اٹھ گۓ شھزادے۔
حمزه کو سامنے سے آتا دیکھ عادل نے کھا۔
اسکی سرخ آنکھیں رات دیر تک جاگنے کی چغلی کھا رھی تھیں۔
عادل کو رات سے وه تھوڑا بدله بدله سا لگ رھا تھا مگر وه چپ ھی رھا۔
حمزه ایک بات پوچھو ۔
عادل نے کچھ سوچتے ھوۓ کھا۔
ھاں بولو کیا بات ھے۔
یار هم نے آج تک بھت چوریاں کی ھیں بھت سے لوگوں کو لوٹا ھے لیکن آج تک تم نے ایسا کچھ نھی کیا جیسے کل کیا تھا۔
آخر عادل نے اپنے دل میں آئی بات کھ ھی ڈالی۔
میں تمھیں جواب دینے کا پابند نھی ھوں۔
حمزه نے خفگی سے کھا۔
حمزه کی بات سن کر عادل چپ ھو گیا۔
آج بھی چوری کرنے کا پلین ھے یا نھی اور اگر کل جیسا کچھ کرنے کا اراده ھے تو وه بھی بتا دو۔
سلمان نے اندر آکر سنجیدگی سے کھا۔
آج چوری کرنے کا کوئ پلین نھی ھے سن لو دونوں۔
حمزه نے سپاٹ لہجے میں کھا اور فلیٹ سے باھر چلا گیا۔
سمجھتا کیا ھے یه خود کو آخر۔بڑا آیا۔ھم تو اسکے حکم کے غلام ھیں۔جب اسکا حکم ملا تو چوری کریں گے ورنه بھوکے پیٹ مرے گیں۔
حمزه کے باھر جاتے ھی سلمان غصے میں بولنے لگ گیا۔
****************"*******
یار آپی وه بنده صبح سے باھر بیٹھا ھوا ھے اور اب تو شام ھونے والی ھے۔
میرب نے آکر مومنه کو بتایا جو کسی کتاب کو پڑهنے میں مصروف تھی۔
کون???
مومنه نے چونک کر پوچھا۔
پتا نھی کون ھے۔صبح جب میں اسکول سے آ رھی تھی تو میں نے اسے ھمارے گھر کے آگے بیٹھا ھوا دیکھا تھا لیکن اب تو شام ھو گئ ھے ۔وه ویسے ھی بیٹھا ھوا ھے۔
میرب نے مزید بتایا۔
چھوڑو ھمیں کیا ۔ھوگا کوئ نشئ۔نشا وغیره کر کے بیٹھ گیا ھوگا سامنے۔جب نشا اترے گا تو چلا جاۓ گا۔
مومنه نے لاپرواھی سے کھا۔
خدا کا خوف کریں آپی اتنا ھینڈسم بنده نشئ کیسے ھو سکتا ھے۔
میرب نے شرارت سے کھا۔
خدا کا خوف کرو لڑکی۔جو منه میں اول فول آرھا ھے بولے جا رھی ھو۔
مومنه نے ھاتھ میں پکڑی کتاب میرب کے سر پر مارتے ھوۓ کھا۔
چلو دیکھتے ھیں کون اتنا فارغ ھے جو صبح سے ابھی تک بیٹھا ھوا ھے۔
مومنه نے اپنے کمرے کی کھڑکی کھولتے ھوۓ کھا۔
****************************
دیدار یار کے لیۓ تڑپ رھی ھے آنکھیں
یه عشق بھی کتنا ظالم ھوتا ھے خدایا۔۔۔۔۔۔۔۔
وه صبح سے اس کے گھر کے باھر بھوکا پیاسا بیٹھا ھوا تھا۔اس کو صرف انتظار تھا تو اس دشمن جاں کی ایک جھلک دیکھنے کا تھا۔
وه کب سے دل ھی دل میں دعا کر رھا تھا ایک بار بھلے صرف ایک بار وه اس کو دیکھ لے لیکن اب اسے مایوسی ھونے لگی تھی۔لیکن وه نا امید نھی تھا۔
****************************
مومنه نے جیسے ھی کھڑکی کھولی اسے گھر کے بالکل سامنے بیٹھا وه شخص نظر آیا جو تھوڑا مایوس مایوس سا نظر آرھا تھا۔دکھنے میں وه بلا شبه ایک وجیه مرد تھا۔مومنه ابھی اسے دیکھ ھی رھی تھی جب اچانک اس شخص نے سر اٹھا کر اوپر کھڑی کی طرف دیکھا او حمزه کو لگا کے اسکی دعا قبول ھو گئ ھے۔
حمزه ایک جھٹکے سے کھڑا ھو کر آنکھوں میں چمک لیۓ اسے دیکھنے لگا۔
مومنه کو اس کے دیکھنے کا انداز بھت عجیب لگا۔
ٹھرکی ۔۔۔۔
زیر لب بول کر اسنے فورا کھڑکی بند کر دی۔
****************************
حمزه کی خوشی کا کوئ پیمانه نا تھا۔
جس کے دیدار کے لیۓ اسکی آنکھیں ترس رھیں تھیں اب ایسا لگ رھا تھا کے آنکھوں کو ٹھنڈک مل گئ ھے۔
اسے لگ رھا تھا جیسے درد کا مرھم مل گیا ھو۔پیاسے کو کنوا مل گیا ھو۔
اپنے رب کا شکر ادا کرتا وه واپسی کے لیۓ چل پڑا۔
***********************
کیوں آخر کیوں مجھے اتنی بے چینی ھو رھی ھے آخر کیوں مجھے محبت ھوئ کیوں۔
حمزه نے اپنا سر ھاتھوں میں گراتے ھوۓ کھا۔
اسے دور کھی سے فجر کی آزانوں کی آوازیں آرھیں تھیں۔
اس نے کھیں پڑھا تھاکے نماز میں سکون ھوتا ھے لیکن اسکے باوجود کبھی اسنے نماز نھی پڑھی تھی۔اسکا ماننا تھا کے اسکی زندگی بھت پر سکون ھے اسی لیۓ اسے ضروت نھی لیکن اب اسے اس بے سکونی میں خدا یاد آ گیا تھا۔
انسان بھی کتنا خود غرض خدا کو یاد کرتا ھے بھی تو اپنے غرض کی خاطر۔
حمزه نے قریبی مسجد میں جا کر نماز ادا کی اور اپنے رب سے اپنی محبت مانگنے لگ گیا۔
گرتے ھیں سجدوں میں اپنی حسرتوں کی خاطر
۔۔۔اقبال۔۔۔۔
اگر گرتے صرف عشق خدا میں تو کوئ حسرت ادھوری نا رھتی۔۔۔۔۔
***********************
پورا ھفته ایسے ھی گزر گیا تھا۔
حمزه روز مومنه کے گهر جاتا اور اسکی ایک جھلک دیکھنے کے لیۓ گھنٹوں بیٹھا رھتا ۔
جس دن اسے اسکا دیدار نصیب ھو جاتا تو اسکی خوشی کا کوئ ٹھکانا نا رھتا اور جس دن نا نصیب ھوتا تو وه بس صبر کر کے ره جاتا اسکے علاوه وه اور کچھ کر بھی کیا سکتا تھا۔
مومنه کے امی ابو کو بھی وه تھوڑا مشکوک سا لگتا لیکن وه انھیں کچھ کھ تو نھی رھا تھا نا تو اسی لیۓ وه چپ تھے۔
***********************
حمزه ایسا کب تک چلے گا۔
آج تنگ آکر عادل نے پوچھا ھی لیا۔
کیا ھوا ھے۔
حمزه نے حیرانی سے پوچھا ۔
اب ذیاده معصوم بنے کی ضرورت نھی ھے۔تمھیں سب معلوم ھے کے میں کس بارے میں بات کر رھا ھوں۔پورا پورا دن تم گھر سے غائب رھتے ھو ۔اتنے ٹائم سے ھم نے کوئ چوری نھی کی۔کب تک ایسا چلے گا۔تمھاری انھی حرکتوں کی وجه سلمان بھی ھمیں چھوڑ کر دوسرے گینگ میں چلا گیا ھے۔
عادل نے تاسف سے کھا۔
تو تم بھی چلے جاؤ۔
میرا وه مطلب نھی تھا۔
عادل نے سر جھٹکتے ھوۓ کھا۔
حمزه آج بتا ھی دو کیا بات ھے کس وجه سے تم اتنا بدل گۓ ھو۔
عادل نے تنگ آکر پوچھا۔
عشق ھو گیا ھے تیرے بھائ کو۔اور وه بھی ایسا اب جھاں سے پلٹنا ممکن نھی۔
حمزه نے کھا۔
حمزه کی بات سن کر عادل منه کھولے اسے دیکھنے لگ گیا۔
منه بند کرلو مکھی گھس جاۓ گی۔
حمزه کی بات سن کر عادل نے فورا اپنا کھلا ھوا منه بند کیا اور پهر سنبھل کر بولا
کیا ھو گیا ھے میرے بھائ ھوش میں تو ھو تم کیا کھ رھے ھو۔
میں بالکل ھوش میں ھوں اور مجھے پتا ھے میں کیا کھ رھا ھو۔
حمزه نے سنجیدگی سے کھا۔
لو اب تو تم گۓ کام سے۔
تمھیں یاد ھے حمزه ایک دفع تم نے کھا تھا کے تمھیں کبھی عشق ھوگا تو تم یا تو سنور جاؤ گے یا برباد ھو جاؤ گے۔اور میرے خیال سے تم برباد ھو گۓ ھو۔
عادل نے افسوس سے کھا۔
حمزه چپ ھی رھا۔
اب آگے کیا سوچا ھے پھر۔
کیا کرنا ھے ۔میرے خیال سے کوئ بھی ماں باپ ایک چور کو تو اپنی اولاد ھر گز نھی دیں گے۔
میں بھی ھر دفع یھی سوچتا ھوں
حمزه نے اداسی سے کھا۔
اچھا ذیاده اداس ھونے کی ضرورت نھی ھے کل چل کر اس کے گھر والوں سے بات کرتے ھیں پهر جو ھوگا دیکھا جاۓ گا۔
عادل نے کھا۔
عادل کی بات سن کر حمزه نے حیرت سے اسے دیکھا اور پهر ٹھنڈی سانس فضا میں خارج کی۔
پریشان نا ھو سب ٹھیک ھو گا ۔
عادل کو اپنے الفاظ بھت کھوکلے لگے۔کیونکه اسے پتا تھا کے کل کیا ھونے والا ھے۔
***********************
دروازے پر ھونے والی دستک پر آرزو بیگم نے دروازه کھولا۔
اپنے سامنے موجود دو خوبرو نوجوانوں کو دیکھ کر انھیں حیرت ھوئ کیونکه ان میں سے ایک تو وھی تھا جو پچھلے ایک ھفتے سے ان کے گھر کے باھر بیٹھا ھوا تھا۔
جی آپ کون????۔
آرزو بیگم نے استفار کیا۔
ھمیں آپ سے بھت ضروری کام تھا ۔مھربانی فرما کر آپ ھماری بات سن لیں۔
عادل نے نھایت ادب سے آرزو بیگم سے کھا۔
کیا بات ھے۔
آرزو بیگم نے پوچھا۔
آنٹی ساری باتیں دروازے پر تو ھو نھیں سکتی۔اگر آپ کو برا نھی لگے تو ھم اندر چل کر بات کریں۔
عادل نے کھا۔
اچھا آ جاؤ اندر۔
آزرو بیگم نے تھوڑا جھجھگتے ھوۓ راسته دیا۔
****************************
وه لوگ اس وقت ڈرائنگ روم میں بیٹھے ھوۓ تھے۔
حمزه آگے کا سوچ کر بھت پریشان تھا لیکن اپنے آپ کو نارمل ظاھر کر رھا تھا۔
جی بولیں کیا کام تھا۔
آرزو بیگم نے انکے سامنے بیٹھتے ھوۓ پوچھا۔
آنٹی یه میرا دوست ھے حمزه۔یه بھت اچھا لڑکا ھے۔دراصل بات یه ھے کے اس کو آپکی بیٹی کیا نام ھے اسکا ھاں مومنه وه اسکو بھت پسند آگئ ھے اور یه اس سے شادی کرنا چاھتا ھے۔
عادل نے جلدی جلدی بات ختم کی۔
عادل کی بات سن کر آرزو بیگم کو اسکی زھنی حالت پر شبه ھوا۔
بیٹا آپ کا دماغ تو ٹھیک ھے۔ایسے کوئ کسی کا رشته لینے آتا ھے۔نا ھم آپ لوگوں کو جانتے ھیں نا آپ کے والدین آۓ ھیں نا ھمیں یه پتا ھے کے یه کیا کرتا ھے اور ھم آپ کو اپنی بیٹی کا رشته دے دیں گے یه کیسے سوچ لیا آپ لوگوں نے۔
آرزو بیگم نے غصے سے کھا۔
آنٹی جب رشته جڑے گا تو آپ جان ھیں جائیں گی اور اگر ھمارے والدین حیات ھوتے تو وه یقینن یھاں موجود ھوتے اور جھاں تک اس کے کام کی بات ھے تو یه۔۔۔۔۔۔
ھم چور ھیں۔
عادل جو کام کے بارے میں جھوٹ بتانے لگا تھا حمزه نے اسکی بات بیچ میں ھی کاٹ کر سچ بتا دیا۔
حمزه کی بات پر عادل کا دل کیا کے اپنا سر پیٹ لے۔
آرزو بیگم جو غصے میں کچھ کھنے ھی لگی تھیں حمزه کی بات سن وه چپ ھو گئ۔
ان کو اس بات کا اندازه تھا کے ایسے لوگ کتنے خطرناک ھوتے ھیں اور غصے میں انکی کھی گئ کوئ بھی بات انکو مشکل میں ڈال سکتی تھی۔
دیکھو بیٹا تم خود سوچو میں کیسے اپنی بیٹی کی شادی ایک چور سے کر سکتی ھوں۔
آرزو بیگم نے تحمل سے کھا۔
آنٹی آپ جو کھیں گی میں وه کرو گا۔پلیز یه میری آپ سے التجا ھے۔
آرزو بیگم کی بات سن کر حمزه نے فورا کھا۔
آرزو بیگم کو سمجھ نھیں آرھا تھا کے وه کیسے ان لوگوں کو منه کریں۔انھیں یه ڈر لگ رھا تھا کے کھیں انکا انکار کرنا ان کے گھر کو مصیبت میں نا ڈال دے کیونکه انھیں ان لوگوں پر بالکل بھروسه نھی تھا۔
پهر کیا سوچا آپ نے۔
آرزو بیگم ابھی سوچ ھی رھی تھیں کے عادل نے انھیں مخاطب کیا۔
حماد صاحب بھی گۓ ھوۓ تھے اور انھیں سمجھ نھیں آرھا تھا کے وه کیسے ان لوگوں سے جان چھڑوائیں۔پھر کچھ سوچ کر انھوں نے کھا۔
دیکھو بیٹا یه بات تو تم بھی مانتے ھو گے کے کوئ بھی والدین اپنی بیٹی کی شادی ایک چور سے نھیں کروائیں گے لیکن پهر بھی میں تمھیں ایک سال تک کا وقت دیتی ھوں۔اس ایک سال میں تم کچھ بن کر دکھاؤ۔حق حلال کی کمائ سے اتنا کچھ کر لو کے میری بیٹی کو عزت سے رخصت کروا کے لے جا سکو۔
آرزو بیگم کو جان چھڑوانے کے لیۓ یھی بھانه سمجھ آیا۔
جی ٹھیک ھے۔مجھے آپکا فیصله منظور ھے اور میرا یقین کیجیۓ گا پورے ایک سال بعد آج کے ھی دن میں آپ کے گھر آکر عزت سے آپکی بیٹی کو رخصت کروا کر لے جاؤ گا۔
حمزه نے پر امید لھجے میں کھا۔
لیکن بیٹا تمھیں مجھ سے ایک وعده کرنا ھوگا۔
آرزو بیگم نے کچھ سوچتے ھوۓ کھا۔
جی بولیں۔۔۔
تم ایک سال تک ھمارے گھر کے آگے سے بھی نھی گزرو گے۔
ٹھیک ھے آنٹی میں آپکی بات مانتا ھوں لیکن آپ یه بھی یاد رکھیۓ گا کے میجھے وعده خلاف لوگ بالکل نھیں پسند ھیں۔
حمزه کی آنکھوں میں وارنگ تھی۔
آنٹی اب ھم چلتے ھیں اب پورے ایک سال بعد آج کے دن ھی میں واپس آؤ گا اور یاد رکھیۓ گا اب مومنه میری امانت ھے اور مجھے امانت میں خیانت بالکل نھی پسند۔
حمزه نے جاتے ھوۓ کھا۔
ان کے جاتے ھی آرزو بیگم سر تھام کر بیٹھ گئ
***********************
تمھارا دماغ تو ٹھیک ھے کیا ضرورت تھی انھیں یه بتانے کی کے ھم چوری کرتے ھیں۔
فلیٹ میں آتے ھی عادل غصے سے بولا۔
میں اس رشتے کی شروعات جھوٹ سے نھیں کرنا چاھتا تھا
حمزه نے کھا۔
تمھیں پتا ھے میں آج بھت خوش ھوں تم اس کا اندازه نھی لگا سکتے ھو ۔اب تم دیکھنا میں اس ایک سال میں اتنی محنت کرو گاکے وه مومنه کا رشته خوشی خوشی مجھے دے دیں گے۔
حمزه کی خوشی کا کوئ ٹھکانا نھی تھا۔
عادل نے دل ھی دل میں اسکی خوشی ھمیشه قائم رھنے کی دعا کی۔
***********************