دشمنِ دل کے جاہ وحشم رہ گئے
اور مِرے ضبط کے بھی بھرم رہ گئے
چار قدموں کا ہے زندگی کا سفر
دو قدم چل چکے، دو قدم رہ گئے
مِٹ گئے تیری تاریخ کے حرف سب
میں نے لکھے جو قصے رَقَم رہ گئے
اِس طرح سے سمٹتے گئے فاصلے
تم رہے اور نہ میں، صرف ”ہم“ رہ گئے
جب بھی سوچا ہے تعریف لکھیں تری
اپنے ہاتھوں میں لے کر قلم رہ گئے
دنیا والے تو ہر فیض پاتے رہے
اہلِ دل کے لئے ہّم و غم رہ گئے
زخم حیدر سبھی بھر دیئے وقت نے
یاد لیکن کسی کے ”کرم“ رہ گئے
٭٭٭