ہمارا سلسلہ بغداد سے، عرب سے ہے
اور اُس کا سلسلہ چنگیز کے نسب سے ہے
زمیں کے جھوٹے خداؤں سے کچھ نہیں لینا
مِرا معاملہ اب صرف اپنے رب سے ہے
سدا رہا ہے جو درباریوں کے نرغے میں
اُسی کا پالا پڑا ایک بے ادب سے ہے
ملا ہے ربط انوکھا گناہ سے اِس کا
دعائے دل کاتعلق بھی نیم شب سے ہے
یہ کاروبارِ محبت تو فائدہ دے گا
اُسے رسد سے غرض اور مجھے طلب سے ہے
امنڈ رہا ہے سمندر جو پیاس کا اتنا
کچھ اِس کا رشتہ کسی عارض اور لب سے ہے
ہماری بے خبری بھی بجا سہی حیدر
پر اُس کی برہمی بھی تو کسی سبب سے ہے
٭٭٭