اسکی گرج دار آواز پر سب اپنی جگه ساکت ھو گۓ تھے۔
وه اپنی حد سے ذیاده سرخ آنکھیں سامنے موجود وجود پر گاڑیں کھڑا تھا جو اسے دیکھ کر منجمد ھو گیا تھا۔
سب حیران و پرییشان کھڑے اسے دیکھ رھے تھے جو اپنے حواسوں میں نھیں لگ رھا تھا۔۔
اسکا کا بس نھیں چل رھا تھا کے سب کچھ تھس نھس کردے۔آخر کیسے وه لوگ اسے اتنا بڑا دھوکا دے سکتے تھے۔
کیسے اسے کسی اور کے نام کر سکتے ھیں جو صرف اسکی تھی ۔۔۔۔جسے اسنے رو رو کر اپنی دعاؤں میں مانگا تھا۔
وه لمبے لمبے دگ بھرتا اس تک پھنچا اور ایک جھٹکے سے بازو سے پکڑ کر اسے اپنے سامنے کھڑا کیا۔
گرفت اتنی سخت تھی کے مومنه کو اپنا بازو ٹوٹتا ھوا محسوس ھوا۔
کسی کو امید نھیں تھی کے وه واپس آۓ گا ۔۔۔۔۔لیکن وه آگیا تھا اور یهی حقیقت تھی۔
چھوڑو میری بیٹی کا ھاتھ ت۔۔۔۔۔۔
آرزو بیگم کے باقی کے الفاظ حمزه کے غصے سے بھرے چھرے کو دیکھ کر منه میں ھی ره گۓ تھے۔
کیا ھو رھا ھے یه سب۔۔۔۔۔
حماد صاحب آواز سن کر سب انکی طرف متوجه ھو گۓ تھے۔
مومنه مسلسل اپنا بازو چھڑوانے کی کوشش کر رھی تھی جو ابھی بھی حمزه کی گرفت میں تھا۔
کیسے ھیں سسر صاحب۔۔۔
حمزه نے تنزیه مسکراھٹ سے کھا۔
کیا بکواس کر رھے ھو لڑکے۔۔۔۔حوش میں تو ھو تم۔
حماد صاحب نے غصے سے کھا۔
ارے سسر صاحب اس عمر میں اتنا غصه ٹھیک نھیں ھے۔
ھارٹ اٹیک کا خطره ھوتا ھے۔
دیکھو لڑکے آج میری بیٹی کی مایو ھے اور میں نھیں چاھتا کے یھاں کوئ بدمزگی ھو جاۓ اسی لیۓ چلے جاؤ یھاں سے۔
حماد صاحب نے ضبط سے کھا۔
سسر جی جانے کے لیۓ تھوڑی آیا ھو میں یھاں اور اپنی امانت لے کر ھی جاؤ گا میں۔
حمزه نے اطمینان سے کھا۔
کس امانت کی بات کر رھے ھو تم۔
ساسو ماں آپنے سسر جی کو بتایا نھیں کے میں کس امانت کی بات کر رھا ھوں۔
حمزه نے آرزو بیگم کی طرف متوجه ھو کر کھا۔
سیدھی سیدھی بات کرو کس امانت کی بات کر رھے ھو تم۔
حماد صاحب نے کھا۔
آپکی بیٹی۔۔۔۔۔امانت رکھوا کر گیا تھا میں آپکی بیگم کے پاس لیکن افسوس انھوں نے امانت میں خیانت کردی۔
حمزه نے نفی میں گردن ھلائ۔
لیکن آج میں کسی پر اعتبار نھیں کرو گا ۔۔۔۔۔اپنی امانت کو لے کر جاؤ گا۔
حمزه یه کھ کر مومنه کی طرف بڑھا۔
اسکی آنکھیں خوف سے لرز رھی تھیں۔حمزه کو قریب آتا دیکھ وه پیچھے ھوئ لیکن اسکی کلائ اسکی گرفت میں آگئ تھی۔
سب خاموش تماشائ کا کردار نبھا رھے تھے۔آخر کون کسی کے مسئلے میں پڑتا ھے۔
آرزو بیگم,حماد صاحب حمزه کی جانب بڑھے لیکن اسکے اگلے اقدام ان کے قدم وھی رک گۓ۔
مومنه نے حیرت سے اپنی سر پر رکھی پسٹل کو دیکھا ۔
خوف کے مارے اسکا پورا وجود لرز رھا تھا۔
تمھیں خدا کا واسطه چھوڑ دو میری بیٹی کو۔
آرزو بیگم نے اپنے ھاتھ جوڑتے ھوۓ کھا۔
حماد صاحب اپنے دل میں اٹھتے درد کو دباتے ھوۓ حمزه کی جانب بڑھے۔
رک جاۓ سسر جی ورنه انجام کے ذمه دار آپ ھو گے۔
حمزه نے مومنه کے سر پر پسٹل سے ذور دیتے ھوۓ کھا۔
حمزه نے مومنه کو تقریبا گھسیٹتے ھوۓ آگے کی طرف قدم بڑھاۓ۔
رک جاؤ لڑکے۔
حماد صاحب حمزه کے سامنے کھڑے ھو گۓ۔
سسر جی لگتا ھے کے آپ کو اپنی بیٹی کی جان پیاری نھیں ھے جبھی ایسا کھ رھے ھیں۔
یه کھتے ھوۓ حمزه نے ایک فائر ھوا میں کیا۔
سب لوگ ڈر کر پیچھے ھو گۓ۔
بے بسی ھی بے بسی تھی۔
حماد صاحب کو سمجھ نھیں آرھا تھا کےوه کریں ایک طرف جان سے پیاری بیٹی کی زندگی کا سوال تھا اور دوسری طرف عزت ۔
بیٹی کی زندگی کی خاطر وه سامنے سے ھٹ گۓ۔
مسکراھٹ نے حمزه کے لبوں کو چھوا۔
چھوڑو مجھے۔۔۔۔
مومنه مسلسل اپنا آپ چھڑوا رھی تھی۔
اور وه بے حس بنا اسے گھسیٹتے ھوۓ دروازے کی طرف بڑھ رھا تھا۔
آرزو بیگم , زویا,میرب سب رو رھی تھیں لیکن مومنه کی زندگی کی خاطر خاموش کھڑی تھیں۔
ایک آنسو حماد صاحب کی آنکھ سے نکلا اور اگلے ھی پل وه دل پر ھاتھ رکھ کر زمیں پر گر گۓ۔
ابوووو۔۔۔۔۔
زویا اور میرب کی آواز پر مومنه نے پیچھے مڑ کر دیکھا اور حماد صاحب کی حالے دیکھ کر اسے حمزه سے شدید نفرت محسوس ھوئ۔
***********************
چھوڑو میرا ھاتھ۔تمھیں خدا کا واسطه میرے ابو کی حالت ٹھیک نھیں ھے۔
مومنه مسلسل اپنا ھاتھ چھڑوا رھی تھی۔
حمزه مومنه کو زبردستی گاڑی تک لایا اور پھر پچھلا دراوزه کھول کر اندر کی طرف دھکا دیا پھر خود درائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر گاڑی اسٹارٹ کردی۔
مومنه مسلسل گاڑی کا دروازه کھولنے کی کوشش کر رھی تھی۔
رو رو کر وه اب نڈھال سی ھو گئ تھی۔پھر آھسته آھسته اسکی آنکھیں بند ھو گئ۔
******************************
مشکل سے اسنے اپنی آنکھیں کھولیں۔
اسے سمجھ نھیں آرھا تھا کے وه کھاں ھے ۔بھاری ھوتے سر کر ساتھ بامشکل وه اٹھی ۔وه اب پوری آنکھیں کھولے اردگرد کا جائزه لے رھی تھی جب اسکی نظر سامنے گئ۔
وه ھاتھ میں سگریٹ دباۓ بڑی فرصت سے اسے دیکھ رھا تھا۔
ایک لمحه لگا لگا تھا مومنه کو سب یاد آنے میں۔
ابو۔۔۔۔۔۔
ھلکی سی آواز میں اسکے منه سے سب سے پهلے یهی الفاظ نکلے۔
حمزه کو سامنے دیکھ وه خوف سے کانپنے لگ گئ تھی۔
اگلے ھی لمحے وه دروازے کی جانب بڑھی اور دروازه کھولنے کی کوشش کرنے لگ گئ۔
جب مسلسل کوشش کرنے سے وه تھک گئ تو وھی دروازے کے ساتھ بیٹھ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
حمزه سے اسکا رونا نھیں دیکھا گیا تو اٹھ کر اسکے پاس آ بیٹھ گیا۔
شش چپ ھو جاؤ۔
حمزه نے نرمی سے کھا۔
پلیز مجھے جانے دو۔میں نے تمھارا کیا بگاڑا ھے۔
مومنه نے روتے ھوۓ کھا۔
میرا دل چرانے کے بعد بولتی ھو کے تم نے میرا بگاڑا ھے۔
اچھا چلو شاباش اپنا حلیه درست کرو مولوی صاحب آنے ھی والے ھونگے ھمارا نکاح پڑھانے۔
حمزه نے شرارت سے کھا لیکن آخری بات بھت سنجیدگی سے کھی۔
حمزه کی بات سن کر مومنه نے اسے ایسے دیکھا جیسے اسکی زھنی حالت پر شبه ھو۔
تمھارا دماغ تو خراب نھیں ھو گیا۔میں اور تم سے نکاح۔۔۔۔۔ھر گز نھیں۔
مومنه نے غصے سے کھا۔
دیکھو مومنه میں تم سے بھت پیار سے بات کر رھا ھوں مجھے سختی کرنے پر مجبور مت کرو۔
حمزه نے سرد لھجے میں کھا۔
اس سے پهلے مومنه کچھ کھتی دروازه بجنے کی آواز پر حمزه باھر کی جانب بڑھ گیا۔
****************************
دیکھیں انھیں ھارٹ اٹیک ھوا ھے۔
انکی حالت بھت سیریس ھے۔۔۔۔۔۔آپ لوگ دعا کریں۔
ڈاکٹر کی بات سن کر آرزو بیگم گرنے سے انداز میں سیٹ پر بیٹھ گئ۔
زویا اور میرب کے رونے میں اور شدت آ گئ۔
ایک طرف بیٹی اور دوسری طرف شوھر۔
انھیں لگ رھا تھا کے ساری مصیبتیں ایک ساتھ ھی آگئ ھیں۔
***********************
حمزه جب کمرے میں پھنچا تو مومنه گٹھنوں میں سر رکھے بیٹھی تھی۔
مومنه تم ابھی تک ایسے ھی بیٹھی ھو چلو شاباش باھر چلو دیکھو نکاح خواه بھی آ گیا ھے۔
حمزه نے محبت سے کھا۔
نھیں کروں گی میں نکاح۔۔۔۔اگر تم نے زبردستی کرنے کی کوشش کی تو میں خود کو مار دوں گی۔
مومنه نے چھری حمزه کے سامنے کرتے ھوۓ کھا جو اسنے نے ناجانے کھاں سے لے لی تھی۔
اچھا ۔۔۔۔۔چلو ٹھیک ھے مارو گی خود کو تو مار لو ۔۔۔۔میں بھی زرا دیکھوں کے کیسے مارتی ھو۔
حمزه نے سامنے صوفے پر بیٹھتے ھوۓ آرام سے کھا
مومنه نے ایک نظر اپنے ھاتھ میں پکڑی چھری پر ڈالی اور دوسری حمزه پر اس سے پهلے مومنه چھری سے اپنا ھاتھ کاٹتی حمزه نے چھری اسکے ھاتھ سے لے کر دور پھینک دی۔
بس بھت ھو گیا۔۔۔۔اگر اب شرافت سے میرے ساتھ نھیں چلی تو پهر دیکھنا کیا حال کرتا ھو تمھارا۔
حمزه نے پسٹل مومنه کے سر پر رکھ کر غصے سے کھا۔
گن پوائنٹ پر حمزه نے مومنه سے نکاح کرلیا ۔
مومنه اس وقت اپنے آپ کو بھت بے بس محسوس کر رھی تھی۔
***********************
ایسے کیسے کوئ آکر مومنه کو لے جا سکتا ھے۔
ارمان کا غصه کم ھونے کا نام نھیں لے رھا تھا۔
میں پولیس اسٹیشن جا رھا ھو ۔
ارمان کھ کر گھر سے نکل گیا۔
***********************
تمھیں پتا ھے میں آج اتنا خوش ھو کے بتا نھیں سکتا۔
حمزه نے مومنه کو دیکھتے ھوۓ کھا جو گم صم سی کونے میں بیٹھی ھوئ تھی۔
اب تو مجھے میرے گھر پر چھوڑ آئیں۔
مومنه نے التجا کی۔
تمھیں پتا ھے میں پورا سال صرف تمھیں ھی سوچتا رھا ۔تمھیں پتا ھے میں کتنا وقت سڑکوں پر سویا ھوں۔۔۔۔۔صرف ایک وقت کھانا کھاتا تھا پتا ھے کیوں کیونکه مجھے پیسے جمع کرنے تھے صرف تمھارے لیۓ۔
حمزه نے مومنه کی بات کو نظر انداز کرتے ھوۓ کھا ۔
نھیں سننا میں نے کچھ۔۔۔۔میں نے کھا ھے کے مجھے میرے گھر جانا ھے۔
مومنه نے چیختے ھوۓ کھا۔
ٹھیک ھے میں تمھیں لے جاؤ گا لیکن میری ایک شرط ھے۔
حمزه نےکھا۔
ک۔۔ککیسی شرط۔
تم میرے ساتھ جاؤ گی اور چپ چاپ بغیر کچھ کھے میرے ساتھواپس آ جاؤ گی ورنه۔۔۔۔
حمزه نے اپنی بات ادھوری چهوڑ دی۔
ج جی ٹھیک ھے۔
مومنه نے اپنے آنسوں صاف کرتے ھوۓ کھا۔
***********************