نکلے تھے جس کے واسطے افلاک چھوڑ کر
جانا کہاں ہے اب اُنہیں یہ خاک چھوڑ کر
دَستار کے وہ پیچ بھی برحق سہی مگر
ہم جاسکے نہ زُلف کی پیچاک چھوڑ کر
اہلِ خرد کو ذوقِ جنوں تو نہیں ملا
لَوٹ آئے بس وہ فہم اور ادراک چھوڑ کر
مٹی کو شکل چاک پہ ملتی ہے، ٹھیک ہے
ملتی ہے شخصیت مگر وہ چاک چھوڑ کر
نادان دشمنوں کو لگاتا نہیں میں منہ
جاتا نہیں ہوں دشمنِ چالاک چھوڑ کر
حیدر نگاہِ عشق کا جادُو بھی دیکھ لو
آیا ہے حُسن ناز کا فتراک چھوڑ کر
٭٭٭