتے هوئے پوچھا۔
وہ ٹهیک نهیں هیں میری جان۔۔۔۔۔تم انکے لیئے دعا کرنا۔
انشاءاللہ امی۔۔۔۔ ابو بالکل ٹهیک ہوجائے گے۔
مومنہ نے آرزو بیگم کے آنسوں صاف کرتے ہوئے کہا۔
تم ٹهیک تو ہونا مومنہ۔۔۔۔
مومنہ کو دیکهہ کر میرب اور زویا بهی وہاں آگئ تهی۔
جی آپی میں ٹهیک ہوں۔
مومنہ نے زویا کو جواب دیا۔
اب هم آپ کو کهیں نہیں جانے دینگے۔
میرب نے مومنہ کے گلے لگتے ہوئے کہا۔
میرب کی بات سن کر ایک تلخ مسکراہٹ نےمومنہ کے لبوں کو چهوا۔
امی میں ابو سے مل لوں۔
مومنہ نے پوچها۔
آرزو بیگم نے ہاں میں سر ہلایا تو مومنہ اندر کی جانب بڑھ گئی۔
********************¬***************
ابو۔۔۔۔۔
حماد صاحب کو اس حالت میں دیکھکر مومنہ کو اپنا آپ قصوروار لگا۔
پلیز مجهے معاف کر دیں ابو۔میری وجہ سے آپکی یہ حالت ہوئی ہے۔
بس آپ جلدی سے ٹھیک ہو جائے۔ کیوں مجھے اتنا تنگ کر رہے ہیں۔
مومنہ ابهی حماد صاحب سے باتیں کر رہی تھی کہ حماد صاحب نے اپنی آنکھیں کھولنے کی کوشش کی۔
مومنہ نے فورا ڈاکٹر کو بلایا۔
ڈاکٹر نے مومنہ کو باہر بھیجا اور خود حماد صاحب کو چیک کرنے لگ گئے۔
***********************
سب پریشان کھڑے حماد صاحب کی صحت کے لیے دعا گو تھے۔
مبارک ہو اب آپ کے پیشنٹ خطرے سے باہر ہیں۔
ڈاکٹر نے آ کر کہا۔
ڈاکٹر کی بات سن کر سب نے اللہ کا شکر ادا کیا۔
چلو مومنہ کافی دیر ہو گئی ہے۔
حمزہ نے کہا۔
تمهارا دماغ خراب ہو گیا ہے ۔۔۔۔اب میری بیٹی تمہارے ساتھ کہیں نہیں جائے گی۔۔۔۔اگر تم نے زبردستی کرنے کی کوشش کی تو میں پولیس کو فون کر دوں گی۔
حمزہ کی بات سن کر آرزو بیگم نے غصے سے کہا۔
اچههاا۔۔۔۔آپ پولیس کو فون کریں گی اور کیا کہے گی انهیں کہ شوہر اپنی بیوی کو اپنے ساتھ لے کر جا رہا ہے۔
حمزہ نے طنزیہ ہنستے ہوئے کہا۔
کیا بکواس کر رہے ہو تم۔
آرزو بیگم نے دہرکتے دل کے ساتھ پوچھا۔
یہ بکواس نهیں حقیقت ہے کہ آپکی بیٹی اب میری بیوی ہے۔
آرزو بیگم نے مومنہ کی طرف دیکھا جیسے حمزہ کی بات کی تصدیق چاہی هو۔
مومنہ نے روتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا۔
اب تو یقین ہوگیا نا ساس صاحبہ۔۔۔۔اب چلو مومنہ۔
حمزہ آرزو بیگم کو بولتے ہوئے آخر میں مومنہ سے مخاطب ہوا۔
حمزہ کی بات سن کر بهی جب مومنہ اپنی جگہ سے ہلی نهیں تو حمزہ کا ہاتهہ اپنی جیب میں رکهی هن کی طرف گیا۔
حمزہ کا اشارہ سمجھ کر مومنہ بجهے دل کے ساتھ چلنے لگ گئ۔
آرزو بیگم۔زویا اور میرب نے نم آنکهوں سے مومنہ کو جاتے ہوئے دیکھا۔
***********************
گهر کے سامنے حمزہ نے گاڑی روکی۔
مومنہ کو لے کر وہ گهر میں داخل هوا۔
بوا۔۔۔۔۔
حمزہ نے(ملازمہ )کو آواز لگائ۔
جی صاحب۔۔۔۔
بوا آپ کهانا همارے روم میں لے آئیں۔
حمزہ نے کہا اور مومنہ کا ہاتهہ
پکڑ کر روم کی جان بڑهہ گیا۔
***********************
مومنہ گم صم بیڈ پر بیٹهی هوئ تهی۔
حمزہ فریش ہوکر واشروم سے نکلا ۔۔۔۔مومنہ کو اسی طرح بیٹھے ہوئے دیکھ کر اسکی جانب بڑها۔
اس سے پہلے حمزہ کچهہ بولتا دروازہ بجنے کی آواز پر اسکی طرف بڑھ گیا۔
مومنہ کهانا کها لو۔۔۔۔
ملازمہ کے کهانا رکهہ کے جانے کے بعد حمزہ مومنہ سے مخاطب هوا۔
نهیں کهانا مجهے۔
مومنہ نے اپنا چہرہ پھیر لیا۔
مومنہ آکر کهانا کها لو۔
حمزہ نے اب بهی نرمی سے کہا۔
بولا نا نہیں کهانا مجهے۔
مومنہ نے پہلے سے بهی زور سے کہا۔
کیوں مجھے سختی کرنے پر مجبور کر رہی ہو۔
حمزہ نے مومنہ کا بازو دبوچتے ہوئے کہا۔
حمزہ کی سخت گرفت پر مومنہ کی آنکهیں نم هوگئ۔
پھر میری ایک دفعہ کی بات کیوں نہیں سنتی ہوں۔
مومنہ کی نم آنکھیں دیکھ کر حمزہ نرم پڑ گیا۔
چلو شاباش تهوڑا سا کها لو۔
حمزہ نے مومنہ کو صوفے پر بیٹھاتے ہوئے کہا۔
حمزہ کے ڈر سے مومنہ نے دو نوالے ذہر مار کیئے۔
***********************
صبح جب مومنہ کی آنکھ کھولی تو حمزہ کمرے میں موجود نہیں تھا۔
یہ کہاں گئے۔ ۔۔۔۔۔۔مجھے کیا جہاں بھی جائیں۔
مومنہ سر جھٹک کر فریش ہونے چلی گئی۔
جب وہ واشروم سے باہر نکلی تو حمزہ سامنے صوفے پر بیٹھا موبائل یوز کر رہا تھا۔
حمزہ نے جب مومنہ کو دیکھا تو موبائل رکھ کر اس کے پاس آیا۔
اچها ہوا تم جاگ گئ ۔۔۔۔۔۔ویسے بھی مجھے بہت بھوک لگی ہے اب جلدی سے چل کر میرے ساتھ ناشتہ کر لو۔
حمزہ کہ کر دروازے کی طرف بڑھا لیکن مومنہ اپنی جگہ سے ہلی بھی نہیں۔
کیا ہوا۔ ۔۔۔۔۔۔
مومنہ کو اسی طرح کھڑا دیکھ حمزہ نے پوچھا۔
میں نے اپنے گهر جانا ہے۔
مومنہ نے کہا۔
مومنہ چل کر ناشتہ کر لو۔
حمزہ نے اسکی بات کو نظرانداز کرکے اسکا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔
سنائ نهیں دیتا آپ کو میں نے کہا ہے کہ مجھے اپنے گھر جانا ہے۔
مومنہ نے غصے سے کہا۔
کیوں تم چاہتی ہو کہ میں تم پر سختی کروں۔
اس سے پہلے مومنہ کچھ کہتی حمزہ نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اسے زبردستی ناشتے کی ٹیبل تک لے گیا۔
حمزہ نے نوالہ بنا کر مومنہ کی طرف بڑھایا تو مومنہ نے منہ پھیر لیا لیکن حمزہ کی گهوری پر ناچار اسے کهانا پڑا۔
I hate you۔۔۔۔۔۔
مومنہ نے آنسوں صاف کرتے ہوئے غصے سے کہا۔
I love you too darling۔ ۔۔۔۔۔۔
حمزہ نے آنکھ مارتے ہوئے کہا۔
حمزہ کا انداز دیکھ کر مومنہ ضبط کر کے رہ گئی۔
***********************************
میرب تیزی سے چل رہی تهی۔
گهر کے حالات کی وجہ سے اسکا کالج آنے کا بالکل دل نہیں تھا لیکن آج اسکا ایپورٹنت ٹیسٹ تها جس کی وجہ سے آرزو بیگم نے اسے زبردستی بھیجا تھا۔
دوپہر کا وقت تها اسی وجہ سے گلی میں لوگ نہ ہونے کے برابر تھے۔
ابهی وہ چل ہی رہی تھی جب ایک بائیک نے اس کا راستہ روکا ۔
بائیک پر دو لڑکے سوار تھے جو اسے عجیب سی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔
میرب نے اپنے ڈر پر قابو پاتے ہوئے سائڈ سے نکلنا چاہا جب ایک لڑکے نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اسے روکا۔
پلیز مجھے جانے دو۔
میرب نے روتے ہوئے کہا۔
کیا ہو رہا ہے یہاں۔
اس سے پہلے وہ لڑکا کچھ کہتا پیچھے سے آئ آواز پر دونوں پلٹے۔
میرب کو ایک سیکنڈ لگا تها حمزہ کو پہچاننے میں۔
بهائ۔۔۔
اس لڑکے کو دھکا دے کر میرب بھاگتے ہوئے حمزہ کے جانب بڑھی۔
حمزہ سے لاکھ ناراضگی سهی لیکن میرب کو اس وقت وہ واحد سہارا لگا۔
او ہیرو چلو نکلو یہاں سے۔
دونوں لڑکوں نے انکی طرف بڑهتے ہوئے کہا۔
تم جا کر کار میں بیٹھوں۔
حمزہ نے اپنی آستینیں اوپر چڑهاتے ہوئے کها۔
جی۔۔۔۔۔
حمزہ کی بات سن کر وہ فورا کار میں بیٹھ گئ۔
ٹهوڑی ہی دیر میں حمزہ نے ان دونوں کا برا حال کر دیا تها اور وہ دونوں معافیاں مانگتے ہوئے بھاگ گئے تھے ۔
کار میں بیٹھ کر حمزہ نے میرب
کی طرف دیکها جو ابهی بهی ڈری ہوئی تھی۔
تم ٹھیک ہو۔ ۔۔۔
حمزہ نے پوچھا۔
جی بهائ اگر آپ نهیں ہوتے تو پتا نهیں کیا ہوتا۔
میرب نے آنسوں صاف صاف کرتے ہوئے کہا۔
اچها اب رونا بند کرو بالکل ٹماٹر جیسا منہ هوگیا ہے رو رو کر۔
حمزہ نے هنستے هوئے کها۔
حمزہ کی بات سن کر میرب بهی هنس دی۔
حمزہ نے گاڑی میرب کے گهر کے سامنے روکی۔
آپی کیسی ہیں۔
میرب نے پوچها۔
بہت اچهی۔
حمزہ نے ہنسی دباتے هوئے کہا۔
وہ تو مجهے بهی پتا ہے۔
اچها آپ آپی کو ملوانے کے لیئے لے آیے گا پلیز۔
میرب نے گاڑی سے اترتے ہوئے کہا۔
بہت جلد لائو گا۔
حمزہ نے کہ کر گاڑی آگے کی طرف بڑها دی
***********************
اگر حمزہ نہ آتا تو۔۔۔۔۔
اس سے ذیادہ آرزو بیگم سے سوچا ہی نهیں گیا تها۔
میرب نے آج ہوا سارا واقع آرزو بیگم کو بتادیا تها جسے سن کر انهوں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ حمزہ صحیح وقت پر پہنچ گیا تھا۔
امی حمزہ بهائ اتنے بهی برے نہیں هیں بس آپی سے نکاح کا انکا طریقہ غلط تھا۔
میرب کی بات سن کر آرزو بیگم خاموش رہیں۔
***********************
دیکھو بیٹا جو آپ کے نصیب میں نهیں وہ آپ کو نہیں مل سکتا۔
مومنہ تمہارے نصیب میں نهیں تھی اسی لیئے وہ کسی اور کی ہوگئ کیوں کہ وہ اس کا نصیب تهی۔
فلک بهت اچهی لڑکی ہے اسے اناکار کر کے تم ناشکری کر رهے ہو۔
مجهے مرنے سے پہلے تم یہ خوشی دے دو۔
ارمان کی امی اسے مسلسل سمجهانے کی کوشش کر رهی تهیں۔
ٹهیک ہے امی جو آپ کو بہتر لگے۔
ارمان کو بهی یہ سمجھ آگئ تهی کہ مومنہ اسکا نصیب تهی هی نهیں۔
***********************
حمزہ جب کمرے میں آیا تو مومنہ اپنے هاتهوں کی لکیروں میں ناجانے کیا تلاش کر رهی تهی۔
حمزہ فریش ہونے چلا گیا جب وہ واپس آیا تو مومنہ ابهی بهی اسی انداز میں بیٹهی هوئ تهی۔
یہ لو ۔۔۔۔
حمزہ نےایک ڈبہ مومنہ کی جانب بڑهاتے هوئے کہا۔
یہ کیا ہے۔۔۔۔
مومنہ نے پوچها
خود دیکھ لو۔
حمزہ نے ڈبہ مومنہ کو پکڑایا اور خود بیڈ کی دوسری سائڈ پر آ کر لیٹ گیا۔
مومنہ نے جب اسے کهولا تو اندر موبائل دیکھ کر اسے خوشی ہوئی کیونکہ اسے گهر والوں سے بات کرنے کا بہت دل چاہ رہا تها۔
اندر سم موجود ہے تمهارا جب دل چاہے اپنے گهر والوں دے بات کر لینا۔
حمزہ نے بند آنکھوں سے کہا۔
مومنہ موبائل لے کر ٹیرس پر آگئ اور گهر فون کیا۔
ہیلو۔۔۔۔
میرب کی آواز سن کر مومنہ نے کہا۔
آپی۔۔۔
مومنہ کی آواز سن کر میرب نے زور سے کہا۔
***********************
مومنہ جب بات کر کے کمرے میں آئ تو حمزہ سو چکا تها۔
تهینکس۔۔۔۔۔۔
مومنہ بیڈ پر بیٹھ کر اسے دیکهنے لگ گئ۔
میرب نے آج ہوا سارا واقعہ مومنہ کو بتا دیا تها جسے سن کر مومنہ واقع حمزہ کی مشکور ہوئ تهی۔
***********************