ھر طرف خاموشی کا راج تھا۔چار سو اندھیرا پھیلا ھوا تھا۔چاند کی روشنی میں منظر تھوڑا بھت نظر آرھا تھا۔
جھاں آدھے سے ذیاده شھر سو رھا تھا وھیں وه تینوں نفوس اپنے شکار کے آنے کا انتظار کر رھے تھے۔
دن ان کے لیۓ رات کے برابر اور رات ان کے لیۓ دن کے برابر تھی۔کیوں کے ان کا اصل کام ھی رات کو شروع ھوتا تھا۔
وه تینوں نفوس جھاڑیوں کی آڑ میں چھپے اپنے شکار کے منتظر تھے۔
اپنے شکار کو قریب آتا دیکھ ان تینوں کے وجود میں حرکت ھوئ۔
******************************
میرب یار ایک گلاس پانی ھی پلادو۔
وه ابھی ابھی کالج سے گھر آئ تھی۔گرمی اور تھکن سے اسکی بری حالت تھی۔
یه لیں آپی پانی کے بجاۓ جوس پیۓ اور مجھے دعائیں دیں۔
میرب نے شرارت سے کھا۔
میرب کی بات سن کر ایک نرم سی مسکراھٹ مومنه کے حسین سے چھرے پر بکھر گئ۔
بلاشبه وه بھت حسین تھی لیکن سب سے ذیاده خوبصوت اسکی آنکھیں تھیں۔بڑی بڑی کالی سیاه گھری آنکھیں۔جن کو دیکھ کر مقابل کو اپنا آپ ڈوبتا ھوا محسوس ھوتا تھا۔
سب لوگ کھاں ھیں۔
مومنه نے آس پاس دیکھتے ھوۓ میرب سے پوچھا جو اب اپنا اسکول کا کام کرنے لگی تھی۔
چلیں میں آپ کو بتاتی ھوں کے سب لوگ کھاں ھیں۔ابو آفس گۓ ھوۓ ھیں یه بات آپ کو یقینن معلوم ھو گی کیونکه وه صبح آپ کے سامنے ھی گۓ تھے۔اور جیسا کے آپ کو یه بھی معلوم ھے کے ھماری ایک عدد بڑی بھن بھی ھے جن کا نام زویا ھے اور ان کی شادی ھونے والی ھے تو وه اور امی درزی کے پاس کپڑے دینے کے لیۓ گئ ھوئ ھیں۔
میرب نے اپنی فطرت کے ھاتھوں مجبور ھو کر الٹا ھی جواب دیا۔
سدھر جاؤ لڑکی۔
میرب کی اتنی لمبی تقریر سن کر مومنه نے اس کے سر پر ھلکی سی چپٹ لگا کر کھا۔
****************************
حماد صاحب اور آرزو بیگم کی تین اولادیں تھیں۔
سب سے بڑی بیٹی زویا جس کی شادی اپنے چچا ذاد عارف سے ھونے والی تھی۔
اس سے چھوٹی مومنه جو ابھی سیکنڈ ایئر کی اسٹوڈنٹ تھی۔
اور پهر سب سے چھوٹی میرب جو ابھی میٹرک کلاس میں پڑھتی تھی۔
حماد کی یه چھوٹی سی فیملی ھی انکی جنت تھی۔
****************************
وه تینوں بھت چوکنه تھے۔
جیسے ھی گاڑی ان تینوں کے قریب آئ وه گاڑی کے آگے کھڑے ھو گۓ اور اپنی اپنی پسٹل کا رخ بھی گاڑی کی طرف کردیا۔
گاڑی میں موجود لڑکے نے فورا گاڑی کو بریک لگائ۔
چل باھر نکل۔
ایک نقاب پوش نے لڑکے سے کھا۔
چل موبائل, والٹ اور گاڑی کی چابی دے۔
جیسے ھی وه لڑکا باھر نکلا دوسرے نقاب پوش نے گن دکھا کر کھا۔
زندگی سے بڑھ کر تو کوئ چیز نھی ھوتی نا ۔یھی سوچ کر اس لڑکے نے ساری چیزیں ان تینوں کے حوالے کردیں۔
اب اس کا کیا کرنا ھے۔
پھلے والے نقاب پوش نے لڑکے کی طرف اشاره کرتے ھوۓ کھا۔
میں تو کھتا ھو اسے یھی مار دیتے ھیں ورنه پولیس والوں کو سب بتا دے گا یه۔
دوسرے والے نقاب پوش نے مشوره دیا۔
بکواس بند کرو تم دونوں۔چور تو بن چکے ھیں اب کیا قاتل بھی بنا ھے تم لوگوں نے۔ھم اس کو جانیں دیں گے ۔ناجانے گھر میں اسکی ماں بھن اور کون کون اسکا منتظر ھوگا۔اور ھم ھوتے کون ھیں کسی سے اسکا جینے کا حق چھیننے والے۔
وه جو کب سے خاموش کھڑا تھا اسنے ان دونوں کو غصے سے کھا۔
پهر اس نے آگے بڑھ کر اس لڑکے کی آنکھوں پر پٹی باندھی اور پهر وه تینوں وھاں سے گاڑی بھگا لے گۓ۔
***********************
باس آج تو صحیح مال ھاتھ لگا ھے۔
عادل نے سامنے بیٹھے حمزه کو دیکھ کر کھا جو کسی گھری سوچ میں ڈوبا ھوا تھا۔
ھاں بالکل ٹھیک کھ رھے ھو تم ۔گاڑی بھی مھنگی والی تھی۔
سلمان نے بھی عادل کی ھاں میں ھاں ملائ۔
تم لوگوں کو پتا ھے اتنے عرصے سے ھم چوری کر رھے ھیں لیکن دل سکون کھی نھی ھے۔میں جانتا ھوں کے یه گناه ھے لیکن بس حالات کے ھاتھوں مجبور ھوں۔
حمزه نے اداسی سے کھا۔
باس کیوں پریشان ھوتے ھو اور یه کوئ گناه نھی ھے یه تو ھمارا حق ھے جو ھم لوگوں سے لیتے ھیں ۔
عادل نے حمزه کے بازو پر ھاتھ رکھتے ھوۓ کھا۔
باس ھم کون سا یه کام خوشی سے کر رھے ھیں ۔12 جماعتیں پڑھنے کے باوجود جب کوئ نوکری نھی ملے گی تو بنده یھی کرے گا نا۔
سلمان نے کھا۔
سلمان کی بات سن کر حمزه ایک ٹھنڈی آه بڑھ کر ره گیا۔
(چاھے انسان کتنا ھی مجبور کیوں نا ھوجاۓ چاھے حالات کے ھاتھوں یا وقت کے لیکن انسان کو وه کام ھر گز نھیں کرنا چاھیۓ جس میں اسکے رب کی رضا نا ھو)۔
****************************
واؤ آپی کتنا پیارا سیٹ ھے۔
مومنه نے زویا کی شادی کا سیٹ دیکھتے ھوۓ کھا جو وه لوگ ابھی مارکٹ سے لاۓ تھے۔
ھاۓ الله مھنگائ تو آسمان کو چھو رھی ھے۔اتنا مھنگا پڑا ھے یه سیٹ۔ایک رپیه کم کرنے کو راضی نھی تھا سنار۔
آرزو بیگم نے مومنه کے پاس بیٹھتے ھوۓ کھا۔
امی میں تو کھتی ھو یه سیٹ اور باقی کے سیٹ بھی لوکر میں رکھوادو۔گھر میں رکھنا کچھ ٹھیک نھی۔
مومنه نے مشوره دیا۔
ھاں میں بھی یهی سوچ رھی ھوں۔ایک دو دن میں جا کر رکھواتی ھوں۔
آرزو بیگم نے کھا۔
****************************
باس ایک بات پوچھوں۔
عادل نے حمزه سے کھا۔
بولو۔
آپ شادی کیوں نھی کرلیتے۔شکل تو آپکی ایسی ھے کے کوئ دیکھتے ھی آپ پر فدا ھو جاۓ۔
عادل نے پوچھا۔
صرف شکل جی کچھ نھی ھوتی انسان کا کردار بھی بھت معنی رکھتا ھے اور میرا کردار بالکل بھی ایسا نھی کے کوئ اپنی بیٹی دے کوئ پاگل ھی ایک چور کو اپنی بیٹی دے گا۔
حمزه نے ھنستے ھوۓ کھا۔
عادل کو لگا جیسے وه اپنے آپ کا مزاق اڑا رھا ھے۔
باس سوچیں زرا اگر کبھی آپ کو کسی سے عشق ھو گیا تو۔
ایسا نھی ھوسکتا۔
حمزه نے کھا۔
باس سوچیں اگر ایسا ھوا تو۔
مجھے نھی لگتا۔
حمزه نے جواب دیا۔
اچھی بات ھے باس۔میں نے تو ھمیشه عشق میں لوگوں کو برباد ھی ھوتے دیکھا ھے۔
عادل نے کھا۔
عشق تو وه ھے جو محبوب کو سنوار دے نا کے برباد کر دے۔اگر مجھے عشق ھوا تو یا تو میں سنور جاؤ گا یا تو برباد ھو جاؤ گا اب دیکھنا یه ھے کے ان دونوں میں سے کیا ھوتا ھے۔
حمزه نے سنجیدگی سے کھا۔
باس بھت زبردست خبر لایا ھوں میں۔
اس سے پھلے کے عادل کچھ بولتا سلمان نے اندر آ کر کھا۔
***********************