ہم بھی چالاک تھے اور تم بھی جہاں دیدہ تھیں
نیتیں دونوں کی کب دونوں سے پوشیدہ تھیں
وہ نہ اقرار ہی کرتی تھیں نہ تکرار کبھی
جتنی وہ سیدھی تھیں، کچھ اتنی ہی پیچیدہ تھیں
کام جو ہونا تھا وہ دن کے اجالے میں ہوا
ہم پشیماں تھے نہ تم ہی ذرا رنجیدہ تھیں
اور پھر جسم سے ہم روح تلک پہنچے تھے
مرحلے عشق کے تھے، خواہشیں شوریدہ تھیں
آخری بار کا ملنا بھی عجب ملنا تھا
ہم پریشاں، وہ کسی سوچ میں غلطیدہ تھیں
بس ترے بعد ترے غم سے محبت رکھی
سینکڑوں خوشیاں اگرچہ مِری گرویدہ تھیں
جانے کس یاد کے جادو کی گھڑی تھی حیدر
دلِ طرّار کی سب شوخیاں سنجیدہ تھیں
٭٭٭