ہمارے ہونٹوں پہ حرفِ وصال باقی ہے
جواب مل چکا، پھر بھی سوال باقی ہے
یہ ڈھلتی عمر بھی شعلے مِرے بجھا نہ سکی
لہو میں اپنے ابھی اشتعال باقی ہے
تمہارا حُسنِ خدا داد تو نہ رہ پایا
مگر فقیر کا حُسنِ خیال باقی ہے
کچھ اور بڑھ گیا ہے سلسلہ تذبذب کا
یقین ختم ہوا، احتمال باقی ہے
ہم اپنے آپ کو اب تک منا نہیں پائے
بس اک یہی ہے جو کارِ محال باقی ہے
ابھی تو زور ہی ٹوٹا ہے جابروں کا، ابھی
نظامِ جبر کا پورا زوال باقی ہے
منافقت کا ہنر آسکا نہ حیدر کو
ہنروروں میں یہی بے کمال باقی ہے
٭٭٭