دوسرا ایکٹ
آٹھ سال بعد
(سین: محلہ بلی ماراں (دہلی) میں پانچ روپیہ مہینہ کرایہ کا ایک مختصر سا مکان۔ مکان کے ایک حصّہ میں اخبار “کوکب صبح” کا مطبع ہے اور دوسرے حصہ کے ایک ہی حجرے سے اخبار کے دفتر باورچی خانے کھانے سونے بیٹھنے کا گوناگوں کام لیا گیا ہے۔ فرش اور فرنیچر نام کو نہیں۔ چھت دھوئیں کی کلونس سے شب دیجور بنی ہوئی ہے۔ ہر طرف افلاس اور نحوست کے آثار نمودار ہیں۔)
نازلی بیگم (جو اب مسٹر محمد یوسف ایڈیٹر “کوکب صبح” کی بیاہتا بی بی ہے، چار چھوٹے چھوٹے بچوں کو لیے جن میں سے ایک شیر خوار ہے اور چلا چلا کر رو رہا ہے ایک ٹوٹی کوچ پر بیٹھی ہے اور ایک بے ٹونٹی کی چا دانی سے تام چینی کی پیالیوں میں جن پر سے روغن اُڑ گیا ہے چا انڈیل رہی ہے): حامد! مکھن صرف جمعہ کے دن ملے گا۔ ضد نہ کرو اس وقت سوکھا توس ہی کھا لو۔ رشید! للچائی ہوئی نظروں سے اس انڈے کی طرف مت دیکھو۔ یہ تمھارے ابا جان کے لیے ہے۔ عائشہ! ننھا ایسا پھوٹ پھوٹ کر کیوں رو رہا ہے؟
عائشہ: اماں جان! ننھے کی بوتل میں جو دودھ آپ نے ڈالا تھا وہ میرے منع کرتے کرتے رشید پی گیا اور بوتل کو پانی سے بھر کر کہنے لگا کہ اتنا سا بچہ دودھ اور پانی کا فرق کیا جانے؟ اے لو ابا جان آ گئے ۔
(عائشہ بھاگی ہوئی باہر چلی جاتی ہے۔ مسٹر محمد یوسف کمرے میں داخل ہوتے ہیں۔ “کوکب صبح” کی ایک کاپی جسے کسی کاتب سے لکھوا کر ابھی ابھی لائے ہیں، ہاتھ میں ہے۔ ایڑی سے لے کر چوٹی تک فلاکت کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ چہرے پر ہجوم افکار اور کثرت آلام سے جو جھریاں پڑ گئی ہیں انھیں دیکھ کر گمان ہوتا ہے کہ جامۂ ہستی کی آستینیں گاذر قدرت نے وقت سے پہلے چُن دی ہیں۔ سرکنڈے کے ایک ڈگمگاتے ہوئے مونڈھے پر بیٹھ جاتے ہیں اور ایک آہ سرد بھر کر کچھ دیر تک ماتھے کو ہتھیلی پر ٹیکے ہوئے فکر میں ڈوبے رہتے ہیں۔ پھر)
مسٹر محمد یوسف (تلخی کے لہجہ میں نازلی بیگم سے مخاطب ہو کر): نازلی! کیا اچھا ہو اگر گھر کے انتظام میں ذرا زیادہ سلیقہ اور کفایت شعاری سے کام لو۔ جب سے گورنمنٹ نے ڈھائی ہزار کی ضمانت طلب کی ہے جو تمھارا زیور بیچ کر میں نے داخل کی حالت روز بروز نازک ہوتی چلی جا رہی ہے۔
نازلی بیگم (شوہر پر ملامت آمیز نظر ڈال کر): اس سے زیادہ کفایت کیا خاک کروں۔ روٹی کے ایک سوکھے ٹکڑے اور پانی کے ایک آبخورے تک تو نوبت آ پہنچی ہے اور مشكل روح و جسم کا اتحاد قائم ہے۔ میں تم سے نہ کہتی تھی کہ اس اخبار کو بند کر دو اور کوئی اور دهندا پیٹ پالنے کا اختیار کرو لیکن تم نے میری ایک نہ سنی، اور ایک نامہ نگار کے بے راہ رو قلم کا خمیازہ کھینچ کر اس حالت کو پہنچ گئے۔ گورنمنٹ کو تمھاری اصلی نیت کے ساتھ کیا ہمدردی۔ یہاں تو ذرا لغزش ہوئی اور ضمانت کے شکنجے میں جکڑے گئے۔ خواہ اس میں کسی کا گھر بار ہی کیوں نہ بک جائے۔ میں جانتی ہوں کہ تم اپنے بادشاہ کے پسینے کے ایک قطرے کی جگہ اپنے سارے جسم کا خون بہانے کے لیے تیار ہو اور بادشاہ سلامت کے میز پر اگر کوکب صبح کی ایک کاپی رکھ دی جایا کرے تو مجھے یقین ہے کہ وہ اس ایک قابل گرفت مضمون پر جس کی پاداش میں تم سے ڈھائی ہزار کی ضمانت جبراً قہراً لی گئی ہے، اغماض کا پردہ ڈال دیں اور باقی مضامین کے صلہ میں جن کے حرف حرف سے وفا و ارادت کی بو آتی ہے تمھیں سی۔ آئی۔ ای بنا دیں۔ لیکن اس قانون کا کیا علاج جس کو نہ جذبات کی پروا ہے نہ احساسات کا خیال۔ یہ تو ایک آگ ہے جس میں نیک و بد وفادار و سرکش جو پڑا، جل گیا ؎
اگر صد سال گبر آتش فروزد
چو یک دم اندراں ماند بسوزد
اب تم ہی بتاؤ کہ میں خود تو فاقہ بھی کر گذروں مگر ان چھوٹے چھوٹے بچوں کی مصیبت کیوں کر دیکھوں (زار و قطار رونے لگتی ہے)۔
محمد یوسف: میں نے حماقت کی کہ شادی کر لی۔ اس ملک میں اول تو ایڈیٹر کی مٹی پہلے ہی خراب ہے۔ پریس ایکٹ نے اس کی رہی سہی حیثیت بھی کھو دی اور ادخال ضمانت کے وقت جس کا خوف شامت اعمال کی طرح ہر وقت سر پر سوار ہے، ناظرین کی بد مذاقی و سرد مہری شاه مدار کا حکم رکھتی ہے جنھیں مرے کو مارنے کے فن میں ید طولیٰ حاصل ہے۔ آدمی اکیلا ہو تو ان سختیوں کو جھیل بھی جائے۔ لیکن بال بچوں کو ان مصیبتوں میں اپنے ساتھ شریک ہوتے دیکھنا ایک صدمۂ جان فرسا ہے (دروازے کے پٹ بڑے زور سے کھلتے ہیں اور عائشہ ہانپتی کانپتی بے تحاشا اندر داخل ہوتی ہے۔)
عائشہ: امی جان! خدا بخش قصاب باہر کھڑا ہے اور کہتا ہے کہ میرا تین مہینے کا حساب چکتا کر دو ورنہ میں آج سے گوشت اُدھار نہ دوں گا۔ نہال چند بزاز کا آدمی بھی اپنے حساب کی فرد لیے مطبع میں موجود ہے اور عبد الله پریس مین سے باتوں باتوں میں کہہ رہا تھا کہ اگر آٹھ دن کے اندر اندر ہمارا روپیہ نہ ادا کیا گیا تو مطبع قرق کرا لوں گا۔
نازلی بیگم: خدا کرے نہال چند کی دھمکی سچی ہو تاکہ جو کام طلائی چوڑیوں کی سفارش پر گورنمنٹ کے ہاتھوں انجام پاتے پاتے رک گیا تھا وہ میرے ایک ہی پھول دار ریشمی گون کی ضد کی وجہ سے جو میری شادی کی یادگار ہے، نہال چند کر دکھائے۔
محمد يوسف: نازلی! اس قدر افسردہ مت ہو۔ مصیبت کے دن کچھ ہمیشہ تھوڑے ہی رہیں گے۔ آخر راحت کا زمانہ بھی کبھی آئے ہی گا۔
دور گردوں گر دو روزے بر مراد ما نگشت
دائما یکساں نباشد کار دوراں غم مخور
ہر غمے را شادی در پے بود دل شاد دار
ہیچ دردے نیست کورا نیست درماں غم مخور
“کوکب صبح” تو چلتا چلاتا نظر نہیں آتا۔ اپنا خرچ ہی نکالے جائے تو غنیمت ہے۔ وہ اصول یا بے اصولیاں جو اخبار کو آج کل کامیاب بناتی ہیں، مجھے پسند ہیں۔ نہ میں مسلمان جہلا کو خوش کرنے کے لیے ہندوؤں کو گالیاں دینے کا روادار ہوں۔ نہ ہندوؤں کے حلقہ میں اپنے اخبار کو ہر دل عزیز بنانے کے لیے ان کی قابلِ اعتراض باتوں کو لائق تحسین ظاہر کرنے کا حامی ہوں۔ نہ گورنمنٹ کی جھوٹی خوشامد کر کے اپنے شیشۂ ضمیر کو ارباب ذوق سلیم کے استہزا کا مد مقابل بنانا چاہتا ہوں۔ پھر آج کل کے طوفان بے تمیزی میں میرے اخبار کی اشاعت بڑھے تو کیوں کر بڑھے۔ اس کو میں بند بھی نہیں کرنا چاہتا اس لیے کہ اس کا بند کر دینا گویا حق و راستی کے منہ میں جان بوجھ کر کپڑا ٹھونس دینا ہوگا۔ اس لیے میں اپنی آمدنی کے بڑھانے کی کوئی اور ہی فکر کرتا ہوں۔ دو کتابیں لکھی رکھی ہیں ایک ناول ہے اور دوسری ایک علمی کتاب کا ترجمہ ہے۔ یہ چھپ جائیں تو عجب نہیں کہ ہزار پانچ سو روپیہ مل جائے۔
نازلی بیگم: تم ہمیشہ سے خیالی پلاؤ پکانے کے عادی ہو۔ کتابیں بیچ کر اگر نفع حاصل کرنا چاہو گے تو رہا سہا اثاث البیت بھی نیلام ہو جائے گا۔ تم ہو کس خیال میں۔ مولوی شبلی اور خواجہ حالی جیسے مصنفوں تک کی کتابیں تو بکتی ہی نہیں، تمھاری کتابوں کو کون پوچھے گا۔ یہ میں نے مانا کہ تم اچھے لکھنے والے ہو لیکن یہ زمانہ اہل قلم کے لیے ساز گار نہیں ہے۔ علمی کتابوں کا تو نام مت لو۔ کہنے کو سب کہتے ہیں کہ علمی کتابوں کے تراجم سے اردو لٹریچر میں اضافہ ہونا چاہیے اور بڑے بڑے شاندار فقروں میں ان لوگوں کو ملامت کی جاتی ہے جو دماغ رکھتے ہیں لیکن اس سے کام نہیں لیتے۔ لیکن جب کوئی کتاب جو حقیقت میں قابلِ قدر ہو چھپتی ہے تو چھاپنے والا اس کی چھپائی کا خرچ بھی نہیں نکال سکتا۔ باقی رہے ناول، سو آج کل ان کا بازار بھی سرد پڑا ہوا ہے۔ میں آج تک یہی نہیں سمجھی کہ پبلک پسند کس چیز کو کرتی ہے اور اس کا مذاق کیا ہے۔
محمد یوسف: تو پھر کیا کروں۔ ہاتھ پر ہاتھ دھر کے بیٹھا رہوں۔
نازلی بیگم: بھانڈ بنو۔ نقلیں کرو۔ بندر نچاؤ۔ سرکار رس اور دربار نشین لوگوں کی ہاں میں ہاں ملاؤ۔ جھوٹ بولو۔ خوشامد کرو۔ اس قسم کی ہر بات کرو۔ لیکن خدا کے لیے مضمون نگاری یا تصنیف و تالیف کو ذریعۂ معاش بنانے کے خبط سے باز آ جاؤ۔
محمد یوسف اُٹھ کر چلا جاتا ہے اور کچھ دیر کے بعد نازلی بیگم ایک ٹوٹے ہوئے آئینہ کے سامنے اپنے عکس سے یوں خطاب کرتی ہے: “کیا تو اسی حوروش لڑکی کی تصویر ہے جس کا یہ خیال تھا کہ عشق و محبت کی دولت وہ دولت ہے جس کے مقابلہ میں ساری دنیا کے خزانے ہیچ ہیں؟ کیا رعنائی شباب کبھی تیرے حصے میں آئی تھی؟ یہ اُترا ہوا چہره، یہ زرد رخسار، یہ فکر مند آنکھیں، یہ نحیف و لاغر جسم جس میں بجز پوست و استخوان کے کچھ باقی نہیں کس کا ہے؟ (کانپ کر منہ پھیر لیتی ہے اور ایک ٹولی ہوئی کرسی پر بیٹھ جاتی ہے) کیا اب بھی اگر مجھے موقع ملے تو میں یوسف ہی کو پسند کروں؟ کیا اس زندگی سے اس کی ان تلخیوں کو جانتے ہوئے میں مقابلہ کروں؟ ہرگز نہیں! ہزار بار نہیں!! اسلم مجھے اب دیکھے تو کیا وہ مجھے پہچان لے؟ کیا اس کی شادی ہو چکی ہے؟ کاش میں پھر لاہور میں ہوں۔ جوانی کا عالم ہو اور مجھے اسلم و یوسف دونوں میں انتخاب کرنے کا موقع دیا جائے۔ اس زندگی سے تو میں بیزار ہوں۔ (اپنی ساڑھی کا پلو ہاتھ میں تھام لیتی ہے) او میلی کچیلی ململ کی ساڑھی! مجھے تجھ سے نفرت ہے (پلو کو پھاڑ ڈالتی ہے) اور اگرچہ میں جانتی ہوں کہ دوسری ساڑھی جو دھوبن کے ہاں گئی ہوئی ہے ابھی نہیں آئی اور کل صبح میرے پاس پہننے کو کچھ بھی نہیں پھر بھی میں تجھے نوچوں گی، نوچوں گی، پھاڑوں گی۔”
(پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتی ہے)