جو دل میں کش مکشِ نیک اور بد نہ رہے
لہو کی لہروں میں پھر کوئی جزر و مد نہ رہے
یہی تذبذب و تشکیک اب سند ٹھہرے
سند سمجھتے تھے جن کو وہ مستند نہ رہے
خدایا اِن پہ بھی اتنی عنایتیں کر دے
کہ حاسدوں کے دلوں میں کہیں حسد نہ رہے
جب اعتماد نہیں ہے تو دوستی کیسی
وہ دشمنی بھی نہیں ہے کہ جو اشد نہ رہے
سپردگی بھی محبت کا ایک رنگ سہی
مزہ ہی کیا رہا جب اس میں رد و کد نہ رہے
ہماری عمر کی یہ آخری محبت ہے
سو اب کے بار محبت کی کوئی حد نہ رہے
یہ بال و پر تو چلو آگئے نئے حیدر
بلا سے پہلے سے اپنے وہ خال و خد نہ رہے
٭٭٭