مرجھائے ہوئے پھول کی خوشبو ہے کہ توُ ہے
یہ حُسن کا ٹُوٹا ہوا جادُو ہے کہ توُ ہے
آنکھوں کویقیں آیا نہیں خود پہ ابھی تک
اک وہم سا پھیلا ہوا ہر سو ہے کہ توُ ہے
مٹنے ہی جو والا ہے ابھی خاک پہ گر کر
پلکوں پہ لرزتا کوئی آنسو ہے کہ توُ ہے
پھر وقت کے برگد کے تلے گیان کی دھن میں
نکلا ہوا گھر سے کوئی سادھو ہے کہ توُ ہے
حیدر شبِ یلدا کی سیہ سرد فضا میں
یہ بجھتا، چمکتا ہوا جگنو ہے کہ توُ ہے
٭٭٭