دھک دھک۔۔۔۔۔۔۔دھک دھک۔۔۔۔دھک دھک۔۔۔۔۔۔
حمزہ!!!!!!
کمرے میں ایک درد بھری چیخ ابھری۔
ڈاکٹر ۔۔۔۔۔
نرس جلدی سے کمرے سے نکلی اور ڈاکٹر کو بلانے کے لیئے بھاگی۔
********************¬********
مبارک ہو آپکے پیشنٹ کو ہوش آ گیا ہے۔
ڈاکٹر نے روم سے باہر آتے ہوئے کہا۔
تو کیا اب اس سے مل سکتے ہیں۔
حماد صاحب نے بے قراری سے پوچھا۔
انھیں ہوش تو آگیا ھے لیکن دوائیوں کے زیر اثر وہ غنودگی میں ہیں۔تھوڑی دیر تک انھیں ہوش آ جائے گا تو آپ لوگ ان سے مل سکتے ہیں۔
ڈاکٹر حمزہ کیسا ہے۔
حماد صاحب نے دھڑکتے دل کے ساتھ پو چھا۔
دیکھئیے پیشنٹ ابھی خطرے میں ہیں۔اگر چوبیس گھنٹوں کے اندر اندر انھیں ہوش نہیں آیا تو وہ کومے میں بھی جا سکتے ہیں۔اس معاملے میں ہم بے بس ہیں۔ہم اپنی پوری کوشش کر رہے ہیں آپ لوگ بس دعا کریں۔
ڈاکٹر کی بات سن کر حماد صاحب نے دیوار کا سہارا لیا۔
میں نماز پڑھ کر آتی ہو۔جس نے ہماری بیٹی کوزندگی دی ہے وہ انشاءاللّٰہ حمزہ کو صحت یاب کرے گا۔
آرزو بیگم آنکھ میں آئ نمی کو چھپاتے ہوئے وہاں سے چلی گئ۔
********************¬*******
کیسا ہے میرا بچا۔
آرزو بیگم نے مومنہ کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
وہ خالی خالی نظروں سے سب کو دیکھ رہی تھی۔
میں یہاں کیسے آئ۔
مومنہ نے اٹھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا لیکن درد کی وجہ سے کراہ کر لیٹ گئی۔
بیٹا دماغ پر زیادہ زور مت دو۔بس اس رب کا شکر کرو جس نے تمھیں زندگی دی ہے۔
حماد صاحب نے کہا۔
امی حمزہ کہاں ہیں۔ہم دونوں تو ایک ساتھ ہی تھے۔وہ بھی بھت زخمی تھے۔آپ لوگ بتا کیوں نہیں رہے کہ وہ کہاں ہیں۔
ان دونوں کو خاموش پا کر مومنہ نے چیختے ہوئے کہا۔
بیٹا تمھیں ابھی آرام کی ضرورت ہے۔ہم بعد میں بات کرتے ہیں ۔
آرزو بیگم نے نظریں چراتے ہوئے کہا۔
امی کیا ہوا ہے۔آپ مجھ سے کچھ چھپا رہی ہی نا ۔پلیز بتا دیں حمزہ کہاں ہیں۔
مومنہ نے روتے ہوئے کہا۔
حمزہ ابھی خطرے میں ہے۔تم اس کے لیئے دعا کرو۔
آرزو بیگم نے آنسوں صاف کرتے ہوئے کہا۔
مجھے حمزہ کے پاس جانا ہے۔
مومنہ اٹھنے کی کوشش کرتے ہوئے بولی۔
بیٹا ابھی تمھاری طبیعیت ٹھیک نھیں ہے۔
حماد صاحب نے مومنہ کو سمجھانہ چاہا۔
ابو مجھے ابھی حمزہ کے پاس جانا ھے۔وہ بھت زخمی تھے۔مجھے انھیں دیکھنا ہے۔
مومنہ نے اپنے ہاتھ میں لگی ہوئی ڈرپ کھینچ کر اتارتے ہوئے کہا۔
بیٹا کیا کر رہی ہو۔ہم کہ رہے ہیں نا کہ ہم تمھیں حمزہ لے جائیں گے تو کیوں اپنے آپ کو نقصان پہنچا رہی ہو۔
دیکھو کتنا خون نکل رہا ہے۔
آرزو بیگم نے مومنہ کے ہاتھ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جہاں سے ڈرپ نکالنے کی وجہ سے خون نکل رہا تھا۔
امی میں نے کچھ نھیں سنا ۔مجھے ابھی حمزہ کے پاس جانا ہے آ آپ لوگ ک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مومنہ ابھی بول ھی رھی تھی کہ نرس کے انجکشن لگانے کی وجہ سے وہ غنودگی میں چلی گئی۔
میں نے انھیں انجکشن لگا دیا ہے۔اب یہ تھوڑی دیر تک سوتی رہے گی۔
نرس کہ کر چلی گئی۔
********************¬*******
وہ ویل چیئر گھسیٹتی آہستہ آہستہ اس بے جان وجود کی طرف بڑھ رہی تھی۔
آنکھوں میں نمی لیئے اس نے حمزہ کی جانب دیکھا۔
ہوش میں آنے کے بعد مومنہ نے دوبارہ شور کرنا شروع کر دیا تھا حمزہ کے پاس جانے کے لیے اسی لیے مجبوراً ڈاکٹرز کو مومومنہ کو حمزہ کے پاس لانا پڑا۔
کمرے کے پاس پہنچ کر مومنہ نے سب کو باہر رہنے کا کہا اور خود اکیلی کمرے میں آگئ۔
پلیز حمزہ اٹهہ جائو۔کیوں تنگ کر رہے ہو مجهے۔
مومنہ نے حمزہ کا ہاتھ پکڑ کر بهرائے ہوئے لہجے میں کہا۔
تم نے تو عهد کیا تها ساری زندگی محبت نبهانے کا تو پهر تم کیسے اپنا وعدہ توڑ سکتے ہو۔
تمہیں پتا ہے حمزہ پہلے مجهے لگتا تها کہ میں تمهارے ساتھ کبهی نهیں رہ سکتی اور اب لگتا ہے کہ تمهارے بغیر تو میں مر جائو گی۔
مومنہ نے سامنے دیکھا جہاں حمزہ کی سانسیں بهت دھیمی چل رہی تھیں۔مومنہ کو حمزہ دور جاتا ہوا محسوس ہوا۔
تم سن رہے ہو نا کہ میں کیا کہ رہی ہوں۔ ویسے تو میری زرا سی تکلیف پر ترپ اٹهتے تهے اور اب جو میں جب سے تمهاری منتیں کر رہی ہوں تمهیں زرا مجھ پر ترس نهیں آرہا۔کیو اتنے خود غرض ہو تم کیو ہمیشہ من مانی کرتے ہو۔
پلیز حمزہ اٹهہ جائو۔میں مر جائو گی تمهارے بنا۔تمهارے بغیر زندگی کا تصور ہی نا ممکن ہے۔
مومنہ نے روتے ہوئے اپنا سر حمزہ کے ہاتھ پر رکھ دیا۔
مومنہ کو حمزہ کے ہاتھ میں حرکت محسوس ہوئ تو اس نے جهٹکے سے سر اٹھا کر حمزہ کی جانب دیکھا۔
حمزہ نے آہستہ آہستہ اپنی آنکهیں کهول کر مومنہ کی جانب دیکھا جہاں رو رو کر اس کا پورا منہ لال ہو چکا تها۔
حمزہ تم اٹهہ گئے۔یا اللہ آپکا بهت شکر ہے۔
مومنہ نے آنکھوں میں آئ نمی صاف کرتے ہوئے کہا۔
حمزہ نے آکسیجن ماسک اتار کر کچھ کهنا چاہا۔
مومنہ نے اپنے کان حمزہ کے قریب کر لیئے ۔
شکل دیکھ رہی ہو اپنی رو رو کر پوری بندریہ لگ رہی ہو۔
حمزہ کی بات سن کر مومنہ نے اسے گهور کر دیکها اور ہاتھ کا مکا بنا کر اس کے کندهے پر مارا۔
اف ظالم لڑکی۔
حمزہ نے کندها سہلاتے ہوئے کہا۔
پھر کمرے میں دونوں کا زندگی سے بهرپور کهکا گونجا۔
مومنہ نے آنکهیں بند کرکے اپنا سر حمزہ کے سینے پر رکھ دیا۔
دونوں کے چہرے اطمینان سے بهرے ہوئے تهے۔
***********************
کیسے ہو ۔
آصم نے حمزہ کے سامنے بیٹهتے ہوئے کہا۔
حمزہ اور مومنہ آج ہی ہسپتال سے ڈسچارج ہوکر آئے تهے۔
میں بالکل ٹهیک ہو۔
حمزہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
آصم اس شیخ کا کیا ہوا۔
تھوڑی باتوں کے بعد حمزہ نے پوچها۔
حمزہ کے لہجے سے نفرت صاف جھلک رہی تھی۔
وہ تو وہی مارا گیا ۔اریسٹ کرتے وقت اسنے حملہ کر دیا تها اور جوابی کاروائ میں وہ مارا گیا۔
آصم نے بتایا۔
کیا ہوا حمزہ تمهیں یہ سن کر خوشی نهیں ہوئ۔
حمزہ کو چپ دیکھ کر آصم نے پوچها۔
نهیں ایسی بات نهیں ہے لیکن اسکو سزا میں خود دینا چاہتا تها۔
حمزہ نے کہا۔
ویسے اس نے بهابهی کے ساتھ ایسا کیوں کیا۔
آصم نے اپنے دل میں آیا سوال پوچها۔
تمهیں تو پتا ہے کہ میں پہلے کیا کرتا تها ۔یہ بهی ان دشمنوں میں ایک تها۔
حمزہ نے جواب دیا۔
ہہم چلو اب میں بهی چلتا ہوں۔بعد میں چکر لگائو گا۔
آصم حمزہ سے مل کر چلا گیا۔
***********************
دو سال بعد۔۔۔۔۔۔۔
بلو رنگ کی گهیر دار فروک پہنے بالوں کو کهلا چهوڑے وہ بهت زیادہ پیاری لگ رہی تهی۔
لائٹ سا میک اپ کیئے وہ مکمل تیار تهی۔
دیکھو حیا مما کتنا ٹائم لیتی هیں تیار ہونے میں۔جبکہ حیا اور ڈیڈ کب کے تیار ہیں۔
حمزہ کمرے میں اپنی ایک سال کی بیٹی حیا کو لے کر اندر داخل ہوا جس کی آج پہلی سال گرا تهی۔
حیا حمزہ کی طرف دیکهہ کر بهت غور سے اس کی باتیں سن رہی تهی۔
ہاں کر لیں میری بیٹی سے میری ہی برائیاں۔
مومنہ نے روٹهتے ہوئے کہا۔
ارے حیا مما کو بتائو کے ڈیڈ برائ نهیں کر ہے بلکہ مما کی تیز رفتاری کی تعریف کر رہے ہیں۔
حمزہ نے حیا کو بیڈ پر بیٹهاتے ہوئے کہا۔
جائے میں آپ سے بات نهیں کر رہی۔
مومنہ نے منہ بناتے ہوئے کہا۔
اچها بهئ ناراض مت ہونا ورنہ مجهہ معصوم کا کیا ہوگا۔
اچها ویسے ایک بات تو بتائو تم سچ میں بهت اچهی لگ رہی ہو یا صرف مجھے لگ رہی ہو۔
حمزہ نے سنجیدگی سے کہا۔
اچها بهئ مجهے پتا ہے میری بیوی ہے ہی اتنی خوبصورت۔
مومنہ کی گهوری پر حمزہ نے ہنستے ہوئے کہا۔
اگر آپ کی ڈرامے بازی بند ہوگئ ہو تو نیچے چلیں سب مهمان آگئے ہونگے۔
مومنہ نے حیا کو اٹھاتے ہوئے کہا۔
میں تو کب سے یہی کہ رہا ہو۔لیکن تمهارا جانے کا دل ہی نهیں چاہ رہا۔
حمزہ نے حیا کو مومنہ سے لیتے ہوئے کہا۔
زرا مهمانوں کو جانے دیں پہر میں آپ کو بتاتی ہوں۔
مومنہ نے حمزہ کو دهمکاتے ہوئے کہا۔
مومنہ کی بات سن کر حمزہ نے سر کو خم کیا اور اسکا ہاتھ پکڑ کر باہر کی جانب بڑھ گیا۔
***********************
مومنہ نیچے آکر سب سے ملی۔
آپ دونوں تو بڑے اچهے لگ رہے ہو۔
میرب اور زویا نے کہا
بس تم لوگوں کے بهائ کی وجہ سے تمهاری یہ بهن بهی اچهی لگ جاتی ہے۔
حمزہ نے هنستے ہوئے کہا ۔
اگر آپ کو اپنی جان عزیز ہے تو آج کمرے میں مت آنا۔
مومنہ نے بظاہر مسکراتے ہوئے حمزہ کے کان میں ہلکے سے کہا۔
ارے یار میں نے تو الٹا بول دیا۔میرا مطلب تها کے تم لوگوں کی بهن کی وجہ سے میں تھوڑا تھوڑا اچها لگ جاتا ہوں ۔
حمزہ نے کان کهجاتے ہوئے کہا۔
اب ٹهیک ہے۔
حمزہ نے مومنہ سے پوچها۔
حمزہ کی بات پر مومنہ نے اپنی مسکراہٹ کو روکا۔
پھر حمزہ مومنہ اور حیا نے سب کی تالیوں کے بیچ میں کیک کاٹا۔
دونوں نے مل کر حیا کو کیک کهلایا اور پہر ایک دوسرے کو۔
تم میری زندگی ہو۔
حمزہ نے مومنہ کے کان میں سرگوشی کی۔
اور آپ میری زندگی کی وجہ۔
مومنہ نے اسی کے انداز میں جواب دیا۔
حیا کی کهلکهلاہٹ پر دونوں اس طرف متوجہ ہو گئے۔
۔۔۔۔۔ختم شد۔۔۔۔۔۔
**********************