کرتا ہے تجھ سے عشق جو ایمان جان کر
کچھ تو لحاظ اس کا مِرے بدگمان کر
تجھ کو خدائے حُسن تو ہم مان ہی چکے
مت اِس سے بڑھ کے حُسن وجوانی پہ مان کر
بڑھ کر ترے نشانے کی زد پہ خود آؤں گا
پہلے نظر کو تِیر، بدن کو کمان کر
اپنے نشے میں تنہا بھٹکنے سے فائدہ
خود کو زمیں پہ لا کے مجھے آسمان کر
اپنی ہوا میں کب تلک اڑتا پھرے گا توُ
میرے چراغِ جسم کی جانب بھی دھیان کر
واجب حضورِ حُسن میں ہوتی ہے نذر بھی
اس بارگہ میں پیش تو دل کا جہان کر
کچھ وہ بھی حیدر اب کے بڑے مہربان تھے
کچھ ہم بھی اپنے گھر سے ہی نکلے تھے ٹھان کر
٭٭٭