آج مومنہ کی منگنی تهی اور پورے گهر میں افراتفری مچی ہوئی تھی۔
جلدی کرو لڑکیوں۔
آرزو بیگم نے تینوں کو ڈانٹے هوئے کہا۔
امی آپ اتنی پریشان کیوں هو رہی هیں۔شام کا فنکشن ہے۔ابهی تو کافی ٹائم ہے۔
میرب نے مزے سے کہا۔
ابهی جو تم اتنے مزے سے کهہ رهی ہو نا کے کافی ٹائم ہے بعد میں سب سے ذیادہ تم نے ہی شور ڈالنا ہے کہ میں ابھی تیار نھیں ھوئ ھوں
آرزو بیگم نے میرب سے کها۔
اچها مومنہ تم نے ساری چیزیں رکهہ لی ہیں نہ پالر لے جانے کے لیئے۔
زویا نے پوچها۔
جی آپی۔
پالر جانے کے لیئے تم لوگوں کے ابو ٹیکسی لینے کے لیئے گئے هیں ۔
آرزو بیگم کی بات سن کر تینوں جلدی سے سامان دیکھنا شروع هوگئ کے کهی کچهہ رہ تو نهیں گیا۔
****************************
وه کلینڈر کے سامنے کھڑا آج کی تاریخ پر کراس کا نشان لگا رها تھا۔
حمزه جب سے یھاں آیا تھا پھلے دن سے لے کر آج تک وه ھر دن گن کر گزار رھا تھا۔
وه ابھی بھی مومنه کے خیالوں میں گم تھا جب طارق (حمزه کا دوست)نے پیچھے سے اسے پکاره۔
کیا ھوا۔
حمزه نے چونک کر پوچھا۔
مجھے تو کچھ نھیں ھوا لیکن تمھیں یقینن کچھ ھوگیا ھے۔جب سے کلینڈر کے آگے کھڑے کھاں گم ھو۔
طارق نے آنکھیں سکیڑ کر پوچھا۔
حمزه اسکے اس انداز پر مسکرا دیا۔
اور چلتا ھوا اسکے سامنے آکر بیٹھ گیا۔
اب جلدی سے بتاؤ کس کے خیالوں میں کھوۓ ھوۓ تھے۔
طارق نے پوچھا۔
ھے کوئ جو یھاں رھتی ھے۔
حمزه نے اپنے دل پر ھاتھ رکھ کر کھا۔
ذرا ھمیں بھی تو پتا چلے کے وه خوش نصیب کون ھے۔
حمزه نے اسے ساری بات بتا دی جسے سن کر طارق کا منه کھل گیا۔
منه تو ایسے کھولا ھے جیسے میں تجھے اپنی شادی کا لڈو کھلانے لگا ھوں۔
حمزه نے اس کے کھلے منه پر چوٹ کی۔
حمزه کی بات سن کر اس نے پهلی فرصت میں اپنا منه بند کیا۔
ویسے مجھے یقین نھیں آرھا کے تم ایک لڑکی کے خاطر اپنا سب کچھ چھوڑ کر یھاں آۓ ھو۔
ویسے یار وه لڑکی سچ میں بھت خوشنصیب ھے جسے تم جیسا محبت کرنے والا ملا ھے۔
طارق نے اسکی محبت پر داد دی۔
مجھے لگتا ھے میں ذیاده خوشنصیب ھو جو مجھے وه مل گئ ھے۔
حمزه نے مومنه کو سوچتے ھوۓ کھا۔
هاۓ کاش میں اس لڑکی کی جگه ھوتا۔مجھے بھی کوئ اتنی محبت کرتا۔
طارق نے ٹھنڈی آه بھرتے ھوۓ کھا جب کے شرارت اسکی آنکھوں میں صاف موجود تھی۔
استغفرالله۔۔۔
حمزه نے اسے ڈاڑھی والے چھرے کو دیکھتے ھوۓ کھا۔
پھر وه دونوں زور سے ھسنے لگے۔
اگر حمزه کو اس بارے میں زرا سا بھی علم ھوتا کے اس کی زندگی وھاں کسی اور کے نام کی انگھوٹی پهننے جا رھی ھے تو یقینن وه ابھی ھنس نھی رھا ھوتا۔
بھت مدت تک پکاره ھے تجھے
اپنے رب سے دعاؤ میں مانگا ھے تجھے۔۔۔۔
***********************
مومنه نے جب حال میں قدم رکھا تو ارمان کی نظریں پلٹنے سے انکاری ھو گئ تھیں۔
اسکن کلر کی میکسی جس پر مھرون کام تھا۔پالر کے میک اپ نے اسکے حسن کو مذید نکھار دیا تھا۔
وه آسمان سے اتیری کوئ حور لگ رھی تھی۔
آھسته آھسته قدم اٹھاتی وه اسٹیج کی جانب بڑھ رھی تھی۔
جب وه اسٹیج تک پهنچی تو ارمان نے اپنا ھاتھ آگے کیا جسے مومنه نے تھوڑا جھجکتے ھوۓ تھام لیا۔
لوگوں کی تالیوں کی گونج میں دونوں نے ایک دوسرے کو انگھوٹی پھنائ۔
***********************
مومنههه۔۔۔۔۔۔
حمزه کی جب آنکھ کھلی تو اسکا پورا وجود پسینے میں تر تھا۔
لگتا ھے کوئ برا خواب تھا ۔
حمزه نے چھرے سے پسینا صاف کرتے ھوۓ کھا۔
مجھے ایسا کیو لگ رھا ھے جیسے کچھ برا ھو گیا ھے۔
نھیں یه میرا صرف وھم ھوگا۔
وه اپنی سوچوں میں گم تھا جب فجر کی آزان شروع ھو گئ۔
اپنی سوچوں کو جھٹک کر وه نماز ادا کرنے کے لیۓ اٹھ گیا۔
اسکی دعاؤ میں صرف اور صرف ایک ھی نام شامل تھا۔
***********************
وه نیند میں تھی جب اسکا موبائل بجنے لگ گیا۔
مندی مندی آنکھیں کھول کر اسنے موبائل دیکھا جھاں ارمان کا نام چمک رھا تھا۔
میرب کے نیند کے خیال سے وه موبائل لے کے ٹیرس پر آگئ۔
ھیلو۔
۔نیند میں ڈوبی آواز میں کھا۔
واه بھئ یھاں ھماری نیندیں اڑی وی ھیں اور وھاں محترمه خواب خرگوش کے مزے لوٹ رھی ھیں۔
ارمان نے شوخی سے کھا۔
آپ کو کوئ کام تھا۔
مومنه نے سنجیدگی سے پوچھا۔
مومنه مجھے ایسا کیوں لگ رھا ھے کے تم اس شادی سے خوش نھیں ھو۔
ارمان کی آواز میں بھی سنجیدگی تھی۔
ایسی تو کوئ بات نھیں ھے ۔آپ کو کیوں ایسا لگا۔
مومنه کو ارمان کے سوال سے حیرانی ھوئ۔
نھیں وه بس ایسے ھی ۔ابھی بھی میں نے فون کیا تو تمھاری آواز میں مجھے کوئ خوشی محسوس نھیں ھوئ۔مومنه کیا تم مجھ سے محبت نھیں کرتی ھو۔
ارمان نے پوچھا۔
ارمان میں محبت شادی کے بعد کرنے پر یقین رکھتی ھو۔شادی سے پھلے کی محبت ,محبت نھیں بلکه بیوقوفی ھوتی ھے۔ارمان آپ کے رشته کے لیۓ میرے والدین راضی تھے اسی لیۓ میں بھی راضی ھوں۔ کیوں کے میں نے اپنی زندگی کے سارے فیصلے کرنے کا اختیار اپنے ماں باپ کو دے دیا ھے۔
اور جھاں تک بات ھے فون پر بات کی تو میں آپ کو بتانا چاھوں گی کے مجھے شادی سے پهلے فون پر بات کرنا بالکل پسند نھیں ھے ۔کیونکه آپ ابھی تک میرے لیۓ نا محرم ھیں۔ باتیں کرنے کے لیۓ تو ساری عمر پڑی ھے تو کیوں ھم شادی سے پھلے بات کرکے اپنے آپ کو گناه گار کریں۔
سوری اگر آپ کو میری کوئ بات بری لگی تو۔
لیکن یهی حقیقت ھے۔
ھیلو۔۔
مومنه کو جب ارمان کی جانب سے کوئ جواب نھیں ملا تو اسنے کھا۔
تھوڑی دیر بعد مومنه کو ارمان کی آواز آئ۔
تمھیں پتا ھے مومنه آج مجھے اپنی پسند پر فخر محسوس ھو رھا ھے۔میں بھت خوشنصیب ھو جو مجھے تم جیسی ھم سفر ملنے جا رھی ھے۔
اپنا خیال رکھنا۔خدا حافظ۔
ارمان کی آواز میں اطمینان تھا ۔
خدا حافظ ۔
ارمان کا جواب سن کر مومنه کو بھی اطمینان محسوس ھوا۔
***********************
ایک سال بعد۔۔۔
وه اپنے ھاتھوں میں تصویر پکڑے سوچوں میں گم تھا۔
جب اسکے سکیٹری نے آکر اسے مخاطب کیا۔
Sir your meeting will be held after 30 minutes۔۔۔۔۔
رضوان (سکیٹری) کی آواز پر اس نے چونک کر اسے دیکھا۔
اوکے۔۔۔۔
رضوان کو مختصر جواب دے کر اسنے دوباره نظریں تصویر کی جانب کر لی تھیں۔
مجھے اب صرف کل کا انتظار ھے۔
یه کھ کر اسنے تصویر اپنے سینے سے لگا لی تھی۔
******************************
اپنے آفس سے نکل کر وه میٹنگ روم کی طرف جا رھا تھا۔
خوبصورت تو وه پھلے سے ھی تھا لیکن یهاں کی آب و ھوا نے اسے مذید سنوار دیا تھا۔
برینڈڈ سوٹ ,مھنگی واچ,بالوں کو جیل سے سیٹ کیۓ وه کسی ریاست کا شھزاده ھی لگ رھا تھا۔
جس جس کی نظریں اسکی جانب اٹھ رھی تھیں ان سب کی نظروں میں رشک تھا۔
وه سحر انگیز کرنے والی پرسنیلیٹی رکھتا تھا۔
میٹنگ روم کا دروازه کھول کر جب وه اندر آیا سب کھڑے ھو گۓ جب اسنے اشارے سے سب کو بیٹھنے کا کھا۔
ھمیں بھت خوشی ھے اتنے بڑے بزنس ٹائیکون کے ساتھ ڈیل فائنل کرکے۔
علی انڈسٹریز کے مالک نے مصافحه کے لیۓ ھاتھ بڑھاتے ھوۓ کھا۔
مجھے بھی۔۔۔۔۔۔
ایک دلکش مسکراھٹ نے حمزه کے ھونٹوں کو چھوا۔
****************************
کیا ھوا۔اتنی اداس کیوں بیٹھی ھو۔
مومنه نے میرب کے پاس بیٹھتے ھوۓ۔
ارے کیا ھوا۔۔۔
میرب جب فورا مومنه کے گلے لگ گئ تو مومنه نے حیرانی سے کھا۔۔
آپی زویا آپی کی شادی ھو گئ وه چلی گئ۔کل آپکی مھندی ھے اب آپ بھی چلی جائیں گی۔ میں تو بالکل اکیلی ھو جاؤ گی۔
میرب کی بات سن کر مومنه نے ھلکی سی چپت میرب کے سر پر ماری۔
ھھم یه تو ھے۔میں ابھی امی سے کھتی ھوں کے میرے ساتھ میرب کی بھی شادی کر دیں تاکے وه اکیلی نا ھو جاۓ۔
مومنه نے سنجیدگی سے کھا جب کے اسکی آنکھوں میں شرارت واضح تھی۔
آپییی۔۔۔۔۔۔
میرب نے خفگی سے کھا۔
اچھا بھئ میں مزاق کر رھی تھی اور تم اکیلی کیوں ھو گی میں اور زویا آپی ملنے آتے رھینگے۔
ھممم۔
اچھا آپی آپ کو وه یاد ھے۔
میرب نے کچھ سوچتے ھوۓ کھا۔
کون۔۔۔
مومنه نے پوچھا۔
ارے آپی وھی چور جو آپ سے شادی کرنا چاھتا تھا اور ایک سال بعد آنے کا کھا تھا اسنے۔
میرب نے مومنه کو یاد دلاتے ھوۓ کھا۔
میرب کی بات سن کر مومنه کے چھرے پر سایه لھرایا۔
لیکن پهر سنبھل کر بولی۔
نھیں۔مجھے نھیں یاد۔
حیرت ھے ویسے۔
میرب نے کھا۔
وه امی مجھے بلا رھی تھیں ۔
مومنه بھانا بنا کر وھاں سے چلی گئ۔
***********************
سر آپنے بلایا۔
ھاں۔رضوان میری فلائٹ کی ٹکٹ بک کردی?
جی سر میں نے سارا انتظام کر دیا ھے۔
ٹھیک ھے تم جاؤ۔
کل تم میرے پاس ھو گی مومنه۔
حمزه نے کھا۔
***********************
ماشاءالله میری بچی کو کسی کی نظر نا لگے۔
آرزو بیگم نے مومنه کو دیکھتے ھوۓ کھا جو مایوں کے جوڑے میں بھت حسین لگ رھی تھی۔
چلو دونوں مومنه کو لے کر باھر آجاؤ ۔سب مھمان آگۓ ھیں۔
آرزو بیگم نے میرب اور زویا کو مخاطب کرتے ھوۓ کھا۔
جی امی ۔
دونوں مومنه کو لیۓ باھر کی جانب بڑھنے لگیں۔
***********************
جلدی چلاؤ۔۔۔
حمزه نے ڈرائیور سے کھا جو پهلے ھی تیز رفتار سے گاڑی چلا رھا تھا۔
ج ججی سر۔۔۔
ڈرائیور نے گاڑی کی رفتار بڑھاتے ھوۓ کھا۔
حمزه کا بس نھیں چل رھا تھا کے وه اڑھ کر مومنه کے پاس پهنچ جاۓ۔
صرف پانچ منٹ بعد تم میرے روبرو ھو گی جان حمزه۔
حمزه نے گھڑی میں وقت دیکھتے ھوۓ کھا۔
***********************
سر ھم پھنچ گۓ ھیں۔
ڈرائیور نے گاڑی مومنه کے گھر کے باھر روکتے ھوۓ کھا۔
مومنه کو گھر کو روشنی میں نھایاں ھوا دیکھ کر پهلے تو حمزه چونکا لیکن اپنے خیالات کو جھٹک کر اندر کی جانب بڑھ گیا۔
جس لڑکی کی نگاه اس کی جانب اٹھتی تو پلٹنے سے انکاری ھو جاتی۔
لڑکیاں تو لڑکیاں لڑکوں تک کی نظروں میں اس کے لیۓ ستائش تھی۔
حمزه جب اندر پھنچا تو سامنے کا منظر دیکھ کر اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔
***********************