اگلی نسلوں میں چلی جائے روانی اپنی
زندگی! ختم نہیں ہوگی کہانی اپنی
اپنے بچپن سے جوانی کے زمانے تک کی
سونپ دی بچوں کو ہر ایک نشانی اپنی
وہی جذبے بھی، دعائیں بھی، تمنائیں بھی
منعکس ہونے لگی عمر دوانی اپنی
وہی ہونٹوں کو نہ تکلیف تکلم دینا
بات کرلینا وہ آنکھوں کی زبانی اپنی
زور برسات کا ٹوٹا تو دھنک سی بکھری
زندگی ہوگئی کچھ اور سہانی اپنی
صورت اَبُو کی اُبھر آئی مِرے چہرے میں
دے گئی کیسی خوشی جاتی جوانی اپنی
آج اولاد کے آئینے میں حیدر ہم نے
تازہ کرلی ہے ہر اک یاد پرانی اپنی
٭٭٭