چٹان تھا وہ سو اُس میں شرر بھی رہتا تھا
شدید ضرب کا مجھ میں ہنر بھی رہتا تھا
اُسی کے دَم سے ہمیں اعتبارِ حُسن ہوا
دیارِ حُسن میں اک معتبر بھی رہتا تھا
یقین تھا کہ محبت کا پاک جذبہ ہے
مگر لہو میں بہت شور و شر بھی رہتا تھا
کشادہ رکھتا تھا بانہیں وہ میرا دریا دل
پر اُس کے دل میں کہیں اک بھنور بھی رہتا تھا
وہ رونقیں بھی مِرے گھر کو بخشتا تھا مگر
وہ میرے گھر میں کہیں در بدر بھی رہتا تھا
اگرچہ لمبی مسافت کا دَم نہ تھا اُس میں
مگر ہمیشہ مِرا ہم سفر بھی رہتا تھا
وہ منزلوں کا مسافر تھا اور میں رستوں کا
نڈر بھی بنتا تھا، اُس کو حذر بھی رہتا تھا
کسی کے جسم کا جادو جگا دیا جس نے
ہماری پوروں میں ایسا اثر بھی رہتا تھا
یہی خیال بہت ہے اِس عمر میں حیدر
ہماری دُھن میں کوئی بے خبر بھی رہتا تھا
٭٭٭