یوں حُسنِ ضیا بار کی خیرات عطا کر
جو ختم نہ ہو وَصل کی وہ رات عطا کر
پتھر کا بنا کے، کبھی مُردوں سے اُٹھا کے
اِن رَس بھرے ہونٹوں کے طلسمات عطا کر
کچھ دیتے ہی رہنے میں تری شان ہے پیارے
خوشیاں نہیں دے سکتا تو صدمات عطا کر
اب عمر کا یخ بستہ و ویران سفر ہے
اِس وقت مجھے دھوپ کی برسات عطا کر
موسم کا کرم ہو کوئی اِس سُوکھے شجر پر
ممکن نہیں پھَل‘ پھُول‘ تو چل پات عطا کر
اس حُسن کے دربار میں غزلوں کے ذریعے
یونہی مجھے توفیقِ مناجات عطا کر
خواہش تھی کہ اک بار کبھی خود سے بھی ملتے
فرصت کبھی اے گردشِ حالات عطا کر
میرے لئے کافی ہے یہ دنیائے ادب میں
جو دی نہیں اوروں کو وہی بات عطا کر
جو اپنی تجلی سے منور رہے ہر دم
حیدر کو وہی معرفتِ ذات عطا کر
٭٭٭