یہ آنکھ کے آنسو ہیں کہ ساون کی جھڑی ہے
قابو میں نہیں دل کہ حضوری کی گھڑی ہے
ہم نے ترے غم میں کوئی مالا نہیں پہنی
سینہ ہی دَمکتے ہوئے زخموں کی لڑی ہے
خاطر میں مگر پھر بھی کہاں لائے کبھی ہم
کب اہلِ ملامت پہ نہ اُفتاد پڑی ہے
موت آئی ہوئی ہے مجھے لینے کے لئے اور
یہ زندگی پاس اپنے ہی رکھنے پہ اَڑی ہے
ہے زندگی و موت میں اک معرکہ برپا
جیتے کوئی، ہم پر یہی اک رات کڑی ہے
سب گزرے ہوئے پیارے مجھے دِکھنے لگے ہیں
یا سامنے آئینے کی دیوار کھڑی ہے
دیکھو ہمیں، ہم ہنستے ہوئے جانے لگے ہیں
کچھ جان پہ گزری ہے نہ نزع کی تڑی ہے
کیا اور محبت کا یقیں اُن کو دِلائیں
دَم آنکھوں میں اَٹکا ہے نظر اُن پہ گڑی ہے
تشریف تو لے آئے وہ حیدر دمِ رخصت
سو اپنے لئے اتنی عنایت ہی بڑی ہے
٭٭٭